پچھلے دنوں سماحۃ الإمام المحدث الشیخ سلیم اﷲ خان صاحب
دامت برکاتہم العالیہ اور استاذِ مکرم حضرت مولانا عبیداﷲ خالد صاحب کے
معیت میں حرمین شریفین کی زیارت نصیب ہوئی، جہاں کئی علمی شخصیات اور متعدد
بین الاقوامی سطح کے اداروں کو دیکھنے کا موقع ملا۔
رابطہ عالم اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے
سابق پروفیسر جناب محمد بن صالح العبودی سے ان کے آفس میں سب سے طویل ترین
بیٹھک رہی، ہمارے داخل ہوتے ہی انہوں نے مرحباً بالأخ الباکستاني بکل الرحب
والسعۃ اور اس طرح کے مزید خیر سگالی وترحیبی معطر کلمات سے ہمارا استقبال
کیا۔
ہمارے بیٹھتے ہی انہوں نے پاکستان کی سیاست اور دیگر احوال کے متعلق پوچھنا
شروع کردیا، صوبۂ سرحد اور متعلقہ آزاد قبائل، درۂ خیبر وغیرہ کے متعلق اس
طرح باریکی کے ساتھ انٹرویو کرنے لگے، جیسے وہاں ہی پلے بڑھے اور پروان
چڑھے ہوں۔ امریکی بمباری، دہشت گردی اور دیگر امور کے متعلق ہمہ جہت گفتگو
ہوئی، دینی مدارس وجامعات کا موضوع بھی چھیڑا، میرے رفیق مولوی اسامہ کو
میں نے کہا آپ بھی اپنی کرسی قریب کرلیجئے، تاکہ وہ بھی گفتگو اور استفادے
میں برابر کا شریک رہے، چونکہ اسامہ ایک زیرک، مستعد اور بعید الہمّ لڑکا
ہے، اس لئے میں نے چاہا کہ وہ بھی ساتھ ساتھ رہے، اور اپنے آنے والے کل کے
لئے بساط بھر خوشہ چینی کرتا رہے۔
عبودی صاحب نے لاہور کے اپنے ایک سفر کا تذکرہ کیا جو انہوں نے قریبا 27,
28سال قبل کیا تھا، لاہور جیسا کہ معروف ومشہور ہے کہ زندہ دلوں کا شہر ہے،
وہاں ایک مرتبہ جانے والا شخص اس شہر اور اس کے باسیوں کو تاحیات بھلا نہیں
سکتا۔
لاہور سے بذریعہ بس براستہ راولپنڈی، پشاور، درۂ خیبر، طور خم، جلال
آباد،کابل تک کے لئے سفر کا بلاتکان تذکرہ ان کے نوکِ زبان پر تھا۔
اس زمانے میں مفکرِ اسلام حضرت مولانا مفتی محمود نوراﷲ مرقدہ صوبۂ سرحد کے
وزیر اعلیٰ تھے، ان کے پاس جانے، قیام وطعام اور ان کے علم وفضل، تفقّہ
وتدبر کا مسلسل ذکر چل رہا تھا، مولانا فضل الرحمن صاحب سے اپنی ملاقاتوں
کا بھی ذکر کیا، اور ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کو داد دیتے رہے، پھر ایک دم
انہوں نے محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اﷲ اور جناب ڈاکٹر
عبدالرزاق اسکندر صاحب کی طرف اپنی گفتگو کا رخ موڑا، بڑی شان سے وہ ان کی
مدح سرائی فرمارہے تھے، شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
سے تو یہاں سب ہی صغار وکبار مانوس ہیں۔
ہم نے حضرت شیخ کی آمد کا تذکرہ کیا، بڑے افسوس سے کہنے لگے کہ ابھی ابھی
میری ریاض کے لئے بکنگ ہے گویا میں پابۂ رکاب ہوں، میرا گھر وہیں ہے، میں
ہفتے کی صبح سے بدھ کے دوپہر تک یہاں ہوتا ہوں اور بدھ کی دوپہر سے سوموار
