مقدر کا سکندر۔جاوید شیخ

انٹرویو:عمر خطاب خان

فوٹو گرافی:عابد راہی


پلٹ کر جھپٹنا‘ جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
لولی وڈ کے شومین جاوید شیخ کی شخصیت کا مشاہدہ کریں تو اُن کی زندگی بھی اتنی ہی پرجوش اور سرگرم دکھائی دیتی ہے ۔متزلزل ارادوں اور عزم عالی شان کی ایک جیتی جاگتی مثال....وہ شخص جس نے کبھی ہار ماننا نہیں سیکھا....!!حالات کی غلام گردشوں سے بے نیاز جاوید جو صرف ایک بات جانتا تھا کہ وہ اس دنیا میں جاوداں ہونے کے لیے آیا ہے.... جب جب گردشِ زمانہ نے اسے شکست سے دوچار کرنا چاہا، جاوید نے شکست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس سے اپنی فتح کی روشنی چھین لی۔ الیگزینڈر کی طرح وہ کئی بار گھٹنوں کے بل زمین پر گرا ضرور تھا مگر پھر جیت اور فتح کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں کامیاب رہا اور یہ ثابت قدمی ہی ہے کہ آج پرائیڈ آف پرفارمنس پاکر وہ ملک کے اُن عظیم فن کاروں کی صف میں آکھڑا ہوا ہے جہاں محمد علی اور ندیم جیسے نام پہلے سے موجود ہیں۔

میری جاوید بھائی سے شناسائی کو 20برس ہونے کو آئے ہیں اور ان ماہ وسال میں اُن سے متعدد ٹاکرے ہوچکے ہیں۔ ہمیشہ ایک نیا موضوع‘ نئی تکرار لیکن ساتھ ہی نئے ارادے اور نئے منصوبوں کی بحث....ایک عادت جو گئے سالوں کے ساتھ بھی نہیںبدلی وہ اُن کی خوش اخلاقی‘ بزلہ سنجی‘ کھراپن‘ سچائی اور خلوص ہیں۔

جاوید شیخ دن رات ٹی وی ڈراموں کی ریکارڈنگز میں مصروف ہیں۔ یہاں سے وقت ملے تو پھر کبھی دبئی یا انڈیا کے دوروں پر ہوتے ہیں۔ اس ملاقات کے لیے بڑی مشکل سے ہاتھ آئے۔جاوید بھائی سے جب ملے تو تمام گلے شکوے دور ہو گئے،یہ بھی کہ اس انٹرویو کے لیے پچھلے دو گھنٹے سے اُن کا شدت سے انتظار ہورہا تھا ۔چائے کا آرڈر دیا گیا تو ہم اپنی ڈائری کھول کر بیٹھ گئے ااور جاوید بھائی کو ذہنی اذیت سے بچانے کے لیے یہ بھی بتادیا کہ آج کوئی روایتی سوال نہیں ہوگا۔ صرف اُن کی یادوں کو ٹٹولنے کی کارروائی ہے.... وہ مطمئن ہوگئے اور ہم نے ریکارڈ آن کردیا۔
 

image

٭قسمت کے ستاروں پرکتنا یقین رکھتے ہیں‘کبھی ہورو اسکوپ اسٹڈی کیا!
O آپ کو حیرت ہوگی کہ مجھے علم فلکیات کی اے بی سی تک معلوم نہیں ہے۔ کبھی اس بارے میں غور بھی نہیں کیا کہ یہ ہورو اسکوپ ہوتا کیا ہے؟ میں تو اس پر یقین کرتا ہوں کہ جو ہونا ہوگا وہ ہوکر رہے گا۔ میں اس علم کی اہمیت سے انکار نہیں کرتا لیکن جب کسی چیز کا پتہ ہی نہ ہو تو کیا تبصرہ کروں۔

٭قسمت کا ستارہ اور فلم کا ستارہ‘ دونوں میں کچھ تو مماثلت ہے؟
Oہاں‘ میں اس پر ضرور بات کرسکتا ہوں کہ میں اسٹار بننے کے لیے پیدا ہوا تھا۔ اس کا ادراک تب ہوا جب میں اسکول لائف میں تھا اور کلاس روم سے بھاگ کر فلمیں دیکھا کرتا تھا۔ اس وقت طے کرچکا تھا کہ مجھے ایکٹر ہی بننا ہے۔

