طارق قاسمی ۔ خالد مجاہد کی رہائی کا فیصلہ

طارق قاسمی ۔ خالد مجاہد کی رہائی کا فیصلہ : یوپی حکومت کی نیت صاف نہیں

ہندوستانی سیاسی پارٹیاں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اس سے ہونے والے نفع و نقصان کا تخمینہ لگاتی ہیں کہ اسے انتخابات میں کتنا فائدہ ہوگا۔ کون خوش ہوگا کون ناراض۔ جتنی بھی فلاحی اسکیمیں لائی گئی ہیں اس میں عوامی فلاح وبہبود کم پارٹیوں کی مقبولیت میں کتنا اضافہ ہوگا اس پر زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ آج تک حکومت نے ایسا کوئی منصوبہ کو عملی جامہ نہیں پہنایا جس سے انہیں انتخابات میں نقصان اٹھانے کا خطرہ ہو۔ البتہ کارپوریٹ سیکٹر اور صنعت کاروں کی بھلائی کے لئے حکومت ہر طرح کا جوکھم اٹھانے کے لئے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔ سماج وادی پارٹی کو مسلمانوں نے فروری 2012 کے اترپردیش اسمبلی انتخابات میں دل کھول کر ووٹ دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنانے کی تیاری میں مصروف تھی وہاں اسے مطلوبہ اکثریت سے زیادہ سیٹیں آگئیں اور اس میں بھی مسلم ممبران اسمبلی کی کارکردگی اچھی رہی تھی سوائے مغربی یوپی کے جہاں بی جے پی نے حسب سابق مسلم علاقوں میں اپنی فتح کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ سماج وادی پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کو جہاں 18 فیصد ریزرویشن دینے کی بات کہی تھی وہیں اس نے مسلم نوجوانوں کی رہائی کا بھی وعدہ کیا تھالیکن اس کے اقتدار سنبھالتے ہی مسلمانوں پر یوپی میں عرصہ حیات تنگ ہونا شروع ہوگیا اور پے درپے تقریباً نو (۹) بڑے فسادات ہوئے۔ چھوٹے موٹے فسادات کو شمار کریں تو یہ تعداد نصف سنچری تک پہنچتی ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جن مسلم امیدواروں کو مسلمانوں نے ووٹ دے کر اسمبلی میں اس لئے بھیجا تھا کہ وہ ان کے حق کی لڑائی لڑیں گے سبھی خاموش رہے ۔ مسلمان ہر سطح پر ذلت کا سامنا، موت کا سامنا، عزت و آبرو گنوانا، مالی و اسباب کا کھو دینا اور دیگر نقصانات کا سامنا کرتے رہے لیکن سماج وادی پارٹی کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔ نمیش کمیشن نے اپنی رپورٹ حکومت کو گزشتہ سال ہی پیش کردی تھی لیکن اس پر کوئی کارروائی تو دور اس کو جاری تک نہیں کیا۔ اب جب کہ لوک سبھا کے عام انتخابات سر پر ہیں سماج وادی پارٹی کی حکومت کو پھر ایک بار پھر مسلمانوں کی یاد ستانے لگی ہے کیوں کہ زر خرید غلام تو صرف مسلمان ہی ہوسکتے ہیں۔ ہندوستان میں سیکولرزم کی بقا کی ذمہ داری بھی مسلمانوں کی ہی ہے۔ کسی پارٹی نے فرقہ پرستوں سے کبھی لوہا لینے کی کوشش نہیں کی البتہ فرقہ پرستی کا خوف دکھاکر مسلمانوں کو یرغمال ضرور بنایا۔ ویسے سچ بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ ہندوستان کے انتخابی نظام نے مسلمانوں کو حقیر اور ذلیل شئی میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور اس قدر مجبور کردیا ہے کہ وہ بدترین دشمنوں میں سے کمتر دشمن کا انتخاب کریں۔ گزشتہ 65 برسوں سے دھوکہ کھانے کے باوجود مسلمان ووٹ دیتے آرہے ہیں اور تختہ مشق ستم بن رہے ہیں۔ البتہ جب بھی الیکشن کا موقع آتا ہے مسلمانوں کو سنہرے خواب دکھانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جس مسئلہ پر بات کرنے سے بھی سیاست داں اور سیاسی پارٹیاں کتراتی رہتی ہیں اس پر نہ صرف کھل کر بولتی ہیں بلکہ اسے پورا کرنے کا وعدہ کرتی ہیں اور پورا نہ ہونے کی صورت میں تحریک چلانے کی دھمکی تک دے ڈالتی ہیں۔اترپردیش اور ہندوستان میں اس وقت اس طرح کے جتنے بھی واقعات پیش آرہے ہیں اسے اسی نظریے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

اس وقت تین موضوع سرخیوں میں ہے ۔ ایک اترپردیش کے وزیر اعظم خاں کی امریکہ میں بے عزتی، دوسرا طارق قاسمی اورخالد مجاہد کے خلاف تمام مقدمات واپس لینے کے اترپردیش حکومت کے فیصلے اور تیسرا 2014 میں لوک سبھا کے عام انتخابات میں پارٹیوں کی حیثیت اور تیسرے محاذ کے امکانات۔ بظاہر یہ تینوں موضوع الگ معلوم ہوتے ہیں لیکن عمیق نظر سے دیکھا جائے تو تینوں ایک ہی موضوع ہیں اور ان تینوں کا رشتہ لوک سبھا کے عام انتخابات سے ملتا ہے۔ 2007 میں لکھنو، فیض آباد، وارانسی اور گورکھ پور میں ہونے والے بم دھماکوں کے ملزم طارق قاسمی اور جونپور کے خالد مجاہد کے خلاف تمام مقدمات کو حکومت واپس لینے کا عمل شروع کردیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق گورکھپور میں مقدمہ کی واپسی کے اعلان کے بعد بارہ بنکی سے واپسی کی شروع کی گئی کاروائی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ فیض آباد اور لکھنؤ کے معاملات میں بھی انصاف اور محکمہ داخلہ نے پہل کر دی ہے۔قابل ذکر ہے کہ نومبر 2007 میں فیض آباد، لکھنؤ اور وارانسی کی کچہریوں میں ہونے والے دھماکوں کی تفتیش کے دوران ملک کے مختلف حصوں سے پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔پولیس تھیوری کے مطابق اترپردیش کے ایس ٹی ایف نے 22 دسمبر 2007 کو طارق قاسمی اور جونپور کے باشندے خالد مجاہد کو بارہ بنکی سے دھماکہ خیز مواد کے ساتھ گرفتار کیا۔ بارہ بنکی کے کوتوالی علاقے میں اس کا مقدمہ درج ہے اور حکومت نے اسے واپس لینے کا عمل شروع کر دی ہے۔خیال رہے کہ حقائق کی بنیاد پر طارق کے اہل خانہ نے اس کو 12 دسمبر 2007 اور خالد کے اہل خانہ نے 16 دسمبر 2007 کو ان کے آبائی رہائش گاہ سے گرفتار کرنے کا الزام لگایا تھا۔ رہائی کا مطالبہ کر نے والی تنظیموں کا یہی کہنا ہے کہ جب طارق کی گرفتاری غیر قانونی طریقے سے کی گئی اور نمیش کمیشن کی رپورٹ میں بھی یہ بات ثابت ہے تو پھر اس پر درج باقی تمام مقدمے بھی فرضی ہیں۔ داخلہ سکریٹری سرویش چند مشرا کے مطابق گورکھپور کے ڈی ایم اور ایس ایس پی سے رپورٹ حاصل کرنے اور محکمہ انصاف کے مشورہ سے مقدمہ واپس کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پیشگی کارروائی کے تناظر میں انہوں نے بتایا کہ متعلقہ عدالت، ڈی ایم اور ایس ایس پی کو اس سلسلے میں محکمہ انصاف سے خط بھیجا جائے گا۔ مقدمہ کی واپسی کے عمل پر انہوں نے کہا کہ ایسے معاملات پر اعلی سطحی کمیٹی کا فیصلہ ہوتا ہے، جس کے سربراہ سیکرٹری انصاف اور پرنسپل سکریٹری داخلہ ہوتے ہیں۔ بارہ بنکی میں طارق کی گرفتاری کو غلط طریقے سے دکھائے جانے اور نمیش کمیشن کی رپورٹ کے مسئلہ پر انہوں نے تسلیم کیا کہ کمیشن نے ایس ٹی ایف کی کارروائی پر شک کا اظہار کیا ہے۔

بیگناہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا سلسلہ یوں تو 1992 میں بابری مسجد کی شہادت سے شروع ہوگیا تھا اور مسلم نوجوانوں کو سلاخوں کے پیچھے بند رکھنے کیلئے ٹاڈا جیسے غیر انسانی قانون نافذ کیاگیا تھا جس میں دو چار کو چھوڑ صرف مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس میں مہیز اس وقت لگی جب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت میں قومی جمہوری اتحاد حکومت قائم ہوئی۔ پہلے بی جے پی حکومت نے نریندر مودی کی قیادت میں گجرات قتل عام انجام دے کر ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا اورجو مسلم نوجوان قتل ہونے سے بچ گئے تھے انہیں مختلف فرضی تصادموں،دھماکوں اور نام نہاد حملوں کے نام پر جیل میں بند کرنے کی سازش کی اور بی جے پی کی مرکزی حکومت نے اس کے لئے پوٹا نافذ کیا ۔ مسلمانوں کی زندگی جہنم بنانے میں بی جے پی کس قدر بے تاب تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بل راجیہ سبھا میں ناکام ہوا تو واجپئی سرکار نے جس میں بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار بھی شامل تھے، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے پوٹا جیسے سیاہ قانون پاس کرایااور اس کے بعد گجرات میں دوسرے تیسرے کوئی نہ کوئی مسلم نوجوان نریندر مودی کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا جاتا۔اس طرح پورے ملک سے سیکڑوں بے گناہ مسلم نوجوانوں کو پوٹا کے تحت گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح فرضی معاملے میں پھنساکر اعظم گڑھ سے حکیم طارق قاسمی اور جونپور سے خالد مجاہد کو گرفتار کیاگیا تھا۔جسے ایس ٹی ایف نے کہیں اور گرفتاری دکھائی اور ساتھ ہی حسب سابق دھماکہ خیز مادہ کے ساتھ گرفتاری دکھائی۔ اس پر مسلمانوں نے زبردست احتجاج کیا تو یوپی حکومت نے گورنر کے حکم سے سبکدوش ضلع و سیشن جج آرڈی نمیشن کی قیادت میں ایک رکنی کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن کا وجود 14 مارچ 2008 کو عمل میں آیا جس کو اپنی رپورٹ 6 ماہ کے اندر دینے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن کمیشن کی رپورٹ 6 ماہ میں مکمل نہ ہوسکی جس کے نتیجے میں ان کی مدت میں8 بار توسیع کی گئی۔ اس دوران اسمبلی کے انتخابات کا بگل بج گیا اور حکومت سے ناراض مسلمانوں نے مایاوتی حکومت کے خلاف اپنا غصہ ظاہر کیا۔جج نمیش نے ملزمان کی گرفتاری کی جگہ بارہ بنکی ریلوے اسٹیشن کا دورہ کرکے وہاں وہاں عینی گواہوں کے بیان ریکارڈ کرائے ۔نمیش کمیشن کے سامنے ریلوے پر اخبار فروخت کرنے والے سشیل کمار نے اپنے بیان میں کہا کہ 22 دسمبر 2007 کو وہ اپنے بک اسٹال پر تھا کہ صبح 6 بجکر 20 منٹ پر اچانک شور مچا تو اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ ایک آدمی کو مار پیٹ کر گاڑی میں ڈال رہے ہیں ۔ آدمی کو چادر اڑھا دی گئی تھی اس کے سامنے اس آدمی کے پاس سے کوئی چیز برآمد نہیں ہوئی تھی جب تک وہ کچھ سمجھ پاتا لوگوں کی زبانی اسے پتہ چلا کی دہشت گرد پکڑے گئے ہیں۔اسی طرح نمیش کمیشن نے ضلع اعظم گڑھ کے تھانہ سرائے میر جاکر 7 جولائی 2009 کو اس واردات کی تحقیقات کی جہاں سے ملزم طارق قاسمی کو اٹھانے کا الزام طارق قاسمی اور اس کے گھر والوں نے ایس ٹی ایف پر لگایا تھا۔ اسی طرح کمیشن نے 6 جولائی 2009 کو ضلع جونپور کے اس مارکیٹ کا بھی معائنہ کیا جہاں سے خالد مجاہد کو اٹھانے کا الزام خالد مجاہد کے گھر والے ایس ٹی ایف پر لگا یاتھا۔ جج آر ڈی نمیش نے بارہ بنکی، جونپور اور اعظم گڑھ عینی شاہدوں کے بیانات قلم بند کئے جن میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل تھے۔ یوپی پولیس اور یو پی ایس ٹی ایف نے گواہوں کو ورغلانے کی بھی کوشش کی کہ وہ اس کی تھیوی کے مطابق گواہی دے لیکن پھر بھی حقیقت باہر آہی گئی اور نمیشن کمیشن نے نہ صرف ان دونوں نوجوانوں کو بے قصور ثابت کیا بلکہ ایس ٹی ایف اور پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی اور کہا کہ بے گناہ لوگوں کو جھوٹا پھنسانے پر ذمہ داریوں کا تعین کرکے سزا دیئے جانے کا بھی قانون ہونا چاہئے۔اس کے علاوہ دہشت گردی کے متعلق گرفتاریوں کے سلسلے بارہ مشور ے بھی دئے۔ ایس ٹی ایف اور یوپی پولیس نے عدالت میں طارق قاسمی اور مجاہد خالد کے خلاف من گھڑت کہانی کے علاوہ اب تک کوئی ثبوت نہیں کی ہے اور نہ ہی آر ڈی ایس اور جلاٹین چھڑیں جنہیں ایس ٹی ایف گرفتار کرتے وقت کاغذ میں دکھایا تھا عدالت میں پیش کیا تھا۔ اس کے باوجود ان پر دہشت گردانہ مقدمہ چلایا جانا اور رہا نہ کیا جانا یہاں کے عدالتی نظام پر انگلیاں اٹھاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ سماج وادی حکومت نے اس وقت ان لوگوں سے مقدمہ اٹھانے کا فیصلہ کیوں کیا جب کہ مسلمان عرصہ سے نمیشن کمیشن کی رپورٹ جاری کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن یو پی کی اکھلیش یادو حکومت نے اب تک اس رپورٹ کو اسمبلی میں پیش نہیں کیا ہے۔ یہی حکومت کی بدنیتی ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ کمیشن کی رپورٹ پیش نہ کرکے کہیں حکومت کا منشا خاطی افسران کو بچانے کا تو نہیں ہے کیوں کہ کہا جاتا ہے ان دھماکوں میں مشرقی یوپی میں سرگرم سخت گیر ہندو تنظیم یووا واہنی کا ہاتھ ہے جس کی قیادت بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ یوگی آدیتہ ناتھ کر رہے ہیں۔ اس تنظیم کا مسلمانوں پر حملہ عام بات ہے جب اور جہاں چاہتی ہے اس تنظیم کے ارکان مسلمانوں کی جان و مال عزت و آبرو سے کھلواڑ کرنے سے گریز نہیں کرتے کیوں کہ اس تنظیم کو نہ صرف سیاسی سرپرستی حاصل ہے بلکہ پولیس کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ یوپی حکومت نے نمیشن کمیشن کی رپورٹ کو ایکشن ٹیکن رپورٹ کے ساتھ پیش نہ کرکے اپنے فیصلے کے خلاف عدالت جانے کے دروازہ کھول دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سماج وادی حکومت کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کو کہہ سکتی ہے کہ اس نے رہا کرنے کا فیصلہ کیا اس میں عدالت دخل دے رہی ہے تو وہ کیا کرسکتی ہے۔ دوسری طرف نمیشن کمیشن میں خاطی قرار دئے گئے افسران پر کارروائی نہ کرکے یہ پیغام بھی دینا چاہتی ہے کہ ہندو تنظیم یا پولیس افسران جو چاہیں مسلمانوں کے ساتھ کریں حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔ سماج وادی حکومت ابھی بھی بے قصوروں کی رہائی کے سوال پرسیاست کرنے سے باز نہیں آرہی ہے کیونکہ سوال بے گناہ مسلم نوجوانوں کی رہائی کانہیں ہے بلکہ کہ ان دہشت گردانہ وارداتوں میں مارے گئے اور زخمی ہونے والے لوگوں کے ساتھ انصاف کا بھی سوال ہے، جو اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک ان وارداتوں کے اصل مجرموں کو پکڑا نہیں جاتا۔اس کے علاوہ جہاں تک امریکہ میں اعظم خاں کے ساتھ بدسلوکی کا ہے وہ صرف الیکشن اسٹنٹ ہے۔ سماج وادی حکومت اس لئے واویلا مچا رہی ہے تاکہ وہ مسلمانوں کا ہمدرد اور غمخوار ثابت کرسکے۔ ورنہ اعظم خاں کے وقار کا اس وقت خیال کیوں نہ آیا تھا جب ایک معمولی داروغہ نے انہیں ایک پروگرام میں جانے سے روک دیا جب کہ وہ تعمیرات عامہ کے وزیر تھے۔

کیا سماج وادی پارٹی کی حکومت کے فیصلے کا بھی وہی حشر ہوگا جو کانگریس کی قیادت والی مرکز حکومت کے مسلمانوں کوریزرویشن دینے کے فیصلے کا ہوا ہے۔ کانگریس نے اترپردیش اسمبلی انتخابات سے عین قبل مسلمانوں کو ساڑھے چار فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ کیا تھا اسے عدالت نے مسترد کردیاتھا کیوں کہ ریزرویشن کے لئے جن چیزوں کی ضرورت اور جس بنیاد کی ضرورت تھی وہ پیش نہیں کی گئی تھی۔ یہ فیصلہ یقیناًاحمقانہ تھا کیوں کہ حکومت کے پاس آندھرا پردیش کی نظیر سامنے تھی لیکن مرکزی حکومت نے اس فارمولے پر عمل نہیں کیا اور نہ ہی اس کو ریزرویشن دینے کے لئے بنیاد بنایا۔ یہ غلطی کسی ایرا غیرا سے نہیں بلکہ معروف وکیل ، قانون داں اور قانون کے مرکزی وزیر سلمان خورشید سے ہوئی تھی بلکہ اسے غلطی نہیں مسلمانوں کے ساتھ مکر و فریب کہنا زیادہ درست ہوگا۔ جب تعطیلاتی جج نے اس فیصلے کو مسترد کردیا تو انہوں نے بہت ہی طمطراق سے کہا تھا کہ فل بینچ کے بیٹھتے ہی معاملہ پھر سے رکھا جائے اور یوں چٹکیوں میں حل ہوجائے گا لیکن دوسرا سال شروع ہوگیا ہے اور عنقریب عدالت کی تعطیل پھرشروع ہونے والی ہے مگر ابھی تک سلمان خورشید کی تعطیل ختم نہیں ہوئی ہے۔ انہیں مسلمانوں کو دھوکہ دینے اور مسلم نوجوانوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کے عوض (اس ریزرویشن کے نتیجے کم ازکم تیس ہزار سے زائدمسلم نوجوانوں کا پیشہ وارانہ کورسز میں داخلہ ہوا تھا)انہیں وزارت خارجہ کا قلمدان مل چکا ہے اور وہ حق نمک ادا کرتے ہوئے پوری دنیا کو ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے گمراہ کر رہے ہوں گے۔
Abid Anwer
About the Author: Abid Anwer Read More Articles by Abid Anwer: 132 Articles with 87239 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.