ابن ساباط کی توبہ
ابن ساباط بغداد کا نامی چور تھا- کوئی شریف آدمی اس کا نام سن کر انتہائی
نفرت کا اظہار کیئے بنا نہیں رہتا تھا- وہ اپنےپیشے میں ایسا ماہر تھا کہ
بیسیوں چوریاں کرنے کے باوجود قانون کی گرفت میں نہیں آتا تھا لیکن آخر ایک
دن حکام نے اسے گرفتار کر ہی لیا قانون وقت کے مطابق اس کا ایک ہاتھ کاٹ
دیا گیا اور پھر اس کو ناقابل اصلاح مجرم قرار دیکر مدت العمر کےلیے جیل
بھیج دیا گیا اہل بغداد اب اس ذکر ہتھ کٹے شیطان کے نام سے کرتے تھے دس برس
کی قید کاٹنے کے بعد ایک دن ابن ساباط کسی طرح جیل سے بھاگ نکلا اور قید
خانے سے باہر آتے ہی اپنے قدیم پیشے کو ازسر نو شروع کرنے کا ارادہ کرلیا
ایک ہاتھ کے نقصان ار قید وبند کی طویل پر صعوبت زندگی نے اس کے کردار اور
مزاج پر ذرہ برابر اثر نہیں ڈالا تھا۔ آزادی کی فضاؤں میں آتے ہی اس کی
چوری کرنے کی خواہش نے سر اٹھانا شروع کردیا اور رات کا اندھیرا پھیلتے ہی
وہ اپنی مہم پر نکل گیا۔ادھر ادھر پھرتے پھراتے اسے ایک وسیع حویلی نظر آئی
جس کے چاروں طرف دور دور تک سناٹا تھا ابن ساباط اس کے پھاٹک کے پاس رک گیا
اور سوچنے لگا کہ اندر جانے کی کیا تدبیر اختیار کی جائے کہ اس کا ہاتھ
حویلی کے دروازے پر پڑا اور یہ دیکھ کر وہ خوش ہوگیا کہ اس کا دروازہ کھلا
ہوا تھا وہ آہستگی سے حویلی میں داخل ہوگیا ۔اندر ایک وسیع احاطہ تھا جس
میں چاروں طرف کمرے بنے ہوئے تھے اور ایک بڑا کمرہ وسط میں تھا ابن ساباط
اسی بڑے کمرے میں داخل ہوگیا اسے یقین تھا کہ یہ کسی بڑے امیر یا سوداگر کا
مکان ہے جونہی اس نے بڑے کمرے کے دروازے کو ہاتھ لگایا تو وہ بھی کھل گیا
یہ بڑا خوش ہوا، لیکن اندر جاکر بڑی مایوسی ہوئی کہ اندر کوئی قیمتی ساز و
سامان نہ تھا ایک طرف کھجور کے پتوں کی ایک چٹائی بچھی تھی- اس کے قریب
چمڑے کا ایک تکیہ اور بھیڑ کی کھال کی چند ٹوپیاں پڑی تھیں ایک گوشے میں
پشمینہ کے موٹے کپڑے کے چند تھان بکھرے پڑے تھے ان ساباط ایسے معمولی سامان
کو دیکھ کر جھلا اٹھا اور مکان مالک کو گالیاں دینے لگا کہ اس نے اتنے بڑے
مکان میں کیسا بےکار اور گٹھیا سامان رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ یہ سامان اس کے
مزاج کے خلاف تھا لیکن اس نے خالی ہاتھ جانے کے بجائے اسی کو چوری کرنے کا
فیصلہ کیا-
اس نے ایک تھانوں کی ایک گھٹڑی بنائی اور اس کو باندھنےکی کوشش کرنے لگا
لیکن ایک ہاتھ نہ ہونےکے باعث اس کو گرہ نہ لگا سکا اور ہانپتا ہوا بیٹھ
گیا عین اسی وقت دروازہ کھلا ایک شخص چراغ لیے کمرے میں داخل ہوا ابن ساباط
کا خوف سے برا حال تھا اور اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔اس نے دیکھا کہ
اندر داخل ہونے والا ایک دراز قد، خمیدہ کمر اور انتہائی نخیف آدمی تھا جس
کے پر ملگجے رنگ کی قبا تھی اور سر پر بھیڑ کی کھال کی ایک ٹوپی تھی، اس
شخص کے چہرے پر ایک نور تھا اور آنکھوں میں ایسی چمک تھی کہ کوئی فرد اس کا
اثر لیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ اس نو وارد نے چراغ ایک طرف رکھ دیا اور
انتہائی نرمی سے کہا کہ میرے بھائی خدا تم پر رحمت کرے یہ کام روشنی اور
کسی ساتھی کے بٍغیر نہیں ہوسکتا ہے- دیکھو یہ چراغ ہے اور تمہاری مدد کے
