ہم چشم براہ ہیں
سر سبز و شاداب کرناٹک.... جنوبی ہندوستان کی ریاستوں میں سے ایک خوبصورت
ریاست ہے۔ اِس کے میدانی علاقے، اِس کے جنگلات اور اِس کے ساحلوں جیسے
قدرتی وسائل و مناظر کی خوبصورتی ہی نے نہیں ، اِس کے خوبصورت وخوب سیرت
باسیوں نے بھی اِ سے خوبصورت بنایا ہے۔ زندگی کے ہر میدان میں اِس خوبصورت
ریاست کے خوب سیرت لوگ ہر لحظہ مصروف کار رہتے ہیں اور ریاست کی شان میں
اِضافہ کرنے میں اپنا حصہ ادا کر رہے ہیں۔ اِس کے باکما ل و باصلاحیت افراد
ہر روز ترقی کی ایک نئی پائیدان پر قدم رکھتے ہیںاور اپنی صلاحیتوں کا لوہا
منواتے ہوئے زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔اِن باصلاحیت افراد میں اُردو
کے شیدائی حیدر نواز بھی ایک ہیں، جنہیں اللہ نے قلم کی دولت سے مالامال
ہے۔مختلف عصری موضوعات پر لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔اِن کے اِن مضامین
کا پہلا مجموعہ” عکسِ کائنات“ چھپ کر تیار ہے، جسے جناب حشمت اللہ کلکتوی
نے خود اُن کے بقول ”بڑی لگن، جتن اور استقلال“ کے ساتھ” مضامین کے اِس
گلدستہ“ کو ترتیب دیا ہے اور عنقریب کسی مناسب تاریخ کو اِس کے اِجراءکی
تقریب شہرِ گلستاں میں منعقد ہوگی،اِنشاءاللہ، جس کی تیاریاں زور و شور سے
جاری ہیں۔
جناب حید رنواز صاحب کا نام اخباربیں طبقے کے لیے کوئی غیر معروف نام نہیں
ہے۔ ریاست کے قارئین ایک عرصہ سے حید ر نواز کے مفید ، معلوماتی و گراں قدر
تحریروں سے مستفید ہو رہے ہیں، جن میں راقم الحروف بھی شامل ہے۔بقول منیر
احمد عادل صاحب ، قلمکار حید رنواز” شگفتگی کے ساتھ منفرد لب و لہجے“ کے
مالک ہیں اور”مضامین میں ورائٹی اور تنوع لانے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں....“۔حیدر
نواز کے بارے میں منیر عادل صاحب کا یہ جملہ کہ....”حیدر نواز جیسے لوگ
ریگستان میں نخلستان کے وجود کی حیثیت رکھتے ہیں“.... حقیقت کا آئینہ دار
ہے۔حیدر نواز ایک اچھے قلمکار ہی نہیں ایک باکردار اور شریف انسان بھی
ہیں۔بقول ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی:” حیدر نواز بنگلوری کے سبھی مضامین
میں صالح میلا ن کی تہذیب ملتی ہے۔“
حیدر نواز کا کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے ساتھ حرکت پذیرہیں اور شاید یہی
سبب ہے کہ اُن کا قلم زندگی کی ہر ہلچل سے تعرض کرتا ہے اور نتیجتاً کوئی
نہ کوئی مضمون قارئین کے لیے تخلیق ہو جاتا ہے۔ امریکہ سے شمیم علیم صاحب
اِسی خیال کے حامل نظر آتے ہیں۔ وہ عرض کرتے ہیں:”وہ(حیدر نواز) اپنے قلم
سے ہر اس موضوع پر گل فشانی کرتے ہیں جو دور حاضر کا ایک اہم مسئلہ ہے اور
آج کے دور میں اہمیت رکھتا ہے۔ اِن مختلف موضوعات کے تعلق سے وہ تمام
معلومات قارئین تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔“
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر لمحہ اُن کا ہاتھ کاغذ اور اُن کی اُنگلیاں قلم
تھامے ہوئے ہوتی ہیں اور جیسے وہ چلتے پھرتے مضامین لکھتے ہیں،چنانچہ بقول
ڈاکٹر مناظر ہر گانوی :” حیدر نواز کے مضامین معلومات کا خزانہ ہوتے ہیں۔
کھیل، فلم ، تعلیم، سیاست، مذہبی جنون، اہم شخصیات، ہندوستان کی ترقی اور
مسائل ، ہندوستانی ریلوے اور بھوپا ل گیس جیسے موضوعات ایسے ہیں جن سے
قارئین کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔“
حیدر نواز کے مضامین میں موجود سیدھے سادھے اور غیر پیچیدہ جملے قارئیں کو
جکڑ لیتے ہیں ، تاآں کہ قاری اِن کا مطالعہ مکمل کرلے اور اِن کی محنتوں کو
