محمد کی محبت دین حق کی شرط اول
ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
محمد کی محبت ہے سند آزاد ہونے کی
خدا کے دامن توحید میں آباد ہونے کی
قرآن ناطق ہے:
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ
وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُنِاقْتَرَ فْتُمُوْہَا
وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَا اَحَبَّ
اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ
فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللّٰہُ لَایَھْدِی
الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (پ۰ا،التوبۃ:۲۴)
ترجمہ کنزالایمان:تم فرماؤ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے
بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمھار ا کنبہ اور تمھاری کمائی کے مال اوروہ
سودا جس کے نقصان کا تمھیں ڈر ہے ، اور تمھارے پسندکے مکان یہ چیزیں اﷲ اور
اس کے رسول اوراس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں توراستہ دیکھویہانتک
کہ اﷲ اپنا حکم لائے اور اﷲ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
Ö انسان کے اندر والدین ، اولاد،بھائی ، بیوی، خاندان اور مال ، تجارت اور
مکان ان سب چیزوں سے محبت فطری چیز ہے ، لیکن رب تعالیٰ اپنے بندوں کو آگاہ
فرماتا ہے کہ اگر تمھارے اندر ان سب چیزوں کی محبت میری اور میرے محبوب صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت سے بڑھ جائے تو تم گویا خطرہ کی حد میں
داخل ہوچکے ہوا ور بہت جلد تم کو میراغضب و عذاب اپنی لپیٹ میں لے لیگا۔ اس
سے پتا چلتا ہے کہ ایک مومن کے لئے رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم سے محبت نہ صرف یہ کہ فرض ہے بلکہ سب سے قریبی رشتہ داروں اور
سب سے قیمتی متاع پر مقدم ہے۔ خود رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
لَایُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ
وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْن۔
(صحیح البخاری،کتاب الایمان ، باب حب الرسول.....الخ،الحدیث:۱۵،ج۱، ص۱۷)
یعنی تم میں کا کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسکے نزدیک
اس کے والد اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب نہ ہو جاؤں۔
ایک روزحضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم سے عرض کیا یا رسول اﷲ! عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
آپ میری جان کے علاوہ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں تو نبی پاک صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:’’ اس کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے
تم میں سے کوئی(کامل) مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسکے نزدیک اسکی جان سے
بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘۔ یہ سنکر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا اس
ذات کی قسم! جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی آپ میری جان سے بھی زیادہ محبوب
ہیں اس پر حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :ہاں اب!اے عمر!
(صحیح البخاری ، کتاب الایمان والنذور، باب کیف کانت.....الخ، الحدیث:
۶۶۳۲،ج۴،ص۲۸۳)
جنگ احد میں ایک صحابیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے باپ بھائی اور شوہر پر وانہ
وار لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ انھیں جب یہ معلوم ہوا تو اسکا کچھ غم نہ کیابس
یہ پوچھا کہ رسول اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کیسے ہیں؟ جب
ان کو بتایا گیا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم بخیر و سلامت ہیں
تو بولیں کہ مجھے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دکھا دو، آپ کو
دیکھ کر (اور ایک روایت میں ہے کہ بے تابانہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم کا کپڑا پکڑ کر )کہنے لگیں: ’’ کُلُّ مُصِیْبَۃٍ بَعْدَکَ
جَلَلْ‘‘یعنی آپ کے ہوتے ہوئے ہر مصیبت ہیچ ہے ۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، غزوۃ احد،شأن المرأۃ الدیناریۃ،ج۳،ص۸۶)
یہ تھا محبت رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا جذبہ صادق !کیا اسکی
نظر مل سکتی ہے؟
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول
اﷲ عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا۔
یا رسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم آپ یقینا میرے نزدیک
میری جان اور میری اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں ، لیکن جس وقت آپصلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم یاد آ جاتے ہیں تو جب تک آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلمکی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو دیکھ نہ لوں قرار نہیں آتا، لیکن
اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد جنت میں داخل ہو کر آپ انبیاء کرام علیھم
السلام کے ساتھ بلند مقام میں ہونگے اور میں نیچے درجے میں ہونے کے سبب
اندیشہ کرتاہوں کہ کہیں آپ کو نہ دیکھ سکوں۔یہ سنکر حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم خاموش رہے اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ آیت لے کر
حاضر ہوئے:
وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ
اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ
وَالشُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ ج وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِیْقًاo (
پ۵،النساء:۶۹)
ترجمہ کنزالایمان : اور جو اﷲ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا
ساتھ ملے گا جن پر اﷲ نے فضل کیایعنی انبیاء اور صدیق اورشہید اور نیک لوگ
یہ کیاہی اچھے ساتھی ہیں۔
(حلیۃ الاولیاء، الحدیث:۵۵۱۶،ج۴،ص۲۶۷)
اسی لئے صحابہ کرام علیھم الرضوان ایک لمحہ کے لئے بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلم کو بے چین دیکھنا گوارا نہ کرتے۔ فتح مکہ سے پہلے مشہور
صحابی حضرت زیدرضی اﷲ عنہ دشمنان اسلام کے نرغے میں آگئے، صفوان بن امیہ نے
ان کو قتل کرنے کے لئے اپنے غلام نِسطاس کے ساتھ تنعیم بھیجا۔ حضرت زید رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ کو حدود حرم سے باہر لے جایا گیا، تو ابوسفیان نے (جو ابھی
اسلام نہ لائے تھے) ان سے پوچھا:زید! میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا
ہوں کیا تم پسند کرسکتے ہو کہ اس وقت ہمارے پاس تمہاری جگہ محمد (صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم) ہوں اور ہم ان کو قتل کریں اور تم آرام و سکون سے
اپنے اہل میں رہو ۔ حضرت زید نے جواب دیا اﷲ عزوجل کی قسم! میں تو یہ بھی
پسند نہیں کرتا کہ اس وقت میرے حضور جہاں کہیں بھی ہوں ان کو ایک کانٹا بھی
چبھے اور میں آرام و سکون سے اپنے اہل میں رہوں۔یہ سنکر ابوسفیان نے کہا
میں نے ایسا کہیں نہیں دیکھا کہ کسی سے ایسی محبت کی جاتی ہو، جیسی محبت
محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ان کے اصحاب کرتے ہیں ،رضی اﷲ عنہم
۔اسکے بعد حضرت زیدرضی اﷲ عنہ کو شہید کردیا گیا ۔
(شرح الشفاء للقاضی عیاض،باب الثانی ، فصل فیما روی عن السلف،ج۲،ص۴۴)
حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
صحبت میں پہنچنے کے بعد آپ کے لئے اپنا چین چین نہ سمجھا اپنی راحت، راحت
نہ سمجھی اپنی جان، جان نہ سمجھی، بلکہ یہ سب کچھ آپ نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلم پر قربان کردیا تھا۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
سفر میں ہوتے تو حضرت بلال رضی اﷲ عنہ آپ کو ہر طرح کا آرام پہنچانے میں
کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتے ۔دھوپ کا وقت ہوتا تو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے لئے سایہ کا نظم کرتے، پڑاؤ ڈالا جاتا توخیمہ نصب
کرتے،معرکوں میں ہوتے تو یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے محافظ
ہوتے ۔ جب حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کے انتقال کا وقت آگیا تو انکی زوجہ نے کہا
وَاحُزْنَاہٗ (ہائے غم)۔ حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کہا، نہیں بلکہ
’’وَاطَرَبَاہٗ اَلْقٰی غَدًا الْاَحِبَّہ مُحَمَّدًا وََّصَحْبَہ ‘‘
(شرح الشفاء للقاضی عیاض،باب الثانی ، فصل فیما روی عن السلف،ج۲،ص۴۳)
واہ خوشی! کل ہم محمد اور ان کے اصحاب سے ملیں گے (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم و رضی اﷲ تعالیٰ عنہم)
اورجس سے محبت ہوتی ہے اس کی ہر چیز سے محبت ہوتی ہے اس کی ہرادا سے محبت،
اس کی رفتار سے محبت ، اسکی گفتار سے محبت ، اس کے لباس وطعام سے محبت ،غرض
اس کی ہر چیز سے محبت ہوتی ہے۔
حضرت عبیدہ بن جریح نے حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ سے کہا :میں نے دیکھا آپ
بیل کے دباغت کئے ہوئے چمڑے کا بے بال جوتا پہنتے ہیں۔حضرت عبد اﷲ ابن عمر
رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:میں نے رسول اﷲصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمکو
دیکھا کہ آپ ایسا ہی جوتا پہنا کرتے تھے جس میں بال نہ ہوں اسی لئے میں بھی
ایسا ہی جوتا پہنناپسند کرتا ہوں۔
(صحیح البخاری، کتاب الوضوء ، با ب غسل الرجلین.....الخ،الحدیث ۸۶۶،
ج۱،ص۸۰)
حضرت انس رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک درزی نے رسول اﷲ عزوجل و صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی کھانے کی دعوت کی میں بھی حضور صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ گیا ، جوکی روٹی اور شور با حضور صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے لایا گیا جس میں کدو اور خشک کیا ہوا
نمکین گوشت تھا، کھانے کے دوران میں نے حضور علیہ الصلوۃوالسلام کو دیکھا
کہ پیالے کے کناروں سے کدو کی قاشیں تلاش کررہے ہیں، اسی لئے میں اس دن سے
کدو پسند کرنے لگا۔
(صحیح البخاری ، کتاب الاطعمۃ، باب الدّبا، الحدیث۵۴۳۳،ج۳،ص۵۳۶)
امام ابو یوسف (شاگرد امام اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنھما )کے سامنے اس روایت کا
ذکر آیا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کدو پسند فرماتے تھے ،مجلس
کے ایک شخص نے کہا:لیکن مجھے پسند نہیں یہ سنکر امام ابو یوسف رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ نے تلوار کھینچ لی اور فرمایا : جَدِّدالْاِیِْمَانَ وَ اِلاَّ
لَاَقْتُلَنَّکَ تجدید ایمان کر، ورنہ تم کو قتل کئے بغیر نہ چھوڑوں گا۔
(الشفاللقاضی، باب الثانی،فصل فی علامۃ صحبتہٖ صلی اﷲ علیہ وسلم ، ج۲،ص۵۱)
(ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
جاری ہے۔۔۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے |