مایوس نہیں پریشان ہوں میں

آج مجھے پشتو فلم دیکھنے جانا تھا ، مجھے ایک فلم پرستار تنظیم کیجانب سے چیلنج دیا گیا تھا کہ پشتو فلموں میں فحاشی ، عریانیت اور پختون ثقافت کےخلاف منظر کشی نہیں کی جاتی ، بلکہ پشتو فلمیں پاکستانی فلم اندسٹری کو بچانے کی واحد کوشش ہے ۔انھوں نے بضد ہوکر مجھے دعوت دی تھی کہ میں اُن کے ساتھ پشتو فلم دیکھوں ، ان میں ایک ایسے پرستار بھی تھے جنھیں پشتو زبان سے واقفیت نہیں تھی ، لیکن وہ اپنے ہیرو کی ملنساری ،مہمان نوازی و اخلاق کی وجہ سے اُن کے گرویدہ ہوگئے تھے ، ان کی پسندیدگی کی اسی وجہ کی بنا ءپر میں نے اکرم بھائی کی دعوت قبول کرلی، اُس وقت میرے پاس اداکار شاہد خان کے سب سے بڑے پرستار راجہ جاوید اقبال بھی"تشریف"فرما تھے ، انھوں نے گذشتہ جمعہ کے دن تقریبا چھ گھنٹے میرے ساتھ گزارے اور شاہدخان کی تعریف میں بھرپور قلابے مارتے ہوئے مجھے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ میں نے اپنے کالم میں ان کا نام لکھا تو شاہد خان اس بات پر ناراض ہوگئے تھے کہ "تم قادر خان کے پڑوسی اور بچپن کے دوست ہو ، لیکن اسے میرے)شاہد خان)کے خلاف کالم لکھنے سے نہیں روک سکے" تو اس وقت راجہ صاحب کی حالت پر سکون تھی جب میں نے انھیں بتایا کہ بھائی آپ کو کس نے کہہ دیا کہ میں شاہد خان کے خلاف ہوں ، میں تو پختون ثقافت کے خلاف پشتو فلموں میں دیکھائی جانے والی عریانیت ، فحاشی ، غنڈا کلچر اور فحاشی کے دیوتا لیاقت علی خان اور نگاہ حسین کے اُن حواریوں کا شدید مخالف ہوں ، جنھوں نے لالہ سردار کے مطابق چند روپوں کے خاطر عوام کو سستی اور صاف تفریح سے محروم کردیا ہے۔اگر شاہد خان ایسی فلموں میں کام کرتا ہے جو پختون ثقافت کی عکاسی کے بجائے پختون قوم کی بدنامی کاسبب بنتی ہے تو آپ لوگ انھیں قا ئل کریں کہ وہ ایسی فلموں میں کام نہیں کریں اور نہ ہی ایسی فلموں کی پروڈکیشن کریں گے۔اس پر راجہ جاوید اقبال نے کہا کہ یہ اکیلے میرے بس کی بات نہیں ہے ہم سب کو مل کر اجتماعی کوشش کرنا ہوگی ، اس بات پر میں نے اُن سے کہا کہ یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں کہ جب تک آپ نہیں کہو گے تو کون پہل کرے گا؟۔اس محفل میں مختلف پرستار تنظیموں کے لوگ بھی بیٹھے تھے ، کسی نے کہا کہ فحاشی کے سیلاب سے تو کوئی بھی نہیں بچ سکا ۔ بدر منیر جیسافنکار بھی "گرینگو"جیسی فلم بنا چکا ہے ۔ کسی نے کہا کہ آصف خان کے بیٹے ارباز خان کو ہی دیکھ لو ، باپ کا کتنابڑا نام ہے لیکن فحاشی کے دیوتا لیاقت علی خان اور نگاہ حسین جیسے پختون معاشرے کے ناسوروں کے ساتھ کام کرتا ہے ، کسی نے اعتراض کیا کہ اگر فلم کا نام چرسی ہے تو عجب گل نے بھی تو اپنی ایک فلم کا نام شرابی رکھا تھا ۔میں نے تمام احباب سے بصد احترام ایک اپیل کی کہ ماضی میں کس نے کیا کام کیا اور کس طرح کام کیا ایسے پردہ سمیں پر دیکھایا جاچکا ہے ، اس پر بحث مباحثہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ،بس آپ مجھے یہ بتاﺅ کہ اب کیا کرنا ہے ؟۔راجہ جاوید اقبال مجھے بار بار کہتے رہے کہ شاہد خان فون پر ہیں اُن سے بات کرلو ۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں اُن سے اُس وقت بات کرونگا جب ان کی کوئی اصلاحی فلم یا بیان منظر عام پر آئے گا کہ ان کی فلم پروڈکیشن آئندہ ایسی کوئی فلم نہیں بنائے گی ، جس میں پختون ثقافت اور قوم کی صدیوں کی روایات کو کچلا گیا ہو۔ جس پر راجہ ساحب نے کہا کہ انھوں نے کل تو آپ سے وعدہ کیا ہے ، جس پر میں نے کہا کہ اسی لئے تو کہہ رہا ہوں کہ مجھے یہی تو دیکھنا ہے کہ کون اپنے وعدے کی پاسداری کرتا ہے ۔ میں نے انھیں پخوری بدمعاش دیکھانے کو کہا تو سب سے زیادہ منع کرنے پر زور راجہ جاوید اقبال نے لگایا کہ نہیں، نئی فلم دیکھیں گے ، آج میں اُن کے فون کا انتظار کرتا رہا ، پھر اپنی عادت کے برخلاف انھیں فون بھی کیا لیکن انھوں نے میرا فون ہی ایٹنڈ نہیں کیا ، میں نے اکرم صاحب کے دوست پرنس نیک محمد سے پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ اکرم نے میرے ساتھ جانے سے انکار کردیا ہے کہ اُس دن ہم تصاویربنوائیں گے اگر قادرخان کو ہمارے ساتھ کسی نے دیکھ لیا تو غضب ہوجائے گا ۔ اس لئے ان کے ساتھ فلم دیکھنا ناممکن ہے۔اب یہ حیران کن بات یہ تھی کہ انکے کہنے پر میں اعلان کرچکا تھا کہ ان کے ساتھ فلم دیکھوں گا اور اگر فلم میں کوئی اخلاق باختہ مناظر اور پختون ثقافت کے خلاف کچھ ہوا تو زبردست احتجاج بھی کرونگا اور فلم کا بائیکاٹ کا علی اعلان بھی میرے مطالبے میں شامل تھا ، لیکن پرستار تنظیمیں اس بات پر خوف زدہ ہوگئیں کہ اگر ماضی کی طرح پھر اس پشتو فلم میں بھی کچھ ہوا تو قادر خان کو" روکنا "ممکن نہیں ہوگا ۔ مجھے ان کے رویوں سے مایوسی نہیں ہے لیکن میں پریشان ضرور ہوں کہ اگر پرستار تنظیمیں بھی یہی کچھ برداشت کرتی رہیں تو فلمسازوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ ان کی فلم فحش ، کہانی لغو ، اور عکاسی و ہدایتکاری انتہائی غیر معیاری ہے۔کیونکہ یہی پرستار تنظیمیں ہر فلم کو سپر ہٹ ، ڈوپر ہٹ ، کامیاب کہہ کہہ کر انھیں غلط اطلاعات فراہم کرتیں ہیں۔بلکہ میں تو اور بھی شدید حیران ہوا کہ جب میری توجہ بابر زئی پختون یار نے کرائی کہ ہر شخص اپنے قبیلے اور قوم کا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر اپنا تشخص دنیا کے ساتھ ابھارتا ہے لیکن کچھ لوگوں نے اپنے ناموں کے ساتھ فلمی ہیرو کے نام بطور" تخلص" رکھے ہیں ، یہ بڑا عجیب اور پر مذاق مظاہرہ ہے کہ ایک پختون اپنے نام کےساتھ کسی فحش فلم کے ہیرو کا نام لگا کر فخر سے لکھتا اور کہلواتا ہے ۔میں ان لوگوں کے نام نہیں لکھ رہا کیونکہ میرا سر شرم سے جھک گیا ہے کہ ایسے پختون بھی پائے جاتے ہیں جو اپنی قوم ، قبیلے اور خیل کے بجائے تخلص کسی اوباش ، عیاش فلم ایکٹر کے نام پر رکھتا ہے ، یہ شرمناک مثال میرے لئے نہایت پر ندامت ہے ، میری ان تمام قدر مند احباب سے اپیل ہے کہ اپنا تشخص پہلے درست کرکے اصل نام رکھیں ،۔فلمی ستاروں سے محبت اپنی جگہ ، لیکن اس کی بھی حد ہونی چاہیے۔ بہرحال میں ہمت کرکے اکیلا ہی ناظم آباد میں واقع ایک سنیما گیا تو وہاں دیکھا کہ جمعہ کے دن شراب خانے بند ہونے کے باوجود فلم بینوں کو شراب کچھ لوگ فروخت کرکے دے رہے تھے کچھ لوگ ، چرس فروخت کر رہے تھے ، میری ہمت جواب دے گئی کہ ان شراب کی چسکیوں اور چرس کے دھواں دار ماحول میں کس طرح اپنے جذبات کو بہکنے سے بچا سکوں گا ۔اس لئے صدر میں واقع جب دوسرے سنیما میں گیا تو وہاں بھی صورتحال مختلف نظر نہیں آئی ۔میں نے فلم پوسٹر اور تصاویر دیکھ کر کم از کم اتنا ضرور اندازہ لگا لیا کہ فلم کی ٹون کیا ہوگی ، وہاں فلم ، مست ملنگ نہیںشیر خان لگی تھی۔ کیونکہ میں یہ فلم سوات میں دیکھ چکا تھا اس لئے اس پر دوبارہ احتجاج اور نہ تبصرہ کروں گا ۔میں پرستار تنظیموں کے عمل سے مایوس نہیں،پریشان ہوں کہ آخر یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟۔ لیکن مجھے اس بات کا اطمینان ضرور ہے کہ میری آواز فلم انڈسٹری تک پہنچ رہی ہے کیونکہ معروف اداکار عجب گل نے پشتو فلموں میں عریانیت ، فحاشی اور پختون ثقافت کے خلاف بھرپور بیان جاری کرکے پختون ادبی ثقافتی ٹولنہ کی کوششوں کو تقویت اور امید دلائی ہے کہ بہت جلد سب بدلے گا۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744763 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.