بارہ اکتوبر ١٩٩٩ کو جنرل مشرف کا طیارہ ہوا میں تھا اور اسے کراچی کی بجائے نواب
شاہ بیجھنے کے احکامات جاری ہوئے تو جنرل مشرف نے اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز
شریف پر طیارہ ہائی جیک کرنے کا الزام لگا کر اپنی فوجی طاقت کی مدد سے پاکستانی
عوام کی منتخب کردہ سویلین حکومت کو اپنے بوٹوں تلے روندا اور بڑے جاہ و جلال کے
ساتھ اقتدار پر قابض ہوگیا۔
ساڑھے آٹھ سال سے زائد عرصہ حکومت پر قابض رہ کر عوام کے سامنے اپنی بہادری کی
بھڑکیں مارنے والے کی بزدلی کا عوام کو پہلی بار اُس وقت اندازہ ہوا جب امریکی صدر
کی طرف سے آنیوالی ایک ہی ٹیلیفون کال پر وہ ڈھیر ہو گیا اور امریکہ کو پاکستان میں
افغانستان کے خلاف اڈے فراہم کردئے۔ یوں افغانستان تو افغانستان، پاکستان میں بھی
کشت وخون کا وہ بازار گرم ہو گیا، جو آج تک ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ کوئی
دن ایسا نہیں گزرتا،جب پاکستان کے کسی شہر میں بم دھماکہ نہ ہو۔ ہر روز معصوم لوگوں
کی لاشیں گرتی رہتی ہیں اور جنازے اُٹھتے رہتے ہیں۔
اس کمانڈو کی بزدلی کا راز دوسری دفعہ اُس وقت فاش ہو گیا جب اٹھارہ اپریل کو جسٹس
شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک رکنی بنچ نے اعلی عدلیہ کے
ججوں کو حبس بےجا میں رکھنے کے مقدمے میں ان کی عبوری ضمانت منسوخ کرتے ہوئے ان کی
گرفتاری کا حکم دیا۔ گرفتاری کا سن کر کمانڈو صاحب کے ہوش اڑ گئے اورگرفتاری کے خوف
سے کمرہ عدالت سے فرار ہو گئے۔
عوام وہ منظر بھی دیکھ رہی تھی جب انیس اپریل کو پولیس اہل کاروں کے حصار میں مشرف
کو گرفتار کرکے عدالت لے جایا جا رہا تھا۔ اس وقت وہ شلوار قمیض میں ملبوس تھے اور
ان کے چہرے سے پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔ حالانکہ جس بہادری کا وہ قوم کے سامنے بار
بار دعوی کر رہا تھا اب اس کو ثابت کرکے دکھا تے اور ان کے خلاف جو چار مقدمات ہیں
جن میں بے نظیر بھٹو قتل کیس، نواب اکبر بگٹی قتل سازش، تین نومبر دو ہزار سات کو
ملک میں ایمرجنسی لگانے کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت آٹھ ججوں کو حبس
بے جا میں رکھنے کے الزامات کا بہادری سے سامنا کر کے اپنی بے گناہی کو ثابت کرتے۔
آج کل بیشتر سیاسی قیدی جیل میں اپنے گھر کی نسبت زیادہ آرام سے رہتے ہیں۔ شاید
مشرف صاحب کو اڈیالہ جیل جانا پسند نہیں تھا ،اس لئے بھاگ گئے لیکن اُن کو کیا
معلوم تھا کہ اُن کا اپنا گھر ہی اُن کے لئے اڈیالہ جیل بنا دیا جائے گا۔ جہاں اُن
کو صرف دو کمروں تک محدود کر دیا گیا۔ فون، موبائل، انٹرنٹ، کے استعمال پر پابندی
لگا دی گئی۔ اہل خانہ اور وکلاء کو بھی ان کے ساتھ ملنے سے روک دیا گیا ۔وہ شاید
اپنے اقتدارکی عدلیہ ذہن میں لئے ہوئے تھے۔ اُنہیں اندازہ نہیں تھا کہ آج کی عدلیہ
پانچ سال پہلے کی عدلیہ طرح نہیں ہے۔ اور نہ ہی آج کے عوام ایسے ہیں جو کسی فوجی
ڈکٹیٹر کو پسند کرتے ہوں کیونکہ مشرف نے اپنے عہد میں پاکستان کو جس آگ میں جھونکا
تھا ابھی تک وہ آگ بجھی نہیں بلکہ روز بروز بھڑکتی جارہی ہے۔ ہزاروں افراد کے گھر
اس آگ نے جلا کے رکھ دیے۔ چند گنتی کے لوگوں کے سوا کوئی بھی ان کا حمایتی نہیں رہا۔
مسلم لیگ ق ان کی اپنی تخلیق کردہ جماعت بھی ساتھ چھوڑ گئی ہے۔ آگے آنے والے مقدمات
میں مشرف کو سامنا کرنا اسان نہیں ہوگا بلکہ مشکلات کا سامنا کر پڑے گا۔ یہ کب تک
اور کتنے عرصہ جاری رہے گا کچھ کہنا مشکل ہے لیکن شاید ان حالات سے تنگ آکر مشرف
صاحب پریشانی کے عالم میں سگارکے کش لگاتے ہوئے اورایسی زندگی پر موت کو ترجیح دیتے
ہوئے حسرت موہانی کا یہ شعر ضرور گنگناتے ہوں گے۔
کشمکشہائے الم سے اب یہ حسرت جی میں ہے
چھٹ کے ان جھگڑوں سے مہمان قضا ہوجائیے۔
یہ مکافات عمل ہے کہ کل خود کو بڑا ہیرو اور بہادر سمجھنے والا آج زیرو بن ہو چکا
ہے۔ اورپاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی ڈکٹیٹر کی گرفتاری اور اس کا احتساب ہونے
کی امید پر عوام کے چہروں پر جو مسرت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ خدا کرے کہ وہ دائمی ہو۔ |