کی صبح تک ریاض میں، کاش! آپ مجھے تھوڑی دیر پہلے کہتے، ہم حضرت شیخ صاحب
کی خدمت میں حاضر ہوتے، لیکن قدّر اﷲ ماشاء․
محترم جناب عبودی صاحب دنیا کے چپے چپے کا سفر کرچکے ہیں، اور اپنے اسفار
کو ’’أدب الرحلات‘‘ کی دنیا میں اتنا بڑا مقام دے چکے ہیں کہ اب جب بھی ابن
بطوطہ ، البیرونی، ابن حوقل جیسے سیاحوں اور اساطینِ رحلات کی فہرست ہوگی،
وہاں محمد بن ناصر العبودی شاید مستقبل میں سب سے نمایاں نظر آئیں گے،
کیونکہ سفر ناموں اور رحلات پر جتنی مفصّل اور کثیر کتب ان کی ہیں، شاید ہی
کسی اور کی ہوں، ہمیں انہوں نے ان کے پاس موجود سفر ناموں میں سے کئی
کتابیں بطور ہدیہ پیش کیں، جن میں بعض متعدد جلدوں میں بھی ہیں۔ 23x36=16
سائز کے ڈھائی سوسے لے کر چار سو صفحات کی یہ کتب ہیں۔ ان کی مطبوعہ وغیر
مطبوعہ سفر ناموں کی فہرست ان کی بعض کتب کے بیک ٹائٹلز پر تقریباً 98 تک
پہنچی ہوئی ہیں، یہ تعداد میں نے ان کی کتاب ’’الرحلۃ الروسیۃ‘‘ سے لی ہے،
جو 1993 میں چھپی تھی، امید ہے کہ بعد میں یہ تعداد ڈیڑھ سے دو سو تک پہنچ
چکی ہوگی، صرف بنگلہ دیش، کشمیر، پاکستان اور ہندوستان پر ان کی کتب کئی
کئی جلدوں پر مشتمل ہیں، مثلاً: ۱-مقال فی بلاد البنغال، ۲-سیاحۃ کشمیر،
۳-بلاد الہندوالسند: باکستان، ۴-علی أعتاب الھملایا، ۵-نظرات فی شمال
الہند، ۶-فی أقصی شرق الہند، ۷-فی وسط الہند، ۸-الاعتبار فی السفر إلی
ملیبار، ۹-الشمال الغربی من الہند، ۱۰-راجھستان: بلاد الملوک، ۱۱-بورما:
الخبر والعیان، ۱۲-رحلات فی جنوب الہند، ۱۳-زیارۃ لسلطنۃ برونائی، ۱۴- رحلۃ
إلی جزر مالدیف، ۱۵-فی نیبال: بلاد الجبال، ۱۶-رحلۃ إلی سیلان․
اہلِ علم وفضل جانتے ہیں کہ سفر وسیاحت بجائے خود قرآن وسنت کی نظر میں
محمود ہیں، اور امام شافعی رحمہ اﷲ نے سفر کے بہت سے فوائد اپنے اشعار میں
بیان فرمائے ہیں۔
عبودی صاحب کی رحلات (سفر ناموں) کو بڑے بڑے حصوں اور ابواب میں تقسیم
کردیا جائے، تو تفصیل کچھ یوں ہوگی:
۱-الرحلات العربیۃ، ۲-الرحلات الافریقیہ، ۳-الرحلات الاوروبیۃ، ۴-الرحلات
الآسیویۃ، ۵-الرحلات الہندیۃ، ۶-الرحلات الامریکیۃ الجنوبیۃ، ۷-الرحلات
الامریکیۃ الشمالیۃ، ۹-الرحلات الصینیۃ، ۱۰-الرحلات الروسیہ، ۱۱-الرحلات
البلقانیۃ، ۱۲-رحلات أسترالیا۔
قاری یہ سمجھتا ہوگا کہ جناب ناصر العبودی صاحب نے یہی رحلات وسفرناموں کا
کام ساری زندگی کیا ہوگا، ایسی بات نہیں ہے! عبودی صاحب عالم اسلام اور
مسلم اقلیات میں شاید اتنے کانفرنسوں ، جلسوں اورسیمیناروں میں شرکت کرچکے
ہیں، جتنی شاید ہی کسی نے کی ہو، اور کہیں بھی صرف شرکت نہیں کی، بلکہ
لیکچرز، محاضرے اور مقالے بھی پیش کئے، یا ارتجالاً فی البدیہہ خطاب کیا
ہے، ان کی ان کانفرنسوں اور مؤتمرات وغیرہ میں پڑھے گئے مقالوں اور کی گئی
تقاریر پر بھی متعدد کتب ہیں۔
