لا اکراہ فی الدین: کچھ اعتراضات کا جواب حصہ اول

گزشتہ جمعرات کو ہم نے ایک آرٹیکل بعنوان لا اکراہ فی الدین کا صحیح مفہوم کے نام سے لکھا تھا۔جس پر بہت سے لوگوں نے اعتراضات کیے تھے۔ جہاں تک اعتراضات کی بات ہے تو میں یہ بات واضح کردوں کہ میں نے ایک بات طے کرلی ہے کہ جو لوگ مجھ پر اور میری ذات پر تنقید برائے تنقید کرتے ہیں انکا جواب نہیں دینا ہے لیکن یہ معاملہ صرف میری ذات سے متعلق نہیں ہے اس لیے میں نے اس کا جواب دینا ضروری سمجھا ہے۔

میرے اس آرٹیکل کے جواب میں ایک بھائی نے کافی اعتراض کیے ہیں یقیناً ان کے یہ اعتراضات دین سے انکی محبت سے وجہ سے ہیں۔ البتہ مجھے افسوس ہے کہ انہوں نے بھی بات کو سمجھے بغیر اعتراضات کیے ہیں اور اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہےکہ میں نے جو تشریح و تعبیر بیان کی و مستند علماء کی تفاسیر میں سے بیان کی جو کہ انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں اور کوئی فرد ان تفاسیر سے استفادہ کرسکتا ہے اور دیکھ سکتا ہے کہ کیا میں نے کوئی بات غلط لکھی ہے؟ کیا میں ان کی بات کو اپنے الفاظ میں پیش کیا ہے؟ یا میں نے صرف اپنی مرضی کی لائنیں منتخب کی ہیں؟ جس فرد کو بھی اس پر کوئی شک ہو وہ تفھیم القرآن از مولانا مودودی، تفسیر ابن کثیر اور کنزالایمان از امام احمد رضا خان بریلوی کو انٹرنیٹ پر دیکھ سکتا ہے۔ میرے بھائی نے پڑھے بغیر ان تفاسیر کو یکسر رد کردیا۔ حالانکہ یہ مستند تفاسیر ہیں۔اب کوئی بھی باشعور فرد مجھے بتائے کہ ایک چیز کو پڑھے بغیر ہی رد کردینا کہاں کا انصاف ہے؟

پھر میرے بھائی نے اپنے کالم ( دین میں کوئی جبر نہیں حصہ دوم ) میں کچھ آیات قرانی کے تراجم پیش کیے ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ اس بھائی نے صرف تراجم پیش کر کے اس کا مفہوم کسی مستند تفسیر سے پیش کرنے کے بجائے اپنی جانب سے ہی ان آیات کی تشریح پیش کردی ہے ( اتفاق سے میں نے یہی بات اپنے آرٹیکل میں لکھی تھی کہ آج کل ہمارے معاشرے میں ہر فرد بزعم خود مفتی و مولانا بن جاتا ہے اور اسلامی احکامات کی من مانی تفسیر و تعبیر کرنا شروع کردیتا ہے۔) یہ ہم نے ایک جنرل بات کہی تھی اور کسی کی طرف ہمارا اشارہ نہیں تھا لیکن میرے بھائی نے اسی بات پر اعتراض کیا اور اسی بات کا ثبوت بھی دیدیا کہ ہماری بات درست تھی۔

میرے معزز بھائی نے سب سے پہلے الغاشیہ (27-22) “ پس بکثرت نصیحت کر، تو محض ایک بار بار نصیحت کرنے والا ہے، تو ان پر داروغہ نہیں، ہاں وہ جو پیٹھ پھیر جائے اور انکار کر دے تو اسے اللہ سب سے بڑا عذاب دے گا، یقیناً ہماری طرف ہی ان کا لوٹنا ہے، پھر یقیناً ہم پر ہی ان کا حساب ہے“ان آیات کا حوالہ دیا ہے۔ اب جب ہم نے ان کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ ( سورہ کا پورا مضمون اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ بھی ابتدائی زمانہ کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، مگر یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تبلیغ عام شروع کرچکے تھے اور مکہ کے لوگ بالعموم اسے سن سن کر نظر انداز کیئے جارہے تھے۔اس کے موضوع کو سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ابتدائی زمانہ میں رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغ زیادہ تر دو ہی باتیں لوگوں کے زہن نشین کرانے پر مرکوز تھی -ایک توحید دوسری آخرت اور اہل مکہ ان دونوں باتوں کو قبول کرنے سے انکار کر رہے تھے) اب اس بات کو سامنے رکھیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ خطاب مسلمانوں سے نہیں بلکہ کفار سے ہے۔ لیکن میرے بھائی سے بڑی صفائی سے اس میں اپنا من مانا مفہوم نکال لیا۔

