پولیس کے ہاتھوں ایک اور چراغ گل

بچپن میں ہمیں پڑھایا گیا تھاکہ پو لیس عوام کی حفاظت‘ملک کی اصلاح اور سماج کے شر پسند عناصر کے قلع قمع کے لیے ہوتی ہے ۔شاید ہو سکتا ہے پولیس کو کبھی اپنا یہ فرض یادرہا ہو ‘مگر آج تو پرانے دستوروں ‘حالات ‘اقدار ‘حقائق اور افکار کی طرح یہ بات بھی پرانی ہو گئی ‘آج کی صورت حال تو یہ ہے کہپولیس پوری طرح بے رحم ‘انسانیت کی قاتل ‘درندہ صفت ‘حیوان ‘ چوروں ‘ڈاکوؤں کی پشت پناہ ہفتہ و رشوت خور اور نہ جانے کیا کیا بن گئی ہے ۔یہ صفات رذیلہ کسی مخصوص ریاست کی پولیس کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ پورے ملک کی پولیس ان برائیوں میں ملوث ہے بلکہ ایک دوسرے پر سبقت لے جارہی ہے۔ یہ کو ئی نئے اور انوکھے انکشافات نہیں ہیں ‘پولیس کا تو ماضی بھی سیاہ ہے اور حال بھی سیاہ‘ازل سے ہی اس کا چلن ہے جس سے انسانیت زخمی زخمی اور سہمی سہمی رہتی ہے۔قصبہ دیوبند میں پیش آئے تازہ ترین واقعے نے تو مندمل ہوتے زخموں کو پھر سے ہرا کر دیا جن سے رستے خون سے میں یہ درد اوراحساس رقم کررہا ہوں ۔پولیس کے ہاتھوں پھر ایک جان چلی گئی اور خاندان کا محنت مزد ور ی کر کے پیٹ پالنے والا سایہ اٹھ گیا۔چھوٹے چھوٹے بچوں کا ایک باپ پولیس کی درندگی کا شکار ہو گیا ۔یہ ایسا ایک ہی واقعہ نہیں ہے بلکہ پولیس کی قتل و غارت گر ی کاایک لامتناہی سلسلہ ہے ۔بار بار دیکھا جاتا ہے کہ فرقہ وار انہ فسادات اور بم دھماکوں کے موقعوں پر اندھا دھند گو لی چلانے والی پولیس ہی ہو تی ہے۔ہاشم پور ہ اورملوانہ کے دولد وز سانحے‘مکہ مسجد اوراجمیر بم بلاسٹ کے موقع پر ‘گوپال گڑھ اور فیض آباد کے فرقہ وارانہ فسادات کے وقت سب سے زیادہ لو گ پولیس کی گولیوں کا ہی نشانہ بنے تھے ۔یہ کو ئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں ہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جنھیں کسی بھی طرح جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

پولیس کی درندگی اس کی قتل و خون کی وارداتوں سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔اس کا سب سے زیادہ اور آسان ٹارگٹ مسلمان اور مسلم اکثریتی علاقے بنتے ہیں ۔بالخصوص تعلیمی‘تجارتی ‘ کاروباری اور سرکاری یا پرائیویٹ کمپنیوں میں اعلا عہدوں پر فائز مسلم نوجوان اس کی درندگی کا شکار بنتے ہیں ۔مسلمانوں کوہر طرح سے تنگ کیا جاتا ہے ۔کاروباریوں پر ناجائز زیادتیاں اور بے بنیادسختیاں کی جاتی ہیں جن سے انھیں بے شمار مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے اور خو ف وہراس کے عالم میں دن رات گذرتے ہیں ۔یہ خاص مواقع پر ہی منحصرنہیں ہے بلکہ تفتیش کے نام پر وقت بے وقت ‘گاہ بگاہ اور موقع بے موقع انھیں پر یشان و ہراساں کیا جاتا ہے۔پولیس یہ اندھا پن بھی دیکھئے کہ بم دھماکے پونے میں ہوں ‘بنگلور یا کہیں اور ہو ں گر فتاریاں اعظم گڑھ‘گیا‘پٹنہ‘بٹلہ ہاؤس‘بنگلور ‘آسام ‘ حیدرآباد ‘سری نگر اور کشمیر سے کی جاتی ہیں‘ان پر نام نہاد تنظیموں سے وابستگی ‘پاکستان ‘ کشمیر اور نہ جانے کہاں کہاں کے گروپوں سے تعلق کا الزام لگا دیا جاتا ہے ۔یہی نہیں ان کے علاوہ کتنے ہی فرضی الزامات ان کی ناتواں گر دنوں پر ،ڈال دیے جاتے ہیں حالانکہ زیادہ تر ان میں سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جنھیں یہ تک نہیں پتا کہ پونہ ‘بمبئی ‘بنگلور اور حیدرآباد جایا کس طرف ہیں اور وہاں کیسے جایا جاتا ہے۔مگر پولیس درندگی کی انتہا کر تے ہو ان سے ناکردہ گناہوں کا بھی اقرارکرالیتی ہے ۔ایک بارزبان کھلتے ہی رائی کا پہاڑ بنا دیا جاتا ہے اوراسے مسلم دشمن میڈیا کے ہاتھو ں میں سونپ دیا جاتا ہے ‘آگے وہ اپنی کارروا ئی کر تا ہے اور پوائنٹ سے پوائنٹ اور نقطوں سے نقطے نکال کر دنیا بھر میں مسلمانوں کو بدنام کرتے ہو ئے ایسی فضا بنا تا ہے کہ گویا ساری دنیا مسلمانوں نے ہا ئی جیک کر لی اوراب کسی دم اس کا خاتمہ ہونے والا ہے۔

معاشرے کے غیر سماجی عناصر ‘چوروں ‘ڈاکوؤں کا تو پولیس مضبوط قلعہ بن گئی ۔عالم یہ ہے کہ تھانوں اور پولیس چوکیوں کے قرب و جوا رمیں ڈاکہ زنی اور لوٹ مار کی وارداتیں ہوجاتی ہیں اور پولیس تماشا دیکھتی رہ جاتی ہے ۔دو چار چوروں کو اگر خانہ پری کر نے کے لیے گر فتار بھی کر تی ہے تو بہت جلد انھیں لے دے کے چھوڑ دیتی ہے ۔ان پر لگے تمام الزمات اورکیس کلی طور پر مٹا دیے جاتے ہیں اور دوگھنٹے پہلے چوری کی وادات کر نے والے تھانے سے دودھ کے دھلے بن کر نکلتے ہیں ۔پولیس کی ناک تلے غنڈہ عناصر کسی کا بھی خون کر دیتے ہیں ۔آناً فاناً میں ماحول کشیدہ اور فضا خراب کر دیتے ہیں بلکہ متعدد رپورٹوں اور تحقیقات کے تناظر میں دیکھا جائے توپولیس کی ایما پر ہی یہ سب کارنامے انجام دیے جاتے ہیں۔

مذکورہ بالا حقائق کے سامنے آجانے کے بعد اب وقت آگیاہے کہ پورے ملک میں پولیس کی تحلیل کی تحریک چلا ئی جا ئے ۔آخر کب تک ہم اس کے مظالم کا نشانہ بنتے رہیں گے ‘آخر کب ک ہمارے چراغ ایسے ہی گل ہوتے رہیں گے آخر کب تک۔ پورے ملک کے مسلمان یک زبا ن ہو کر کہیں کہ ہمیں ایسی پولیس کی کو ضرورت نہیں ہے جو اپنا فرض بھول گئی ہو اور اس کا نشانہ مسلمان ہو ۔ہمیں ایسی پولیس کی کو ئی حاجت نہیں ہے جو ہمارے گھروں کے چراغ گل کرتی ہے اور غریبوں کو خون سڑکو ں پر بہاتی ہے ۔ہمیں ایسی پولیس کی کو ئی ضرورت نہیں ہے جو بے رحم ‘درندہ صفت ‘حیوا ن اور انسانیت کی دشمن ہو ۔جس کے یہاں اخلاق ‘آداب اور عزت کا فقدان ہو ۔آؤ مسلمانو ہم ایسی پولیس کا بائیکاٹ کر یں اور مرکزی وزارت داخلہ کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومتوں سے پر زور مطالبہ کر یں کہ ان درندوں کو پھانسی پر لٹکادیں تا کہ عوام اور ملکی باشندے ان کے شر سے محفوظ رہیں اور آرام کی نیند سو سکیں۔یہ لوگ ہر گز اس قابل نہیں ہیں کہ زمین پر رہیں اورخوف و فساد پھیلاتے رہیں ۔ ہمیشہ یاد رکھیے!’’خوف ایک ایسی منفی حقیقت ہے جس سے انسانی ترقی مسدود ہوجاتی ہے اور امن ایک مثبت قدر ہے جس کی کائنات کو ضرورت ہے۔ایک ایسی ضرورت جس کے بنا زندگی کا گذار ناممکن ہے ۔

احساس
پولیس کی درندگی اس کی قتل و خون کی وارداتوں سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔اس کا سب سے زیادہ اور آسان ٹارگٹ مسلمان اور مسلم اکثریتی علاقے بنتے ہیں ۔بالخصوص تعلیمی‘تجارتی ‘ کاروباری اور سرکاری یا پرائیویٹ کمپنیوں میں اعلا عہدوں پر فائز مسلم نوجوان اس کی درندگی کا شکار بنتے ہیں ۔مسلمانوں کوہر طرح سے تنگ کیا جاتا ہے ۔کاروباریوں پر ناجائز زیادتیاں اور بے بنیادسختیاں کی جاتی ہیں جن سے انھیں بے شمار مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہیور خو ف وہراس کے عالم میں دن رات گذرتے ہیں ۔یہ خاص مواقع پر ہی منحصرنہیں ہے بلکہ تفتیش کے نام پر وقت بے وقت ‘گاہ بگاہ اور موقع بے موقع انھیں پر یشان و ہراساں کیا جاتا ہے۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 56712 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More