اپنا خراج پیش کرنے کے قابل ہو جائے۔ نامور صحافی ، ماہرِ تعلیم اورمولانا
ابو الکلام آزاد مرحوم کے پوتے جناب فیروز بخت احمد صاحب نے بھی حیدر نواز
اور اِن کے مضامین کے بارے میں تقریباً اِن ہی احساسات کا اِظہار کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں:”مضامین میں بلا کی کشش ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص اگر اُس کو
پڑھنا شروع کردے تو جب تک اختتام پذیر نہ ہو جائے، تب تک اُس کو دِلی تسکین
نہیں ہوتی۔“
اِ س کا سبب یہ ہے کہ پہلے تو وہ اِختصار سے کام لیتے ہیں پھر وہ اپنے مو
ضوع کے اِظہار میں دلچسپی پیدا کرتے ہیں۔ نذیر احمد یوسفی آسنسول، نے مضمون
نگار کے بارے میں کتنی سچی بات کہی ہے:”حیدر نواز ان معلومات کے اِظہار پر
یقین رکھتے ہیں کہ قاری تک کچھ نئی باتیں پہنچائی جائیں، چنانچہ اس کے لیے
وہ صرف انہیں باتوں کو لفظیات کے سہارے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والے
کی دلچسپی قائم رہے اور پیمانہ پسند چھلک کر بے زاری تک نہ پہنچے۔“
سچی بات تو یہ ہے کہ حیدر نواز دورِ حاضر کے مصروف اِنسان کی مجبوریوں سے
واقف ہیں، جس کے پاس فرصت نہیں رہتی اور چنانچہ حیدر نواز مختصر مضامین ہی
میں معلومات کا ڈھیر لگا دیتے ہیں،یعنی وہ بقول سابق کرکٹر سید کرمانی”کم
الفاظ میں بہت کچھ کہہ دینے“ کا ہنر جانتے ہیں۔اُن کے مضامین کا تنو ّع کس
قدر حیران کن ہے اِس کا اندازہ ہم سابق کرکٹ آل راﺅنڈرسلیم درّانی کے اِن
الفاظ سے لگا سکتے ہیں: ”جس طرح گیری سوبرس کرکٹ کے بہترین آل راﺅنڈر ہیں،
اِ سی طرح حیدر نواز کو بہترین آل راﺅنڈر قلمکار کہہ سکتے ہیں۔ “
حیدر نواز نے” اپنی بات“ کے عنوان سے ”عکسِ کائنات“ میں جو کچھ لکھا ہے وہ
اُن کی منکسرالمزاجی کا آئین دار ہے۔ کتاب کی ترتیب و اِشاعت سے پہلے وہ
راقم الحروف سے کئی ملاقاتیں کیں او ر اِس شریف النفس اِنسان نے اپنے اِس
احساس کو ہم تک پہنچایا کہ وہ خود اپنے بارے میں لب کشائی کے سلسلے میں ایک
شدید جھجک کا احساس رکھتے ہیں۔ وہ تو کہیے کہ ہمارا اِصرار رنگ لایا اور
وہ” اپنی بات“ کے ضمن میں اپنے احساسات و تجربات کورقم کرنے پر آمادہ ہوئے
۔ورنہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ وہ” اپنی بات“ کے بغیر ”عکسِ کائنات “
کو منظر عام پر لانے پر مصر تھے۔اُسی لمحے موصوف کے حق میں بطور ِ دُعا یہ
چار سطریں ہماری نوکِ قلم پر جار ی ہوئیں :
حید ر نواز ....علم کا پیکر بنا رہے
علم و ہنر کے شہر کا سرور بنا رہے
اللہ سے دُعا ہے کہ حیدر نواز کے
سایہ خدا ئے پاک کا سر پر بنا رہے
اُن کی اولین پیش کش”عکسِ کائنات “ کے لیے عزت مآب ریاستی وزیرِ اعلیٰ جناب
جگدیش شٹر جی نے بھی اِن الفاظ میں حیدر نواز صاحب کے لیے نیک خواہشات کا
اِظہار فرمایا ہے:”عکسِ کائنات مختلف سماجی عناوین پر مشتمل ایک ایسی کتاب
ہے جو دل کو چھولے گی، اِس کتاب کے مصنف سید حید نواز کو میں دِلی مبارک
باد پیش کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ عکسِ کائنات سماج میں خوشگوار
تبدیلی کے لیے کار آمد ثابت ہوگی ، میری نیک خواہشات ہمیشہ مصنف کے ساتھ
ہیں۔“
آخر میں ہم،”پندرہ روزہ نیوز پیبر کرناٹکا مسلمس“ کے ایڈیٹر، برادرم سید
تنویر احمد صاحب کی اِس اُمید میںخود کو شامل کرلیتے ہیں کہ” قارئین اِس
علمی سرمائے کی قدر فرمائیں گے“.... اورمیں اللہ سے دعا گو ہوں کہ وہ حید
رنواز کے قلم پر اپنی رحمتیں و برکتیں نازل فرمائے اور قوم و ملت کے لیے
اِن کی تحریری کاوشوں کو مفید بنائے۔آمین۔ |