وطنِ عزیز میں انتخابی بخار اپنے
جوبن پر ہے اور صرف سیاستدان ہی نہیں عوام بھی آہستہ آہستہ اِس بخار میں
مبتلا ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور پیش کرکے یہ
سمجھ بیٹھی ہیں کہ عوام کو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے جبکہ اپنی تمام تر
سادگی اور بھولپن کے باوجود عوام میں بہرحال شعور کی ایسی لہر جاگ اُٹھی ہے
جو ایسے کھلونوں سے بہلنے والی نہیں۔وہ جانتے ہیں کہ 1970ءکے روٹی ، کپڑا
اور مکان کے نعرے سے لے کر 2008ءکے انتخابات تک کبھی کسی سیاسی جماعت نے
اپنے منشور پر عمل کیا ہے ، نہ آئیندہ کرنے کی توقع۔ ویسے اگر مختلف سیاسی
جماعتوں کے منشور دیکھے جائیں تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت
نے عوام کو بیوقوف بنانے کی اچھی کاوش کی ہے ۔ کسی منشور میں مزدور کی
تنخواہ سولہ اور کسی میں اٹھارہ ہزار مقرر کرنے کی نوید سنائی گئی ہے اور
لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور کرپشن کو جَڑ سے اکھاڑ دینے کے نعرے تو ہر منشور کے
ماتھے کا جھومر ہیں۔ہم تو ابھی انہی بلند بانگ ”منشوری دعووں“ میں اُلجھے
ہوئے تھے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے تو تمام منشوروں پر ڈرون حملہ کرتے ہوئے
مزدور کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کرنے کا اعلان کردیا۔ مجھے یہ سُن
کر ایک پرانا لطیفہ یاد آگیا ۔ایک بھوکی بلّی کافی دیر سے ایک چوہے کے بِل
سے باہر نکلنے کا انتظار کر رہی تھی لیکن چوہا باہر نکلنے کا نام ہی نہیں
لے رہا تھا ۔آخر کار بلّی کو ایک ترکیب سوجھی ۔اُس نے چوہے کو بڑے پیار سے
مخاطب کرتے ہوئے کہا ”بھانجے ! اگر تم اپنے بِل سے نکل کر اُس دوسرے بِل
میں چلے جاؤ تو میں تمہیں پانچ سو روپے انعام دونگی“۔چوہے نے لالچ میں آکر
بِل سے باہر مُنہ نکالا لیکن پھر فوراََ ہی اندر کر لیا ۔بلّی نے پوچھا
”بھانجے کیا ہوا؟“۔چوہے نے جواب دیا ”خالہ ! پیسے بوہتے تے پینڈا تھوڑا اے،
کوئی چکر اے“۔ (خالہ ! پیسے زیادہ اور فاصلہ کم ہے اِس لیے کوئی گڑ بڑ
ہے)۔محترم مولانا فضل الرحمٰن کی اِس چھلانگ میں یقیناََ کوئی نہ کوئی چکر
ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں ”کُرسی“ سے بڑا کوئی چکر تو ہو ہی
نہیں سکتا۔ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مولانا نے یہ سوچا ہو کہ اگلی صدی
تک تو اُن کے وزیرِ اعظم بننے کاکوئی چانس نہیںاِس لیے کیوں نہ ایک تولہ
سونے کے برابر تنخواہ مقرر کرنے کا شوشہ چھوڑ کر آنے والی حکومت کو پریشان
کیا جائے۔
ایسے ہی شوشے محترم عمران خاں بھی چھوڑ رہے ہیں۔وہ کبھی 90 اور کبھی 9 دِن
میں کرپشن کے خاتمے کا اعلان فرما رہے ہیں اور اب تو اُنہیں بھی محترم
ڈاکٹر طاہر القادری کی طرح بشارتیں ہونے لگی ہیں۔ اُنہیں بھی خواب میں
”کلین سویپ“ کی بشارت ہوئی اِس لیے اُنہوں نے فرمایا کہ عنقریب وہ ملک کے
وزیرِ اعظم ہونگے۔اُن کا فرمان بجا اور خواب بھی سچّا لیکن جس بات سے میں
پریشان ہوںوہ یہ ہے کہ خاں صاحب تو متعدد بار یہ فرماچکے ہیں کہ وہ جنابِ
زرداری کی صدارت میں وزارتِ عظمیٰ کا حلف نہیں اٹھائیں گے ۔اب اگر وہ جیت
بھی جاتے ہیں تو وزیرِ اعظم تو پھر بھی نہیں بن سکتے کیونکہ تلخ حقیقت تو
یہی ہے کہ جو بھی وزیرِ اعظم بنے گا اُس سے حلف تو بہرحال صدرِ مملکت جناب
آصف علی زرداری نے ہی لینا ہے۔اِس لیے محترم خاں صاحب کا خواب کلین سویپ تک
تو درست ہو سکتا ہے وزارتِ عظمیٰ تک نہیںاور اگر وزارتِ عظمیٰ ہی نہیں تو
ایسے کلین سویپ کو کیا بھاڑ میں جھونکناہے۔
خاں صاحب نے پینتیس فیصد سے زائد نوجوانوں کو الیکشن کے اکھاڑے میں اتارا
ہے جس پر اُنہیں فخر بھی ہے لیکن یہ نوجوان بھی تو ایسے ہی خانوادوں سے
تعلق رکھتے ہیں جن سے چوہدری مونس الٰہی ، عبدالقادر گیلانی اور علی موسیٰ
جیسے نوجوانوں کا تعلق ہے۔ خُدا کرے کہ یہ نوجوان ملک و قوم کے لیے نیک فال
ثابت ہوںلیکن اگریہ بھی مونس الہٰی ، علی موسیٰ گیلانی اور عبدالقادر
گیلانی کے نقشِ قدم پر چل نکلے تو پھر؟۔ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے
قائدین سے کبھی کوئی بد گمانی نہیں ہوئی اور ہم تو کہتے چلے آ رہے ہیں کہ
ہمارے بھولے بھالے اراکینِ اسمبلی انتہائی پاک صاف ، دیانتدار اور ملک و
قوم کی محبت میں سرشار ہیں لیکن ہم جیسوں کی کون سُنتا تھا۔وہ تو اللہ بھلا
کرے ہمارے الیکشن کمیشن اور عدلیہ کا جنہوں نے لگ بھگ ستائیس ہزار
امیدواروں کے ہاتھ میں امانت ، دیانت، صداقت اور شرافت کا سرٹیفیکیٹ تھما
کر اُنہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی تنقید سے نجات
دلا دی۔ اُدھرہماری عدلیہ بھی شفقتتوں اور عنایتوں میں کسی سے کم نہیں۔جن
دو اڑھائی سو افراد کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہوئے عدلیہ نے چند بد نصیبوں
کے سوا سبھی کو صادق و امین قرار دے کر میدانِ عمل میں بھیج دیا ہے اِس لیے
اب ہم بڑے فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو
دیانتداروں کی آماجگاہ ہے ۔
دوسری طرف کچھ لوگ اب بھی یہ کہتے ہیں کہ اوّل تو انتخابات ہونے والے نہیں
اور اگر ہوئے بھی تو یہ پاکستان کی تاریخ کے عجیب و غریب اور مضحکہ خیز
انتخابات ہونگے۔وہ کہتے ہیں ہم نے ملک ایسے آزاد الیکشن کمیشن اور آزاد
نگران حکومت کے سپرد کر دیا ہے جن کی کوئی کَل سیدھی نہیں۔پچاسی سالہ چیف
الیکشن کمشنر کو نگران وزیرِ اعظم میر ہزار خاں کھوسو میں محض ایک خوبی نظر
آئی کہ وہ ستاسی سال کے ہیں۔ شاید فخرالدین جی ابراہیم صاحب نے یہ سوچا ہو
گا کہ کوئی تو ایسا ہو جو عمر میں اُن سے بھی بڑا ہو۔ اب صورتِ حال یہ ہے
کہ نگران حکومت اور آزاد الیکشن کمیشن میں نِت نئے لطیفے جنم لے رہے
ہیں۔کھوسو صاحب تو استراحت ہی فرماتے رہتے ہیں جب کہ پنجاب کے چڑیا والے
وزیرِ اعلیٰ پہلے دن سے ہی بسنت منانے کے چکر میں تھے لیکن جب اُن کا کوئی
بَس نہیں چلا تواُنہوں نے سارا غصّہ اداروں کی اُکھاڑ پچھاڑ پر نکال دیا
اور شفاف انتخابات کی آڑ میں اداروں میں وہ اُدھم مچایا ہے کہ کسی کی کچھ
سمجھ میں نہیں آرہا۔حیرت ہوتی ہے کہ پولیس کے سَب انسپکٹرز کو ایک تھانے سے
اُٹھا کر دوسرے تھانے میں بھیج دینے میں کہاں اور کیسے شفاف انتخابات مضمر
ہیں؟۔پھرشفافیت کا یہ فارمولا صرف پنجاب ہی میں کیوں آزمایا جا رہا ہے ۔دوسرے
صوبوں کو بھی اِس سے مستفیدہونا چاہیے۔ اگر باقی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نا
اہل ہیں تو ہم بخوشی اپنا وزیرِ اعلیٰ اُنہیں اُدھار دینے کو تیار ہیںالبتہ
اُن کی ”چڑیا“ کے بارے میں کوئی وعدہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ آجکل
”وائٹ ہاؤس“ میں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ |