اِن حالات میں ،لگتاتو نہیں ہے ....!!کیاواقعی الیکشن ہوں گے..؟

جہاں گزشتہ ہفتے مُلک کے سب سے بڑے شہرکراچی میں شدت پسندوں کی جانب سے ایم کیو ایم ، اے این پی اور پی پی پی کے انتخابی دفاترپر مسلسل ہونے والے دہشت گردی کے واقعات نے سارے مُلک کو خوفزدہ کردیاتھاتووہیں اتوار کے روز اِس دہشت گردی کا دائرہ خیبرپختونخواہ تک پھیل گیااوراِن واقعات میں کئی معصوم انسانی جانیں القمہ جل بنیں اور کئی زخمی ہوکر مفلوج ہوگئے ، جن کا بعد میں شاید کو ئی بھی پرسانِ حال نہ ہو،اَب اِن حالات میں کون ہوگاجو گیارہ مئی کو ووٹ ڈالنے نکلے گا...؟اور مُلک میں کسی مثبت تبدیلی کے آنے کا خواب دیکھ پائے گا...؟

اگرچہ آج میں بھی آپ ہی کی طرح الیکشن کے التواءیاملتوی کئے جانے کا حامی تو نہیں ہوں...! مگرجب ایک مخصوص گروپ کی جانب سے اپنی شریعت اور اپنے قوانین کے نفاذ کے خاطرضدمیں علی الاعلان دہشت گردی کی جارہی ہو اور جوں جوں انتخابات کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے اِس میں کمی آنے کے بجائے مُلک میں دہشت گردی بڑھتی ہی جائے، اور حکومتی رٹ کو چیلنچ کردیاجائے، اور مُلک کی تین بڑی جماعتوں پی پی پی ، ایم کیو ایم اور اے این پی کے اُمیدواروں، کارکنوں اور اِن جماعتوں کے انتخابی دفاتراور جلسے، جلوسوں اور ریلیوں پر منصوبہ بندی کے تحت حملے کئے جائیں تو پھر یقینا اُن اداروںجو عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں اِنہیںیہ ضرور سوچناچاہئے کہ اِن حالات میں گیارہ مئی کو ووٹرز کیسے ووٹ کاسٹ کرنے نکلیں گے...؟جب ایسے میں الیکشن کمیشن اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حکمتِ عملی خواب میں بدلتی ہوئی محسوس ہورہی ہو، اوراَب جبکہ دہشت گردی سارے مُلک میں پھیل چکی ہے توپھرتو اِس صورتحال میں یقینا ایسانہیں لگتاہے کہ انتخابات کا انعقاد اُس طرح کیسے ممکن ہوسکے گا...؟ جس طرح اِن کے پُرامن انعقاد کا تصورکیاجارہاہے، ابھی بھی وقت ہے ہمارے قومی اداروں کے پاس دس ، گیارہ روز ہیں اگریہ چاہتے ہیں کہ گیارہ مئی کے انتخابات پُرامن طریقے سے ہوجائیں تو اِن کو جنگی بنیادوں پر ایساکچھ ضرورکرناچاہئے کہ آج مُلک کے تینوں صوبوں سندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میںایک یا کئی مخصوص گروپوں کی جانب سے دہشت گردی کا جو بازار گرم کیاگیاہے، اور اِنہوں نے حکومتی رٹ کو علی الاعلان چیلنچ کرتے ہوئے کوہاٹ ، پشاور اور کراچی میں دھماکوں کی ذمہ دار قبول کرلی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ہم پاکستان مسلم لیگ (ن)جمیعت علمائے اسلام (ف)جماعت اسلامی اور تحریک اِنصاف پاکستان کو نشانہ نہیں بنائیں گے جبکہ سابق حکمران جماعت سمیت اِس کی دواتحادی جماعتوں کو نشانہ بنانے کی اِن کی شوری ٰ منظوری دے چکی ہے، لہذااِس گروپ کے ذمہ دار کی جانب سے اِس بیان کے آنے کے بعد ضرورت اِس امر کی ہے کہ جیسے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بعض سیاسی جماعتوں کے رہنماو ¿ں کی جانب سے کیں گئیں تقاریر میں دوسری جماعتوں کے رہنماو ¿ں کے ذاتی قول وفعل کی کردارکشی کا سختی سے نوٹس لے لیا ہے یکدم اِسی طرح الیکشن کمیشن اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے ذمہ داران کوملک میں کھلم کھلادہشت گردی کرنے والے ٹولوں اور عناصر کو قابوکرنے اور اِنہیں نکیل ڈالنےکے لئے یہ چاہئے کہ اِن کے تحفظات دورکریں اور افہام وتفہیم کی راہ نکال کر اِنہیں مذاکرات کی دعوت دیں اور اِن کے کسی وجہ سے پیداہونے والے غصے کو ٹھنڈاکرنے کے لئے ایسے اقدامات کریں کہ دہشت گردی کے واقعات نہ ہوںاور مُلک میں گیارہ مئی کو انتخابات کا انعقاد پُرامن طور پر ہوسکے اور اِس طرح وہ تبدیلی آجائے جس کے لئے اچھے اور بُرے سب ہی منتظر ہیں۔

مگرذراٹھیریئے ..!میں مزید کچھ کہنے سے قبل یہاں اپنے قارئین کو یہ بتاتاچلوں کہ میرا تعلق نہ تو سابق حکمران جماعت پی پی پی سے ہے اور نہ ہی اِس کی اُن دو، تین بڑی اتحادی جماعتوں(ایم کیو ایم، اے این پی ، پی ایم ایل (ق) اور نہ دیگر) سے ہے جو آج دہشت گردی کے نشانے پر ہیں اور نہ ہی میراتعلق آج اِن جماعتوں سے ہے جنہیں مخصوص گروپ نے نشانہ نہ بنانے کی چھوٹ دینے کا وعدہ کررکھاہے ۔ہاں میں تو بس ایک عام سا پاکستانی ہوں اوراکثر اِس ناطے میں اپنے کالموں میں اپنے خیالات کا اظہار کرتارہتاہوں ،مندرجہ بالایا ذیل کی سطور میں میری کسی بات سے اگر کوئی یہ سمجھے کہ میں کسی کا جانبدار ہوں تو براہ کرم اپنی تصحیح کرلے میراتعلق کسی جماعت یا گروپ سے نہیں ہے میںایک بار پھر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھناچاہوں گاکہ میں تو بس ایک پاکستانی ہوں اور اپنے مُلک کی بھلائی اور ہر پاکستانی کی سلامتی کے لئے جو سوچتاہوں وہ لکھتاہوں۔

بہر کیف ..!جب میں نے سولہ مارچ کو سعودی عر ب سے عمرے کی سعادت حاصل کرنے اور وہاں بیس روز گزار نے کے بعد اپنے وطن عزیز پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھاتو میں نے سوچاکہ میں اپنے قارئین کے لئے سب سے پہلے حرم شریف اور مسجدِ بنوی ﷺ میں گزارے اپنے حسین اور پُرکیف لمحات قلم بندکروں گاجبکہ افسوس کہ میں اَب تک ایسانہیں کرسکاہوں اِس کی یہ وجہ ہے کہ میرے مُلک اور شہر میںہونے والے متواتربڑھتے ہوئے بم دھماکوںاور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے مجھے پریشان کردیااور میں سب کچھ بھول کر اِس تشویش میں مبتلا ہوگیاکہ کیا ہم ابھی تک ظہورِ اسلام سے قبل والے دورِ جہالت میں ہیں..؟جب کفار گھوڑاآگے بڑھانے ، پانی پلانے، حق کو دبانے، ضدکو بڑھانے، سچ کو جھوٹ ، جھوٹ کو سچ کرنے کے لئے لڑنے جھگڑنے کے لئے طرح طرح کے بہانے ڈھونڈاکرتے تھے، معاف کیجئے گا...!افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج ہم اَسوہ حسنہﷺ کی پیروی کا ڈھنڈوراتوبہت پیٹ رہے ہیں حتی کہ اَب تو اپنے کرتوتوں کو دیکھ کر ایسالگنے لگاہے کہ جیسے کہ ہم اپنایہ ڈھنڈوراپیٹ ، پیٹ کر تھک گئے ہیں، تب ہی تو بھٹک بھی گئے ہیں، اور یہی وہ المیہ ہے کہ ہم چودہ سوسال بعد بھی ظہورِ اسلام سے پہلے والی حالتِ جہالت کا وہی نمونہ پیش کررہے ہیں، جب اُس وقت کے اِنسان آپس میں بلاوجہ لڑنے اور ایک دوسرے کا خون بہانے کا بہانہ تلاش کیا کرتے تھے ، ایسے ہی اور اِس سے بھی بدترین کیفیت سے آج بھی ہم دوچار ہیں ،جبکہ آج ہمیں تو اُسوہ حسنہ ﷺ اور قرآن وسُنت پر عمل کرنے والا ایسامسلمان ہوناچاہئے تھا کہ ساری دنیا کے لئے ہم نمونہ ہوتے اور چارسوہمارے قول وفعل کی اچھی مثالیں دی جاتیں،مگر افسوس کہ ہم اپنے دین اسلام کی تعلیمات، قرآن و سُنت کے احکامات کی اُس طرح پیروی نہ کرسکے جیسی ہمیں کرنی چاہئے تھی، موجودہ حالات میں ایسالگتاہے کہ جیسے آج ہم نے دینِ اِسلام کی تعلیمات کو ایک طرف رکھ کراِن سے اپنی مرضی سے مفاہم اخذکرلیئے ہیں اوریوں ہر شخص خود کو اسلام اور قرآن و سُنت کا سب سے بڑاعلمدار تصورکرکے اپنی مرضی کے گروپ تشکیل دے کراپنی مرضی اور منشاکی سُنت بزورِ طاقت اور ڈنڈادوسروں پر لاگوکرناچاہتاہے، میں چوں کہ پچھلی سطور میں کہہ چکاہوں کہ لگتاہے کہ جیسے ہم اصل اسلامی تعلیمات سے ہٹ کراپنی مرضی سے وضع کئے گئے اُصولوں اور ضابطوں کے مطابق خود بھی چلناچاہ رہے ہیں اور دوسروں کو بھی چاہ رہے ہیں کہ وہ بھی ہماری مرضی اور قوانین کے مطابق اپنی زندگیاں گزاریں ،اَب جبکہ ہر شخص خود کو اِس طرح کا مسلمان ہونے کا لبادہ اُوڑھ کرا ور اپنی مرضی کی تعلیمات کو لے کر پیش ہوگاتو پھر شاید یہی کچھ ہوتارہے گاجو آج ہورہاہے-

اَب اِس گرداب اور حالتِ جہالت سے نکلنے اور دینِ اسلام کی اصل تعلیمات پر چلنے کے لئے لازمی ہے کہ ہمیں خندہ پیشانی اور صبروبرداشت کا مظاہرہ کرناچاہئے کیوںکہ ہمارے دینِ اسلام کی اصل روح ہی صبروبرداشت اور عفوودرگزر رہے، اور جب ہم اِس سے روگردانی کریں گے توپھریہ یاد رہے کہ ہم دینِ اسلام کی تعلیمات کو پروا ن چڑھانے کے بجائے ، صبروبرداشت اور عفوودرگزرکا دامن چھوڑ کر لامحالہ اپنی مرضی اور منشا کی شریعت اور قوانین کا اطلاق چاہ رہے ہیں، جو کہ ہمارے جیسے معاشرے اور مُلک کے لئے یقینا بگاڑ کا سبب ہے، یہ بات ہمارے اُن ڈنڈابرداراسلامی اور مسلمان بھائیوں کو سوچناچاہئے جو بم دھماکوں، دہشت گردی اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کرکے یہ عزم کئے ہوئے ہیں کہ یہ اِس طرح دینِ اسلام کی تبلیغ کررہے ہیں اور ربِ کائنات کی عظیم تحلیق اِنسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کو بموں سے اُڑاکر اپنا ٹھکانہ جنت میں ڈھونڈرہے ہیں، جب کہ ایسے لوگ، اور گروپ صریح غلطی پر ہیںکیونکہ اِن کے اِس عمل سے نہ تو دینِ اسلام کی کوئی تبلیغ ہورہی ہے اور نہ ہی معصوم مسلمانوں کو دہشت گردی اوربم حملوں کا نشانہ بناکر اِنہیں جنت ملے گی۔

اِن حالات میں کہ جب مُلک میں ایک ناراض گروپ کی جانب سے اپنا آپ منوانے کے لئے دہشت گردی بڑھتی ہی جارہی ہے توایسے میں قانون نافذکرنے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے بڑے ذمہ دار اداروں پر یہ لازم آتاہے کہ یہ اپنے اُن ناراض بھائیوں کو جو کسی وجہ سے بھٹک گئے ہیں اِنہیں منانے کے لئے لچک کا مظاہرہ کریں اور اِن کے قریب جاکراِن کی بات سُنیں اور اِنہیں سمجھانے کے لئے مذاکرات کی دعوت دیں اور اِنہیں قائل کریں کہ یہ ایسانہ کریں جس سے مُلک کے معصوم شہری القمہ اجل بن رہے ہیں، انتخابات کے انعقاد کو پُرامن بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اُس گروپ کی بھی ضرور سُنی جائے جو خود سے یا کسی کے بہکاوے کی وجہ سے اُس راہ پر چل پڑاہے جہاں پہنچ کر اِنسانیت بھی کانوں کو ہاتھ لگاتی ہے۔

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971114 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.