٭اگر ایکٹر نہ بنتے تو پھر کیا ہوتے؟
Oشاید میں بزنس مین ہوتا۔ ابتدا میں، میں نے گاڑیوں کا کام کیا‘ انشورنس کمپنی کی ملازمت بھی کی مگر وہاںمیرا دل نہیں لگا۔ بار بار شوبز کی طرف آجاتا تھا۔

٭پہلی فلم کونسی دیکھی سنیما جاکر؟
Oدیوآنند صاحب کی ایک کلاسک فلم تھی ہاﺅس نمبر44۔ یہ فلم میں نے ریوالی سنیما پر دیکھی تھی۔

٭آپ راولپنڈی میں پیدا ہوئے پھر آپ کی فیملی کراچی آگئی‘ والد صاحب کیا کرتے تھے؟
Oوالد صاحب پنڈی میں تو کیمیکل انڈسٹری میں تھے لیکن کراچی آکر وہ ایک ٹرام کمپنی کی ورکشاپ میں انچارج ہوگئے۔ یہ ٹرام کمپنی اُن کے ایک دوست محمد علی کی تھی‘ کچھ عرصہ ہم اُن کی انیکسی میں ہی رہائش پذیر تھے۔

٭پہلی فلم ”دھماکہ“ کیسے آفر ہوئی؟
O میں اسٹیج اور ریڈیو کے علاوہ ماڈلنگ بھی کیا کرتا تھا۔ اس زمانے میں ایشیا ٹیک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے لیے دو کمرشلز میں کام کیا تھا جس میں سے ایک ”ایپل سڈرا“ ڈرنک کا تھا۔ اس میں میرے ساتھ بابرہ شریف کی بہن فاخرہ نے بھی ماڈلنگ کی تھی۔ اس کے کیمرا مین مدن علی مدن تھے‘ جنہوں نے مجھے بتایا کہ ایک فلم بن رہی ہے جس کے لیے نئے ہیرو کی تلاش ہے۔ میں نے وہاں جاکر آڈیشن دیا اور ابن صفی صاحب نے مجھے ہیرو کے لیے منتخب کرلیا۔”دھماکہ“ دراصل عمران سیریز کےConceptپر بن رہی تھی لیکن اس میں ہیرو عمران نہیں تھا بلکہ دو نئے کردار ظفر الملک اور جیمسن تخلیق کیے گئے۔ ابن صفی صاحب نے مجھے کہا تھا کہ اگر کبھی عمران کے کردار پر کوئی فلم بنائی تو وہ مجھے ہیرو لیں گے کیونکہ میں ان کے نزدیک بنا بنایا عمران تھا۔

٭آپ کا پہلا عشق کب اور کس کے ساتھ درپیش آیا؟
Oمیرے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ یہی کوئی17-18سال کی عمر ہوگی ۔ اب اُس کے نام اور تذکرے سے کیا فائدہ۔ اُس کی شادی ہوگئی۔ہمارے بچے بھی جوان ہوگئے۔

٭پھر آپ کی زندگی میں کیرالین آئی؟
Oہاں ‘وہ ایک فرنچ لڑکی تھی۔ یہاں کراچی میں میٹروپول ہوٹل میں اُس سے ملاقات ہوئی تھی۔ غضب کا عشق تھاہمارا، میں اُس کے ساتھ فرانس بھی گیا۔ یہ” دھماکہ“ سے پہلے کی بات ہے ۔ مگر ہم شادی نہیں کرسکے۔دراصل وہ ایک الگ ملک اور سماج سے تھی۔ ہمارا ملن ناممکن تھا۔ وہ وہیں فرانس میں رہ گئی اور میں واپس اپنے ملک آگیا۔

٭دھماکہ ،کی ناکامی کے بعد پھر سے جدوجہد شروع کردی؟
Oہاں ۔کیونکہ مجھے بطور ہیرو مسترد کردیا گیا تھا۔ میں واپس اسٹیج اور ٹی وی کی طرف آگیا۔ اسی دوران مجھے ایک سیریل ”شمع“ کے بارے میں پتہ چلا کہ فاطمہ ثریا بجیا اور قاسم جلالی آڈیشنز کررہے ہیں۔ میں بھی لائن میں لگ گیا اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مجھے ہیرو چن لیا گیا۔”شمع“ کے بعد تو میں راتوں رات اسٹار بن گیا۔ اس کے بعد آگہی‘ دھند، وغیرہ آن ایئر ہوئے۔ پھر جب شعیب منصورکا سیریل”ان کہی“ چلا تو میں لائم لائٹ میں آگیااور نذر شباب صاحب نے مجھے فلم کے لیے لاہور بلالیا۔

٭اس دوران آپ نے دپتی نول کے ساتھ ایک فلم”دوسرا کنارہ“ میں کام کیا؟
Oیہ ”ان کہی“ کے آن ایئر جانے سے پہلے کی بات ہے۔ میں پی ٹی وی کی ایک سیریل”اجنبی“ کر رہا تھا جس کا پائلٹ منظوری کے لیے اسلام آباد گیا ہوا تھا۔ میرے علاوہ اس میں بہروز سبزواری بھی تھے۔ اچانک ہمیں غضنفر علی صاحب(انڈس وژن کے ہیڈ) نے کال کیا کہ ایک فلم کرنی ہے، وہ بھی دبئی میں۔میں‘بہروز اور شفیع محمد وغیرہ فوراً مان گئے۔شفیع محمد کا سیریل ”افشاں“ آن ایئر تھا۔ وہ بھی چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے جس کے باعث پی ٹی وی نے ہم تینوں پر پابندی لگادی۔ دوسرا کنارہ‘مکمل ہوئی اور اس فلم میں کام کرنے کا مزہ بھی بہت آیا مگر ان دنوں پاکستان بھارت کے تعلقات اس نوعیت کے تھے کہ دپتی نول کی وجہ سے اس فلم کو پاکستان میں نمائش کی اجازت نہ مل سکی۔ ہم نے این او سی وغیرہ بھی نہیں لیا تھا لہٰذا یہ فلم ڈبوں میں بند ہوگئی۔ بہر حال دپتی نول کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا۔ وہ ایک زبردست اداکارہ تھی۔ان دنوں پیرلل سنیما کے حوالے سے سمیتا پاٹیل اور شبانہ اعظمی کی بعد تیسرا بڑا نام دپتی نول کا ہی تھا۔ دوسرا کنارہ، کرکے جب ہم واپس آئے تو ہم تینوں پر پی ٹی وی کے دروازے بند تھے مگر یہ شعیب منصور کا کمال تھا کہ ہمارے جانے کے بعد انہوں نے اجنبی ‘ کو شروع کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیا اور جب ہم واپس آئے تو انہوں نے ہماری پابندی ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس طرح ”اجنبی“ نئے نام ”ان کہی“ سے شروع ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان کہی‘ میرے کیریئر پروفائل کا حصہ نہ بنتا تو شاید آج جاوید شیخ کی کہانی بھی مختلف ہوتی۔

٭زینت منگھی سے کب اور کہاں ملاقات ہوئی؟
Oیہیں۔ اسی ہوٹل(پرل کانٹی نینٹل) کی لابی میں۔ شاید کوئی تقریب یا شو تھا۔ وہ ماڈلنگ کرتی تھیں۔ یہ LOVEایٹ فرسٹ سائٹ تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھتے ہی پسند کرلیا تھا اور شادی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ پھر وہ میرے ساتھ دبئی بھی گئی تھیں جب میں دوسرا کنارہ، کی شوٹنگ کے لیے وہاں تھا۔

٭اس شادی کی ناکامی کی وجہ کیا تھی؟
Oجوکسی بھی شادی کی ناکامی کی وجہ ہوسکتی ہے۔غلط فہمی‘ عدم اعتماد....‘ اس نے مجھے سنبھلنے یا سوچنے کا وقت ہی نہیں دیا۔

٭کیا آپ دونوں کے درمیان طلاق ہوچکی تھی یا صرف علیحدگی....؟
Oنہیں۔ طلاق ہوگئی تھی۔ اس کے بعد ہی میں نے دوسری شادی کے بارے میں سوچا۔

٭سلمیٰ آغا سے شادی کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ کیا یہ آپ کا درست فیصلہ تھا؟
Oہرگز نہیں.... یہ میری زندگی کا سب سے غلط فیصلہ تھا۔ میں نے سلمیٰ سے محبت کی تھی مگر اس نے مجھے نقصان پہنچایا۔ اُس کی وجہ سے میرا کیریئر متاثر ہوا۔ زینت سے تعلقات خراب ہوئے۔ میں جب اس کے ساتھ انڈیا گیا تو راکیش روشن نے مجھے ایک فلم آفر کردی ”خون بھری مانگ“ لیکن سلمیٰ نے کہا کہ تم یہ فلم نہیں کروگے‘ میں نے کہا‘اوکے....،فلم چھوڑدی۔ کیونکہ فلم سے زیادہ اہم ،گھر بچانا تھا۔ اس کے باوجود میں اس عورت کا عدم تحفظ دور نہ کرسکا۔ مجبوراً مجھے اس سے تعلقات ختم کرنا پڑے۔

٭پھر آپ کی زندگی میں نیلی، آگئی۔ کہا جاتا ہے کہ آپ دونوں نے خفیہ شادی کرلی تھی مگر دونوں جانب سے کبھی اس کی تصدیق نہیں ہوئی؟
Oاگر ہم نے شادی کرلی ہوتی تو پھر ڈنکے کی چوٹ پر اس کا اعلان بھی کرتے۔ جب ہم نے اپنی محبت کو دنیا سے نہیں چھپایا تو پھر شادی میں کیا برائی تھی؟ ہم دونوں ایک دوسرے کو بے حد چاہتے تھے اور میری خواہش تھی کہ میں اُسے اپناتا لیکن شاید تقدیر کو ہمارا ملن منظور نہیں تھا۔ ہماری جوڑی بہت پرفیکٹ تھی۔ انڈر اسٹینڈنگ بھی اچھی تھی ۔ کئی سال ساتھ کام کرنے کے باوجود ہمارے درمیان کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا لیکن شادی ہمارے مقدر میں نہیں تھی۔ میں آج بھی اُس کے لیے نیک جذبات رکھتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ وہ جہاں رہے خوش رہے ۔ نیلی کے حوالے سے مجھے یقین ہوگیا کہ جوڑیاں واقعی آسمانوں پر بنتی ہیں۔
 

image

٭نیلی کے جاتے ہی آپ نے ثنا سے دل لگالیا مگر وہ آپ کو دل کا درد دے کر چلی گئی؟
Oاب اُس کا تذکرہ کرنے کا فائدہ نہیں ہے۔ وہ اپنے گھر بار کی ہوچکی ہے۔ میں نے اُسے معاف کردیا ہے اور یہی دعا کرتا ہوں کہ خدا اُسے خوش رکھے۔

٭آپ زندگی میں بار بار ناکام ہوئے اور پھر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے‘ اس حوصلہ مندی اور مستقل مزاجی کے لیے کس کو کریڈٹ دیتے ہیں؟ تقدیر یا پھر اپنی ہمت کو....؟
Oخدائے بزرگ وبرتر کو۔ میرا خےال ہے کہ وہ مجھے بار بار آزماتا ہے اور پھر خود ہی میری مدد بھی کرتا ہے۔ میں خود کچھ بھی نہیں ہوں، اگر اوپر والا نہ چاہے کہ میں واپس آﺅں۔ جب تک وہ مجھے ناکام نہیں کرتا۔ میں تھک کر ہمت ہارنے والا نہیں ہوں۔

٭جب لوگ آپ کے ساتھ زیادتی کرجاتے ہیں تو آپ کا ردعمل کیسا ہوتا ہے؟ انتقام لیتے ہیں یا پھر درگزر کرتے ہیں؟
Oمیرا خیال ہے کہ معاف کردینا بہترین انتقام ہے۔ میں اوپر والے پر چھوڑ دیتا ہوں‘ اس لیے کہ وہ میرے لیے بہترسوچتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ کبھی الوداع نہ کہنا، سے پہلے میں ایک فلم کررہا تھا‘ بیوی ہو تو ایسی....‘ جس میں میرا رول سیکنڈ ہیرو کا تھا ۔اس کے ڈائریکٹر زاہد شاہ تھے۔ میں نے 5دن شوٹنگ بھی کرائی لیکن ایک روز اچانک میں جب شوٹنگ کیلئے پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ اس فلم کے لاہور کے ڈسٹری بیوٹر اسلم نعیم(پاپولر فلمزوالے) کی ڈیمانڈ ہے کہ جاوید کو لینا رسک ہے، اسے کوئی نہیں جانتا۔ اس کی جگہ فیصل رحمان کو کاسٹ کیا جائے ورنہ میں یہ فلم ریلیز نہیں کروں گا۔ زاہد شاہ صاحب نے مجھ سے معذرت کرلی۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چند ماہ بعد مجھے سولو ہیرو فلم مل گئی ورنہ ممکن تھا کہ میں کبھی ہیرو نہ بن سکتا اور سائیڈ ہیرو ہی رہتا۔ یہی اسلم نعیم صاحب پھر میرے پاس ایک فلم چوروں کا دشمن، کی آفر لے کر آئے تو چند دوستوں نے کہا کہ آپ بھی اس کو دروازے پر کھڑا رکھیں اور چکر لگانے دیں مگر میں نے ایسا نہیں کیا اور اُنہیں معاف کردیا۔ جب خدا آپ کی ساری خطائیں معاف کردیتا ہے تو پھر ہم اس کے بندے کیوں انتقام پر یقین رکھتے ہیں۔ آج میں اپنی زندگی میں مطمئن اور پرسکون اسی لیے ہوں کہ مجھے کسی سے شکایت نہیں ہے۔ میں ہر چیز کا مثبت پہلو دیکھتا ہوں۔ میں نے کبھی منفی سوچ نہیں اپنائی۔ جب بھی کوئی آزمائش آئی اسے اوپر والے کی مصلحت جان کر آگے بڑھ گیا۔

٭پہلی فلم مشکل‘92ءمیں ڈائریکٹ کی لیکن ڈائریکشن کی ابتدا آپ نے سلمیٰ آغا کے ایک گانے کی ویڈیو سے کردی تھی؟ کیا اسی دور میںسوچ لیا تھا کہ اس طرف آنا ہے؟
Oشاید میرے اندر کہیں یہ چیز موجود تھی کہ مجھے ڈائریکشن کی طرف آنا ہے‘ کیونکہ میں اپنے کرداروں سے مطمئن نہیں تھا‘ میں اپنی انڈسٹری کو نئے رجحانات سے روشناس کرانا چاہتا تھا۔85ءمیں جب سلمیٰ آغا اور میں انڈیا میں تھے تو اس کا نیا البم ”ہرپل“ ریلیز ہوا تھا جس میں اس نے مہدی حسن خاں صاحب کے ساتھ ڈوئٹ بھی پرفارم کیے تھے۔ میں نے میوزک کمپنی کو آئیڈیا دیا کہ امریکی اور برطانوی سنگرز کی طرز پر ہم بھی اس البم کا ایک ویڈیو شوٹ کرکے ریلیز کرتے ہیں، اس وقت بھارت کے لیے یہ نئی چیز تھی ‘کیبل اور سٹیلائٹ چینلز نہیں تھے۔ اس طرح VHSپر یہ گانا شوٹ کرکے ہوٹلز میں دکھانے کا اہتمام کیا گیا، اس کی عکس بندی اور ایڈیٹنگ بھارت میں ہی کی گئی تھی۔ اس کے بعد میں نے نذر شباب کی فلم ”ایک سے بڑھ کر ایک“ کا ایک گانا ڈائریکٹ کیا۔ ایم اے رشید کی فلم ”خطروں کے کھلاڑی“ میں نیلی کے ساتھ اپنا ایک گانا سری لنکا میں شوٹ کیا۔ ستیش آنند صاحب کی ایک فلم”محبت کے سوداگر“ کا ایک گانا بھی ڈائریکٹ کیا، اس طرح میں ڈائریکشن کی طرف آیا۔

٭آپ کے بہترین دوست اور فلمی موسیقار امجد بوبی مرحوم کو کتناMissکرتے ہیں‘ آپ کی ڈائریکشن میں بننے والی تمام (سات) فلموں کی موسیقی اُن کی تھی؟
Oامجد بوبی‘ کی یادیں میرا سرمایہ ہیں‘ وہ میری پہلی فلم ”کبھی الوداع نہ کہنا“ سے ساتھ تھے‘ انہوں نے میرے لیے کئی سپرہٹ گانے بنائے‘ پھر جب میں نے ڈائریکشن کا آغاز کیا تو مشکل، سے کھلے آسمان کے نیچے، تک وہ میری ہر فلم کے موسیقار تھے۔ ان کے ساتھ میری کیمسٹری بن گئی تھی اور ہم دونوں ایک دوسرے کو انڈر اسٹینڈ کرتے تھے۔ جس طرح راج کپور صاحب کی فلموں کے لیے شنکر جے کشن لازم و ملزوم تھے‘ میرے لیے بوبی صاحب نے سپرہٹ اسکور دیا۔ ہم ہفتوں میوزک پر بیٹھتے تھے‘ یہی وجہ تھی کہ دوسرے ڈائریکٹرز کے مقابلے میں ہماری فلموں کے لیے بوبی صاحب کا میوزک زیادہ اچھا بنتا تھا کیونکہ میں اُن کو اچھا معاوضہ اور ماحول دونوں فراہم کرتا تھا۔ اسی طرح وقار بخاری ہیں، میری تمام فلموں کی سنیما ٹوگرافی انہوں نے کی ہے۔امجد ہوں یا وقار‘ ہماری زبردست ایسوسی ایشن تھی ایک دوسرے سے۔

٭امجد بوبی تو اب نہیں رہے‘ آپ کی اگلی فلم کا میوزک کون دے گا اور کون ہے جو اُن کی جگہ لے سکتا ہے؟
Oکافی مشکل سوال ہے ۔ مجھے تو نہیں لگتا کہ کوئی بھی میوزک ڈائریکٹر اُن کی جگہ لے سکتا ہے، وہ ون اینڈ اونلی تھے۔

٭آپ کی آخری فلم”کھلے آسمان کے نیچے“ کی کامیابی کے لیے آپ بہت پر اُمید تھے لیکن فلم نہیں چلی‘ اس ناکامی کے پیچھے ایسی کیا خامی دیکھتے ہیں؟
Oفلم میں تو کوئی خامی نہیں تھی لیکن شاید لیٹ ریلیز نے باکس آفس پر فلم کے بزنس پر اثر ڈالا۔ دیکھیں، دنیا کا کوئی بھی ڈائریکٹر اس ارادے سے فلم نہیں بناتا کہ وہ ناکام ہوگی یا لوگ اُسے پسند نہیں کریں گے۔بڑی بڑی فلمیں فلاپ ہوجاتی ہیں، یہ ایسا بزنس ہے جس کے بارے میں آپ پہلے سے کوئی اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ”کھلے آسمان کے نیچے“ کی ناکامی کی واحد وجہ جس سے میں پہلے ہی خوف زدہ تھا اس کی تاخیر تھی۔ کیونکہ اس دوران میںاپنی بولی وڈ فلمز کی شوٹنگز میں بھی مصروف تھا ،اس کے علاوہ کھلے آسمان کے نیچے ‘ کی شوٹنگ کبھی آسٹریلیا تو کبھی انڈیا میں چل رہی تھی ،بہر حال شاید فلم کا ریلیز ٹائم بھی مناسب نہیں تھا۔ اب میں اس فلم کو دوبارہ نئی پلاننگ کے ساتھ لا رہا ہوں ۔آپ بہت جلد یہ فلم کچھ تبدیلیوں کے ساتھ سنیماز پر دیکھیں گے۔

