انتخابات کے انعقاد کے دن قریب
آتے جارہے ہیں اور ملک میں امن و امان کی صورت حال مخدوش سے مخدوش تر ہوتی
چلی جارہی ہے۔ دہشت گردی کا ناگ پھن پھیلائے سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کو
مسلسل ڈس رہا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات الیکشن ملتوی ہونے کا گمان ہونے
لگتا ہے اور ہر لمحے یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ خدانخواستہ کوئی ایسا بڑا
اور سنگین حادثہ رونما نہ ہوجائے کہ جس کی وجہ سے الیکشن التواء کا شکار
ہوجائیں۔
چند دن سے یہی سوال ذہن میں گردش کررہا ہے کہ کیا واقعی ملک میں دہشت گردی
الیکشن ملتوی کروانے کی ایک کوشش ہے یا اس وسیع دہشت گردی کے ذریعہ پاکستان
اور اس کے پالیسی ساز اداروں اور آئندہ منتخب ہونے والی حکومت کو کوئی خاص
پیغام دیا جارہا ہے؟ اس سوال کے پس منظر نے مختلف مفروضے جنم لے رہے ہیں
اور ان تمام مفروضوں کے بارے میں گفتگو نہ تو کسی کالم کے دامن سمٹ سکتی ہے
اور نہ ہی قارئین کے پاس اتنی فرصت ہوتی ہے کہ وہ ہم جیسوں کی تفصیلی "لن
ترانیاں" پڑھیں پڑھیں۔ اس لیے پیش نظر کالم میں صرف ایک مفروضے کی جانب
مختصر سا اشارہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
کون نہیں جانتا کہ افغانستان یا دنیا بھر میں القاعدہ اور دیگر شدت پسند
تنظیموں کی تشکیل میں امریکہ اور اس کے حلیف بعض اسلامی ممالک ملوث رہے ہیں
اور اب تک ان کے ذریعہ بہت بڑے بڑے اہداف حاصل کیے جاچکے ہیں اور یہ سلسلہ
تا ھنوز جاری ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ پاکستان
اپنی تشکیل کے بعد سے لیکر اب تک مسلسل بحرانوں کی زد پر ہے اور پاکستان کے
ہر بڑے فیصلے پر امریکہ اور بعض عرب ممالک اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں شاید چند گنے چنے فیصلے ایسے ہیں جنہیں دو حوالوں سے
تاریخی قرار دیا جاسکتا ہے ایک تو فیصلے کی اہمیت کے لحاظ سے اور دوسرا
پاکستان کی طرف سے کسی قسم کا دباؤ قبول نہ کرنے اور اپنے استقلال اور
استحکام کے حوالے سے۔ انہی فیصلوں میں سے دو فیصلے پی پی حکومت کے آخری
ایام میں انجام پائے ہیں ایک گوادر پورٹ اور دوسرا پاک ایران گیس پائپ لائن۔
یہ دو اور خاص طور پر موخرالذکر ایسے اہم فیصلے تھے جن کی راہ میں امریکہ
کی طرف سے بہت روڑے اٹکائے گئے، پرکشش آفرز پیش کی گئیں، دھمکیاں دی گئیں
لیکن پی پی حکومت اپنے آخری ایام میں ملکی استقلال اور استحکام کا فیصلہ
کرگئی۔
موجودہ دہشت گردی کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ سب
کچھ اس لیے ہورہا ہے تاکہ پاکستان دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک طرف
امریکہ سے مدد مانگے اور دوسری طرف ان ممالک کے سامنے دامن پھیلائے جن کے
ہاتھوں میں دہشت گردوں کی ڈوریاں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ دہشت گردی ایک طرح سے
نومنتخب حکومت کے لیے پیغام بھی ہے کہ آئندہ اپنے فیصلے خود کرنے کا کیڑا
دماغ سے نکال دیں ورنہ استقلال و استحکام پاکستان کی سزا دہشت گردی صورت
میں بھگتیں۔ |