امام غزالی کی علم کلام پر شہرہ آفاق تصنیف ’’الاقتصاد فی الاعتقاد‘‘ کاایک تجزیاتی مطالعہ (۱ )

الاقتصادفی الاعتقاد،ابو حامد محمد بن محمد بن محمد الغزالی رحمہ اﷲ علیہ کی علم کلام کے مو ضوع پر ایک بے مثال اور معر کۃ الآرا تصنیف ہے ،جو اول تا آ خرنقلی ،عقلی ،فلسفیانہ ،منطقیانہ اور علمی دلا ئل و برا ہین سے مزین و مُرَصَّعْ ہے۔کتاب کی سب سے بڑی خو بی یہ ہے کہ یہ مختصر رسا لہ علمِ کلام کے تقریبا تمام اختلافی مسائل کے حل کاعدیم المثال مجموعہ ہے جو افراط و تفریط سے خالی پورے اعتدال کے ساتھ مختلف فیہ نظریات کا ٹھوس حل پیش کر تا ہے ۔یقینا کتاب کے مطالعے سے مسائل کے سیکڑوں زاویے روشن ہو کر قارئین کے ذہن و فکر کے دریچے کھولتے چلے جا تے ہیں اور پھر وہ ڈنکے کی چوٹ پر دیے گئے غیر معمولی اعتماد سے لبریزدر جنوں دلائل سے واقف ہو تے چلے جا تے ہیں اور با لآخر وہ اہل سنت وجما عت کا مو قف جس کا تما م فر قۂ با طلہ پر فوقیت و بر تری اس کتاب کی غر ض و غا یت ہے اس کے بر حق ہونے پر غیر متزلزل ایمان و ایقان کا سامان کر لیتے ہیں ۔

یہ بات ذہن نشیں رہے کہ یہ کتاب عوام النا س کی رعایت کر تے ہوے نہیں لکھی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتا ب کے اکثرو بیشتر دلا ئل خالص علمی اور سائنسی ہیں ۔یہ کتاب در اصل ان لو گوں کو ساکت و جامد کر نے کی غر ض سے تصنیف کی گئی ہے جو خا لص عقلی اور فلسفیا نہ انداز میں امت مسلمہ کے ایک بہت بڑے طبقے کو اسلامی عقا ئد کے حوالے سے ذہنی کشمکش میں مبتلا کر چکے تھے ۔اس لیے بھی با ت بالکل علمی اور تا ریخی ہو گئی ہے ۔ساتھ ہی علم کلام چو ں کہ فر ض ِکفایہ ہے جو صرف ایک مخصوص طبقہ کے لیے روا اور زیبا ہے اس لیے یہ مخصوص جما عتی معیار بھی اس فن پر علمی اور استدلالی بحث کا متقاضی بن گیا۔الحا صل یہ کتاب من جملہ ہر کس و ناکس کے لئے براہ راست مفید نہیں ہو سکتی۔
یہ ایک محسوس حقیقت ہے کہ وقت و حالات کے بدلنے کی وجہ سے نئے نئے مسائل جنم لیتے رہتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ ہر دور کے اپنے کچھ خاص مسائل ہو تے ہیں۔امام غزالی کے دور میں جو مسئلہ اسلام و مسلمین کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنا ہو ا تھا وہ تھا فلسفیانہ طریقے سے اسلامی عقائد پر حملہ ،اوریہ کوئی معمولی حملہ نہ تھا ۔اس نے اچھے اچھوں کو حواس با ختہ کر دیے تھے اور شاید آپ کو معلوم بھی ہو کہ اس فلسفے کو یہو دو نصا ریٰ نے خلا فتِ عبا سیہ کو صرف اسی خیا ل کے پیش نظر تحفۃ ًدیا تھا کہ مسلما ن اس سے بہت حد تک اپنے عقائد و نظریات میں متزلزل ہو سکتے ہیں ۔امام غزالی کے زما نے میں ان کا یہ ٹا رگِٹ تقریباً اپنے ہدف کو پا نے والا تھا لیکن امام اور ان کے ہم عصروں نے پورے فلسفے ہی کو یکایک مسلمان بنا دیا اور وہ فلسفہ پڑھنے کے بعد بجا ئے اسلامیات میں متزلزل ہو نے کے اسلام کے غیر متزلزل مجدد بن کر ابھرے ۔

یہ کتاب جن اسالیب وآئین کو اپنے اندر سموئے ہوے ہے وہ اس دور کے تقا ضے کے پیش نظر ہیں لہٰذا آج اس کا ماضی کے بالمقابل مفید تر نہ ہو نا کوئی عیب نہیں۔کیوں کہ آج مسائل بدل چکے ہیں ذہن و فکر کے نئے نئے بال و پر اگ آئے ہیں۔آج دنیا ڈیجیٹل انفار میشن ٹکنا لو جیکل دور میں قدم رکھ چکی ہے آج مشاہدوں کا بھی سائنسی طور پرانکارہو رہا ہے چہ جا ئے کہ وہ نظریات پر بلا چون و چرا آمنَّا وَ صَدَّقَناکہنے کو تیار ہوں ۔لہٰذا ان مختلف وجوہات کی بنیاد پر اس تصنیف کو کلیۃ تو نہیں ا لبتہ جزئی طور پر دور حاضر کی ضرورت کہا جا سکتا ہے کیو ں کہ یہ اپنے اندر ان بہت سے مضامین و مبا حث کا احا طہ کیے ہوئے جن کی افا دیت آج بھی مسلم ہیں اور کچھ مباحث ایسے بھی ہیں جو گو یا کہ آج ہی کے لیے رقم کیے گئے تھے۔ جنھیں آج ایک بار پھر ہر خا ص و عام تک پہنچا نا وقت کی بہت بڑی پکا ر ہے کہ ان با توں سے آج ملت کا بکھر تا شیرا زہ کسی حد تک ضرور مجتمع کیا جا سکتا ہے اور بیجا تَصَلُّب و تَشَدُّدْ اور آپسی خا نہ جنگی جو کہ ،تنگیٔ علم اور محدود و خشک مطالعے کی وجہ سے پنپ رہی ہے اس پر کا فی حد تک کنٹرول کیاجا سکتا ہے کیوں کہ یہ کتاب فکر و معا رف کا وہ آسما ن ہفتم ہے کہ جس کا کما حقہ مطالعہ فطری طور پر سنجیدگی ،متا نت اور نرمی کا با عث ہے۔اس کتاب میں ذہن و فکر کے پر زوں کو کھو لنے وا لے سیکڑوں مبا حث ایسے ہیں کہ جسے امام غزا لی نے رقم کر کے غیر معمولی فکری پر واز ،وسعتِ علم ،علوم دینیہ و عصریہ کے اسرار و رموزسے حد در جہ وا قفیت اور مسا ئل کے تجزیہ و تحقیق ،استنباط مسا ئل اور ان سے اَخذنتیجہ اور پھر ان کی تطبیق و تنسیق میں حیرت انگیزکمال جیسی خصوصیات وانفرادیت کا ثبوت دیا ہے ۔آج ان تما م خوبیوں سے ہم بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں اور یہی وہ مُحَرِّک و اسباب تھے جن کے پیش نظر اس کتا ب کا ایک سر سری مطا لعہ نذر قار ئین کیا جا رہا ہے لیکن قبل اس کے کہ مو ضوع پر بات ہو علم کلا م پر ایک نظر ڈالنا منا سب ہو گا تا کہ علم کلام کا مطلب و معنی اور اس کی غر ض و غایت اور وہ محر کات سا منے آجا ئیں جن کی بنا پراس علم کا جاننا از حد ضروری ہے ۔