لیے میں حاضر ہوں ہم دونوں یہ کام اطمینان کے ساتھ کرلیں گے-
ابھی ابن ساباط اپنے حواسوں پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ کیا
معاملہ ہے اتنےمیں اجنبی نے تھانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور پھر ان
کی دو الگ الگ گھٹڑیاں بنائیں۔ اچانک اسے کچھ خیال آیا اور اس نے ابن ساباط
کو مخاطب کر کے کہا “ میرے بھائی معاف کرنا مجھے خیال ہی نہ رہا کہ ایسا
تھکا دینے وال کام کر کے تمہیں بھوک لگ رہی ہوگی میں ابھی تمہارے لیے دودھ
گرم کر کے لاتا ہوں اسے پی کر تم تازہ دم ہو جاؤ گے“ یہ کہہ کر اجنبی باہر
نکل گیا۔ ابن ساباط چند لمحوں تک تو عالم تحیر میں کھویا رہا اور یکایک
اپنے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا۔ میں بھی کیسا احمق ہوں اتنا بھی نہیں سمجھ
سکا کہ یہ بھی میرا ہی کوئی ہم پیشہ ہے اتفاق سے آج ہم دونوں اس ایک ہی
مکان میں جمع ہوگئے ہیں۔ البتہ یہ کوئی گھر کا بھیدی معلوم ہوتا ہے اسے
معلوم تھا کہ آج یہ مکان خالی ہے اس لیے وہ روشنی کا انتظام کر کے آیا
ہے۔اور جب اس نے دیکھا کہ میں پہلے سے پہنچا ہوا ہوں تو اس سامان میں سے
آدھے کا حق دار بننے کے لیے میرا ساتھ دینے پر آمادہ ہوگیا ہے “ وہ ابھی یہ
سوچ ہی رہا تھا کہ وہ نو وارد دودھ کا پیالہ ہاتھ میں لیے اندر داخل ہوا
اور یہ کہہ کر پیالہ ابن ساباط کے ہاتھ می پکڑا دیا کہ اسے پی لو یہ تمہاری
بھوک اور تکان کو دور کردے گا۔
ابن ساباط کو واقعی بھوک لگ رہی تھی اس نے فوراً دودھ کا پیالہ خالی کردیا
پھر کڑک کر بولا “ دیکھو میں اس سامان تک تم سے پہلے پہنچا ہوں اس لیے
ہمارے پیشے کے اصول کے مطابق اس مال پر تمہارا کوئی حق نہیں ہے تاہم تم نے
مال سمیٹنے میں جس مستعدی کا ثبوت دیا ہے اس کے پیش نظر میں تمہیں تھوڑا
بہت مال دیدوں گا چلو اب گھٹڑیان اٹھائیں اور چلیں“
ابن ساباط کی اس بات پر اجنبی مسکرایا اور پھر شفقت سے بولا “ میرے بھائی
تم میرے حصے کا خیال کرکے اپنا دل کیوں میلا کرتے ہو اس میں سے میں تم سے
کوئی حصہ نہیں لونگا۔ تمہارا ایک ہاتھ ہے تم چھوٹی گھٹڑی اٹھانا میں بڑی
گھٹڑی اٹھا کر چلتا ہوں۔ جہاں تم کہو میں وہاں تک اسے پہنچا دیتا ہوں“ ابن
ساباط نے کہا بس ٹھیک ہے تمہیں مجھ سے بہتر سردار سارے ملک میں نہیں مل
سکتا میں یہ چھوٹی گھٹڑی اٹھا لیتا ہوں تم بڑی گھٹڑی اٹھا کر میرے آگے
چلوَ“ اس نخیف الجثہ اجنبی نے پورا زور لگا کر ایک بڑی گھٹڑی اپنی کمر پر
لاد لی۔ اسکی خمیدہ کمر گھٹڑی کے بوجھ سے اور بھی خمیدہ ہوگئی اور وہ آہستہ
آہستہ قدم اٹھاتا ابن ساباط کے آگے چل پڑا۔ لیکن ابن ساباط کو بہت جلدی تھی
کیوں کہ رات بڑی تیزی سے ختم ہو رہی تھی وہ بار بار اس اجنبی کو ٹھوکر مار
کر کہتا کہ تیز چلو۔اجنبی کئی بار لڑکھڑا گیا لیکن پھر اٹھ گیا اور ہانپتا
کانپتا پھر تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔ایک جگہ چڑھائی کی وجہ سخت مشکل پیش آئی
اور وہ بے اختیار گر پڑا ابن ساباط نے اس پر گالیوں کی بوچھاڑ کردی اور پھر
اس کی کمر پر ایک زور دار لات جمادی،اجنبی جوں توں کھڑا ہوا اور ابن ساباط
سے معذرت کرنے لگا ابن ساباط نے گھٹڑی پھر اس کی کمر پر رکھ دی اور دونوں
