شرح طلاق میں اضافہ-2

شادی ایک مقدس رشتہ ہے جو کہ نہ صرف دو افراد بلکہ دو خاندانوں کے درمیان قائم ہوتا ہے۔اذدواجی زندگی کی شروعات نہایت ہی خوبصورت ہوتی ہیں لیکن اکثر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں پریشان کن منفی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں جو کہ آخر کار طلاق کا باعث بنتے ہیں۔

طلاق اللہ کے ہاں نہایت ہی ناپسندیدہ عمل ہے لیکن بدقسمتی سے پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی اس کی شرح میں نہایت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔اس اضافے میں بہت سے عوامل کارفرما ہیںجن میں ملازمت،کیرئر، شک،دھوکہ دہی،صبروبرداشت میں کمی،جبری شادی،سماجی حیثیت میں فرق،مشترکہ خاندانی نظام اور مالی وسائل کی کمی اہم ہیں۔

خودانحصاری ایک ایسی عادت ہے جوکہ ملازمت پیشہ خواتین میں سرایت کرچکی ہے۔اس عادت کی وجہ سے اکثر خواتین شادی کے بعد بھی ملازمت جاری رکھتی ہیں جبکہ ان کے شوہر چاہتے ہیں کہ وہ گھر پر رہیں اور امور خانہ داری کو سنبھالیں۔یہ خواتین اپنے کیرئر کو فیملی پر فوقیت دیتی ہیں اور ملازمت کی وجہ سے گھر والوں کو مناسب وقت نہیں دے پاتیں۔اسی طرح بہت سی خواتین کو بھی اپنے شوہروں سے یہی شکایت ہوتی ہے ۔ چنانچہ وقت کی کمی سے فاصلے بڑھتے بڑھتےآخرکار طلاق تک پہنچ جاتے ہیں۔

طلاق کی دوسری بڑی وجہ شک ہے جو کہ رشتوں کو دیمک کی طرح چاٹتی ہے۔جب میاں بیوی کے درمیان ایک دفعہ شک پیدا ہو جائےتو وہ روزانہ کے جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور طلاق تک پہنچ جاتے ہیں۔اس کے علاوہ مرد اکثر شادی سے پہلے دھوکہ دہی کا استعمال کرتے ہوئے خود کو امیرکبیر اور باروزگار دکھاتے ہیں لیکن شادی کے چند دنوں بعد ہی یہ جھوٹ سامنے آجاتا ہے اور خود کو باروزگار دکھانے والا دراصل نشئی اور بے روزگار ہوتا ہے۔ یہی بات رشتہ کے ٹوٹنے کا موجب بنتی ہے۔

قوت برداشت میں کمی بھی بارہا طلاق میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔دراصل باہم ملنے والے افراد کا تعلق دو مختلف خاندانوں سے ہوتا ہے۔ان کے رہن سہن اور پرورش میں فرق ہونے کی وجہ سے ان کی سوچ یکساں نہیں ہو سکتی۔کسی نہ کسی ایک کو سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے لیکن جہاں انا حاوی ہو جائے وہاں طلاق یقینی ہو جاتی ہے۔

اولاد خاص طور پر وارث کی خواہش پہلی بیوی سے پوری نہ ہونے پر مرد اکثر دوسری شادی کر لیتے ہیں جو کہ پہلی بیوی کی طلاق کی وجہ بن جاتی ہے۔اس کے علاوہ جبری شادی اور مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے بھی طلاقوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔اکثر اوقات خواتین ٹی۔وی ڈراموں میں دکھائی جانے والی جدید اور پر آسائش زندگی کے خواب دیکھتی ہیں لیکن جب مالی وسائل کی کمی کے باعث شوہر ان بےجا خواہشات کو پورا نہیں کر سکتا تو جھگڑے اور فساد شروع ہو جاتے ہیں اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں طلاق یافتہ کو اچھا نہیں سمجھا جاتا یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین ناخوش ہونے کے باوجود طلاق نہیں لیتیں۔بے شک کچھ لوگوں کے خیال میں ناخوشگوار زندگی سے طلاق بہتر ہے لیکن طلاق کے نتائج بہت برے ہوتے ہیں۔تحقیقات نے یہ بات ثابت کی ہے کہ طلاق کی وجہ سے صحت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں،جن میں ڈپریشن،بلڈپریشر اور بہت سے امراض شامل ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ شرح طلاق میں اضافے کو کس طرح سے روکا جائے؟

سب سے پہلے تو میاں بیوی کو اپنے مسائل کی نشاندہی خود کرنی چاہیے اور اس کا حل جہاں تک ممکن ہو خود سوچنا چاہیے بجائے اس کے کہ کوئی تیسرا شخص ان کے معاملات میں دخل اندازی کرے۔طلاق کے رسک کو کم کرنے کے لئے سمجھوتہ اور قوت برداشت پیدا کرنی چاہئے۔ اگرچہ گھر چلانے کے لئے ملازمت ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملازمت پیشہ خواتین و حضرات کو فیملی کو بھی مناسب وقت اور توجہ دینی چاہئے۔

شادی کو مجبوری نہیں بلکہ روح کا رشتہ ہونا چاہئے۔باہمی رواداری اور میاں بیوی کے درمیان سمجھوتہ طلاق کی شرح کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ATTIA NOUREEN
About the Author: ATTIA NOUREEN Read More Articles by ATTIA NOUREEN: 7 Articles with 4394 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.