يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا ۔۔۔

آج سے چودہ سو برس قبل سرزمین عرب کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی ۔ پورا معاشرہ زبوں حالی کا شکار تھا ۔ دین ابراہیمی کی جگہ شرک و بت پرستی نے لے لی تھی ۔ ہر ہر قبیلے اور ہر ہر گھر میں ایک ایک بت تھا ۔ فتح مکہ کے وقت خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت تھے۔ دور جاہلیت میں مشرکین بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھتے تھے ، انہیں حاجت روا و مشکل کشا اور اللہ کے آگے سفارشی سمجھتے تھے ۔ بتوں کے آگے سجدہ و طواف کرتے ، نذرانے اور قربانیاں پیش کرتے ۔ فال گیری اور نجومیوں و کاہنوں کی خبروں پر یقین رکھتےتھے ۔ بعض اوقات و ایام اور مقامات کو منحوس سمجھتے تھے ۔ قبائلی عصبیت و نسلی تفاخر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تلواریں نکل آتیں اور پھر سالہا سال لڑائیاں جاری رہتیں۔ انتقام لینا زندگی کا مقصد بن جاتا تھا۔ جھوٹ ، چوری، دھوکہ فریب ، زنا، قمار بازی، فحاشی، عریانی عام تھی ۔ شادیوں کی کوئی حد نہ تھی ۔ بیک وقت دو سگی بہنوں یہاں تک کہ سوتیلی ماں سے بھی نکاح جائز تھا۔ شراب اور جوا عام تھا ۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے ۔

