رنگ برنگے خوبصورت اڑتے ہوئے پرندے ہم سب ہی کو بہت اچھے لگتے ہیں جب یہ
آسمان پر جھُنڈ کی شکل میں ہوں تو لگتا ہے کہ دھنک بکھر گی ہو اور ان کی
سریلی اور مدھ بھری آواز تو دل کو مسحسور کردیتی ہے آپ کو معلوم ہے کہ دنیا
بھر میں پرندوں کی ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد بنیادی قسمیں ہیں اگرچہ پرندوں
کی ظاہری شکلوں میں خاصا فرق ہوتا ہے لیکن کبھی آپ غور کریں تو آپ کو ان
میں بہت ساری باتیں یکساں نظر آئیں گی جیسے کہ (چونچ)،سر کے پہلوؤں میں
واقع دو گول آنکھیں،سر کی مختصر ہڈیاں،لمبی گردن جس پر اٹکا سر چاروں طرف
گھوم سکتا ہے،سخت ریڑ کی ہڈی،سانس کا دہرا نظام اور بڑے پروں کے درمیان
موجود چھوٹے پروں کی موٹیں تہیں،لیکن ماحول اور موسم کے لحاظ سے ان کی
مختلف شکلیں بن گئی ہیں پاکستان پرندوں کی دولت سے بہت مالا مال ہے یہاں
پائے جانے والے پرندوں کی اقسام چھ یا سات سو کے درمیان ہیں بعض تو ایسی
اقسام ہیں جو دنیا میں کسی جگہ نظر ہی نہیں آتیں ہمارے ملک میں پانی اور
خشکی دونوں جگہوں پر پائے جانے والے پرندے بکثرت موجود ہیں آبی پرندے
سمندروں، دریاؤں، جھیلوں اور تالابوں کے کنارے پائے جاتے ہیں مرغابی
پاکستان کے ہر علاقے میں بکثرت پائی جاتی ہے بطخوں سے بھی آپ اچھی طرح واقف
ہوں گے کیونکہ یہ پرندہ گھروں میں بھی پالا جاتا ہے( راج ہنس) میں بطخوں سے
ملتے جلتے ہوتے ہیں یہ بہت خوبصورت پرندے ہوتے ہیں (بگلے )کے نام سے ہی آپ
کے ذہن میں سفید براق پرندہ آئے گا لیکن یہ یاد رکھیں کہ تمام بگلے سفید
نہیں ہوتے بلکہ سلیٹی اور سیاہ مائل سفید بھی ہوتے ہیں (پن ڈبیاں )اپنی
زیادہ تر زندگی پانی میں ہی گزار دیتی ہیں اور دنیا میں غوطہ لگانی کی ماہر
انہیں کو کہا جاتا ہے (ابابیل )تو تقریباََ سب کے لئے جا نا پہچانا پرندہ
ہو گا کونکہ اس کا ذکر قرآن پاک میں ایک سورۃ( فیل )کی شکل میں بھی بیان
کیا گیا ہے ابابیل دوقسمی ہوتی ہیں ایک بحری اور ایک آبی یہ پرندے پاکستان
کے آبی پرندے ہیں زمین پرندوں کو تو تقریباََ ہر کوئی جانتا اور پہچانتا ہے(
تیتر )پاکستان میں کثیر تعداد میں پایا جاتا ہے اور پاکستان کی15فیصد آبادی
اس پرندے کو بڑے شوق سے پالتے ہیں تیتر سے ملتا جلتا ایک پرندہ( چکور)بھی
ہوتا ہے چکور چاند کا عاشق ہوتا ہے اور یہ چاندنی رات میں بہت خوبصورت آواز
نکالتا ہے اسی کی طرح کا ایک پرندہ( بٹیر)ہوتا ہے جو کہ میدانی علاقوں میں
پایا جاتا ہے پاکستان میں بھورے اور برساتی بٹیر پائے جاتے ہیں لیکن
پاکستانی قوم زیادہ تر بٹیروں کی لڑائی کرانے کو اپنا مشغلہ بنائے ہوئے ہیں
جس پر انتہا کا جواء عوام لگایا جاتا ہے انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ ان بٹیر
جواریوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں تاکہ ان خوبصورت پرندوں کو ان کی
خوبصورتی بحال رکھی جاسکے پرندوں کا ذکر چڑیوں کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتا
پرندوں میں چڑیا اور چھوٹے پرندے اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کہ ان کو الگ
الگ شناخت کرنا ماہرین کے بس کی بھی بات نہیں ہے زیادہ تر چڑیوں کے نام ان
کی عادات اور ظاہر شکل و شباہت کی بناء پر رکھے گئے ہیں مثلاََ عینکی چڑیا
کی آنکھوں کے گرد عینک کی شکل کے حلقے ہوتے ہیں پرندوں میں سب سے زیادہ
خطرناک قسم شکاری پرندوں کی ہوتی ہے ان میں کئی اقسام کے (باز،شکرے،عقاب،چیلیں
اور گدھ شامل ہیں پاکستان کے میدانی اور پہاڑی علاقوں میں پائے جانے والے
ان پرندوں کے جسم میں ایسے طاقتور اعضاء ہوتے ہیں جن کی مدد سے یہ اپنے
شکار پر قابوپالیتے ہیں( باز) اپنی تیز بنائی کی وجہ سے مشہور ہے پاکستان
میں ملنے والے باز کی پانچ اقسام موجود ہیں یہ بہت قیمتی پرندہ ہے شاہین
اونچی چٹانوں اور پہاڑوں پر ر ہتا ہے اس کی چونچ مظبوط ہوتی ہے شاہین بڑا
خوش مزاج اور فراخ دل ہوتا ہے اس کی پرواز کا انداز بڑا دلکش ہوتا ہے لیکن
یہ باز کی طرح ایک ہی دن میں متعدد شکار نہیں کر سکتا شکاری پرندوں کے
علاوہ کچھ پرندے ایسے بھی ہیں جو انسانوں سے جلد مانوس ہو جاتے ہیں ان میں
(طوطے )سر فہرست ہیں ان کی ذہانت،بولنے اور نقل اتارنے کی صلاحیت کی وجہ سے
لوگ انہیں بہت شوق سے پالتے ہیں اکثر طوطوں کی عمریں 50سال سال سے زائد اور
کچھ کی 80سال تک ریکارڈ کی گئی ہے یہ تھی پاکستان میں پائے جانے والے
پرندوں کی ملاقات آپ یہ پرندے ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں اور اگر چڑیا گھر جائیں
تو بہت سارے پرندوں سے آپ کی ملاقات ہو سکتی ہے - |