دم توڑتا شعری سناٹا اور قمر رئیس

یہ سناٹا تو دم توڑے، ہر اک آواز آنے دو
نہ کچھ آئے، تو آواز شکست ساز آنے دو
’’ شام نوروز‘‘ بلیغ فکرو شعور کے تر جمان پروفیسر قمررئیس کے شعری سفر کا سراغ دیتی ہے حالانکہ لفظ ’’ شام نو روز‘‘ پیری اور شب زیست کا استعارہ ہے لیکن اس کی شاعری کے اندر جاگیر داروں کے ظلم و ستم ، دستکاروں اور کسانوں کی مفلوک الحالی ، قومی اور جغرافیائی سرحدوں کا ا نہدام اور انسانیت کا معتبر و مستند تصور پنہاں ہے۔ قمر رئیس جن کے قلم کی جنبش سے تخلیق و تہذیب کی گنگا بہتی ہے ۔ مجموعے میں بھی انہوں نے زندگی پر محیط کئی دہائیوں کی سرگذشت کا راز افشا کیا ہے جو اقوام عالم کے فن جمالیات اور زندگی کا افسانہ بیان کرتی ہے ۔ مجموعے کے نام کے حوالے سے شاعر کا یہ شعر کتنا سچا ہے کہ ؂
میں اب تک دن کے ہنگاموں میں گم تھا
مگر اب شام ہوتی جا رہی ہے

شاعر کی شخصیت اتنی اظہر من الشمس ہے کہ اس پر سوانحی نوٹ لکھنا تضیح اوقات کے سوا اور کچھ نہیں کیونکہ ہم سب جانتے میں کہ موصوف کو ادب اور شعرو شاعری وراثت میں ملی ہے انہوں نے وراثت لوح و قلم کو صرف اپنے لئے استعما ل نہیں کیا، بلکہ ملک ہی نہیں بیر رون ملک تک میں اس وراثت کی امانت کو تقسیم کرنے کا کام کیا ہے اور آج جب وہ شاکی ہیں اپنی عمر بھر کی کاوشوں کے تو حالت یہ ہے کہ دنیا بھر میں ان کے ہزاروں شاگردان کے ذریعہ و دیعت کئے ہوئے علم و ادب سے گہوارۂ تہذیب و ثقافت کو مالا مال کر رہے ہیں۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک پروفیسر قمر رئیس کی کاوشوں کا ذکر کرنے کے لئے یقینا کوئی ایک مضمون کافی نہیں اس لئے اپنی قلم کا رخ صرف ان کی شاعری کی طرف موڑتا ہوں لیکن کیا میں انکی اس شاعری کا احاطہ بھی کر سکتا ہوں جس کا دائرہ تقریباً نصف صدی تک پھیلا ہوا ہے ؟ اور وہ نصف صدی بھی ایسا ہنگا مہ خیز جس میں جنگ آزادی سے لے کر بٹوارے تک کے خونچکاں واردات کا زہر ہے ساتھ ہی ان ادوار میں ادب میں بھی جتنے کا ر زار گرم ہوئے ہیں شاید ہی کسی اور صدی میں اتنے پئے بہ پئے ہنگامے ہوئے ہوں ۔ ترقی پسند تحریک سے شروع ہوکر ما بعد جدیدیت تک کے بدلتے ہوئے ادبی رجحانات کے مابین ان کی شاعری مسلسل سفر کرتی رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی شاعری پر ترقی پسند تحریک کاررنگ گہرا چڑاھا ہے اور کیوں نہ چڑھے کہ اس تحریک کے عنا صر کا تعلق انسانی اقدار و تہذیب کا مکمل احاطہ کرتی ہے ۔ ان کی شعری کائنات میں تازگی شادابی اوررنگارنگی جہاں سورج کی جگمگاتی روشنی کی طرح حکمرانی کرتی ہے ۔ وہیں انہیں ایشیا کا روشن اور گرم سورج بہت پیارا لگتا ہے ۔ ان کی شاعری میں صنف نازک کو ایک خاص انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرقی تہذیب ان کے رگ رگ میں جاری و ساری ہے ۔ وہ محبت کے روایتی تصور کے بجائے زندہ اور شاداب عشق کے قائل ہیں ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں عورت کو لطافت کا ستودۂ صفات مجسمہ بنا کر پیش کیا ہے اور عشق کو حاصل زندگی قرار دیا ہے ان کی ایک نظم ’’ ایک آرزو‘‘ میں جو والہانہ پن ہے وہ میرے بات کی دلیل ہے ؂
جس درپن کے سامنے، اکثر دلہن بن کر تم سجتی ہو
جس آسن پر بیٹھ کے ، پہروں،گھنگروں بن کر تم بجتی ہو
جس آنگن میں ، اپنے چنچل پیروں کی مہدی رچتی ہو
اس درپن پر
اس آسن پر
اس آنگن میں
اپنے نینوں کے کجرے سے
اپنے ہونٹوں کی لالی سے
تن کی جھومتی ہریالی سے
ہاتھوں کی نازک ڈالی سے
نام اپنا ایسے لکھ جاؤ
موسم بدلیں
برف پڑے یا بادل بر سیں
صدیاں گزریں، یا جگ بیتیں
کوئی اس کو مٹانہ پائے
انجانے میں
چپکے چپکے
جیسے تم نے
کالے کیسوں کی کا لک سے
جلتے ہونٹوں کی رنگت سے
پینی پلکوں کے خنجر سے
ایک بوڑھے چھتنار پیڑ کے
ہرے بھرے تن پر لکھا ہے
البیلے من پر لکھا ہے
اپنا نام

ان کی شاعری میں دھڑ کنوں کو تیز کردینے کی صلاحیت ہے اور ان کے لہجے میں صوفیانہ لئے صاف محسوس کی جاسکتی ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان کی شاعری کا یہ لہجہ انہیں شاہ جہاں پور نے دیا ہے ۔ یہ وہ دیار ہے جہاں ان کی پیدائش ہوئی ہے اور یہ وہی جگہ ہے جو عہد و سطیٰ کی سب سے بڑی صوفیانہ تحریک بھکتی آندولن کا مر کز و محورر ہی ہے جہاں کی فقرودرویشی کی روحانی روایت نے ہندوستانی فلسفے موسیقی ، راس لیلا اور گیت نے ہندوستان کے ادب کو خاص طور پر متا ثر کیا ۔ موصوف کا سال پیدائش بھی نئی شاعری اور نئی تنقیدی فکر کے طلوع کازمانہ ہے جو اردو شعر و ادب کی تاریخ میں نشان منزل کی حیثیت رکھتے ہیں۔اردو شاعری پر فکری اور فنی اعتبارسے سنجیدہ گفتگو، اس میں انسانی معاشرے کی بہتر اقدار کی تر جمانی ،زبان کے حسن و قبح پر نئے نقطۂ نگاہ کے ساتھ گفت و شنید اردو شاعری کو انفرادی و معاشرتی فکر کے بعض کثافتو ں اورا ٓلودگیوں سے پاک کرنے کی کوشش اسی زمانے میں شروع ہوئی ۔ اس زاویہ نگاہ اور اس کے جو ازوعدم جو از پر مباحثے اسی زمانے میں شروع ہوئے ۔
قمررئیس نصف صدی سے زیادہ عر صے سے اردو زبان و ادب کے قافلہ سالارہیں انہوں نے زندگی کے اسرارور موز کو اپنی شاعر ی میں حکمت عملی کے ساتھ بر تا ہے ۔ ان کی شاعری میں جہاں ہمارے عہد کی زندگی سانس لیتی ہے وہیں کلاسیکی روایت کے جوہر کی چمک بھی آنکھوں کوخیرہ کرتی ہے۔ ان کے لہجے میں وار فتگی ہے ، سوز ہے، اپنا پن ہے اور ایک خاص قسم کی حلاوت ہے جو دلوں کو ہیجان سے بچاتی ہے۔لیکن گداخت کرتی ہے ۔ ان کے تجربات عام انسانوں کے تجربات ہیں ۔ جن کی ترجمانی انہوں نے کائنات کے واسطے سے کم اپنی ذات کے واسطے سے زیادہ کی ہے ۔ موصوف معاملات غزل کی راہوں سے ایسے گذرتے ہیں جیسے دیگر شعرا گذرتے ہیں لیکن ان گز رگاہوں کی نمائندگی وہ اپنے ماحول کی روشنی میں کرتے ہیں اور روایتی فر سودگی سے دامن کشا فکری توانائی سے انہیں منزہ کرتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں جہاں روایتوں کا احترام ہے وہیں زندگی کے بدلتے ہوئے اقدار پر نظر ڈالی ہے ۔ روایتوں کی پر چھائیں اس امر کا ثبوت ہیں کہ وہ معاشرہ کا حصہ ہیں۔ جہاں شاعر نے زندگی کی حقیقتوں کا اعادہ کیا ہے اور ان حقیقتوں میں لطف و انبساط کے ساتھ کرب و درد کی تصویروں کو بھی ابھار ا ہے ؂
شاید نو دس کا سِن ہوگا
میں نے تجھ سے پیار کے پینگ بڑھائے تھے
کچھ سہما سہما سا ،
تیری گود میں ، دوڑ ا آیا تھا
تونے پیار سے ، پانی کی تھپکی دے دے کر
تن من مراجگایا تھا
گرم ہواؤں کے تپتے جھونکوں سے بچا کر
ٹھندی لہروں کی دھاروں سے
خوب مجھے نہلایا تھا
اکثر فالیزوں سے توڑ کر
کچے پکے خربوزوں سے
باغوں کی شاخوں سے اچک کر
خوش رو، گدّر آموں سے
میں نے تجھے سجایا تھا
تیری ٹھنڈک سے یہ پھل
کتنے شیریں
کتنے شیتل ہو جاتے تھے
منہ میں رس بھر جاتے تھے
جیٹھ کی تپتی دھوپ میں ، اک دن
یاد ہے تجھ کو
تیرے ہی پہلو میں ، میں نے
اک میلی سی ، بھیگی بھیگی ساڑی پہنے
ایک سلونی سی لڑکی کے
تن کو ہاتھ لگا یا تھا
لو کے تیز تھپیڑوں میں محسوس ہوا تھا
ہم دونوں پر جیسے
سورگ کا سایہ تھا
برکھا رُت کی طوفانی موجوں میں تیری
میں اکثر بہہ جاتا تھا
ایسا ہی اک سانحہ اب تک یاد ہے مجھ کو
تیرے تٹ کے پودوں کی شاخوں میں الجھی
میں اک گوری سی عورت کی
ننگی لاش سے ٹکرایا تھا
خوف سے کتنا گھبرا یا تھا
اس عورت نے ، جس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں
مجھ کو کتنا دہلا یا تھا
کئی دنوں تک
مجھ پر ، انجانی دہشت کا سایہ تھا
تیرے ساتھ
مرے بچپن کی ساری یادیں
میری نوعمری کے ، خواب
جو بہہ بہہ کر آتے ہیں
تیری طرح
جینے کی امنگیں لاتے ہیں
تو میری ہمجولی، ساتھی
میرے من آنگن میں اب تک بہتی ہے
میرے اندر رہتی ہے

قمر رئیس کی شاعری میں سب سے غالب تصور کا ئنات کے گوشے گوشے میں حسن مطلق کی جلوہ گری اور دنیاکی بے ثباتی ہے ۔ موصوف نے کائنات کے خالق کے جمال کی جھلک جملہ مظاہر فطرت میں دیکھی ہے ۔ اس قوت مشاہدہ کی بدولت ان کی شاعری میں آفاقیت پیداہوئی ہے ۔ انہوں نے ان کو حد و دزمان و مکان اورا متیاز رنگ و نسل سے اوپر اٹھ کر ساری انسانیت کو محبت کرنے کاشعور عطا کیا ہے اور اسی کے با عث انہوں نے دل کی عظمت اور انسانیت کے احترام کے نغمے فضا میں بکھیرے ہیں اور قطرہ میں قلزم بند کرنے کی حکمت و ہنر سیکھی اور پیدا کی ہے بے ریائی ،پاکیزگی قلب، خلوص نیت، اور حسن عمل کو دنیا کی سب سے بڑی دولت قرار دیا ہے ۔ یہ کائنات اپنی تمام عشوۂ طرازیوں اور جلوہ سامانیوں کے با وجود انہیں ایک فریب نظر معلوم ہوتی ہے اور انہوں نے بڑے اعتماد و یقین کے لہجے میں اسی بنا پر مینائے نیرنگی دوراں کو طاق نسیاں پر رکھنے اور حرف حسن مطلق کی تابش جمال کو منتہائے نظر بنانے کادرس دیا ہے ۔ موصوف کا فلسفہ یہ ہے کہ ہر کام میں احتیاط لازم ہے افراط سے پرہیز کر و اور صرف دنیاوی لذتوں پر جان و دل نچھاور نہ کرو کسی کی برائی نہ کرو نہ سنو اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ دو جب تک زندگی ہے خوش رہو اور ہر ایک سے نیکی اور صلہ رحمی کرو ان کے کلام میں یہ باتیں اتنے شاعرانہ انداز میں پیش ہوئی ہیں کہ ان پر کہیں بھی تلقین کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ان کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی او ر انسانی حیات مختصر کی اصل غرض و غایت پوشیدہ ہے اور ان کا یہ نقطۂ نظرا نہیں اپنی تہذیب کے اس واضح رجحان سے ملا ہے جس کے مطابق یہ دنیا صرف ایک گزرگاہ ہے یا عارضی قیام گاہ ان کی شاعری انسانی اخوت اور ہمدردی کا بلند اور با عظمت تصور پیش کرتا ہے ۔ صوفیائے کرام نے بھی اسی تصور کی روشنی میں سارے انسانوں کوسینے سے لگا نے اور دل کے آبگینہ کو ٹھیس نہ پہنچانے کا سبق دیا ہے ۔تصوف کی ساری عمارت اسی احترام آدمیت، تجلیّ حق اوردرد انسانی کے مضبوط تصور پر کھڑی ہے ۔ ان کی شاعری میں دل کی عظمت اور انسان سے محبت کا ایک سیل رواں ٹھا ٹھیں مارتا نطر آتا ہے ۔ انہوں نے عظمت آدم کے تصور کے ذریعہ انسانی زندگی کی بے ثباتی اور فنا کے تصور سے ایک توازن پیدا کیا ہے تا کہ انسان میں خود سری اور تکبر کے عناصر پروان نہ چڑھیں ؂
کہاں چھپا ؤں اسے، کس طرح بچاؤں اسے
چراغ ایک، ہوا تیز، اور اندھیری رات

فراغ جسم کا ، دل کا سکوں ، نظر کا قرار
تمہارے دردکے دشمن ہیں، یہ سبھی حالات

میں اس مقام پہ پہنچا ہوں ، ان دنوں کہ جہاں
نہ کاہش غم دوراں ، نہ کاوش غم ذات

بس اک حلش کے سوا، ایک آرزو کے سوا
عجیب شہر خموشاں ہے، شہر احساسات

داغ دامن کے تو دُھل جائیں گے، سب اک دن مگر
ایک دھبہّ، ہے جو خون دل میں تر، رہ جائے گا

اے فسون آگہی ،یہ بد دعا کس کی لگی
آدمی ہی ، آدمی سے بے خبر،رہ جائے گا

صدائے نغمۂ گل ہے ، بصد انداز آنے دو
فضائے خیمۂ جاں میں ، چمن کا راز آنے دو

بہ طائر اونگھتے رہتے ہیں ، بیٹھے سبز گنبد پر
اگر چگ لیں کہیں سے ، ہمت پر واز، آنے دو
Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 119475 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More