جب رسول اللہ ﷺ نے اسلام کی دعوت دی تو کفار نے آپ ﷺ کا مذاق اڑایا، آپ ﷺکو برا بھلا کہا، آپ ﷺ پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑ ڈالے، آپ ﷺ کو ستایا ، ڈرایا ، دھمکایا …. لیکن پھر انہی میں سے کچھ لوگ آپ ﷺ پر ایمان لائے ۔ اور پھر اسلام قبول کرنے والے ان لوگوں نے …. بت پرستی کو چھوڑ دیا …. بتوں کے پاس مجاور بن کر بیٹھنا چھوڑ دیا …. ان کی پناہ ڈھونڈنا چھوڑ دیا … انہیں زور زور سے پکارنا اور حاجت روائی و مشکل کشائی کے لئے ان سے فریاد اور التجائیں کرنا چھوڑ دیا …. ان کو اللہ کے آگے سفارشی سمجھنا چھوڑ دیا …. بتوں کا حج و طواف کرنا چھوڑ دیا …. ان کے سامنے عجز و نیاز سے پیش آنا اور انہیں سجدہ کرنا چھوڑ دیا …. بتوں کے لئے نذرانے اور قربانیاں پیش کرنا چھوڑ دیا …. بتوں کے نام پر جانور ذبح کرنا چھوڑ دیا …. بتوں کے نام کی نذر ماننا چھوڑ دیا … ازلام یعنی فال گیری کے لئے استعمال ہونے والے تیروں کو چھوڑ دیا …. نجومیوں اور کاہنوں کی باتوں پر ایمان لانا یقین کرنا چھوڑ دیا …. کاہنوں کو عالم الغیب سمجھنا چھوڑ دیا …. مختلف حالات و واقعات سے اچھا برا شگون لینا چھوڑ دیا … بعض دنوں ، مہینوں ، جانوروں ، گھروں اور عورتوں کو منحوس سمجھنا چھوڑ دیا … بیت اللہ کا برہنہ طواف چھوڑ دیا …. آپس کی سالہا سال سے جاری لڑائیوں کو چھوڑ دیا …. قبائلی عصبیتوں کو چھوڑ دیا … غرور و تکبر اور نسلی تفاخر کو چھوڑ دیا …. جھوٹ کو چھوڑ دیا … غیبت کو چھوڑ دیا … چوری کو چھوڑ دیا … دھوکہ دہی کو چھوڑ دیا… مکر و فریب کو چھوڑ دیا …. منافقت کو چھوڑ دیا …. بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا چھوڑ دیا …. بچوں کو فقر و فاقہ کے ڈر سے قتل کرنا چھوڑ دیا …. قبروں پر نوحہ اور بین کرنا چھوڑ دیا …. سود لینا دینا کھانا چھوڑ دیا … مردار کھانا چھوڑ دیا …. حرام کھانا چھوڑ دیا …. شراب پینا پلانا چھوڑ دیا … جوا کھیلنا چھوڑ دیا …. قمار بازی چھوڑ دی … بد کاری و بے حیائی کو چھوڑ دیا … فحش کاری و زنا کاری کو چھوڑ دیا …. ان گنت عورتوں کو بیویاں بنانا چھوڑ دیا …. لہو و لعب کو چھوڑ دیا …. گانے بجانے کو چھوڑ دیا…. غرض یہ کہ زمانہ جاہلیت کی تمام برائیوں اور ساری رسومات کو چھوڑ دیا ….
پھر نہ صرف یہ کہ برائیوں کو چھوڑا بلکہ اچھائیوں کو بھی اپنا لیا …. ایک اللہ کی وحدانیت پر ایمان لائے …. اسی کو حاجت روا و مشکل کشا مان لیا…. اسی کو حافظ و ناصر سمجھ لیا…. اللہ کے حکم پر اس کے گھر کا حج و طواف اختیار کیا …. اللہ کے آگے عاجزی اختیار کی …. اپنے سجدے اللہ ہی کے لئے مخصوص کر دیئے … اپنی نذر اور قربانی اللہ ہی کے لئے مخصوص کر دی …. ایک اکیلے اللہ کو عالم الغیب مان لیا… اللہ کی ذات اور اس کی تمام صفات پر ایمان لے آئے … اللہ کے فرشتوں پر ایمان لائے …. اللہ کی کتابوں پر ایمان لائے …. اللہ کے رسولوں پر ایمان لائے …. یوم آخرت پر ایمان لائے …. ہر نفع نقصان کو کاتب تقدیر کی منشاء سمجھ لیا … موت کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور خالق کائنات کے سامنے جوابدہی پر ایمان لائے … یوم جزا ، جزا و سزا ، جنت ، جہنم، پل صراط، عرش ، کرسی ، لوح محفوظ سب پر ایمان لائے …. آپس کی رنجشوں کو بھلا کر باہم شیر و شکر ہو گئے …. سچائی اختیار کی …. پاک دامنی اختیار کی … انکساری اختیار کی …. ایثار و تواضع اختیار کی …. بیٹیوں کو اللہ کی رحمت سمجھا …. عورتوں کی عزت کرنا شروع کی …. وراثت میں عورتوں کے حق کو حق جانا… عورتوں کی عصمت کے محافظ بنے … رزق حلال کے لئے تگ و دو کو عبادت سمجھ لیا …. شریعت نے تعدد ازواج کو محدود کیا تو چار بیویوں تک محدود ہو گئے …. نماز کی اہمیت کو سمجھا… نماز کے وقت کاروبار بند کئے …. خشوع و خضوع کے ساتھ نماز قائم کی …. رمضان المبارک کے روزے رکھے …. زکوٰۃ سے تزکیہ نفس کیا …. تقویٰ کو فضیلت کا معیار سمجھ لیا … دولت جمع کرنے کی بجائے نیکیاں جمع کرنے میں ایک دوسرے سے ریس لگائی… صدقات وخیرات میں آگے نکل جانے کی جستجو کی …. جہاد میں سر فروشی کے ریکارڈ قائم کئے …. دنیا کو دھوکے کا گھر جان لیا …. معاشرے میں عدل و انصاف قائم کیا … مساوات قائم کی … اقامتِ دین کی خاطر جدو جہد کی … امر بالمعروف کے ساتھ ساتھ نہی عن المنکر کو بھی لازم سمجھ لیا … اللہ سے محبت کی …. اللہ کے رسول ﷺ سے محبت کی…. شریعت کے ہر ہر حکم کو لبیک کہا … سنت کے ہر ہر عمل کو اختیار کیا …. داڑھیاں رکھیں …. شلواریں، پاجامے ٹخنوں سے اونچے کر لئے …. اپنی خلوت و جلوت کو اللہ کے ذکر سے معمور کیا …. ذکر اللہ کو روح کی غذا سمجھ لیا …. اللہ کی بارگاہ سے رضی اللہ عنہ کی ڈگری مل جانے کے باوجود قرآن کی تلاوت کے دوران رونا معمول بنا لیا… نبی کریم ﷺ نے بتایا کہ جنت کا طالب اور جہنم سے خائف رات کو سوتا نہیں تو اللہ کی پکڑ اور جہنم کے خوف سے راتوں کو اٹھ کر نمازوں میں رونا معمول بنا لیا … اللہ نے مردوں کو عورتوں پر فضیلت عطا کی تو عورتوں نے مان لیا…. پردے کو اختیار کیا …. گھروں میں مستور ہو جانے کو پسند کر لیا …. زیب و زینت کو فقط اپنے شوہروں کے لئے محدود کر لیا …. اپنے شوہروں کو اپنے سر کا تاج اور مجازی خدا سمجھ لیا …. غرض یہ کہ صحابہ کرام ؓ نے اللہ ، رسول ﷺ ، قرآن و سنت یعنی شریعت کے ہر ہر حکم کو حق جانا ….

