کسی بھی ملک کی تاریخ تہذیب کے
آئینے میں شناخت کی جاتی ہے اور دیکھا یہ جاتا ہے کہ تہذیب کی اساس کیا تھی
۔ کس حد تک اس میں اخذ و قبول کی صلاحیت تھی ۔ اور اس میں کس حد تک دوسرے
تہذیبی دھاروں سے خود کوہم آہنگ کرنے کی قوت تھی ، ہندوستان دنیا کا واحد
ملک ہے جہاں مختلف تہذیبی دھاروں نے اپنی شناخت یا پہجان بنائی ہے ۔ اور
ہزار ہا برس کی اقوام عالم کی تاریخ اگر آج بھی زندہ ہے تو اس کی وجہ وہ
تہذیبی دھار ے ہیں جو ایک دوسرے سے اختلافات کے با وجودباہم ربطہ کے خصوصی
جوہر اپنے اندر پوشیدہ رکھتے ہیں ان تمام تہذ یبوں کے مختلف رنگ ہیں مگر سب
رنگ مل کر ہندوستانی تہذیب کی بنیاد کا پتھر قرار پاتے ہیں ۔بالکل اسی طرح
جیسے انسانی جسم میں ہاتھ کی انگلیاں ہوتی ہیں جو ایک دوسرے سے بڑی چھوٹی
ہوتے ہوئے بھی ایک ہی ہاتھ کا حصہ ہوتی ہیں۔ سنگم پر گنگا اور جمنا کے پانی
کارنگ مختلف ہوتے ہوئے بھی ایک ہوتا ہے اور ان نکات کی نشاند ہی کا سب سے
موثر ذریعہ تصنیف و تالیف ہے۔کتابیں تہذیب وثقافت کی امین ہوتی ہیں اوراس
کے ذریعہ ماضی کے ورثہ کو مستقبل کے لوگوں تک پہنچا کر کامیابی کی راہیں
متعین کی جاتی ہیں انسانی تاریخ کے ہر عہد میں کتابوں کی اہمیت تسلیم کی
گئی ہے یہی وجہ ہے کہ بنی نوع انسان کی رشد و ہدایت کے لےء خدائے پاک نے
انبیائے کرام پر چار آسمانی کتابیں نازل فرمائیں ان کتابوں کے نزول کو
فرزندان آدم کے لئے نعمت اور ہدایت کامنبع و مرکز قرار دیا دنیا کی تاریخ
میں پیغمبر ، صحابہ کرام اولیاو صوفیاء ، شاعر و ادیب اور ان جیسی ہستیاں
گزریں ان سبھوں نے معاشرتی و انسانی نظام کی تشریح کتابوں کے ذریعہ ہی
کی’’مسند قفر وارشاد‘‘ سید ظہیر حسین جعفری کی ایک ایسی کتاب ہے جس میں
انھوں نے تاریخ خانوادۂ کریمیہ نعیمیہ سلون کو جمع کر کے عہد حاضر کی کشا
کشوں میں روشن و منور خانقاہ کی اہمیت و معنویت کا احساس دلا یا ہے۔
ہندوستان میں چشتی سلسلہ کی بنیاد خوا جہ معین الدین چشتی نے قائم کی جو کہ
پر تھوری راج چوہان کے زمانے میں (1192کے آس پاس) ہندوستان میں وارد ہوئے
ان کے شاگردوں میں خواجہ بختیار کاکی خواجہ فریدالدین گنج شکر،خواجہ نظام
الدین اولیاء، خواجہ نصیرالدین چراغ دہلوی اور ان جیسے بے شمار مشہور صوفی
گزرے ہیں ان صوفیا اور اولیاء کی اخلاقی بلندی کے نتیجے میں بہت سے کنبوں
اور طبقوں نے اسلام قبول کیا ، چشتیوں نے اسلام کو پھیلا نے کی غرض سے
ہندوستان کے علاوہ دوسرے ممالک کا بھی سفر کیا شہروں سے قصبات تک اور قصبات
سے دیہات تک انھوں نے رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری کیا ۔خانقاہ کریمیہ سلون
بھی اسی تحریک کا مر ہون منت ہے۔ اس خانقاہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ صدیوں
سے رشدو ہدایت اور علم و دانش کا منبع و مرکز رہا ہے اور ہر دور میں صو
فیوں،مجتہدوں اور درویشوں کی بدولت اس کی نمایاں حیثیت رہی ہے ۔ ہمارے وطن
کی تاریخ میں صوفیائے خانقاہ سلون نے جس طرح اپنا کردار ادا کیا اور خدمات
انجام دی ہیں وہ چشتیہ سلسلے کی سنہری روایات کا روشن ترین حصہ ہے ۔ سچ یہ
ہے کہ عالمگیر پیمانے پر چشتیہ سلسلے کا کوئی تصور خانو ادۂ سلون خانقاہ کر
یمیہ کے بغیر نا مکمل اور کسی حد تک معنویت سے خالی ہے بہرحال ہے ۔
کتاب اور اس موضوع سے متعلق حوالہ جات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ
صوفیائے خانقاہ کر یمیہ سلون جس کا شجرہ اس کتاب کے صفحہ 399 اور 400پر دیا
گیا ہے ان کا سلسلہ طریقت خواجہ معین الدین چشتی سے جا کر مل جاتا ہے وہ
صوفیائے خانقاہ کریمیہ سلون، جون پور ، کانپور، بجنور ، لکھنؤ، سنبھل کے
علاوہ ہندوستا ن اور دنیا کے دیگر مما لک کے صحراؤں میں رہ کر عبادت و ریا
ضت کرتے رہے خلق خدا کو اسلام کی دعوت دیتے رہے اور عوام الناس حمایت و
معاونت نیز انہیں روحانی غذا فراہم کرتے رہے اور آج بھی صوفیاء سیلون کے
ذریعہ یہ سلسلہ جاری ہے یہ لوگ چشتیہ سلسلے کے روح رواں ہیں ان سے عقیدت
رکھنے والو ں میں ہندو مسلمان سبھی ہیں۔
اس کتاب میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ خانوا دہ ٔ سیلون کے روحانی
تہذیبی واخلاقی نقوش کو یکجا کیا جاسکے۔ اس لیے اس کتاب میں خانقاہ سلون
اتر پردیش ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی ان روایات اور تاریخ کو پیش کیا
گیا ہے جس سے عالمی شرعی مذہبی تہذیب نے فائدہ اٹھا یا ہے اور دنیا بھر کے
صوفیوں، عالموں،دانشوروں نے خود سلون میں بیٹھ کر اور ہندوستان کے دیگر
علاقوں میں گھوم کر وہا ں کی تہذیبی و مذہبی بیماریوں کو سمجھا اور انہیں
دور کرنے کے نسخے ایجاد کیئے۔ اس خانقاہ میں مذہب اسلام کے شرعی اصول
وضوابط اور صوفیاء کے کسب فیض کے اسرار ور موز پوشیدہ ہیں ۔
سرزمین سلون ایسے بزرگو ں سے بھری پڑی ہے کیسے خوش نصیب ہیں وہاں کے لوگ کہ
جنہیں مولانا حافظ شاہ محمد مہدی عطا، حضرت شاہ محمد نعیم عطا ، سیدشاہ
محمد حسین جعفری، مولانا سید شاہ احمد حسین اورایسے ہی نہ جانے کتنے صوفیا
کرام و اولیاء اسلام کی قربت نصیب ہے اورانکی قدمبوسی کے آسان وسیلے حاصل
ہیں انکی تعلیمات کے حصول کا سہل ترین راستہ حا صل ہے وہ فیض اور نظر کرم
حاصل ہے جس کی بدولت دین و دنیا کی دولت میسر ہوتی ہے اسلامی عقیدہ ہے کہ
خدانے ہر صدی کے اوا خر میں ایک ایسا انسان زمین پر بھیجنے کا وعدہ کیا ہے
جو گردش وقت کے باعث پیدا ہوئی اخلاقی گراوٹ اور زوال پزیر مذہبی اقدار سے
بنی نوع انسان کو ابھار کر سچے دین کو پھر سے قائم کرتا ہے یہی خدمات خدائے
پاک نے صوفیائے سلون سے لیا ہے۔
کتاب کے مطالعہ کی روشنی میں اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ خانقاہ سلون شریف
اپنی قدامت کے باوصف نو ادرات کا قدیم و کثیر سرمایہ اپنے پاس رکھتا ہے
خانقاہوں میں عموماً بزرگان دین کا عمامہ ، عباء، تسبیح، جائے نماز، کلاہ
اور ذاتی استعمال کی چیزوں کے علاوہ خلافت نامے، کتابیں، بادشاہوں صوفیا
کرام اور بزرگوں کی قدیم تحریریں مخطوطات وغیرہ محفوظ رہتی ہیں ، خانقاہ
سلون کے صوفیا کرام عالم با عمل ہیں یہ روحانی شہنشاہ اور راہ طریقت کے
بادشاہ تھے جنکے روحانی کمالات کا شہرہ چہا ر دانگ عالم میں ہے ۔ انھیں
تبحر علمی جاگیر میں ملی تھی ذمہ دار سرکاری عہدہ قبول کرنے کے باوجود ان
بزرگوں نے صدیوں سے تنرکیہ نفس ، صفائے قلب فقر و قناعت ، تبلغ دین، تزکیۂ
باطنی رشد و ہدایت، علم دین کی ترویج واشاعت روحانیت کی تبلیغ اور کردار
سازی کا کام بھی کیا اور مظلوموں کی دادرسی بھی کر تے رہے خود مصنف کتاب
فرماتے ہیں ۔
’’ایسے عظیم المرتبت خانوادے کی تعلیمات، تبلیغی خد مات علمی اور روحانی کا
وشیں تاریخی کتابوں ، تذکروں اور سر کاری دستا ویز ات میں پھیلی ہوئی تو
ہیں ہی عوامی حافظے کا جزو بھی بن چکی ہیں۔خانقاہ سلون جہاں ہر سال عرس کے
موقع پر تمام دنیا کے مسلمانوں کا اجتماع ہوتا ہے زائرین بلا امتیاز مذہب
وملت نذرانہ عقیدت پیش کرنے آتے ہیں یہ خانقاہ ہندوستان کے ان مقدس مقامات
میں سے ہے جہاں بڑے بڑے بادشاہوں نے اپنا سر نیاز خم کیا ہے اس آستا نہ پر
ہر فرقہ ہرقبیلے کے لوگ کثیر تعداد میں حاضر ہوتے ہیں کہا جائے تو غلط نہ
ہوگا کہ خانقاہ سلون پوری دنیا میں شہنشاہی کرتا ہے جو انسانی نسلوں کو
قومی یکجہتی اور باہمی محبت کا درس دیتی ہے جو صوفیا ہائے سلون کا مشن ہے
۔‘‘
کتاب کے مطالعہ و مشاہدے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سلون کے صوفیوں کا یہ چشتیہ
خاندان ایک زندہ متحرک اورہر آن آگے بڑھتا ہوا نظام حیات ہے جو ہر عہد ہر
خطہ اور ہر سطح کے مسائل کا حل رکھتا ہے جو آج بھی ایسا ہی قابل عمل ہے
جیسا کہ اصحاب صفہ کہ زمانے میں تھا تزکیۂ نفس کی اہمیت انسانی زندگی میں
آج بھی اتنی ہی ہے جتنی ازمنہ وسطی میں تھی ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کے
اس امتیازی وصف سے دنیا کو اس کی ذہنی سطح کے مطابق روشناس کرایا جائے عہد
حاضر کی عقل و منطق اور معیار کے مطابق اسے ثابت کیا جائے اور حکمت اور
دانائی کے ساتھ اسے پیش کیا جائے یہ سلسلہ امن ،میا نہ روی ،فراخ دلی اور
رواداری کا علم بردار ہے ۔
کتاب کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ ذوق نظر کا مسافر اپنی منزل مقصود تک
پہنچ گیا جہاں خوب کی دریافت نے خوب سے خوب ترکی تلاش و جستجو کی کشمکش یک
لخت ختم کردی ہے کسی کتاب کے حسن و جمال اور دلکشی و دل آویزی کا دارو مدار
دو چیزوں پر ہوتا ہے ایک کتاب کا موضوع اور دوسرا مصنف کا طرزبیان اور
موضوع کا حق ادا کرنے کی اس کی اپنی ذاتی صلاحیت اور استعداد کسی کتاب میں
یہ دونوں وصف جس درجہ کی ہوگی کتاب کی اہمیت اور اس کی افادیت بھی اسی درجے
ومرتبے کی ہوگی۔
ظاہر ہے کہ جس کتاب کا موضوع صوفیا ئے کرام کی اعلی ذات و صفات ہو اس کے
موضوع پر بات کرنا ہی لا حامل ہے کیونکہ اس تذکرے کے پڑھنے سے جسم میں
زندگی کی حرارت اور روح میں غیر معمولی بالیدگی اور تر اوٹ پید ا ہوجاتی ہے
۔
انسانیت شرافت و نجابت کی اعلیٰ قدریں دل و دماغ میں راسخ اور مضبوط ہوجاتی
ہیں ۔ نیکی اور پر ہیزگاری کا ولولہ پیدا ہوتا ہے اور جذبات سفلی سرد
ہوجاتے ہیں ۔ یہ کتاب تذکرہ ہے ان عظیم ترین شخصیات کا جو سراپا جمال و
کمال اور مجسم خوبی ور عنائی ہے ۔
حسن یو سف دمِ عیسی، ید بیضاداری
آنچہ خو باں ہمہ دارند تو تنہا داری
اب رہا کتاب کا دوسرا و صف یعنی مصنف کا طرزبیان اور موضوع کا حق ادا کرنے
کی صلاحیت تو اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اسی خانواد ے سے تعلق رکھنے والے
پروفیسرسید ظہیر حسین جعفری اس عہد کے نامور اہل نظر اور نہایت جیدعالم و
تاریخ داں ہیں ۔ ان کی زندگی ایک بین الا قوامی دستور حیات ہے جو قرآن کے
ابدی وصولوں کی تعبیر ہے ۔موصوف کا ایک ہی مدعا ہے کہ چشتیہ سلسلہ کو
سمجھنے کے لیے صوفیائے سلون کے مشن کی روح کو سمجھنا لازمی ہے۔ جس کی رشد و
ہدایت کے شمع سے دنیا مستفیض و منور ہو رہی ہے ۔ موصوف کا خاص میدان تاریخ
ہے جس کے وہ نقاد بھی ہیں اس موضوع پر متعد د کتاب بھی زیور طبع سے آراستہ
ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں پھر با یں ہمہ جملہ اوصاف و کمالات اردو زبان و
ادب کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف ہیں تاریخ اور ادب کا تعلق ایک دوسرے کے
ساتھ بہت گہرا ہے ادبی مورخ کو اپنی تحریروں میں قدم قدم پر تاریخ کی ورق
گردانی کرنی ہوتی ہے ۔ سنین و شہود کے تعین کے علاوہ انکی مطابقت کے لئے
کاوش کرنی پڑتی ہے مختلف زبانوں میں اس طرح کے جدول موجود ہیں ۔ جس سے یہ
مشکل بہت حد تک دور ہوجاتی ہے اس بنا پر تاریخ اور ادب کے موضوع پر اردو
میں قلم اٹھا نے کا جو حق پروفیسر موصوف کا ہو سکتا ہے کسی اور کا نہیں
علامہ اقبال نے کہا ہے کہ:
’’اہل دانش عام ہیں کم یاب ہیں اہل نظر‘‘
لہذا سی کم یاب اہل نظر کی فہرست میں پروفیسر سید ظہیر حسین جعفری کا نام
شمار ہوتا ہے ۔
حالانکہ اس موضوع پر چھوٹی بڑی متعدد کتابیں اردو میں لکھی اور شائع کی جا
چکی ہیں لیکن جو مرتبہ و مقام اس کتاب کی ہے وہ اظہرمن الشمس ہے ۔ یہ واقعی
مصنف کا کما ل ہے کہ آج جبکہ تحقیق و تدوین کے نوع بہ نوع سامانوں کی
فراوانی ہے ۔ اور اظہار و بیان کے اسالیب میں بھی طرفہ نیرنگی و بوقلمونی
نظر آتی ہے ۔ اس کتاب میں مصنف کی تاریخ دانی علمی لیاقت اور قلم کی
ضوفشانی و تا با نی کی اپنی ایک منفرد حیثیت سے نمایاں ہے ۔
اس کتاب کا وصف امتیازی صرف اس کا حسن بیان اور بلیغ طرز ادا نہیں ہے بلکہ
اس سے بھی زیادہ اہم خصوصیت یہ ہے کہ صوفیاہائے سلون کی جملہ خدمات کو جو
اسی خانوادے سے تعلق رکھنے والے اہل علم و نظر، دانشوروں، مفکروں اور
عالموں نے قلم بند کیئے ہیں نہایت محققانہ اور طویل مقدمے میں اصول جرح و
تعویل کی روشنی میں ان سب ماخذ کا جائزہ لیکر صحت و سقم اور استناد و عدم
استناد کے اعتبار سے ان میں سے ہر ایک کا مرتبہ و مقام متعین کیا ہے ۔اسکے
علاوہ مصنف نے خانقاہ سلون اور اس کتاب کے بار ے میں جو اقتباس قلم بند
اکیئے ہیں اس سے کتاب کی اہمیت و افادیت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے ۔
شمالی ہندوستان میں چند ہی ایسی خانقا ہیں اور خانوادے ہونگے جو اپنی تاریخ
مستند ما خذ کے حوالوں سے اول تا آخر پیش کر سکتے ہوں خانقاہ کریمیہ سلون
رائے بریلی بر سریر آرائے مستند ایک ایساہی خانوادہ ہے جواس امر پرمعنی فخر
کر سکتا ہے کہ اس کی تاریخ مصد قہ تذکروں کے علاوہ شاہی فرامین خاندانی
دستاویز ات انگریزی افسروں کے سفر ناموں اور انکی کتابوں میں بکھری ہوئی
ہیں ۔۔۔۔۔۔ اوران کا
ماخذوں کا استعمال انگریزی کتابوں اور دیگر مطبوعات میں خوب ہوتارہا ہے اور
علمی دنیاان چیزوں سے بخوبی واقف ہے ۔
موصوف کی یہ کتاب ایک نادر وبیش قیمت تحقیقی دستاویز ہے ۔ ضرورت ہے کہ ہم
صوفیا ہائے خانقاہ کر یمیہ سلون کے مذہبی روحانی اسلامی اخلاقی، تبلیغی،
لسانی ، ادبی و شعری محاسن کی حقیقی قدر دانی کا ثبوت دیں اور اس جانب سے
عرفان جمیل کا قرار واقعی حق ادا کریں ان باشرع صوفیانے انتہائی عظیم الشان
انسانی ، اخلاقی، روحانی اور تہذیبی خدمات کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کی بڑی
خدمات انجام دیں ہیں انکی عظیم مذہبی خدمات ایمانی استحکام کے ساتھ ساتھ
روحانیت وروشن فکری ، رواداری اولولعزمی اور عام انسانی ہمدرد ی کے اقدار
کی حامل ہیں اور انہیں پروان چڑھا نے والی مذہبی تبلیغی خدمات ہیں جسکی
بطور خاص آج دنیا کوشدید ضرورت ہے ۔
|