ایک بات جو مسلَّم ہے وہ یہ کہ پورے خطۂ عالم کے مسلمانوں کی قومیت کا عنصر یاما یۂ ضمیر جو کچھ ہے وہ صرف اور صرف مذہب اسلام ہے جو ایک دوسرے کے بیچ تما م تر مسلکی، خاندانی اور سرحدی حدود کو یکسر مٹا کر ایک اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہٗ بَعْضاًاورکُلُّ مُؤْمِنٍ إخْوَۃُٗ کا انداز بے مثال پیش کر تا ہے ۔اس لیے اگر مسلمانوں کے یہاں سے مذہب کو الگ کر دیا جا ئے اور اس کی حیثیت کو ختم کر دیا جا ئے تو قومیت بھی فنا ہو جا ئے گی ۔مذہب کی اسی بنیادی اہمیت و بر تری کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں نے اسلام کو خطرات کے بادلوں سے بچانے کی لیے ہر زما نے میں امکان سے زیادہ حیرت انگیز کو ششیں کیں اور اسلام پر کبھی بھی کو ئی آنچ آئی تو وہ ما ہی بے آب یا مرغ بسمل کی طرح اس کے دفا ع میں تڑپ اٹھے اور دفا عی جذبات کا عالم یہ تھا کی دفا عی نظام کی تاریخ ہی بدل ڈا لی۔ جنگ و غزوات کی نو بت آئی تو ایسے بے مثال کا ر نا مے انجام دیے کہ ماضی کے تمام تر جنگی اصول و قوانین ہی تبدیل کر دیے ۔مثال کے طور پر دیکھیں کہ اکثر مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہو اکہ یہ دفا عی پوزیشن میں رہے۔کیوں کہ آغا ز جنگ ان کی طرف سے نہ کے برابر ہو ئے ۔ دفا عی اصو ل کا تقاضا تو یہ تھا کہ ان کی تعدا د زیادہ ہو تی ان کا اپنا ایک فو جی اسٹریٹیجک ہو تا ، یو نیفارم ہو تا ، مشق و ممارست کے شعبے ہو تے ، صرف کڑیل جوانوں کی حصہ داری ہو تی ، اصلحے اور رسد بمقابلہ ٔدشمن زیادہ ہو تے لیکن تا ریخ نے دیکھا کہ دشمن کے مسلح نو جوا ن فو جی قوتوں کے مقا بلے میں مسلمان ہمیشہ تعداد و اصلحے میں کم اور غیر تربیت یا فتہ ہو نے کے با وجودبس ایک جذبۂ جہاد سے سرشارہوکر ہر چھوٹے بڑے اور بوڑھے نے بلا امتیاز اور بلا کسی مستقل ضابطے کے میدا ن کا ر زار میں اتر آئے لیکن معاملہ ہر جگہ کَمْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْٰ فِئَۃً کَثِیْرَۃًکی مصداق ٹھہر ا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ان کا مذہب سے غیر معمولی حد تک لگاؤ اور ہر چیز سے بڑھ کر ذہنی اور قلبی تعلق ہو تا ۔ کچھ ایسی ہی دلچسپی امام غزالی اور ان کے ہم عصروں نے فلسفے کے مقابلے میں دکھا ئی اور اسلامی عقائد کی بر تری کو کما حقہ ثابت کردیا۔

جب اسلامی فتوحات خلیفۂ ثانی کے زما نے میں سر زمین عرب سے نکل کر ایران و روم کی سر حدوں تک جا پہونچیں اور بنو امیہ اور بنو عباس کے زما نے میں اس میں مزید وسعت ہو ئی تو یو نا ن و فا رس کے علمی ذخیرے زبا ن عر بی میں منتقل ہو نا شروع ہو ئے لیکن اس کے ساتھ ہی تما م قو موں کو مذہبی بحثوں اور مناظروں میں تمام تر آزادی مل گئی جس کے نتیجے میں پار سی ، عیسائی ،یہودی ،اور زندیق فر قے ہر طرف سے اسلام کے خلا ف اٹھ کھڑے ہوئے اور انتقام کا قلم ہاتھ میں لیکر اسلامی عقائد پر نکتہ چینی کر کے مسلمانوں کے عقائد میں لغزش پیدا کرنا شروع کر دیے۔ مسلمانوں نے بھی اپنی تمام تر بالادستیوں کے باوجود انھیں بزور شمشیر سر ِنگوں کر نے کے بجائے ان کے قلم کا جواب قلم سے دیا کیوں کہ قلم کا جواب تلوارہو یہ ان کی فطری آزاد خیالی نے گوارہ نہ کیا۔چنانچہ علماے اسلام نے فلسفہ میں کمال پیدا کر کے دشمن کو دشمن کے ہتھیار ہی سے کچلنا شروع کیا۔ یہ انھیں فکری معرکوں کے کارنا مے ہیں جو آج علم کلام کے نام سے مشہور ہیں ۔

عرف عام میں علم کلام سے مراد وہ علم ہے جس کے جاننے سے انسان اسلامی عقائد کی تصدیق عقلی دلیلوں سے کر تا ہے چنانچہ امام غزالی نے اس معنی کے لحاظ سے بھی اسلامی عقائد کی تصدیق پر ایسے ایسے عقلی دلا ئل دیے ہیں جو یقینا سنہرے حروف سے لکھے جا نے کے قابل ہیں ۔

اس کتا ب میں علم کلام کے تمام تر مسائل کو امام غزالی نے پورے شرح و بسط کے ساتھ اپنی پو ری جگر کاوی اور عرق ریزی سے جمع کر دیا ہے اور بڑے اچھو تے انداز میں بے شمار اسرا ر بستہ کو عوام کے سامنے پیش کیاہے اور صرف عقل کے پرستاروں یا صر ف شریعت کے ظاہری صورتوں تک اپنے آپ کو محدود رکھ کر افراط و تفریط کے درمیان بھٹکنے والوں کو یہ دعوت فکر دی ہے کہ شرع و عقل میں کو ئی تضاد نہیں ۔ہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے شریعت کی نورانیت سے اپنے قلب و جگر کو منور کیا جائے اور پھر حقیقت تک رسائی کے لیے عقل کو ساتھ ساتھ چلایا جائے ۔اس لئے کہ دونوں میں سے محض ایک کو صرف مسئلے کا حل سمجھنا کوہ کندن اور کاہ برآوردن یا پھر جو ئے شیر لا نے کے مترادف ہو گا ۔

الغرض اس کتا ب کے اندر علم کلام کے ذریعہ شریعت حقہ کے تمام مسائل کو دلچسپ اسلوب میں بیان کیا گیا ہے اور اس میں ایسی ایسی خو بیاں بیان کی گئیں ہیں کہ جن سے فا ئد ہ اٹھا نا ایک مسلمان طالب کیلئے بے حد ضرو ری ہے اور خصو صا آج جبکہ مسلمان یورپ و مغرب کی کورا نہ تقلید میں اسلام سے برائے نا ہی معلق ہو کر رہ گیا ہے یہ کتاب ان کے لیے مفید ہی نہیں بلکہ انھیں گمراہیت سے نجات دلا کر صحیح اسلامی راہ پرگامزن کر نے میں معاون ثا بت ہو گی۔

مشمولات کتاب پر ایک نظر: یہ کتاب ایک خوب صورت خطبہ سے شروع ہو تی ہے جس میں حمدو صلاۃ کے بعد شرع و عقل میں عدمِ تضاد پر ایک دل کو چھوتی ہو ئی سنجیدہ گفتگو کی گئی ہے اس کے بعد بتدریج چار تمہیدات پیش کی گئیں ہیں ۔

پہلی تمہید اس بارے میں ہے کہ علم کلام میں غورو خوض کرنااور اس کی حقیقت کی چھان بین کرنا نہایت ضروری اور مہتم بالشان امر ہے بلکہ اسلام کے اعلیٰ مقاصد میں شمار کیا جا تاہے ۔ مذکور ہ دعوے پر انہوں نے بھر پور روشنی ڈالی ہے مختلف خدشات و شبہات کی طرف اشارہ کر تے ہوئے اصل مدعا ء کو ٹھوس بنیا دوں پر ثابت کیا ہے کہ’’ خدا کی ہستی اس کی صفا ت اور انبیاء علیہم السلام کی صدا قت سے بحث کر نے وا لا علم بھی علم کلام ہے‘‘ اور أخیر میں ایک خد شہ کو دفع کر تے ہو ئے لکھتے ہیں: ’’انبیاء کرام کے زبانی آئندہ پیش آنے والے واقعات کو سن کر ضرور ایک گھبراہٹ اور دنیاکی چند روزہ خواہشات کو چھوڑنے پر طبیعت آمادہ ہو جا تی ہے لیکن یہ گھبراہٹ جبلت اور مقتضا ئے طبع کا نتیجہ ہے یا مو جب شرع کا؟․․ اس پر انھوں نے ایک محسو س عقلی دلیل دیکر یہ ثابت کیاہے کہ اس قسم کے جذبات، موجباتِ شرع کے دائرہ سے باہر نہیں ہیں ۔

دوسری تمہید اس بارے میں ہے کہ علم کلام میں غور و خوض کرنا ہر ایک کیلئے جا ئز نہیں اور پھر انہوں اقوام عالم کو چار فرقوں میں تقسیم کیاہے۔

چنانچہ بتایا ہے کہ پہلا فرقہ ان لو گو ں کا ہے جو خدا کی وحدا نیت اور اس کے بر گزیدہ رسول اور اسکے اوامر و نواہی پر صدق دل سے ایمان لا ئے اور خالص اسلامی طرزِ روش پر وہ زندگی گزارہے ہیں ۔ ایسے لو گوں کو اپنی حالت پررہنا نہا یت زیبا ہے علم کلام کے پر پیچ وادی میں ان کی لیے قدم رکھنا ایک خطرنا ک اور مہیب امر ہے۔ مذکورہ دعوے پر انھوں نے صدر اسلام کے وقائع اور امثال پیش کر کے بڑی سنجیدہ گفتگو فرمائی ہے جس کو پڑھنے کے بعدقارئین کو اس علم کے حصول کے سلسلے میں احتیاط اورعدم احتیاط پر کافی رہنما اصول ملتے ہیں ۔

دوسرا فر قہ وہ ہے جنھو نے اپنی قوت عملی کا یہاں تک ستیا نا س کر دیا ہے کہ اس میں قبو لیت حق کا ما دہ ہی نہیں ۔ایسے نا لا ئق جا ہلوں اور سنگ دل مقلدین کا پیر بجز شمشیر کے اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔اس پر انھو نے ما ضی کی تا ریخ کا حوا لہ دیتے ہوے اپنے مدعا کو ثابت کیا ہے ۔کہتے ہیں کہ ان کے دل میں کو ئی با ت اتار نا محال کی حد تک مشکل ہے کیوں کہ یہ عقلی برا ہین کو سمجھنے سے ایسے ہی قا صر ہیں جیسے چمگا دڑ سورج کی روشنی سے نیز انھیں کلامِ معارف سے ایسے ہی چڑھ ہے جیسے گو ریلے کو گلاب کی خشبو سے ہو تی ہے اس لئے انھیں علم سکھا نا بھی علم کو ضا ئع کر نا ہے ۔

تیسرا فر قہ ان لو گوں کا ہے جو تقلیدی یا اجتما عی طور پر ایمان لا ئے لیکن اپنی غیر معمولی ذکا وت کی وجہ سے طرح طرح کے اشکا لات میں الجھ گئے ۔ایسے لوگ بعض دفعہ مخالفین کی ایسے لا ینحل شبہا ت سن لیتے ہیں جو ان کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ ایسے لو گو ں کے ساتھ ہمدر دی اس طریقے کی ہو نی چا ہیے کہ ان کا اعتقاد بھی درست ہو جائے اور ان کی حالت مزید اشکا لا ت کے در وا زے کھلنے کی وجہ سے بہ نسبت سا بق کے اور بھی بد تر نہ ہو نے پا ئے ۔

چو تھا فر قہ ان لو گوں کا ہے جو مو جو دہ صورت میں ضلا لت کے عمیق گڑھے میں پڑے ہیں لیکن وہ مُنْہَکْ فِی الْکُفْر اور ضدکے پکے نہیں ہیں ۔ان کا راہ راست پر آنا ممکن ہے ۔ایسے لو گوں کواسلا می رو حانیت کے زبر دست اور پر اثر را ستے دکھا کر اسلا می مر کزکی طرف کھینچ لا نا اسلام کا سب سے اعلیٰ فرض اور بعثت انبیاء کی اصل غرض ہے ۔آج مذکورہ چاروں طرح کے لو گوں کی کثرت ہے کیوں کہ ما دیت کے اس دور میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو تسکین قلب کے لئے عر فان حقیقت کا پیا سا ہے اور اس کے لئے وہ مختلف مذاہب کو قبول کر تا ہے اور پھر ہر طرف سے تھک ہا ر کر ذہنی دیوالیہ پن کا شکا ر ہو جا تاہے ۔ہمیں ایسے مضطر ب افرا د کے سا تھ آج وہی رویہ اپنا نے کی ضرو رت ہے جو اوپر مذکور ہوا ۔نیز چو تھے فر قے میں جن گروہوں کی طرف اشا رہ ہے آج ان کی اور بھی زیادہ کثرت ہے پس اب ہمیں ان کے ساتھ کس قسم کے سلوک برتنی چا ہیے اور انھیں راہ را ست پر لا نے کے لیے کون سی حکمت عملی کو اپنا طریقۂ دعوت و تبلیغ بنا نا چا ہیے نیز کن اقدار کو ہمیں بالخصوص مہمیزکر نے کی ضرورت ہے تاکہ ہم کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ کا بہتر مصداق بن سکیں ۔ان سب کے لیے امام غزالی نے اپنی وسعت فکر ،وسعت مطا لعہ ،دعوتی حکمت و فلسفہ سے حد درجہ واقفیت کی بنا پر جو غیر معمولی سنجیدہ سخن وری ،نرم و گداز انداز بیانی اور شیریں کلامی کا ثبوت دیا ہے یقینا وہ آج ہما رے لیے اپنی شیرا زہ بندی اور اتحاد بین المسلمین کے لیے جہاں سب سے بہتر نشان راہ بننے کے قا بل ہیں وہیں ہمیں ان کے راہنما اصول عالمی سطح پر دعوت و تبلیغ کے قا بل بنا نے میں بھی ایک نما یاں کر دار ادا کر سکتے ہیں ۔

ذرا ان کے سوز دروں اور علما ء وقا ئدین ملت سے ان کی فر یا د کو سنیں کہ آپ کی ان سے کیا توقع ہوتی !․․ لکھتے ہیں : ایسے لو گوں کو جن کا تذکرہ ہو ا ،راہ راست پر لا نے کے لیے بالکل محبت بھرے الفاظ میں جمعیت اخلاص کے ساتھ جابرانہ اور متعصبانہ رویے سے کو سوں دور رہتے ہوے اسلا می حقا ئق کو ان تک پہونچا ئی جا ئے کیوں کہ تعصب کے پیر ائے میں اسلام کے روشن اصول کو پیش کرنا صرف ضد ،ہٹ دھرمی اور کشاکش کا باعث ہو تا ہے لہٰذیہ حکمت تبلیغ نہیں جہا لت ہے ۔کیوں کہ تعصب اور مجادلہ در حقیقت ایک ایسا مرض ہے جس کا علاج بڑے بڑ ے حاذق طبیبوں کے پا س بھی نہیں ۔آگے مزید فرما تے ہیں کہ میں پورے وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ زیادہ تر عوام کی بدعات و ناگوارامور کا ان کی طبیعت ثانیہ بن جا نے کی اصل وجہ یہی ہے کہ بعض جا ہل حق بات ان پر نہا یت جا برانہ اور متعصبانہ پیرائے میں ظاہر کر تے ہیں اور انھیں نہا یت حقارت بھری نگا ہوں سے دیکھتے ہیں جس سے نتیجۃ عوام النا س کے دلوں میں عناد اور ہٹ دھر می کی جڑیں اور بھی مضبوط ہو جا تی ہیں ۔ اس لیے علما ء کرام کو تعصب اور جدل کے برے وطیرے سے پہلو تہی کر نی چا ہیے اور بجا ئے اس کے جہاں تک ہو سکے برد با ری، حسن سلوک اور اخلاق و اخلاص سے کام لینا چا ہیے ۔عوا م النا س کو نہا یت تلطف اور رحمدلی کی نگا ہ سے دیکھنا چا ہیے پوری دنیا کو مدعو قوم تصور کر نا چا ہیے اور روحا نیت سے بالکل دور الگ پڑے عا مۂ خلا ئق کے سا تھ وہ بر تا ؤ کر نا چا ہیے جو ایک باپ اپنے اکلو تے بیٹے کے ساتھ نہا یت فرط محبت سے انھیں راہ راست پر لا نے کے لیے کرتا ہے ۔

ان کے ان جیسے چیدہ رشیدہ بکھرے پر کیف اورپر درد بیا نات کوصفحۂ قر طاس پر جا بجا پڑھنے کے بعد کوئی یہی کہہ سکتا ہے کہ اگر آج بھی ان کے بتا ئے خطوط پر چلا جائے اور ان کے مطا بق اسلام کی نشر و اشاعت ہو ،علما ء کرا م اسلام کے اخلا قی مضا مین اوراصو لوں کو خالص صلح کلی اور ملاطفت کے پیر ائے میں پیش کریں تو بہت کچھ بہتری اور کا میا بی کی امید ہو سکتی ہے کہ آج کے اس پر فتن دور میں جہاں باطل مذہب کے پیرو اپنے نظر یات کی تشہیر ،عالمگیریت ،اتحاد ،بھا ئی چارگی اور فلاح و بہبودی عامہ جیسے مختلف النوع حر بے اور چر بے کو مہمیز بنا کر بالکل منظم انداز میں کر رہے ہوں وہاں اگر ہم تعصب و تشدد اور متنفرانہ مزاج کے ساتھ خود کو پیش کریں تو ہم انھیں کہاں تک اپنی با توں سے متأثر کر سکتے ہیں یہ بتا نے کی چنداں حاجت نہیں ۔

تیسری تمہید اس امر میں ہے کہ اس علم میں مصرو فیت فر ض کفا یہ ہے ،نہ ہر آدمی اس کی صعوبتوں میں پڑ نے کا استحقاق رکھتا ہے اور نہ ہی یہ علم ایسا ہے کہ اسے با لکل پسِ پشت ڈال دیا جا ئے ۔یہ علم ضرو ری اس لئے ہے کہ اسلام مخالف شبہا ت کو اٹھا کر مخالفین اسلام کے سامنے اسلام کی صدا قت اور کفر کے بطلان پر دلائل قا ئم کیے جا ئیں اور یہ نہا یت ضروری امر ہے ورنہ تو اسلام کا سب سے بڑا کام لو گوں کے دلوں میں حقیقت ایما نیہ کا بیج بو کر شریعت کے صاف اور روشن را ستوں پر لا نا اور ان کے اندر شریعت محمدی کے گرا می قدر اکسیر سے روحا نیت کی تا زہ روح پھو نکنا ہے اور بس! رہا معتقدات اور احکام عملیہ پر دلائل قائم کر کے ان کے شبہا ت کا مکمل قلع قمع کرنا جو کہ اس علم کا مو ضوع بھی ہے تو یہ ان کے حق میں فر ض عین ہے جن کے لئے یہ کام من کل الوجوہ واقعی ایسا از حد ضروری ہو کہ اس کے بغیر مسئلے کا حل نا ممکن ہو کر رہ جا ئے ۔

چو تھی تمہید اس با رے میں ہے کہ اس کتاب کے اندر کس قسم کے دلائل ہو ں گے ۔انھوں نے نے عام طور پر تین قسم کے دلائل اس میں پیش کیے ہیں اور اس کے ساتھ ہی چھ ایسے وجو ہا ت کی طرف اشارہ بھی فر ما یا ہے کہ جنھیں پیش نظر رکھنے سے مخالف کبھی بھی آپ کی محنت کو لَا نُسَلِّم ُکہہ کر خاک میں ملا نے کی کو ئی سبیل نہیں پا سکتا ۔

پھر اس کے بعد مصنف نے یکے بعد دیگرے چار قطب (مرکزی پوئنٹ )پیش کیے ہیں پہلے میں ذات با ری سے بحث کی گئی ہے جس میں انھو ں نے دس دعوے پیش کیے ہیں ۔

(۱)خدا کی ہستی کے ثبوت میں ۔اس دعوے کے ثبوت میں انھوں نے ایسے فلسفیا نہ دلا ئل قائم کیے ہیں کہ مخالفین کی پاؤں تلے زمین کھسکنے لگتی ہے ۔سب سے پہلے دنیا کی چیزوں پر مفصل گفتگو فر ما ئی ہے کہ آیا وہ مو جود ہیں یا نہیں ،وہ بسیط ہیں یا مر کب ،حیز میں ہیں یا غیر حیز میں اور متجزی ہیں یا غیر متجزی وغیرہ وغیرہ اور اس کے بعد پھر ثبوت با ری تعا لیٰ پر دلا ئل کے دہا نے کھو لتے گئے ہیں اور سیکڑوں وارد شدہ شبہات و خد شا ت کے خد و خال نکا لے ہیں۔ ان کے انداز استدلا ل کوبتا نے کے لیے صرف ایک نمو نہ آپ کے سا منے پیش کر تا ہوں ۔ر قم طراز ہیں ’’ہم کہتے ہیں کہ زمین و آسمان وغیرہ دنیا کی تمام چیزوں کا کوئی پیدا کر نے والا ضرور ہے اور اسی کا نام خدا ہے کیوں کہ دنیاں حادث ہے اور ہر حادث کے لئے کو ئی سبب اور خالق ضروری ہے ثا بت ہوا کہ دنیا کے لئے بھی کو ئی سبب اور خالق ہے اور وہی خدائے وحدہ لا شریک ہے ۔اس کے بعد ہر ہر مقدمے پرٹھوس علمی بحث فر ما ئی ہے اور کمال کی حد تو یہ ہے کہ کہیں بھی کو ئی با ت ادھو ری نہیں چھوڑ ی ہے اور معلو ما ت کے سمند ر کو کو زے میں سمو دیا ہے ۔

(۲)کا ئنا ت عالم کے لئے جو خالق ہے وہ قدیم ہے کیوں کہ اگر وہ حا دث ہو تو اس کے لئے بھی خالق کا وجو د ماننا پڑے گا اور یہ سلسلہ الیٰ غیر النہا یہ چلے گا جو دور و تسلسل کی وجہ سے محال ہے اور اگر یہ کسی پر ختم ہو تا ہے تو وہی خالق قدیم ہے در میان والے وسائل و وسا ئط کے در جے میں ہوں گے اور بس !پھر اس کے بعد قدیم کے مطلب کو انھوں نے با لتفصیل ذکر کیا ہے کہ قدیم وہ ذات ہے جس کے وجود سے پہلے نیستی نہیں پھر یہ سوال قائم کیا کہ قدیم کے سا تھ جو صفت قدم آپ نے ثا بت کیا ہے تو یہ صفت بھی قدیم ہو گی اور پھر اس صفت قدیم کی بھی کو ئی صفت قدیم ہو گی ؟جواب میں فرماتے ہیں کہ یہ بھی دورو تسلسل کی وجہ سے محال ہے لہٰذا یہ سوال ہی لغو ہو گا ۔بالکل اسی لب و لہجے میں انھو نے ایسے ایسے اسرار بستہ کو واشگاف کیا ہے کہ ان کی استدلا لی قوت او رذہن رسا کی مثال شاید باید ہی کہیں نظر آسکتی ہے ۔

الغرض آج دہریوں کی طرف سے عام طور سے جو جو سوالات وجود با ری تعالیٰ پر کیے جا تے ہیں ان سب کا جواب امام غزالی نے قبل از وقت دے دیا ہے ۔جہا ں تک بگ بینگ کے محرک اول یا سبب حقیقی ہو نے کا سوال ہے تو وہ اس لئے بھی با طل ہے کہ خدا کے وجود پر از آدم تا ایں دم پو رے قوم کی اکثریت کا اس پر اجماع رہا ہے نیز یہ کہ اسکے قبول کی صورت میں آج کے سائنسدا نوں کو بھی کا ئنا ت عالم کی توضیح و تو جیہ میں ہر جگہ رکا وٹ آتی ہے جبکہ وجود با ری کے تسلیم کی صورت میں یہ تمام مسا ئل از خود ہی حل ہو تے چلے جا تے ہیں ۔لہٰذا ان وجو ہات کی بنا پر بھی بلا سبب وجو د با ری کو تسلیم کر نا اس کے عدم تسلیم پر را جح ہو گا اور نزع کے دفع کے لیے اتنا ہی کا فی ہے ۔

(۳)جیسے کائنات عالم کا خا لق ازلی اور قدیم ہے اسی طرح وہ ابدی بھی ہے اس کے وجود کے لیے کبھی فنا اور زوا ل نہیں ۔کیوں کہ جیسے معدوم کے وجود کے لیے سبب و خالق در کا ر ہے ٹھیک اسی طرح اس کے وجود کے زوال کے لئے بھی ہو گا کیوں کہ خالق کے وجود کا زوال ایک حادث امر ہے اور ہر حادث کی لیے مرجح کا ہو نا ضرو ری ہے اب مرجح یا فا عل ہو گا یا زوال کی ضد یا خالق کے شرا ئط وجود میں سے کسی شرط کا معدوم ہونا اور یہ تینوں خالق کے زوال کا مرجح نہیں ہو سکتے۔ لہذا ثابت ہوا کہ خالق جیسا ازلی ہے ویسا ابدی بھی ہے یہ خلا صۂ نتیجہ ہے ا س کی مکمل تفصیل کی یہاں مجال نہیں اگر مقدمات دلا ئل کے خدو خال نکا لنے کی کو ئی غیر معمولی ہنر دیکھنا ہو تو آپ ضرو ر تفصیل کی لیے کتا ب کی طرف مرا جعت فر ما ئیں ۔ ٹھیک اسی انداز میں مصنف نے ہر ہر دعوے پر تفصیلی بحث فر ما ئی ہے اب نیچے ہم صرف دعوے کی نقل پر اکتفا کریں گے

(۴) کا ئنات عالم کا خالق نہ جو ہر ہے نہ اس کو کسی مکان کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے کیوں کہ اس صورت میں حر کت و سکون کے ساتھ اس کی مو صو فیت کا رابطہ ما ننا ہو گا اور یہ دونوں حادث ہیں اور یہ ثا بت ہے کہ حادث کا محل بھی حادث ہو تا ہے لہذا خالق حادث ہو جائے گا بس یہ صورت بھی با طل ہے ۔

(۵) خدا ئے تعالیٰ کے لیے جسم بھی نہیں کہ جسم دو جوہروں کا محتاج ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ خدا جو ہر نہیں لہذا وہ جسم سے بھی پاک ہو گا ۔

(۶) خدا عرض بھی نہیں کیوں کہ عرض بھی اپنے وجود میں دوسرے کا محتاج ہو تا ہے جو یا تو جسم ہو گایا جوہراور یہ دونوں حادث ہیں لہذا یہ دونوں ازلی ،ابدی اور قدیم خالق کیلئے محل نہیں ہو سکتے۔
(۷) ذات باری کا جہات ستہ میں سے کسی جہت کے ساتھ اختصاص و تعلق نہیں کیوں کی جہات ستہ کے ساتھ منا سبت و تعلق کا معاملہ صرف اجسام و اعراض کے ساتھ خاص ہے اور ذا ت با ری جسمیت و عرضیت سے پاک ہے ۔

(۸) خدائے تعالیٰ کسی جسم پر متمکن نہیں کیوں کہ اس صورت میں اس کو مقداری تسلیم کر نا پڑے گا جو کہ جسم یا اعراض کا خاصہ ہے اور خدا دونوں سے پا ک ہے لہذا وہ کسی جسم پر متمکن نہیں ۔

(۹)رویت باری تعالیٰ جائز ہے۔ یعنی اس کی ذات وماہیت میں اس امر کی قابلیت اور صلاحیت ہے کہ اس کے ساتھ رویت متعلق ہوسکے ۔اگر ہم اس کی رویت پرقادرنہیں تو یہ ہماراقصور ہے اگر اس کے تمام شرائط ہمارے اندر پائی جائیں تو فوراََہم اس کو دیکھ سکتے ہیں ۔

قطب ثانی کا پہلا حصہ اس کے تحت خداکی صفتوں کابیان ہے اور صفات خداوند ی جوسات ہیں قدرت ، علم، حیات،ارادہ، سمع، بصر اورکلام ۔اسی مناسبت سے سات دعوے بھی انھوں نے قائم کیے ہیں ۔

قطب ثانی کا دوسراحصہ :
اس حصے میں صفا ت باری تعا لیٰ کے چار احکامات بیان ہوے ہیں ۔
(۱)خدا کے جن سات صفتوں کا ذکر ہوا وہ اس کے ساتھ متحد نہیں بلکہ الگ الگ اس کے ساتھ قائم ہیں ۔اس کے تحت انھو نے معتزلہ،کرامیہ اور فلاسفہ کے انکا ر و اعتراضات کا تجزیہ کرتے ہوے انھیں بالکل پا بجولہ بنا دیا ہے جس کا خلا صۂ نتیجہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں فلاسفہ تفریط کے شکار ہیں کہ ان کے یہاں خدا ہی تمام صفات کا مر کز و سر چشمہ ہے اس کی ذات کے مقابل اور درجے میں نہ کوئی صفت ہے نہ مو صوف۔جبکہ معتزلہ اور کرا میہ با لکل افراط میں پھنسے ہیں کہ جتنی چیزوں کے ساتھ خدا کی قدرت و علم متعلق ہے اتنی ہی قدرتیں اور علوم اس کے ساتھ قائم نہیں ۔اسی طر ح وہ دیگر صفات میں بھی کثرت و تعداد کے قائل ہیں ۔جماعت اہل سنہ یہاں بھی اعتدال پر کھڑی ہے۔
(۲) اس بیان میں ہے کہ جو صفات خدا کے ساتھ قائم ہیں نہ یہ اور کسی دوسری چیز کے ساتھ قائم ہیں نہ ہی یہ اپنے وجود میں مستقل ۔
(۳)اس کے تحت یہ بیان کیا کہ اس کی صفتیں قدیم ہیں ۔انھوں نے اس کے عدم حدوث پر تین زبر دست دلا ئل قا ئم فر ما ئے ہیں اور الٹا معتزلہ ،کرامیہ ،فلاسفہ اور دیگر مخاصمین پر ہی اعتراضات و نقیض وارد کر کے انھیں ساکت و جا مد کر دیا ہے اور اخیر میں اپنے دعوے پر بہت سے نقلی و عقلی دلائل قائم فر ما کر ہر چہا ر جا نب سے با ت کو پختہ بنا دیا ہے ۔
(۴)اس کے تحت اﷲ کی سا توں صفات اور اس کے افعال سے مشتق ہو نے والے صیغے کا ذات باری پر محمول ہو نے یا کر نے کے سلسلے میں بحث کی گئی ہے اورپھر چار اقسام کے تحت ایک ٹھوس علمی گفتگو کی گئی ہے۔

قطب ثالث
اس باب کے تحت سات دعوے ثابت کیے گئے ہیں جو یہ ہیں (۱)جا ئز تھا کہ اﷲ تعا لیٰ اپنے بندوں کو عبا دات کی تکلیف نہ دیتا ۔(۲) اسے ایسے کا موں کی تکلیف دیتاجو ان کی طا قت سے با ہر ہے۔(۳)جائز ہے کہ وہ بلا کسی عوض و جنا یت کے اپنے بندوں کو عذاب دے ۔(۴)خد اکے لئے بندوں کے مفید امور کی رعا یت وا جب نہیں ۔(۵)نیکی کے عوض ثواب اور بر ائی کے عوض عذاب دینا اس کے لئے واجب نہیں ۔(۶)بندوں پر محض عقل سے کو ئی چیز وا جب نہیں ہو تی بلکہ شریعت کے ذریعے امور واجب ہو تے ہیں ۔(۷)خدا کے لئے نبیوں کا بھیجنا واجب نہیں ۔

پہلے دعوے کے خلاف معتزلہ کا ایک گروہ کہتا ہے کہ خداپر مخلوق کو پیدا کر نا اور اس کو مکلف بالاعمال بنانا واجب ہے ۔مصنف فرماتے ہیں کہ اگر یہ کہا جا ئے کہ خدا کا علم چوں کہ ازل میں اس کے پید اکر نے کے سا تھ متعلق ہو چکا ہے تو ارا دۂ خدا وندی کا اس کے ساتھ پہلے سے متعلق ہو نے کی وجہ سے مخلوق کو پیدا کر نا ضرو ری ہو چکا تھاتو اس معنی کے لخا ظ سے وجوب کے ہم بھی قائل ہیں ،لیکن معاملہ یہ ہے کہ معتزلہ پہلے معنی کے لحاظ سے وجوب کے قائل ہیں۔دوسرے دعوے کے بھی معتزلہ خلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا کا مالا یطاق پر بندوں کو مکلف بنانا محال ہے کیوں کہ یہ بے فا ئدہ ہے اور جو چیز بے فا ئدہ ہو وہ عبث ہو تی ہے اور خدا عبث اور لغو کا موں سے مبرا ہے ۔اس پر اما م غزالی نے جو بحث کی ہے اس کا ایک گو شہ یہ ہے کہ :کیا خیر اور کیا شر ہے کہاں فائدہ ہے اور کہاں نہیں ان سب کو اﷲ بندوں سے زیا دہ جا نتا ہے کیا بعید کے تکلیف مالا یطاق میں بندوں کے بہت سے فوائد مضمر ہوں کیوں کہ کبھی اﷲ بندوں کو آزمائش میں ڈال کر دیکھنا چا ہتا ہے کہ وہ مأمور بہ پر اعتقاد رکھتا ہے یا نہیں گر چہ وہ اسے مالا یطاق ہو نے کی وجہ سے منسوخ فر ما دے جیسا کہ حضرت ابراہیم کیلئے ان کے لخت جگر کی قربا نی کے طور پرہوا، وغیرہ وغیرہ۔

تیسرے دعوے کے بھی معتزلہ خلاف ہیں کہتے ہیں کہ خدا کے لیے بے قصور کو عذاب دینا جائز نہیں ،قبیح ہے امام فر ما تے ہیں کہ جب یہ با ت ثابت ہو چکی ہے کہ خدا پر کو ئی شئی واجب نہیں تو پھر یہ کیوں کر ہوگی نیز ایسا کر نا اس کے حکیم ہو نے کے بھی منا فی نہیں جو مخالفین کی رائے ہے کیوں کہ کائنا ت کو ایک خاص نظم و ضبط کے ساتھ چلا نے میں قسم قسم کے حکیما نہ اسبا ب مہیا کرا نا ہو تا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حیو انوں ،بچوں اور مجنو نوں کو اﷲ طرح طرح کی آزاما ئشو ں اور ظاہری مصائب میں مبتلا کر تاہے حالا ں کہ یہ بالکل بے قصور ہو تے ہیں اور خدا کا یہ ظلم ہو ہی نہیں سکتا ،کیوں کہ ظلم خدا ئے تعا لیٰ سے سلب محض کے طور پر مسلوب اور منتفی ہے ۔ساتھ ہی ظلم دوسروں کی ملکیت میں دخل اندازی کانا م ہے جب کہ سا ری کا ئنا ت اس کی ملکیت میں ہے ۔چو تھے دعوے کا بھی معتزلہ منکر ہیں کہتے ہیں کہ اﷲ پر بندے کے بہبو دی کی رعا یت واجب ہے ۔حالا ں کہ خدا پر کچھ اجب نہیں نیز مشاہدہ بھی اس کا بطلان کر تا ہے :فرض کرو تین لڑکے ہیں ایک صغر سنی میں مر گیا دوسرا بحالت اسلام بڑا ہوکر ڈھیر سا ری نیکیاں کما کر مرا اور تیسرابڑا ہو کر بحالت کفر مرا اب معتزلہ کے نزدیک اول الذکر جنتی ہے اور دوسرابھی لیکن پہلے سے اعلیٰ مر تبے پر فایز ہے جبکہ تیسراہمیشہ جہنم میں ہو گا اب کم سن اﷲ سے مخاصمت کرے گا کہ اے خدا مجھے تو نے عمر کیوں نہیں دی کہ میں بھی اعلیٰ مر تبے پر ہو تا موت تو نے صغر سنی میں دی تو میرا کیا قصور ہے اور کا فر عرض کرے گا کہ اے خدا مجھے بچپن ہی میں موت کیوں نہیں دی کہ میں کافر نہ ہو تا اور جنت میں جاتا تونے جلا یا تو میرا کیا قصور ہے کیوں کہ تجھے معلوم تھا کہ میرا بچپن میں مرنا ہی بہتر تھا تو نے میرے حال کی رعایت کیوں نہ کی اب بتا ؤ اگر خدا پر بندے کی بہتری واجب ہے تو اس کو خدا کیا جواب دے گا ۔لیکن ہما رے نزدیک خدا پر کچھ بھی وا جب نہیں لہٰذا یہ اعتراض ہم پر وارد نہیں ہو سکتا۔اس طریقے سے مصنف نے ہر مخالفین کو اینٹ کا جواب ہر جگہ پتھر سے دی ہے اور ان کے سا منے دلا ئل و برا ہین کے ایسے آہنی فصیل قائم کیے ہیں کہ مخاصمین کے ذہنی منجنیق اس کے خلاف کی سوچ بھی نہیں سکتے ۔

قطب رابع
فصل اول : حضر ت محمد ﷺ کی نبوت کے اثبا ت میں ہے ۔اس کی حاجت تین فرقوں کے مقابلے میں پڑی(۱)عیسویہ :جو آپ کی رسالت کو عربوں پر محدود کرتے ہیں ۔یہ ا س لیے با طل ہے کہ نبی تسلیم کرنے کے بعد ان کے بعض دعوے میں تکذیب یہ سوائے جہالت کے کچھ نہیں کیوں کہ آپ کا دعوی ہے کہ آپ عامٔہ خلائق کی ہدایت کے لیے آئے اور قرآن کہتا ہے کہ آپ سارے جہاں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔
(۲)یہودی جو یہ سمجھ بیٹھے کہ حضرت موسیٰ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے اور اسی لیے وہ حضرت عیسیٰ کی رسالت کے بھی منکر ہو گئے ۔لیکن ان سے سوال ہے کہ حضرت موسیٰ نے عصا کا معجزہ پیش کیا اور حضرت عیسیٰ نے ید بیضا کا لہٰذاحضرت موسیٰ جب نبی برحق تھے تو پھرحضرت عیسیٰ کیوں جھوٹے ہیں ؟

امام غزالی فرماتے ہیں کہ ہما رے خیال میں دو امر ایسے ہیں جنہوں نے یہودیوں کواس ورطۂ ظلما ت میں ڈال دیا ہے۔اول یہ کہ ان کے زعم میں موسیٰ کا یہ قول ہے کہ مرے دین کو نہ چھوڑنا جب تک آسمان و زمین قائم ہیں اور یہ کہ میں خاتم الأنبیاء ہوں ۔پھر امام نے ثابت کیا ہے کہ اگر ان اقوال کو بالفرض درست بھی مان لیا جائے تب بھی ان کا رسالت محمدی سے انکا ر درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرت موسیٰ کا فرمان ہی نہیں ا س لیے کہ اگر انہوں نے ایسا کہا ہوتا تو حضرت عیسیٰ کے ہاتھ پر ید بیضا کا زبر دست معجزہ ظاہر نہ ہوتا جو آپ کے نبی برحق ہونے پر دال ہے اور اگر یہودی اس معجزے کا انکا ر کریں تو حضرت موسی کے عصاء کے معجزہ پر بھی وہی اعتراض ہوں گے ۔نیز تاریخ بھی بتاتی ہے کہ یہودی قوم ابتداہی سے اسلام سے برسر پیکار رہے اگر موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں توریت یہ بتاتی کہ وہ خاتم الانبیا ء ہیں تو یہودی عالم سب سے پہلے اسی آیت کو حضور کے سا منے پیش کر دیتے کیوں کہ آپ توریت کو الہامی کتاب اور موسی کو نبی برحق مانتے تھے اور بسا اوقات یہودیوں کے مقدمات کا فیصلہ توریت ہی سے کر تے تھے لیکن یہودیوں نے ایسا کبھی نہیں کیا اگر اس بات کی کوئی اصل ہو تی تو اس سے بڑھ کر مذہب موسی کی تائید اور مذہب اسلام کی تردید کے لیے اور کوئی ذریعہ نہ تھا اور یہ شاطر قوم یہ موقع کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتی ۔

(۳) فرقہ ان لوگوں کا ہے جو نسخ کے تو قائل ہیں لیکن رسالت محمدی کے اس لیے منکر ہیں کہ قرآن معجزہ نہیں ۔امام غزالی نے آپ کی رسالت کے اثبات کیلئے دو طریقے اپنائے ہیں اوّل قرآن کو معجزہ ثابت کیا اور دوسرا قرآن کے علاوہ دیگر حیرت انگیز معجزات کو دلیل بنایا ،اورہردو طریقے سے نہایت کامیاب اور تسلی بخش بحث فرمائی ،لکھتے ہیں ـ:معجزہ نام ہے ایسے خارق عادت امر کاجو تحدی کے ساتھ کسی نبی کے ہاتھ پر اس کے منکرین کے مقابلہ میں وقوع پذیر ہو اور یہ بات قرآن میں پائی جاتی ہے۔ اوّلا اس لیے کہ زبان عربی پر فخر کناں عربوں کوقرآن کابدل پیش کرنے کا چیلینج دیاگیا لیکن وہ ایڑی چوٹی تک زور لگا کر بھی ناکام ٹھہرے اور تھک ہار کر جنگ پرآمادہ ہوگئے اور یہ باتیں اتنی پکی ہیں کہ حد تو اتر تک پہونچی ہوی ہیں ۔نیز یہ کہ بالآخر تمام اہل عرب کو یہ ماننا پڑا تھا کہ قرآن اپنی فصاحت وبلاغت، دلربانزاکت ، کلمات کی ترکیب وترتیب اور اس کے مضامین کا تناسب کچھ ایسی حیرت انگیز محاسن کا منبع ہیں جو طاقت بشریہ سے خارج ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جو بھی مقابلہ کیلئے آگے بڑھا دوسروں کیلئے سامان عبرت بن گیا جیساکہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ ہواجس نے باجود ے کہ طرز قرآن کے اڑالینے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ جب قرآن کے مقابلے میں کی اسے دیکھیں تو زمین و آسمان کا فرق صاف ظاہر نظر آتاہے۔

فصل دوم : ا س امر کے بیان میں کہ جن امور کو شرع نے بیان کیاہے ان کی تصدیق واجب ہے۔ اس فصل میں مزید ایک مقدمہ اور دو فصلیں ہیں ۔
مقدمہ: ایسے امور جو بداہۃ معلوم نہیں ہو سکتے ،تین قسموں پر منقسم ہیں :
(۱) جو محض عقل کے ذریعہ معلوم ہو سکتے ہیں ۔جیسے حدوث عالم ، خداکا وجود ،اسکی قدرت وعلم اور اس کا ارادہ یہ ایسے امور ہیں کہ جب تک ان کاثبوت نہ ہو شرع کا ثابت کرنا ناممکن ہے۔
(۲) وہ امو رجو صر ف شرع ہی سے معلوم ہو سکتے ہیں مثلاوہ امور جوخود بھی ممکن الوجود ہوں اور انکی نقیضیں بھی جیسے حشر ،نشر، ثواب وعقاب جنت ودوزخ ،عذاب قبر، پل صراط اور میزان وٖغیرہ ۔
(۳) وہ امور جوان دونوں سے معلوم ہو سکتے ہیں جیسے رویت کامسئلہ اور تمام جو اہر واعراض کے پیداکرنے میں کسی چیز کا خدا کاشریک نہ ہونا وغیرہ غیرہ ۔

فصل اول
اس میں حشر ، عذاب قبر ،سوال منکر ونکیر،پل صراط اور میزان کے برحق ہونے کاذکر ہے۔ حشر کا معنٰی ہے مخلوق کو دو بارہ پیدا کرنا۔بہت سی نصوص قطعیہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے اور فی نفسہ یہ ممکن ہے چنا نچہ فرمان باری بھی ہے ’’قل یحیھاالذی انشئاھا اول مرّۃ‘‘۔

اس طرح عذاب قبر پر بھی بہت سے قطعی نصوص دال ہیں چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے ’’وحاق باٰل فرعون سوء العذاب النار یعرضون علیھا غدوا وعشیا‘‘اور یہ ممکن بھی ہے ۔معتزلہ اسکے منکر ہیں جن کی دلیل بے تکی باتوں کے علاوہ کچھ نہیں مثلا کہتے ہیں کہ اگر یہ برحق ہے تو مردے کے بدن پر عذاب کی کوئی علامت کیوں محسوس نہیں ہوتی ،جبکہ عذاب کا احساس قلب یاکسی باطنی کیفیت کو ہوتاہے اور اسکے لیے بدن پر کوئی علامت دکھائی دینا ضروری نہیں ۔ منکر نکیر کا سوال بھی حق ہے شریعت سے ثابت ہے اور فی الواقع ممکن ہے لہذا اس کے منکرین کا یہ کہناکہ ہم سب کو دیکھتے ہیں مگر منکر نکیر کو نہیں اور نہ ہی ان کی آوازیں سنتے ہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ آنحضرت ﷺ پر وحی نہیں آتی تھی کیوں کہ ہم نے نہ کبھی جبرئیل کو دیکھا نہ ان کا کلام سنا !اب وحی کو ماننا اور منکر نکیر کے سوال کا انکار کرنا سوائے حماقت کے اور کیا ہے ۔میزان بھی حق ہے اس پر قطعی اور یقینی نصو ص دال ہیں نیز یہ بھی ممکن ہے۔ اﷲ کے رسول نے فرمایاکہ صرف اعمال ہی نہیں بلکہ وہ صحیفے بھی تو لے جائیں گے جن میں فرشتے لوگوں کے اعمال لکھتے ہیں اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ حقیقت عدل کو بندہ اپنی ماتھے کی نگاہوں سے دیکھ کر مطمئن ہو جائے ورنہ حقیقتا اس کی حکمت کیا ہے تو یہ خداہی جانتاہے لایسئل عمایفعل وھم یسئلون۔ پل صراط بھی حق ہے رہی یہ بات کہ اس بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز راستے سے اہل محشر کیسے گذریں گے تو یہ اﷲ کی قدرت میں ہے وہو علیٰ کل شیٔ قدیر جب وہ ہواؤں پر انسان کو چلانے پر قادر ہے تو یہ تو اس سے زیادہ مضبوط ہے تو پھر یہ کیوں ناممکن ہو سکتا ہے اور رہے وہ جو قدرت کے منکر ہیں تو انہیں قدرت کو سمجھا نے کی ضرورت ہے اور یہ ہم کر چکے ہیں ۔