اللہ نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّـهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا ﴿النسآء۔136﴾
اے ایمان والو ! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور جو کتاب اس نے اپنی پیغمبر (آخرالزماں) پر نازل کی ہے اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل کی تھیں ۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں اور روزقیامت سے انکار کرے وہ رستے سے بھٹک کر دور جا پڑا ۔
انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا ۔

اللہ نے فرمایا :
قُلۡ إِن كُنتُمۡ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحۡبِبۡكُمُ ٱللَّهُ ….. (اٰل عمران۔ 31)
(اے پیغمبر ! لوگوں سے ) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو ۔
انہوں نے پیروی اختیار کر لی ۔

اللہ نے فرمایا:
وَمَآ ءَاتَٮٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَہَٮٰكُمۡ عَنۡهُ فَٱنتَهُواْ‌ۚ (الحشر۔7)
جو چیز تم کو پیغمبر ﷺ عطا کریں وہ لے لو، اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔
بس انہیں جس بات کا حکم دیا گیا ، وہ اس پر جم گئے … اور جس سے روکا گیا ، اسے چھوڑ دیا ۔

اللہ نے فرمایا:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱدۡخُلُواْ فِى ٱلسِّلۡمِ ڪَآفَّةً۬ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٲتِ ٱلشَّيۡطَـٰنِ‌ۚ ….. (البقرۃ ۔۔ 208)
اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو۔
وہ اسلام میں پورے پورے داخل ہو گئے ۔

ذرا ہم بھی دیکھ لیں کہ کہیں ہم بھی تو وہی سب کچھ نہیں کر رہے جو مکہ کے مشرکین کی روش تھی؟ …. کہیں ہم بھی تو توہم پرست نہیں ہو گئے ؟ …. چیزوں اور دنوں کو منحوس تو نہیں سمجھنے لگے؟ …. اللہ کے سوا دوسروں کی چوکھٹوں پر تو سجدہ ریز نہیں ہو رہے ؟ …. اللہ کی صفات غیر اللہ میں تو تلاش نہیں کرنے لگ گئے ؟ … یا غیر اللہ کو تو اللہ کی صفات کا حامل نہیں سمجھنے لگ گئے؟ … باس یا افسر کو اللہ سے بڑھ کر تو نہیں ماننے لگے؟ …. اللہ کے رسول ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا مذاق تو نہیں اڑانے لگ گئے ؟ …. برائی سے روکنے والوں کو برا بھلا تو نہیں کہنے لگ گئے ؟ …

تو دنیا میں اگر وہ کامیابی چاہئے جو عرب کے لوگوں کو قبول اسلام کے بعد ملی …. اور آخرت میں وہ مقام چاہئے جس کی رسول اللہ ﷺ نے بشارت دی تو چلو ہم بھی ایک بار پھر پورے پورے اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں …. جب اتنے سخت مشرکین کے لئے یہ ممکن تھا تو انشاء اللہ ہمارے لئے بھی اللہ تعالیٰ آسانیاں پیدا فرمائیں گے اور ثابت قدمی عطا فرمائیں گے….
اے آج کے مسلمانو!
آؤ ہم بھی ایک مرتبہ پھر سے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا ۔۔۔

https://abushaheer.wordpress.com/2013/04/09/o-believers-believe/

Abu Shaheer
About the Author: Abu Shaheer Read More Articles by Abu Shaheer: 5 Articles with 3224 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.