اختتام وقت کی حقیقت سے زیادہ سے
زیادہ لوگوں کو آگاہ کرنے کی غرض سے میں بڑے فورم تلاش کرتا ہو ا اشوآن
لائن جاپہنچا۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بھارت کا فورم ہے۔ جب میں نے اس میں
علامہ اقبال کا ایک شعر لکھا ’ ہند کے شاعر وصورت گر و افسانہ نویس
آ ہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
تو کسی دیویندرسنگھ نے بڑی شائستگی سے جواب دیا کہ اقبال نے یہ بھی تو لکھا
ہے :
’ وجود زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ ‘
میں سرحد پار علامہ اقبال کی شہرت اور مقبولیت دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ علامہ
اقبال ؒ نے فرقوں سے دامن بچاکر اسلام کو اختیار کیا ہے۔ اسی لیے ان کے
اشعار شیعہ سنی سب حلقوں میں کوٹ کیے جاتے ہیں۔ مثلاً : قافلہ حجاز میں ایک
حسین ؓ بھی نہیں
گرچہ تابدار ہے ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
علامہ اقبالؒ کا ایک اور مشہورشعر ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میںدیدہ ور پیدا
عام طور پر سمجھاجاتاہے کہ جتنی روحیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنی ہیں وہ
بلاکسی خاص ترتیب کے دنیا میں آتی رہتی ہیں۔ اپنا عرصہ حیات پورا کرتی ہیں
اور اپنے حصے کا رزق حاصل کرتی ہیں اور پھر واپس چلی جاتی ہیں۔اقبال بتارہے
ہیں کہ اللہ کے خاص بندے اُس کے جمال کے دیدار میں محو ہوتے ہیں اور اُسے
چھوڑ کر دنیا میں آنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اس لیے کافی عرصے کے بعددنیا
کو کوئی دیدہ ور نصیب ہوتاہے۔ اقبال بھی ایسے ہی دیدہ ورہیں۔نبی اکرمﷺ نے
فرمایا ہے کہ جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے اس وقت بھی ان کا وجود
تھا۔ظاہر ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور جتنا زیاد ہ وقت گذارتا ہے اُتنا ہی وہ
صفات الٰہی سے آشنا ہوجاتاہے۔اسی لیے ارشاد ہے : تخلقو بااخلاق اللہ یعنی
اللہ تعالٰی کے اخلاق اختیار کرو۔ امام غزالی ؒ نے احیاءالعلوم کی تیسویں
جلد میںموت کے بعد صحابہ اورعلماءکو پیش آنے والے واقعات لکھے ہیں۔لکھتے
ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے امام احمد بن حنبل کو طلب فرمایا اور کہا: ’ میں تم
سے خوش ہوں۔ مانگو کیا مانگتے ہو؟ ‘ امام حنبل نے عرض کیا : ’ یا اللہ میں
آپ کے بے مثال جمال کا دیدار کرناچاہتا ہوں ‘ ۔ پس امام احمد بن حنبل کو
عرش کے قریب جگہ عطاکردی گئی جہاں سے وہ اللہ تعالیٰ کادیدار کرتے رہتے ہیں۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کا انکشاف درست ہے۔ ایک اور مقام پر
اقبال نے لکھا ہے کہ انسان کاملﷺ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں اور اس نسبت سے
تمام مومنین اللہ کے مقبول و محبوب بندے ہیں۔لہذا نسان کو چاہیئے کہ اپنی
اہمیت کو فراموش نہ کرے۔ اپنی اہمیت کے اس احساس کو انہوں نے خودی کی
اصطلاح میں بیان کیاہے:
خودی کو کربلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتاتیری رضا کیا ہے
اسی خیال کے پیش نظر وہ آگے کہتے ہیں:
تو اپنی سرنوشت خود اپنے قلم سے لکھ
کہ خالی رکھی ہے خامہ حق نے تیری جبیں
تقدیر کا یہ تصور مولویانہ تصور سے بالکل جدا ہے جس میںانسان مجبور محض ہے:
خدا معلوم یہ کیا ہے خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بناکرتقدیر کابہانہ
قدر کے معنٰی اندازے کے ہوتے ہیں۔یعنی آدمی کے شوق و رحجان کو دیکھ کر اُسے
جس چیز کاشوق ہوگاوہ اُسے عطاہوتی رہے گی۔دور غلامی سے مسلمانوں میں جو
احساسِ بے بسی پیدا ہو ا اُس نے ایک طرف انہیں میرتقی میر کی طرح بے بسی
اور لاچاری کا شکار بنادیا:
ناحق ہم مجبوروں پہ یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سوآپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
اور دوسری طرف ان میں ایسے جعلی نبی کھڑے کردیئے گئے جو کہنے لگے کہ جہاد
کا زمانہ گذر چکا ہے ۔ حالانکہ اس جھوٹے نبی کی ہلاکت کے بعد پہلی اور
دوسری عظیم جنگیں لڑی گئیں جن میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے۔اقبالؒ نے جھوٹے
نبی غلام احمد پر تنقید کرتے ہوئے کہا:
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تاکمر
حق سے اگر ہے غرض تو کیازیباہے یہ بات
اسلام کا محاسبہ یورپ سے درگذر
اقبال کو اللہ تعالیٰ نے جو بصیرتِ مومن عطا کی تھی ان کے سبب انہوں نے
دنیا کو درپیش مصائب کی حقیقت کا ادراک کرلیا تھا اور جان گئے تھے کہ فرنگی
کا مسلط کردہ نظام دراصل ایک شیطانی نظام ہے جس کا مقصد فساد فی الارض
ہے۔اسی لیے امت کو آگاہ کرنے کے لیے انہوں نے ’ ابلیس کی مجلسِ شوریٰ ‘
لکھی ۔اِس نظم میں اقبال نے گویا مسلمانوں کی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان کے مرض
