سیب ضرور لگیں گے

طالبان نے گزشتہ دنوں بونیر میں پیر بابا کے مزار کو تالا لگانے سمیت کئی درگاہیں تباہ کردیں۔ دیکھئے جو کچھ بھی ہورہا ہے اس میں طالبان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ انہوں نے ہمیشہ کھلے عام اور الفاظ چبائے بغیر کہا ہے کہ ہم مزاروں اور ان پر حاضری کو بدعت اور شرک سمجھتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے گزشتہ دنوں بونیر میں پیر بابا کے مزار کو تالا لگانے سمیت پشاور میں رحمان بابا اور اورکزئی ایجنسی میں حضرت علی حسین کے مزار سمیت کئی درگاہیں تباہ کردیں۔ وفاقی اور سرحد کی صوبائی حکومت یہی کہتی رہ گئی کہ نہیں نہیں طالبان ایسے نہیں ہیں۔ اب امن سمجھوتہ ہوچکا ہے وہ رفتہ رفتہ ایسی حرکتوں سے باز آ جائیں گے۔

طالبان نے یہ راز بھی کبھی نہیں چھپایا کہ امن معاہدہ ہو یا نہ ہو، ہتھیار کبھی بھی حکومت کے حوالے نہیں کئے جائیں گے۔ مگر حکومت بضد ہے کہ نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ مولانا صوفی محمد اور حکومت کے درمیان معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے طالبان کچھ عرصے میں ہتھیار حوالے کردیں گے۔

طالبان نے اس بارے میں بھی کبھی لگی لپٹی نہیں رکھی کہ وہ مغربی جمہوری تصورات کو اسلام کی عین ضد سمجھتے ہوئے انتخابی عمل و پارلیمان جیسی مکروہات کو تسلیم نہیں کرتے۔ انکا ببانگِ دہل موقف یہ ہے کہ انکے تصورِ شریعت کے تحت اینگلو سیکسن قوانین و روایات کے تحت قائم ہونے والی عدالتیں بھلے انہیں ہائی کورٹ کہا جائے یا سپریم کورٹ یہ جائز عدالتیں نہیں ہیں۔ لیکن حکومت اور اسکے ابلاغئیے مسلسل یہ کہہ کر سترپوشی کررہے ہیں کہ اس طرح کی باتیں طالبان دراصل اپنی سودے بازی کے وزن کو بڑھانے کے لیے کررہے ہیں۔ دراصل طالبان جو کہہ رہے ہیں اس کا وہ مطلب نہیں جو آپ لوگ نکال رہے ہیں۔ اور یہ کہ جس طرح اچھے برے ہر جگہ ہوتے ہیں اسی طرح طالبان میں بھی اگر انتہا پسند ہیں تو ساتھ ہی ساتھ اعتدال پسند بھی موجود ہیں۔ اس لئے فکر کی کوئی بات نہیں۔

حکومت کا خیال ہے کہ اس کے مولانا صوفی محمد کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے طالبان کچھ عرصے میں ہتھیار ڈال دیں گے۔

طالبان نے اس بات کو بھی کبھی اپنے سینے میں نہیں رکھا کہ انکی منزل صرف سوات نہیں بلکہ پورا صوبہ سرحد، اسکے بعد پاکستان اور پھر باقی دنیا ہے۔ جسے وہ اسلام سمجھتے ہیں جب تک اسکا پھریرا پورے عالم پر نہیں لہرائےگا جہاد جاری رہے گا۔ مگر حکومت اور اسکے حاشیہ بردار طالبان کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کا لاشعوری کردار ادا کرتے ہوئے خود کو اور دوسروں کو یہ تسلیاں دیتے ہیں کہ یہ سب ممکن نہیں۔ طالبان سوات تک ہی محدود رہیں گے۔ وہ اپنے وعدے کے پکے ہیں۔اس لئے خوامخواہ کی قیاس آرائیاں پھیلا کرکے مفاہمانہ فضا کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔

اور اب جبکہ طالبان اپنے اعلانیہ موقف کو عملی جامہ پہنانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں تو حکومت کو حیرت کا جھٹکا ایسے لگ رہا ہے جیسے اسے طالبان کے منشور اور حکمتِ عملی کی پہلی بار بھنک لگی ہو۔ حکومت کی طرف سے بادلِ نخواستہ یہ کہا جارہا ہے کہ اگر طالبان ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے تو پھر انہیں روکنے کے لئے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ گویا یہ دھمکی جیسے طالبان کے لئے کوئی نئی اور عجوبہ شے ہو۔

ایسی معصوم حکومت اور اسکی حکمتِ عملی کے بارے میں کیا کہا جائے جسے اس بات کا پکا یقین ہو کہ ہو نہ ہو اس بار آم کے درخت پر سیب ضرور لگیں گے۔ انشااللہ!

H/Dr. Shahzad Shameem
About the Author: H/Dr. Shahzad Shameem Read More Articles by H/Dr. Shahzad Shameem: 242 Articles with 364852 views H/DOCTOR, HERBALIST, NUTRITIONIST, AN EDUCATIONISTS, MOTIVATIONAL TRAINER, SOCIAL WORKER AND WELL WISHER OF PAKISTAN AND MUSLIM UMMAH.

NOW-A-DAYS A
.. View More