نذیر ناجی.... میڈیا کی مقدس گائے

لیڈر کے سابقہ شمارے میں صفحہ اول پر ایک تین کالمی خبر پاکستان کے سینئر صحافی، تجزیہ کار اور جنگ کے کالم نویس نذیر ناجی صاحب کی ایک جوننیر صحافی محمد احمد نورانی، جو جنگ گروپ کے ہی انگریزی اخبار ”دی نیوز“ سے وابستہ ہیں، کو گالیاں دینے کے بارے میں تھی۔ مذکورہ خبر میں یہ بتایا گیا تھا کہ نذیر ناجی صاحب نے اسلام آباد میں پلاٹ کی الاٹمنٹ کے بارے میں محمد احمد نورانی کی جانب سے کی گئی فون کال کا بہت برا محسوس کیا اور ان کو گالیاں دیں۔ نہ صرف نورانی صاحب کو گالیاں دیں بلکہ ”فرزند راولپنڈی“ شیخ رشید اور دی نیوز کے انصار عباسی کو بھی گالیوں سے سرفراز فرمایا۔ خبر میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مذکورہ آڈیو ریکارڈنگ انٹر نیٹ ”یو ٹیوب “ پر بھی دستیاب ہے۔ چنانچہ میں نے یو ٹیوب پر وہ گالیوں والی آڈیو تلاش کی، وہاں ایک آڈیو نہیں بلکہ گالیوں سے بھرپور تین اقساط موجود ہیں۔ پہلی ریکارڈنگ اس کال کی ہے جو نورانی نے ناجی صاحب کو کی تھی، جبکہ دوسری اور تیسری ریکارڈنگ ان کالز کی ہیں جو بعدازاں ناجی صاحب نے نورانی کو کیں! بچپن سے لے کر اب تک گھر سے باہر مختلف لوگوں کو گالیاں دیتے سن چکے ہیں لیکن جتنی فصاحت و بلاغت ناجی صاحب نے اپنے ایک ”پیٹی بھائی “ سے بات کرتے ہوئے دوسرے ”پیٹی بھائیوں“کے بارے میں گالیوں کی صورت میں بکھیری ہے اس کا تو جواب ہی نہیں۔ ناجی صاحب کے انداز تحریر اور خیالات سے مجھ سمیت کسی کو بھی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن مجھ ناچیز سمیت کوئی بندہ بھی ایسا نہیں سوچ سکتا کہ ایک ”اتنا بڑا“ لکھاری، جو ملک کے سب سے بڑے صحافتی ادارہ سے منسلک ہو، جس کے پچاس سال صحافت کی ”نذر“ہوگئے ہوں، وہ اتنی فصیح و بلیغ گالیاں دے سکتا ہے، وہ بھی کسی اور کو نہیں اپنے ہی ادارہ کے جونیئرز کو!

بات یہیں پر اختتام پذیر نہیں ہوئی بلکہ گوگل گروپس پر ”پریس پاکستان“ کے نام سے ایک گروپ ہے جہاں پر کسی صاحب نے ان تینوں آڈیو کالز کے یو ٹیوب کے لنک دے دیے، بس پھر کیا تھا پاکستان کا ہر تیسرا صحافی وہاں اپنے بے لاگ تجزیئے شامل کر رہا ہے۔ بات تجزیوں تک محدود رہتی تب بھی کسی حد تک ٹھیک تھا کہ اپنے نکتہ نظر کا اظہار کرنا ہر انسان کا حق ہے ! ہوا کچھ یوں کہ پہلے تو نذیر ناجی صاحب نے جنگ گروپ کے رﺅف کلاسرہ اور دیگر کچھ صاحبان سے اپنی گالیوں بھری ”محبت“ کی معافی مانگی اور اس کے بعد انہوں نے اسی ”پریس پاکستان“ گروپ کے نام ایک ای میل تحریر کر دی جس میں انہوں نے لکھا کہ وہ پچاس برس سے پاکستان کی صحافتی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، وہ میڈیا میں سب سے زیادہ ”شریف“ ہیں، انہوں نے آج تک جتنے بھی بیرونی سفر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے ہمراہ بھی کئے ہیں وہ اپنے اخراجات پر کئے ہیں، نیز وہ واحد صحافی ہیں جنہیں بھارت کی آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی بھی اردو کی خدمات کے عوض ایوارڈ سے نواز چکی ہیں۔ انہوں نے مزید تحریر کیا کہ آڈیو ریکارڈنگز جعلی ہیں اور ان کو پاکستان آرمی کے ”بلنڈرز“ اور ان ”بلنڈرز“ میں جماعت اسلامی کے کردار کے بارے میں لکھنے کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہ وہیں ایک صاحب نے دی نیوز میں چھپنے والی خبر کا لنک دے دیا جس میں ناجی صاحب نے اپنی فصیح و بلیغ گالیوں کی معذرت کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اپنے جذبات پر کنٹرول نہ رکھ سکے تھے۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ چل رہا ہے اور جناب نذیر ناجی صاحب نے اب وہیں پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون، انٹر نیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس، انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جرنلسٹس، پاکستان پریس فاﺅنڈیشن، دی انٹرنیشنل سنٹر فار جرنلسٹس اور انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کے نام ایک اپیل ”دائر“ کی ہے جس کا سبجیکٹ "Character Assignation of an Eminent Asian Scholar, Philosopher, Thinker & Writer"ہے۔ راقم نے سبجیکٹ جیسا اپیل میں ہے ویسا ہی انگریزی میں دیا ہے تاکہ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرتے وقت کسی قسم کا کوئی ابہام نہ رہے اور قارئین انگریزی تحریر اور اس کے سپیلنگ پر بھی غور کرسکیں۔ غالباً ناجی صاحب Assignation کی بجائے Assassination کا لفظ استعمال کرنا چاہتے تھے لیکن چونکہ ان کی ”انگریزی دانی“ بھی شاید میرے جیسی ہی ہو اس لئے سپیلنگ میں غلطی ہوگئی ہو یا شاید ان کے نزدیک صحیح لفظ ہی Assignation ہو! بہرحال متذکرہ اپیل میں انہوں نے نہ صرف بڑی خوبصورتی سے اپنی تعریفوں کے پل باندھے ہیں بلکہ اپنے سابقہ ”پیر و مرشد “میاں نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بارے میں بھی اپنے ”محب زرداری“ خیالات کا اظہار کر کے آصف علی زرداری کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ یہ ”لفافہ جرنلسٹس“ ہیں ، بریکٹ میں لکھتے ہیں (Journalist on Government Payroll) یعنی ایک طرف یہ دعویٰ کہ ان پر زرداری صاحب کا قریبی دوست ہونے کی وجہ سے کیچڑ اچھالا جارہا ہے اور دوسری طرف ان کی حکومت کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں کہ ان پر کیچڑ اچھالنے والے گورنمنٹ کے پے رول پر ہیں! نیز مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ دونوں ”پرو طالبان“ جماعتیں ہیں اور آڈیو ٹیپس جاتی عمرہ اور منصورہ میں تیار کی گئی ہیں۔ واہ! کیا بات ہے ناجی صاحب کی انفارمیشن کی، کتنی پکی اطلاع ہے ان کی اور کتنے پکے مخبر جنہوں نے انہیں اطلاع دی، اسی لئے اقوام متحدہ کی مدد لینے جارہے ہیں تاکہ جاتی عمرہ اور منصورہ پر بھی ”ڈرون حملے“ ہوسکیں کیونکہ ان کے بقول مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی ”پرو طالبان“ بھی ہیں اور انہوں نے ”ایک جغادری“ اور پاکستان کے سب سے بڑے صحافی کے خلاف آڈیو ٹیپس بھی تیار کی ہیں، ان دونوں مجرموں کو ناجی صاحب برسرعام ”وہ والی “گالیاں تو نہیں نکال سکتے (کیونکہ دونوں کے پاس ان کا علاج موجود ہے) چنانچہ اب ان کی سزا ڈرون حملے ہی ہوسکتے ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہر شخص اور ہر ادارہ کسی اور کو برا بھلا کہنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے، اگر صحافی جرنیلوں، ججوں، سیاستدانوں اور دیگر شخصیات اور اداروںپر تنقید کرسکتے ہیں، اگر وہ فوج کے ”بلنڈرز“ کے بارے میں لکھ سکتے ہیں تو وہ خود کیا اتنے ہی ”پوتر“ اور ”پاک“ ہیں کہ ان کو سوال کرنے والا ایک جونیئر صحافی بھی ان کی ”عالمانہ فصاحت و بلاغت“ سے بھرپور گالیوں سے محفوظ نہیں؟ کیا نذیر ناجی صاحب میڈیا کی ”مقدس گائے“ ہیں؟ کیا اندرا گاندھی سے ایوارڈ ملنا ”جنتی“ ہونے کا سرٹیفکیٹ ہے کہ اب ناجی صاحب جو دل میں آئے کریں، ان کو جنت کا سب سے اونچا اور اعلیٰ مقام لکھ دیا گیا ہے! ہم سب کو تھوڑی بہت شرم تو کرنی چاہئے !
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222636 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.