کی تشخیص کرلی اور انہیںشیطان کی ٹیم کے منصوبوں سے آگاہ کردیا۔ ابلیس
کہتاہے:
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیرو کلیسا کا فسوں
میں نے ناداروں کوسکھلایا سبق تقدیرکا
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں
ابلیس کا مشیر کہتا ہے:
یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیںتمام
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہوکے رہ گئی ہے مومن کی تیغ بے نیام
دوسرا مشیر کہتا ہے:
خیر ہے سُلطانی جمہور کاغوغا کہ شر
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں باخبر
پہلامشیر پھر کہتا ہے:
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خودشناس و خود نگر
مجلس ِ ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پر ہو جس کی نظر
تونے کیا دیکھا نہیںمغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
تیسرا مشیر کہتا ہے:
روحِ سلطانی رہے باقی تو پھر کیااضطراب
ہے مگر کیا اُس یہودی کی شرارت کا جواب؟
وہ کلیمِ بے تجلی وہ مسیح َ ِ بے صلیب
نیست پیغمبر لیکن در بغل دارد کتاب
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعیت کا فساد
توڑڈالی بندوں نے آقاﺅں کے خیمے کی طناب
چوتھا مشیر کہتا ہے:
توڑ اس کا رومةالکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ
آل سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب
پانچواں مشیرجواب دیتا ہے:
چھاگئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر
جس کو نادانی سے سمجھے تھے اک مشتِ غبار
فتنہ ئِ فردا کی ہیبت کایہ عالم ہے کہ آج
کانپتے ہیں کوہسارو مرغزارو جُوئبار
میرے آقا وہ جہاںزیروزبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
ابلیس (اپنے مشیروں سے )
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشاغرب شرق
میں نے جب گرمادیااقوام یورپ کالہو
کیا امامان ِسیاست ‘ کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بناسکتی ہے میری ایک ہُو
کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشان روز گار ‘ آشفتہ مغز آشفتہ مو
ہے اگر مجھ کو کوئی خطرہ تو اس امت سے ہے
جس کی خاکسترمیں ہے اب تک شرارِآرزہ
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے جس پر روشن باطن ایام ہے
مزدکیت فتنہ ئِ فردا نہیں ‘ اسلام ہے
جانتا ہوں میں یہ امت حامل قراں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں
جانتا ہوںمیں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدِبیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
عصرِ حاضر کے تقاضاﺅں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکار شرع پیغمبر کہیں
الحذر آئین پیمبر سے سو بار الحذر
حافظِ ناموس ِ زن مرد آزما مردآفریں
موت کا پیام ہر نوعِ غلامی کے لیے
نے کوئی فغفوروُ خاقاں ‘ نے فقیر ِ رہ نشین
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
اِس سے بڑھ کر اور کیا فکر وعمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں
ہر نفس ڈرتا ہوںاس اُمت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دین کی احتسابِ کائنات
ان طویل اقتباسات کے لیے قارئین سے معذرت ۔ لیکن ان کے بغیر ابلیس کی مجلسِ
شوریٰ کے معنی کھل نہیں سکتے تھے۔ اقبال کی بصیرت نے دیکھ لیاتھاکہ اللہ
تعالیٰ کی بنائی ہوئی یہ دنیا ابلیس مردود اور اس کے شاگرد دجال لعین کے
قبضے میں دی جارہی ہے۔ یہ اقبا ل ؒ کی وفات کے اسی (80) سال بعد ہونا تھا۔
لیکن اقبال چاہتے تھے کہ مسلمان اس عرصہ کا بہتر استعمال کرکے انگریز کی
غلامی سے نجات حاصل کرلیںاور دنیا کو دکھادیں کہ اسلامی نظام کیا ہے۔ آخری
چاراشعار پر غور فرمائیں۔ آج کی دنیا کے مسائل کا حل ان ہی اقدامات میں
پنہاں ہے جو اسلام کے بنیادی عقائد ہیں۔ ان عقائد پر مبنی ایک ریاست پوری
دنیا کے لیے ایک قابل تقلید مثال بن سکتی ہے۔اقبال جانتے تھے کہ اقوام
متحدہ کی پیش رو لیگ آف نیشنز ’ داشتہ پیرک ِ افرنگ ‘ ہے ۔ اور اسی کے
ذریعے عالم ِ انسانیت پر دجالی حکومت قائم کی جائے گی۔اس لیے اس نے امت ِ
مسلمہ کوفروعی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر بنیادی عقائد کے مطابق نظامِ
حیات اختیار کرنے پر زور دیا تھا۔ آپ نے دیکھا اور نوٹ کیا ہوگا کہ نام
نہاد علماءدین نے بعینہ وہی کیا جس سے اقبال نے منع کیا تھا۔ شیطان جن
الجھنوں میں مسلمانوں کو ڈالناچاہتا تھا وہ امت کے فرقہ پرست علماءنے پیدا
کیں۔ حالانکہ توحید کا تقاضہ وحدتِ ملت ہے اسلام جس کا داعی ہے۔ بہرحال
اقبال کی اس اہم اور آخری نظم سے ملت اسلامیہ کو صحیح سمت ملتی ہے ۔ کاش ہم
نے اقبال ؒ کا پیغام عام کیا ہوتا۔ |