یہ کیا! اس کے علاوہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں باقاعدہ پروفیسر رہے
ہیں، اسی لئے ان کی رحلات سے ہٹ کر دیگر علوم وفنون پر ان کی انتہائی وقیع
تصانیف وتالیفات کی تعداد قریباً تیس کے لگ بھگ ہے، لیجئے!ایک طائرانہ نظر
ان میں سے چند اِیک پربھی ڈالتے ہیں:
۱- معجم بلاد القصیم (۶ جلدیں) ، ۲- الأمثال العامیۃ فی نجد (۵ جلدیں)،
۳-المقامات الصحراویۃ (مقامات کے طرز پر)، ۴- حِکَم العوام (ضرب الأمثال)،
۵-فی لغتنا الدارجۃ: کلمات قضت (لغت پر)، ۶- الکنا یۃ والمجاز فی اللغۃ
العامیۃ (لغت)، ۷-حکایات تُحکی (قصص)، ۸- نفحات من السکینۃ القرآنیۃ، ۹-
مأثورات شعبیۃ ، ۱۰-سوانح أدبیۃ، ۱۱- کتاب الثقلاء، ۱۲- صور ثقیلۃ، ۱۳-
کلما ت عربیۃ لم تسجّلھا المعاجم۔
بہرکیف کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ اہل علم ودانش اگر اپنے اسفار کو مرتب بھی
کیاکریں، تو اس سے کثیر الجہات فوائد حاصل ہوتے ہیں، جو کسی بھی اہلِ نظر
سے مخفی نہیں ہوسکتے۔عبودی صاحب اس خاص صنفِ ادب میں اتنا ضخیم کام کرکے
ہماری نگاہ میں ’’کنگ فیصل ایوارڈ‘‘ کے بھی مستحق ہوچکے ہیں۔ کنگ فیصل
ایوارڈ کی کمیٹی کو ان کا نام بھی شامل کرنا چاہیے۔
بلکہ یہاں میں تو یہ بھی عرض کروں گا ، کہ اہل علم کو اپنی آپ بیتیاں بھی
مرتب کرنی چاہئیں۔ اس سے بھی مابعد والوں کو اپنی زندگی کی تاریک راہوں میں
قندیلیں ملا کرتی ہیں، طہ حسین کی ’’الایام‘‘ ، احمد امین کی ’’حیاتی‘‘،
علی طنطاوی کی ’’ذکریات‘‘، حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمہ اﷲ
کی ’’آپ بیتی‘‘، مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اﷲ کی ’’کاروانِ زندگی‘‘،
مولانا عبدالماجد دریا آبادی کی ’’آپ بیتی‘‘ ، صدرِ وفاق حضر ت شیخ الحدیث
مولانا سلیم اﷲ خان صاحب کی ’’میری تمام سرگزشت‘‘، عمران خان کی ’’میرے
چاروں طرف‘‘ ، اے پی جے عبدالکلام صدر جمہوریہ ہند کی ’’پرواز‘‘، نیلسن
منڈیلا کی ’’آزادی کی شاہراہ پر‘‘ ، ٹالسٹائی کی’’ٹالسٹائی‘‘ اور روسو کی
’’اعترافات‘‘ وغیرہ اس کی لازوال مثالیں ہیں۔
سفر ناموں اور رحلات کی طرح آپ بیتیاں بھی ادب کی ایک اہم صنف ہے، اور ان
دونوں کا آپس میں جوڑ بھی ہے، ہمارے ساتھی اگر اس ادب کو اختیار کرنا چاہیں
تو یہ کوئی مشکل بھی نہیں ہے، مرتب کرنے اور محفوظ کرنے میں کسی کوہِ گراں
کے حائل ہونے کا کوئی بڑا اندیشہ بھی نہیں ہوتا، بس مشاہدات اور تاثرات کو
اپنے اسلوبِ بیان میں ڈھالنے کی دیر ہے۔
بہرحال جناب شیخ محمد بن ناصر العبودی ، درس وتدریس اور انتظامی ورفاہی
خدمات کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ ادب اور علم ومعرفت سے جڑے رہے، یہی ان کا
کمال ہے، کیا کوئی ہے جو اپنی ڈیوٹی اور منصبی فرائض کے ساتھ علم وفضل اور
فن وادب کا دامن تھامے رکھے؟ |