٭اس فلم کی نمائش سے پہلے آپ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میرا سب کچھ داش پر لگ گیا ہے کیونکہ یہ آپ کی اپنی پروڈکشن تھی۔ ناکامی کے بعد کیا سچویشن تھی؟
Oایسا ہی تھا ۔ میں نے اپنا سارا سرمایہ کھلے آسمان کے نیچے ‘ پر لگادیا تھا اور فلم کے فلاپ ہونے پر پھر سے زیرو پر آگیا تھا لیکن ایسا تو میری زندگی میں متعدد بار ہوا ہے۔جب میں نے مشکل، شروع کی تو ڈائریکٹرز نے مجھے اس وجہ سے کام دینا بند کردیا کہ اب تو یہ خود ہمارے مقابلے پر آرہا ہے۔ پھر جب مجھے جینے دو‘ فلاپ ہوئی تو فلم انڈسٹری نے مجھے فارغ کردیا۔ میری حالت یہ تھی کہ اپنے سروائیول کے لیے اسٹیج ڈرامے کرنے پر مجبور تھا، تب مجھے اکبر خان جیسا پروڈیوسر ملا اور ہم نے ”یہ دل آپ کا ہوا“ جیسی فلم بنائی۔ ایک بار پھر میرا کم بیک ہوا۔ اس فلم نے پاکستان میں بزنس کی نئی تاریخ رقم کی اور مسلسل22شو ہاﺅس فل کیے جس کا ریکارڈ اب تک کوئی انڈین فلم بھی نہیں توڑ سکی۔ کھلے آسمان کے نیچے ،کی ناکامی کے بعد پھر زیرو پر آگیا لیکن اوپر والے نے مجھے دوبارہ اعتماد اور حوصلہ بخشا اور خدا کی مہربانی سے میں پھر بحرانوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔

٭اگلی فلم کب لا رہے ہیں؟
O نئے پروجیکٹ پر کام شروع کردیا ہے، اس بار ایک کامیڈی فلم بنانے کا ارادہ ہے۔ یہ فلم ون اسپیل میں شوٹ ہوگی۔اس فلم میں نا صرف میرا بیٹاشہزاد ہوگا بلکہ بہروز کے بیٹے شہروزکا بھی debutہوگا۔شہزاد نے ٹی وی پر کافی کام کرلیا ہے‘ ایک فلم بھی کرلی ہے اور میرا خیال ہے کہ اس کی اچھی تربیت ہوگئی ہے۔ اب یہ فلم اُس کے لیے زیادہ بڑا امتحان ثابت نہیں ہوگی۔

٭آپ کی بیٹی نے بھی منی اسکرین کا رخ کیا ہے‘ کیا مومل کو بھی ہم جلد بڑی اسکرین پر دیکھ سکیں گے؟
Oمیں نے مومل کو کبھی شوبز میں داخلے کی اجازت نہیں دی۔ اب وہ اپنے گھر کی ہوچکی ہے اور شوہر کی اجازت سے ٹی وی پر کام کررہی ہے۔ ٹی وی پر وہ بہت اچھا کام کررہی ہے۔ایک فلم بھی کررہی ہے۔ انجلین ملک کے ایک پلے” بریگیڈیئر اور میں“ کے لیے پہلی بار ہمارا آن کیمراآمنا سامنا ہوا۔ وہ میرے سامنے ایکٹ کرتے ہوئے ذرا نہیں گھبرائی اور بہت اچھا پرفارم کیا،یہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔

٭آپ جو فلم پلان کررہے ہیں، اس کا بجٹ کتنا ہوگا؟ ایک اور سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے سنیماﺅں پر40اور50کروڑ کی لاگت سے بننے والی بولی وڈ فلمز چھائی ہوئی ہیں، آپ 2یا3 کروڑ کی پروڈکشن کے ساتھ ان فلموں کا کیسے مقابلہ کریں گے؟
Oدیکھیں، بجٹ ایشو نہیں ہے۔ بولی وڈ میں بھی ہر فلم چالیس اور پچاس کروڑ کی نہیں بنتی۔ وہاں کم بجٹ کی فلمیں بھی بنتی ہیں جو کروڑوں کا بزنس کرچکی ہیں۔ تنوویڈس منو‘ عشقیہ‘ بینڈ باجا بارات‘ کہانی‘ ڈرٹی پکچرز، کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ فلمیں کم بجٹ کے ساتھ بھی ہٹ ہوئیں۔ اصل باتconceptاورcontentکی ہے۔ آپ کی پروڈکٹ اچھی ہو تو پھر بجٹ معنی نہیں رکھتا۔