بھائی نےسورہ تغابن کی آیت کا حوالہ دیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں کلام اہل ایمان سے کیا جارہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاق و سباق کے ساتھ دیکھیں تو بات واضح ہوتی ہے اس سے پہلے کی آیات کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے ترجمہ ( کوئی مصیبت نہیں آتی مگر اللہ کے اذن سے ہی آتی ہے-جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے، اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے- اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو لیکن اگر تم اطاعت سے منہ موڑتے ہو تو ہمارے رسول پر صاف صاف حق پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں لہٰذا ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے) مولانا مودودی صاحب اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ سلسلہ کلام کے لحاظ اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اچھے حالات ہوں یا برے حالات ہر حال میں اللہ اور رسول کی اطاعت پر قائم رہو۔ لیکن اگر مصائب کے ہجوم سے گبھرا کر تم اطاعت سے منہ موڑ گئے تو اپنا ہی نقصان کرو گے- ہمارے رسول پر صرف یہ ذمہ داری تھی کہ تم کو ٹھیک ٹھیک بتا دے ۔سو اس کا حق رسول نے ادا کر دیا ہے۔۔ یہ اس آیت کی تفسیر ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کلام مسلمانوں سے کیا جارہا ہے لیکن اس سے پہلے کیا پیغام دیا جارہا ہے اس کی طرف میرے بھائی سے غور کرنے کی ضرورت لازم نہیں سمجھی اس میں واضح طور پر پہلے اطاعت کا حکم دیا جا رہا ہے۔ تو بھائی پہلے اطاعت تو کرو پہلے ہی معصیت کی طرف دھیان دینا کیوں شروع کردیا۔

اس کے ساتھ ہی بھائی نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر ٩٢ ( اللہ اور اس کے رسول کی بات مانو اور باز آجاؤ، لیکن اگر تم نے حکم عدولی کی تو جان لو کہ ہمارے رسولوں پر بس صاف صاف حکم پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی )۔ اب مجھے اس بات کا جواب دیں کہ اس آیت میں بھی پہلے اللہ کی اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا جارہا ہے اور جو خوف خدا رکھتے ہیں وہ اس بات کا سوچ ہی نہیں سکتے کہ معاذ اللہ ہم اللہ اور رسول کی نافرمانی کریں لیکن یہاں بڑی دیدہ دلیری سے اس بات کا درس دیا جارہا ہے کہ کچھ بھی کرو دین میں جبر نہیں ہے اور حساب کتاب تو اوپر لیا جائے گا۔بجا کہ حساب کتاب تو اوپر لیا جائے گا لیکن کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں کہ ہم اپنے بھائیوں کو دوزخ کی آگ سے بچائیں۔حساب کتاب کا لفظ آپ نے کتنی آسانی سے کہہ دیا کیا آپ نے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث نہیں سنی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تمام مسلمانوں سے روز قیامت آسان حساب فرمائے، فرماتی ہیں میں پوچھا اللہ کے رسول آسان حساب سے کیا مطلب ہے نبی مہربان نے جواب دیا کہ آسان حساب مطلب ہے کہ اسے بغیر پوچھ کچھ کے چھوڑ دیا جائے اور جس کو سوال پوچھنے کے لیے روک دیا گیا سمجھو وہ مارا گیا ( اللہ کمی بیشی معاف فرمائے) کتنی آسانی سے کہہ دیا کہ اوپر جا کر جواب دیا جائے گا

سورہ شورٰی کی جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے اس کا سلسلہ کلام کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ یہ کفار سے کلام کیا جارہا ہے اور یہاں اہل ایمان کو مخاطب نہیں کیا گیا ہے اس لیے یہ مثال بالکل بے محل ہے لیکن انہوں نے اپنے مطلب کے لیے اس کو یہاں استعمال کیا ہے۔

سورہ ق کی جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے ۔آیت نمبر ٤٥ پینتالیس کا ترجمہ یہ ہے ( اے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جو باتیں یہ لوگ بنارہے ہیں انہیں ہم خوب جانتے ہیں اور تمہارا کام ان سے جبراً بات منوانا نہیں ہے۔ بس تم قرآن کے ذریعہ ہر اس شخص کو نصیحت کرو جو میری تنبیہ سے ڈرے۔) یہاں سیاق و سباق کو مد نظر رکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہاں کفار سے خطاب کیا جارہا ہے۔اس کی تشریح میں مولانا مودودی صاحب تفہیم القرآن میں فرماتے ہیں ( اس فقرے میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تسلی بھی ہے اور کفار کے لیے دھمکی بھی -حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا جارہا ہے کہ تم پر جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں ان کی قطعاً پروا نہ کرو ہم سب کچھ سن رہے ہیں اور ان سے نمٹمنا ہمارا کام ہے۔کفار کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ ہمارے نبی پر جو فقرے تم کس رہے ہو وہ تممہیں بہت مہنگے پڑیں گے ہم خود ایک ایک بات سن رہے ہیں اور اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا ) آگے فرماتے ہیں حاشیہ نمبر ٥٦ ( اس کا یہ مطلب نہیں کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جبراً لوگوں سے اپنی بات منوانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپکو اس سے روک دیا -بلکہ دراصل یہ بات حضور کو مخاطب کر کے کفار کو سنائی جارہی ہے- گویا ان سے کہا جارہا ہے کہ ہمارا نبی تم پر جبار بنا کر تو نہیں بھیجا گیا ہے- اس کا کام زبردستی تمہیں مومن بنانا نہیں ہے کہ تم نہ ماننا چاہو اور وہ جبراً تم سے منوا لے اس کی ذمہ داری تو بس اتنی ہے کہ جو متنبہ کرنے سے ہوش میں آجائے سے قرآن سنا کر حقیقت سمجھا دے-اب اگر تم نہیں مانتے تو نبی تم سے نہیں نمٹے گا بلکہ ہم تم سے نمٹیں گے۔) اب مجھے بتائیں اس آیت سے کہاں یہ مطلب نکل رہا ہے کہ مسلمانوں کو مخاطب کیا جارہا ہے بلکہ یہ تو کفار کو مخاطب کیا جارہا ہے۔اب اس سے یہ استدلال نکالنا کہ دین میں جبر نہیں ہے کا مفہوم یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد بھی انسان کچھ بھی کرتا رہے اس کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔

آخر میں ہم یہ بات بھی آپ کو بتاتے چلیں کہ کسی عالم دین نے لا اکراہ فی الدین کا مطلب اسلام لانے کے بعد دین میں آزادی کا نہیں لیا ہے بلکہ علماء کا اس بات اتفاق ہے کہ یہ آیت کفار اور غیر مسلموں کو زبردستی اسلام میں داخل کرنے سے متعلق ہے اس لیے یہ کہنا کہ ہم نے کوئی نئی تعبیر کردی ہے بالکل غلط ہے ہم نے علماء کرام ہی کی تفسیر کو پیش کیا تھا ۔ اصولی طور پر کسی علمی یا تاریخی بات پر اعتراض کرنے کا بہترین طریقہ تو یہ ہوتا ہے کہ اس سے متعلق علمی اور تاریخی حوالے دیئے جاتے لیکن ہمارے معاملہ میں ایسا نہیں کیا گیا بلکہ اس کے جواب میں کسی عالم دین کی کسی بات کاحوالہ دینے کے بجائے اپنی ہی من مانی تعبیر پیش کر کے کیا اس بھائی نے دین کی کوئی خدمت کی ہے۔ اللہ ہم سب کو صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے اور اگر میں غلط ہوں تو میری اصلاح کرے اور اگر میرے دیگر بھائی غلط ہیں تو ان کے لیے بھی میری اللہ سے یہی دعا ہے کہ اللہ ان کو بھی ہدایت عطا فرمائے
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1521532 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More