فصل دوم
خلاصۂ بحث :کتاب چوں کہ علم کلام میں ہے اسلئے ان تمام مسئلوں کاذکر ضروری تھا جن پر صحت اعتقاد کا دارومدار ہو ۔البتہ وہ امو ر جن کا ذہن انسان کے قریب آنامحال کی حدتک مشکل ہو مثلا حقائق امور سے بحث کرنا تو اس علم کلام میں جس کی اصل صرف اعتقاد ہے ضروری نہیں اور نہ ہی ان مسائل پر دین کاتوقف ہے ۔ہاں جن پر دین کا توقف ہے وہ ہیں ذا ت باری کی نسبت تمام شکوک وشبہات کو رفع کرنا جیساکہ پہلے باب میں بیان ہوا ،اس کی صفتوں کی نسبت تمام غلط فہمیوں کو اپنے دل و دما غ سے دور کر نا جیسا کہ دوسرے باب میں اس کا بیان ہوا۔ نیز یہ اعتقاد رکھنا کہ اس پر کوئی چیز واجب نہیں جیسا کہ تیسرے باب میں بیان ہوا ۔ حضور ﷺکو نبی برحق ماننا اور ان کے بیان کردہ احکام بجالانا جیسا کہ کتاب کے چوتھے باب میں اس پر مکمل تفصیلی بحث کی گئی ۔

ہمیں کامل یقین ہے کہ اس مقدمۂ حصر کی تفصیل جس لب ولہجے میں امام غزالی نے بیان کردیا ہے وہ ہمارے ذہن وفکر کی تسکین کیلئے پورے طور پر کافی ہیں ۔امام اپنے ہرہر سطرمیں کچھ یوں جلوہ گر نظر آتے ہیں کہ ان کے دشمن صدیاں ہوے ناپید ہو چکے لیکن ان کی صدا ئے باز گشت آج الاقتصاد فی الاعتقادکے تناظرمیں زندہ وجاوید ہیں کہ آج بھی اگر کوئی ماضی کے انھیں اسلحوں سے لیس ہو کرسامنے آے تو نیزۂ غزالی تصانیف غزالی کے ترکش سے نکل کر انھیں چھلنی کرکے رکھ دیں گے ۔ آج اگرچہ حالات کی کروٹیں بدل چکی ہیں لیکن فکرغزالی کی معنوی وسعت واہمیت آج بھی ہمیں وقت کے دھارے کو قریب سے سمجھ کر اسکے راستے بدلنے کی دعوت فکر دے رہی ہیں ۔کتاب کی سطریں بڑی بے باکی سے بتارہی ہیں کہ حالات کا صحیح تجزیہ کرکے اسکے تقاضے پوری کرنے کا انمول نمونہ دیکھناہوتو ہمیں سمجھو۔اب اگرامام غزالی کی فقہی بصیرت اور قوم کی نباضیت دیکھنی ہو توذراان کے اس انتخاب کو دیکھیں جو انھوں نے کتاب کے آخر میں جڑکر آج کے فرقہ ورانہ عناصر اور سواد اعظم کے جعلی ٹھیکیدار وں کو جو بہت جلدہی دوسرں کوخارج ازجماعت کرتے کرتے خود صفر ہونے کو ہیں اسلام کے مزاق ومزاج سے بہت حدتک قریب کرکے حقیقت کا آئنہ دکھا یا ہے اور وہ انتخاب ہے یہ سر خی کہ ’’کن فرقہ کے لوگوں کو کافر کہناواجب ہے‘‘۔

کن فر قہ کے لو گوں کوکا فر کہنا وا جب ہے : اس امر میں عمو ما تما م مذا ہب کے پیرؤں نے غیر معمو لی مبا لغہ آ میزی اور تعصب سے کام لیا ہے ۔اگر آپ اس مسئلے کی اصلیت معلوم کر نا چا ہیں تو یہ سمجھ لینا چا ہیے کہ یہ ایک فقہی مسئلہ ہے یعنی کسی شخص کی نسبت اس کے کسی قول یا فعل پر کفر کا فتویٰ دینا یہ ایسا امر ہے جو سما عی دلیلوں اور قیاس کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتا اور اس میں عقل کو کوئی دخل نہیں ۔کسی کو کا فر کہنے کے یہ معنیٰ ہیں کہ یہ شخص ہمیشہ دوزخ میں رہے گا ۔اس کے قتل سے قصاص وا جب نہیں ہو تا ۔اس کو مسلمان عورت سے نکاح کر نا نا جا ئز ہے ۔اس کی جان و ما ل معصوم نہیں وغیرہ وغیرہ نیز اس کا قول جھو ٹا اور اس کا اعتقاد جہل مر کب ہے اور عقل کے ذر یعے کسی کا جھو ٹا ہو نا یا اس کے اعتقاد کا جہل مر کب ہو نا تو معلوم ہو سکتا ہے لیکن کسی خاص جھوٹ اور جہل مر کب کا با عث کفر ہو نا یہ دوسرا امر ہے ۔یہ با ت زیر نظر رکھنی چاہیے کہ اصول فقہ کا مسئلہ ہے کہ شرع کا ہر ایک مسئلہ قرآن ،حدیث،اجماع اور قیاس پر منحصر ہے اور جب کسی کا کا فر ہو نا بھی ایک شر عی مسئلہ ہے تو یہ بھی انھیں ادلۂ ار بعہ سے ثابت ہوگا ۔حقیقت میں کفر کا معیار تکذیب رسول ہے جو شخص آپ کی کسی با ت میں تکذیب کرے وہ یقینا کا فر ہے ۔مگر تکذیب کے چند مرا تب ہیں اور ہر ایک کے الگ الگ احکام ہیں ۔

(۱)پہلا مر تبہ :یہودیوں ،نصرانیوں ،مجوسیوں اور بت پر ستوں کی تکذیب کا ہے ۔ان کا کا فر ہو نا حدیث اور اجماع سے ثابت ہے اور یہی وہ ایک کفر ہے جس کو اجماع سے ثابت ہو نے کا فخر حاصل ہے۔
(۲)دوسرا مر تبہ: براہمہ (منکرین نبوت )اور دہریہ (منکرین صانع)کی تکذیب کا ہے ۔یہ پہلے مر تبے کی تکذیب کے سا تھ ملحق ہے بلکہ براہمہ یہودیوں سے اور دہریہ براہمہ سے کفر میں بڑھے ہوے ہیں کیوں کہ یہودی مطلق نبوت کے قائل ہیں ہا ں حضور ﷺکی نبوت کے منکر ہیں اور براہمہ سرے ہی سے نبوت کے منکر ہیں لیکن یہ صانع عالم کے وجو د کے قائل ہیں اور دہریہ سرے ہی سے خداکے منکر ہیں ۔
(۳)تیسرا مر تبہ: ان لو گوں کی تکذیب کاہے جو خدا اور اس کے حبیب کی نبوت کے تو قائل ہیں لیکن ساتھ ہی کچھ ایسی با توں کابھی انھیں اعتقاد ہے جو نصوص شرعیہ کے خلا ف ہیں۔جو یہ مانتے ہیں کہ آپ ﷺ نے بعض امور کی تصریح نہیں فر مائی کیو ں کہ آپ نے لو گو ں کو ایسا پایا تھا کہ یہ خدا ئی اسرار کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔اس قسم کے خیال کے لو گ فلاسفہ کہلا تے ہیں جن پر بعض مسائل میں اگر چہ کفر کا فتویٰ نہیں لگ سکتا ہے لیکن ذیل کے تین مسئلے میں انھیں یقینا کا فر کہنا پڑتا ہے: (۱)جس طریق پر اہل السنہ و الجما عہ حشر کے قائل ہیں اس سے انکار (۲)خدا ئے تعالیٰ کو صرف کلیا ت کا علم ہے جزئیات کانہیں ان کا علم صرف عقول عشرہ ہی کو ہے (۳)عالم قدیم ہے اور خدا کو اس سے محض تقدم ذاتی زبانی نہیں ۔ان کے یہ تینوں مسائل نصوص قطعیہ کے صریحا مخالف ہیں ۔
(۴)چو تھا مر تبہ: فلاسفہ کے سو امعتزلہ وغیرہ کا ہے جو بہر صور ت چھوٹ کو جا ئز نہیں رکھتے لیکن جہا ں کو ئی آیت یا حدیث اپنے مطلب کے خلا ف دیکھتے ہین وہاں تا ویل کے ذریعے انھیں اپنے مطلب کے موافق بنا نے میں کوئی دقیقہ نہیں جھوڑ تے ہیں ۔ان لو گوں کو حتیٰ الوسع کا فر نہیں کہناچا ہیے ۔یہ با ت اچھی طر ح سمجھ لینا چا ہیے کہ اگر ہزار ہا کافر وں کو کا فر نہ کہا جائے بلکہ ان کی نسبت خا مو شی اختیا ر کیا جائے تو یہ اتنابڑا گنا ہ نہیں جتنا کہ ایک مسلما ن کو کافر کہنے میں ہے کہ یہ تما م گنا ہوں سے خطر نا ک ہے ۔یہ عام طور سے تعصب اور ضد کے مریض ہو تے ہیں اور تا ویل کرتے ہیں اور یہ کفر کا باعث نہیں بن سکتی اور نہ ان کا با عث کفر ہو نا کہیں سے ثا بت ہے ۔کیوں کہ کفر کی اصل بنا آ نحضرت ﷺ کی تکذیب پر ہے ۔
(۵)پانچواں مرتبہ :پانچواں مرتبہ ان لوگوں کاہے جو صریحاََ کی تکذیب نہیں کرتے مگر کسی ایسے شرعی حکم سے منکرہیں ،جو آنحضرت ﷺسے بذریعہ تو اتر ثابت ہے مثلاََکوئی کہے کہ نماز واجب نہیں ۔قرآن یاحدیث نبوی اسے دکھائی جائے تو کہہ دے کہ میرے نزدیک آنحضرت ﷺ سے اس کا ْثابت ہونامسلم نہیں ۔ممکن ہے کہ آپ نے کچھ اور فرمایاہو اور بعد میں اس میں تحریف کی گئی ہو ۔اسی طرٖح ایک شخص کہے کہ حج کے فرض ہونے کا تو میں قائل ہوں مگر مجھے یہ مسلم نہیں کہ مکہ معظمہ اور کعبہ کہاں ہے اور جس مکہ کی طرف منہ کرکے نماز ادا کی جاتی ہے اور جس میں مسلمان سالانہ فریضہ حج اداکرنے کو جاتے ہیں آیاوہ وہی مکہ ہے جس کا ذکر قرآن اور احادیث میں آیا ہے اور جس میں آنحضرت ﷺ نے جاکر فریضۂ حج اداکیا ہے ۔ایسے لوگوں کو بھی کافرکہنا چاہیئے کیونکہ ان سے ایسے امور کی تکذیب واقع ہوئی ہیں جو تواترسے ثابت ہیں اور جو امور تواتر سے ثابت ہوں ان کے سمجھنے میں عام اور خاص لوگ برابر ہوتے ہیں ۔معتزلہ بھی اگر چہ بعض امور کے منکر ہیں مگر ان کے انکار اور اِن کے انکار میں بعد المشرقین ہے ۔کیونکہ جن باتوں پر ان کے انکار کی بناء ہے ان کا سمجھناہر کہ دمہ کاکام نہیں ، ان کی باتیں نہایت سنجیدہ اور متین ہوتی ہیں ۔ہاں اگر کسی شخص کو مسلمان ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا ہو اور ابھی تک اس کو تواتر سے یہ امو ر نہ پہنچے ہوں اور وہ ان سے انکار کرے تو جب تک تواتر کے ذریعہ اس کویہ امور نہ پہنچ لیں اس کو کافرنہ کہا جائے گا۔اگر کوئی شخص آنحضرت ﷺ کے کسی مشہور غزوے یا مثلاََحضرت حفصہ بنت عمر کے ساتھ آپ کے نکاح یاحضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی خلافت سے انکار کرے تو اسے کافر کہنا ناجائز ہے کیونکہ اس نے کسی ایسے امر سے انکار نہیں کیاجس پر اسلام کا دار ومدار ہو اور جس پر ایمان لانا ضروری ہو ۔بخلاف حج اور نمازکے کیونکہ یہ اسلام کے رکنوں میں سے اعلیٰ درجہ کے رکن ہیں ۔ اجماع کے انکار سے بھی کفر لازم نہیں آتا کیونکہ اجماع کی قطعی حجت ہونے میں بہت سے شبہے ہیں۔

چھٹامرتبہ:ان لوگوں کی تکذیب کاہے جواصول دین میں سے کسی یقینی اور تواتر سے ثابت شدہ امر کی تکذیب نہیں کرتے مگر اجماع یا اس سے ثابت شدہ امور کی تکذیب کرتے ہیں مثلاََنظام اور اس کے پیر واجماع کے حجت قطعی ہونے سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اجماع کرنے والوں سے خطاممکن ہے۔کیونکہ اس کے محال ہونے پر نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ ایسی شرعی دلیل ہے جس میں تواتر کی شرطیں پائی جائیں اور اس میں تاویل کی گنجائش نہ ہو ۔نظام کے آگے جس قدر آیات یا احادیث پیش کی جاتی ہیں وہ ان کی تاویل کردیتا ہے اورکہتا ہے کہ تم نے اپنے اس دعویٰ میں تابعین کے اجماع کے خلاف کیا ہے ۔کیوں کہ تمام تابعین کااس بات پر اجماع ہے کہ جس مسئلہ پر صحابہ رضی اﷲ عنہم کا اجماع ہو وہ یقینی ہوتاہے اور اس کے خلاف کرناناجائزہے۔

اگر چہ اس قسم کی تکذیب باعث کفر نہیں ہے لیکن اگر اس قسم کی تاویلوں کا دروازہ کھول دیاجائے تواس کے ساتھ اور بھی بہت سے ناگوار امور کے دروازے بھی کھل جائیں گے ۔مثلاکوئی شخص یہ کہہ سکتاہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کسی رسول کا مبعوث ہونا جائز ہے کیونکہ عدم جواز میں جو آنحضرت کی حدیث لانبیّ بعدی اور خدائے تعالیٰ کافر مان خاتم النبیین پیش کیا جاتاہے ممکن ہے کہ حدیث میں نبی کے معنیٰ رسول کے مقابل ہوں اور النبیین سے الوالعزم پیغمبر مراد ہوں۔اگر کہاجائے کہ النبیین کالفظ عام ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عام کی تخصیص بھی ممکن ہے اس قسم کی تاویلوں کو الفاظ کے لحاظ سے باطل کہناناجائزہے کیونکہ الفاظ ان پر صاف دلالت کررہے ہیں علاوہ ازیں قرآن کی آیتوں (جن میں بظاہر خداکی ایسی صفتیں مذکور ہوئی ہیں جو ممکنات کی صفتوں کی سی ہیں )میں ہم ایسی دوراز قیاس تاویلوں سے کام لیتے ہیں جوان تاویلوں سے زیادہ بعید ہیں ،ہاں اس شخص کی تردیدیوں ہوسکتی ہے کہ ہمیں اجماع اور مختلف قرائن سے معلوم ہواہے کہ لانبی بعدی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺکے بعد نبوت اور رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کردیاگیا ہے اور خاتم النبیین سے مراد بھی مطلق انبیاء ہیں۔ غرض ہمیں یقینی طور پر معلوم ہواہے کہ ان لفظوں میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ،اس سے ثابت ہو اکہ یہ شخص بھی صرف اجماع کامنکر ہے۔

ہم نے آنحضرت ﷺ کی تکذیب کے چھ مرتبے بیان کردیے ہیں جو بمنزلہ اصول کے ہیں اورہرایک مرتبہ مختلف مراتب پر حاوی ہے ۔اگر کہا جائے کہ بتوں کے آگے سجد ہ کر ناکفر ہے اور یہ ایسا فعل ہے جو تکذیب کے ان چھ مرتبوں میں سے کسی مرتبہ کے نیچے مندرج نہیں ہو سکتا ، تو اس کاجواب یہ ہے کہ بتوں کے آگے سجدہ کرنے والے کے دل میں بتوں کی تعظیم ہوتی ہے اور یہ آنحضرت ﷺاورقرآن کی تکذیب ہے ہاں بتوں کی تعظیم کا اظہار کبھی زبان سے ہوتاہے اور کبھی اشارے سے اور کبھی ایسے فعل سے بھی اظہار تعظیم کیا جاتاہے جواس پر قطعی طور پر دلالت کرتا ہے اور وہ سجد ہ ہے کیونکہ قرآن سے پتہ چلتاہے کہ بتوں کے آگے سجدہ کرنے والابتوں ہی کو سجدہ کرتا ہے نہ یہ بات کہ سجدہ تو خداکو کرتاہے اور بت اس کے آگے دیوار کی طرح پڑے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کی نیت ان کو سجدہ کرنے کی نہیں ہوتی ۔اس کی مثال بعینہ ایسی ہے جیسے کافر نماز باجماعت اداکرے اور ہمیں پختہ طور پر معلوم ہوکہ یہ کافرہے۔

موجبات کفر کے اسی قدر بیان پر ہم اکتفاکرتے ہیں اور ان کے متعلق ہم نے جو کچھ لکھا ہے اس کی وجہ سے علم کلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ان پر کوئی روشنی نہیں ڈالی اور بعض نے اس لیے ان پر کوئی توجہ نہیں کی کہ ان کا معرفت سے تعلق ہے کیوں کہ اگر موجبات کفر اس جہت سے دیکھا جائے کہ یہ سرے سے جہالت پرمبنی ہیں تو بے شک علم کلام کے دائرے میں آجاتے ہیں لیکن اگر ان کو اس پہلو سے دیکھا جائے کہ ان کے مرتکب ہو نے پر کفر لازم آتاہے تو فقہ سے شمار ہوں گے ۔
٭تخصص فی الادب والدعوۃ(السنۃ االأخیرۃ)
Md Nooruddin
About the Author: Md Nooruddin Read More Articles by Md Nooruddin: 10 Articles with 24811 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.