٭آپ کو لگتا ہے کہ پاکستانی سنیما کا ریوائیول جلد یا بدیر ضرور ہوگا؟
Oآف کورس! اس کا آغاز ہوچکا ہے اور اس کے اثرات آپ اسی سال سے دیکھیں گے۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ فلم انڈسٹری کا ری وائیول کراچی سے ہوگا۔ میں یہاں کے نوجوان فلم میکرز میں کافی پوٹینشل اور جذبہ دیکھ رہا ہوں۔

٭آپ نے شہزادوں والی زندگی گزاری‘ پرتعیش طرز زندگی اور شاہانہ انداز آپ کا خاصہ ہیں‘ شہرت‘ کامیابی‘ اسٹارڈم‘ پیسہ‘ عشق محبت‘ فیملی لائف.... سب کچھ بھرپور طریقے سے انجوائے کیا مگر یہ سب ہونے کے باوجود تنہائی کا احساس دکھ نہیں دیتا ۔ کسی ایسے ساتھی کی کمی محسوس نہیں ہوتی جو آپ کے جذبات اور احساسات کا ادراک کرسکے؟
Oیہ سب آپ کے دماغ میں ہوتا ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میرا دل اور دماغ دونوں میرے قابو میں ہیں۔ میں نے کبھی ان باتوں کو اپنے اوپر حاوی ہونے نہیں دیا۔ میں ہر حال میں ایک جیسا رہتا ہوں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں نے کبھی کامیابی‘ عورت‘ یا پیسے کا اثر نہیں لیا، میںجیسا30سال پہلے تھا، ویسا ہی آج بھی ہوں۔ کچھ کرنے اور آگے بڑھنے کی بھوک ابھی ختم نہیں ہوئی۔

٭کیا چاہتے ہیں زندگی سے مزید....کہاں تک جانے کا ارادہ ہے؟
Oآسکر ایوارڈ.... میرا خواب ہے کہ کوئی ایسی فلم بناﺅں جو آسکر ایوارڈ جیت سکے۔

٭اگر زندگی پھر سے شروع کرنے کا موقع ملے تو اپنی کن غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کریں گے؟
Oمیں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں۔ بات یہ ہے کہ اگر میں غلطیاں نہیں کروں گا تو پھر انسان کیسے کہلاﺅں گا۔ دوبارہ موقع ملے تو پھر بھی شاید وہی غلطیاں دہراﺅں ۔ہاں یہ ہے کہ آپ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں ۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار نوجوانی میں تیز ڈرائیونگ کرتے ہوئے خطرناک حادثے سے بال بال بچا تھا۔ میں پاکستان چوک سے ایم اے جناح روڈ کی طرف آرہا تھا کہ اچانک ایک تیز رفتار ٹرک دائیں طرف سے نکل کر آیا جس سے میں ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ اس دن کے بعد میں نے کبھی تیز گاڑی نہیں چلائی ۔کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ آپ غلطی پر نہیں ہوتے مگر کوئی دوسرا آکر آپ سے ٹکراجائے تو کیا کریں گے؟ اگر مجھے موقع ملے تو میں کئی ایسی فلمیں نہیں کرنا چاہوں گا جن پر بعد میں مجھے پشیمانی ہوئی کہ میں نے وہ کردار کیوں قبول کرلیے تھے۔ ان کے علاوہ مجھے اپنی پوری زندگی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ میں جب رات اپنے بستر پر جاتا ہوں تو بہت پرسکون نیند سوتا ہوں، جس کے لئے مجھے نیند کی گولیوں کا سہارا بھی نہیں لینا پڑتا۔ اس لیے کہ میں نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا، کسی کو دھوکہ نہیں دیا، کسی کی بد دعا نہیں لی، میں نے ہمیشہ دوست بنائے اور اگر کبھی کوئی غلطی کی تو اسے درست کرنے کی بھی کوشش کی۔
UMAR KHITAB KHAN
About the Author: UMAR KHITAB KHAN Read More Articles by UMAR KHITAB KHAN: 10 Articles with 18644 views Secretary General:Karachi Film & TV Journalists Welfare Association.
Executive Editor: Monthly Metro Live
Published from Karachi.
Ex Member:Central
.. View More