چلتے چلتے دور ایک پرانے کھنڈر میں پہنچے یہاں ابن ساباط کی پناہ گاہ تھی
وہ اپنی گھٹڑی باہر رکھ کر دیوار پر سے اندر کود گیا اور اجنبی نے دونوں
گھٹڑیاں باہر سے اندر پھینک دیں، اس وقت ابن ساباط نے اطمینان سے اجنبی کے
چہرے کا چاند کی چاندنی مین جائزہ لیا تو اس نے محسوس کیا کہ اجنبی کے چہرے
سے نور کی شعاعیں پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہیں ۔پھر یکایک وہ ابن اساباط سے
مخاطب ہوا “ میرے بھائی یہ سارا مال تمہیں مبارک ہو، اس مکان کا مالک میں
ہی ہوں اور میں یہ مال اپنی خوشی سے تمہیں بخشتا ہوں، افسوس کہ میں تمہاری
کوئی خاطر خواہ خدمت نہیں کرسکا بلکہ راستے بھر میں اپنی کمزوری کی وجہ سے
تمہارے لیے زحمت کاباعث بنا خدا کے لیے مجھے معاف کردو،اچھا میں اب چلتا
ہوں خدا حافظ
اجنبی یہ کہہ کر تیزی سے شہر کی جانب روانہ ہوگیا لیکن اس کے الفاظ خنجر بن
کر ابن ساباط کے سینے میں پیوست ہوگئے، سیاہ کاری کے اس پتلے کے دل و دماغ
کو اجنبی کے اس محیر العقل حسن سلوک نے جنجھوڑ کر رکھ دیا وہ سوچ رہا تھا
کہ میں نے اسے کیا سمجھا اور سلوک کیا اور اس نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا؟
یہ سوچتے سوچتے اس کا دماغ ماؤف ہوگیا۔ ضمیر کی خلش نے اسے بے چین کر دیا
اس لیے سویرا ہوتے ہی وہ اجنبی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اب اس کے دل میں
کوئی خوف نہیں تھا بس یہی آرزو تھی کہ اس اجنبی کے قدموں میں اپنا سر رکھ
دے۔ رات والے مکان کو دھونڈنے میں اسے کوئی دقت نہ ہوئی اس نے مکان کے باہر
کھڑے ہوئے ایک فرد سے پوچھا کہ یہ مکان کس تاجر کا ہے؟ اس شخص نے حیرت سے
اس کی طرف دیکھا اور کہا تم شاید اجنبی معلوم ہوتے ہو یہاں کسی تاجر کا کیا
کام یہ تو جناب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا مکان ہے۔
ابن ساباط نے ان کا نام تو سن رکھا تھا لیکن ان کا شکل آشنا نہ تھا اس نے
اندر داخل ہوکر دیکھا کہ دروازے کے سامنے بڑے والے کمرے میں وہی رات والا
اجنبی بیٹھا تھا اور اس کے سامنے کوئی تیس چالیس افراد مؤدبانہ انداز میں
بیٹھے ہیں ابن ساباط ٹھٹھک کر رک گیا اتنے میں مسجد سے آزان کی آواز آئی
لوگ اٹھ کھڑے ہوئے جب وہ سب چلے گئے تو وہ اجنبی بھی اٹھا جونہی اس اجنبی
نے دروازے سے باہر قدم رکھا ابن ساباط روتا ہوا اس کے قدموں میں پر گر گیا
انفعال کے آنسوؤں نے اس کے دل کی ساری سیاہی دھو ڈالی تھی اجنبی نے محبت
اور شفقت سے اسے زمین سے اٹھایا اور گلے لگایا ابن سابط کی دنیا اب بدل چکی
تھی دوسروں نے جو راہ برسوں میں طے نہیں کی تھی ابن ساباط نے چند لمحوں میں
طے کرلی وہ اس اجنبی کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگیا اور ان کے فیض سے ہتھ
کٹے شیطان کے بجائے شیخ احمد ساباط کے بن گیا اور اہل اللہ میں اس کا شمار
ہوا جس شخص کو چالیس سال تک دنیا کی ہولناک سزائیں نہ بدل سکیں اس کو ایک
مرد خدا کے حسن سلوک نے بدل دیا تھا اور ان کے حسن سلوک اور قربانی کی چند
ساعتوں نے اس کو خاصان خدا کی صف میں شامل کردیا تھا
آپ کو پتہ ہے وہ کون بزرگ تھے ؟ وہ بزرگ حضرت شیخ جنید بغداد تھے
نگاہ قلندر میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی |