جی ہاں اور’’ کہیں سب کوپریشان کرگئی میری کم آمیزی ’’،
سچ پوچھئے تو دانا ئے راز اپنے اقلیمِ تخیل کے جس ہمہ جہت اور محیر العقول
مرد کامل کے متعلق نغمہ سراہے، اسکی ایک جیتی جاگتی تصویر ہمارے اس دورکی
وہ عہدسازشخصیت ہے،جوکردار وگفتار کے حسنِ امتزاج کی بہترین آئینہ دار ہے ،اور
جسے دنیا خطیب ِاسلام مولانا محمد اجمل خان لاہوری کے نام سے جانتی ہے، ہم
نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں ـــ( جسے گذرے ہوئے قریبا ًدو دہائیاں بیت گئی
ہیں ) جن چند ایسی شخصیات کو دیکھا ، جن کا خوش گلو اور بلند بانگ طوطی
تمام ترآب وتاب سے ملک کے چپے چپے میں بولتاتھا اور ہنرِ گفتگو کی طرح جن
کا کمال جستجو بھی وجد آفرین ہواکرتاتھا،ان ہی میں ایک عظیم نام مولانا
اجمل خان کا ہے ۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
مولانالاہوری کا جس ولی اﷲی قافلے سے تعلق تھا ،وہ ہماری تجزیہ کارئیوں اور
حاشیہ آرائیوں سے ماوراء اور بالاتر ہے ،تاہم مرحوم کے سوانحِ حیات کی
اشاعت کے موقع پر جب بات تعمیل حکم کی ہوتی ہے تو پھر کچھ خامہ فرسائی
ضروری ہوتی ہے ۔
ہم جب اپنے دورکے خطباء کا مولانا اجمل خان لاہوری سے موازنہ کرتے ہیں،
توان کے کچھ امتیازات ایسے سامنے آتے ہیں جن کا معاصر خطابت پیشہ طبقے میں
نام ونشان بھی نہیں ملتا اور کچھ ایسی خوبیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جو
خال خال دوسرے ناموروں میں بھی نظر آتی ہیں،
آج کل خطابت کا کمال اور ملکۂ تقریر وبیان کی انتہا اسکو سمجھا جاتاہے کہ
خطیب صاحب ایک عدددہن دریدہ رنگیلی ٹوپی زیب جبین کرے اور گلو بند بدوش سو
قیانہ اسٹائل میں فلم کاروں جیسے ڈائیلاگ سے سامعین وناظرین کو کچھ اسطرح
محظوظ کرے کہ کبھی ہاتھوں کو تسلسل سے فضاء میں لہرائے، توگاہے ن مفلر
ہوامیں اچھال کر توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرے، نہ گفتگو میں وقارہو، نہ
حرکات وسکنات میں کوئی سلیقہ ،نہ علم کی گہرا ئی ہو،نہ سوچ کی پختگی
۔سنجیدہ پیغام ہونہ قابل قبول ھدف، بس ادائیں ہوں ، اچھل کود ہو،جذبات گر
مانااور محفل سجانا مطمح نظرہو، اور ایک وہ خطباء تھے، جوتول تول کربولتے
تھے ، کھڑے ہوتے، تو سراپا جلال وتمکنت ،الفاظ وانداز نرالا ہو تا،اشا رات
وکنایات کابرمحل استعمال اس میں مزید نکھارپیدا کرتا، حقائق ومعارف سے ان
کا خطاب لبریز ہوتاتھا ،اور خود مجسمِ عمل وکردار ہوتے تھے۔
ان کے حلقہائے اثر میں اھل علم ودانش ہوتے تھے ،جو اپنی علمی تشنگی بجھانے
حاضر ہوتے تھے ، متلاشیانِ حق اپنے مطلب کی دلائل ولطائف سے جھولی بھرتے
تھے ،طالبان ِعمل اپنی اصلاح کا سامان کرتے تھے، تو ارباب ذوق بھی گھنٹوں
ان کی شیریں بیانی اور تقریر کی دلپذیری پرعش عش کرتے ،ابوالکلام، آزاد
عطاء اﷲ شاہ بخاری ، شورش کا شمیری ، اور ہمارے مولانا اجمل خان اسی سلسلے
کے رجال کار تھے،علامہ اقبال نے شاید ایسے ہی پاکباز ،راست گو خدامست بندوں
کے متعلق کہاتھا۔
ہزارخوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہاہے ازل سے قلندروں کا طریق
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مردِ خلیق
جی ہاں ہزار خطرات اور بے شمار اندیشوں کے باوجود حق گوئی اور جرأتِ اظہار
کی روش پر قائم رہنے والے رجال کار میں مولانا عصر حاضر میں ایک نمایاں
مقام رکھتے تھے ، اور ان کے میخانہ ٔخطابت وارشاد میں خلق خداکا ہجوم ان کے
اخلاق وکردار اور طبعی شرافت ونجابت کی بدولت ہوتاتھا ۔
جمعیت علماء اسلام جب مشیئت ایزدی اورکچھ دیدہ ونادیدہ اسباب وعوامل کے
باعث دو دھڑوں میں تقسیم ہوئی، تو مولانا اجمل موصوف حضرت درخواستی کے گروپ
میں چلے گئے ، مولانا فضل الرحمن اس وقت نوجوان تھے اوراجمل خان صاحب ان کے
مقابلے میں بزرگ ،تو قدرتی طور پر حضرت درخواستی اور مولانا فضل الرحمن میں
ان کی ترجیح اول الذکر بزرگ ہوتے جو مولانا فضل الرحمن توکیا اجمل خان صاحب
کیلئے بھی پیر ومرشد کا درجہ رکھتے تھے اور پھر حضرت درخواستی کا علم
ومعرفت اور خصوصا ًتفسیر وحدیث میں جو بلند مقام تھا، وہ بھی رجحان ومیلان
کا ایک بڑا سبب تھا ،سو حضرت لاہوری کا تقابل اور ترجیح کی صورت میں ان کے
پاس جانا قرینِ قیاس تھا ،تاہم پھر جب کچھ بہی خواہوں کی کاوشوں سے جمعیت
کے یہ دونوں دھڑے متحد ہوگئے، مولانا اجمل خان ایک مستقل حلقۂ اثر کے ہوتے
ہوئے بھی نہ صرف اس میں رکاوٹ نہیں بنے، بلکہ اسے ممکن بنانے کی ہر ممکن
کوشش کی اور مزے کی بات یہ ہے کہ بعد میں جب بد قسمتی اور کچھ عناصر کی کج
کلاہی کے باعث اس اتحاد کو پھر سے تہس نہس کرنے کیلئے کمر کس لی گئی اور
حضرت درخواستی کی عدم آمادگی اور عدم دلچسپی کے باعث اب مولانا سمیع الحق
کی قیادت میں جمعیت کا دوسرا دھڑ افعال کرنے کا عمل شروع ہوا ،تو مولانا
اجمل خان نے عظیم بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کی ہمراہی
اختیار کی اور تمام توانائیاں انہیں مضبوط کرنے میں صرف کیں، مولانا فضل
الرحمن سے زمینی اور زمانی قربتیں نہ ہونے کے باوجود انہوں نے جس وفاداری
بشرط استواری کا ثبوت دیا وہ نہایت لائق تحسین ہے اور نادرۂ روزگار ہے، پھر
وقت گزرنے کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کی قیادت وبصیرت ملک وملت کیلئے جس
طرح شجر سایہ دار ثابت ہوئی اور سفینۂ حق کیلئے ہر طوفان وطغیان کے وقت وہ
نگہبانی وپشتیبانی کا جو کردار اداکرتے رہے ا،تنی ہی اس سے مولانا لاہوری
کی مردم شناسی اور دور اندیشی کی وسعت کا اندازہ ہوا۔
مولانا رحمۃ اﷲ علیہ تاحیات اس جماعت ِاکابر کے امیراور صحیح معنوں میں
خادم ر ہے ۔ آج صاحبزادہ مولانا امجدخان بھی الحمدﷲ ’’الولد سرلأبیہ‘‘ کا
مصداق بن کر اسی وضع داری ،بردباری، سنجیدگی اور استقامت کے ساتھ اپنے والد
گرامی کا مشن آگے بڑھا رہے ہیں ،وہی حلیہ ،وہی مزاج وہی انداز خطابت اور
وہی کاروان جمعیت کی شانہ بشانہ ہم راہی وہم آہنگی ۔
اﷲ تعالی اس خانوادۂ مبارکہ اور سلسلہ ٔ خیر کو یوں ہی قائم ودائم اور روبہ
ترقی رکھے ۔ |