پٹاخے ،دھماکے اورمیڈیا!

میڈیا پر اس بات کاالزام ہے کہ خبر کچھ ہوتی ہے اور بیان کچھ کی جاتی ہے۔باالفاظ دیگر حقائق کو مسخ کرکے بیان کیا جاتا ہے۔حقیقتاََمیڈیا میں افراط و تفریط بہت حد تک مو جود ہے۔کبھی چھوٹی سی خبر کو بغیر تحقیق کے اتنا بڑا بنا دیا جاتا ہے کہ لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اور کبھی بڑی بڑی اہم خبروں کودباکر اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ جس سے چند لوگ ہی واقفیت حاصل کر پاتے ہیں۔نتیجتاََ وہ واقعہ یا خبر دب کر رہ جا تی ہے۔آخر کیا وجہ ہے میڈیا نے اس رخ کی طرف کبھی توجہ نہیں دی۔اس کی ہلکی سی جھلک آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔راقم نے چونکہ سٹی نیوز پیکج موبائل پر کھلوایا ہوا ہے۔چند دن قبل موبائل میں میسج ٹون بجی۔دیکھا تو اسکرین پر ایک خبر جگمگا رہی تھی۔وہ خبر کچھ اس طرح سے تھی:”لانڈھی نمبر 4میںدھماکہ 2افراد زخمی ہوگئے۔28.03.13 ´ ´11:10am/“پھر اس کے 46منٹ بعد یہی خبر کچھ اس انداز سے تھی:”لانڈھی نمبر4 میں آتش بازی کے سامان میں دھماکہ ہوا جس میں دو بچے زخمی ہو گئے۔11:57am/28.03.13“پہلی خبر پڑھیں پھر دوسری خبر پڑھیں کہاں افراد اور دھماکے اورکہاں آتش بازی کاسامان اوربچے۔گویا کہ کوئی پٹاخہ پھٹ گیا تو اسے دھماکے سے تشبیہ دے دی۔اوردوبچے زخمی ہوگئے توانہیں افرادِ بالغان سے تشبیہ دے دی۔صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ اگلے دن امت اخبار پر یہی خبر کچھ اس طرح سے تھی:”لانڈھی تھانے کی حدودلانڈھی نمبر4 میں واقع متحدہ قومی موومنٹ کے یونٹ نمبر 85کے قریب تکون پارک کے سامنے بچے آتش بازی کرتے ہوئے پٹاخے پھاڑ رہے تھے کہ اس دوران ایک پٹاخہ زوردار آواز سے پھٹا اورپٹاخے کی شدت سے11سالہ فریداوراس کے ساتھ موجود فیصل زخمی ہوگئے۔(امت رپورٹ 29.03.13)“اب ہم تینوں خبروں کاموازنہ کریں۔کہاں پر ایک پٹاخہ،کہاں آتش بازی اورکہاں پر بم دھماکہ۔ایک پٹاخے کو پہلے بم سے تشبیہ دے کر خبر چلا دی گئی اورعوام میں سنسی پھیلا دی گئی۔پھر اس دھماکے کو آتش بازی سے تشبیہ دے کر اس کی اہمیت کو کچھ کم کردیا گیا۔مگر امت رپورٹ سے تو یہ سنسی بالکل ختم ہو گئی۔اگرچہ عوام کو حقیقت معلوم ہوگئی مگر جس کے پاس پہلی خبر پہنچی ہوگی دھماکے کا سن کر وہ پریشانی میں مبتلا ہو گیا ہوگا۔اس کے خوف وہراس میں اضافہ ہوا ہوگااور اس جیسی بے شمار خبروں کے چلنے سے کراچی کا چہر ہ مزید دھندلاگیا ہوگا۔لیکن جس نے امت رپورٹ پڑھی ہوگی تو اس سے کراچی کا چہرہ تو نہیں دھندلایا ہوگا۔کیونکہ وہ تحقیق کے بعد شائع کی گئی۔اللہ تعالی نے قرآن میں اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہر خبر کی تحقیق کرلیا کرو۔مگر اس وقت پورے پاکستان بشمول کراچی کا تصور غیر ممالک میںدھندلا اور دہشت گردانہ دکھانے میں میڈیا برابر کا شریک ہے۔میڈیا وہ ہتھیا ر ہے اگر وہ چاہے تو اپنے ملک کا بہترین رخ دکھلا کر وطن عزیز کی قدرو منزلت میں اضافہ کر سکتا ہے اور اگر وہ چاہے تو اس کے برعکس چہرہ دکھلا کر وطنِ عزیز کی قدرو منزلت کو خاک میں ملا سکتا ہے۔مگر افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ میڈیا کی نظریں اکثر منفی چہرے پر پڑتی ہیں۔کبھی بھی کوئی خبر عموماََاتنے زورو شور سے پڑھنے اورسننے کو نہیں ملتی جتنی روزانہ بم دھماکوں،فائرنگ اورقتل کی وارداتوںکو زوروشور سے نشر کی جاتی ہیں۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کراچی میں واقعی کئی غیرقانونی واقعات رونما پذیر ہوتے ہیں مگر میرا سوال یہ ہے کیا اس طرح کے واقعات امریکا اور اس کے حواری ممالک میں رونما پذیر ہوتے ہیں تو کیاوہاں کا میڈیا بھی اپنے ملک کا چہرہ اس طرح دھندلاتا ہے ۔ہمارے میڈیا کو اکثر وہی خبر نظر آتی ہے جس میں وطن کا چہر ہ دھندلایا گیا ہو۔ پھر بھی میڈیا آزادی کا دعوے دار ہے۔اس طرح ہم عالمی سطح پر میڈیا کا انداز دیکھیںتو پھر بھی ہمیں یہی نظر آئے گا کہ عالمی میڈیا پر بھی ہر اس خبر کو زیادہ کوریج دی جاتی ہے جس سے امت مسلمہ کا مورال گرے اور ان کا دہشت گردانہ چہرہ عام ہو سکے۔پچھلے دنوں بادامی باغ کا واقعہ سب کے سامنے ہے۔جو کچھ ہوا غلط ہوا۔مگر میڈیا کو یہ بہت جلد نظر آگیا کہ مسیح برادری کی جھونپڑیا ں جلا کر راکھ کر دی گئیں۔مگر یہ کسی کو نظر نہ آیا کہ جلنے سے پہلے وہ جھونپڑیا ں خالی کیوں کر دی گئیں تھیں؟اورآگ کس نے لگائی تھی ؟یہ درست ہے کہ مظلوموں پر ظلم کو واضح کرنا چاہیئے۔مگر اس کے نتیجے میں شر پسندوں کی طرف سے جو اودھم مچایا گیا وہ میڈیا کو نظر کیوں نہ آیا؟نیز میڈیا کو برما کہ مظلوم مسلما ںن نظر کیوں نہیں آتے کہ جن پر قیامت ڈھائی جارہی ہے۔پاکستان میں کسی غیر مسلم پر ظلم کی خبر مل جائے تو اس پر ملکی و عالمی میڈیا کاواویلا دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔اگرچہ اس میں کوئی صداقت نہ بھی ہو۔مگر برما میں مسلمانوں کی بستیوں کی بستیاں جلا دی گئیں۔ماﺅں بہنوں کی عصمت ریزی کی گئی ۔ان کی عزتیں پامال کی گئیں ۔مسلما نوں کو زندہ جلایا گیا۔ان کے اعضاءکاٹے گئے۔انہیں سمندر میں غرق کیا گیا۔انہیں غلام بنا کر افریقی ممالک میں بیچا گیا۔اور یہ سب کچھ اب بھی جاری ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ کشمیر،فلسطین ،کوسووں،شام ،بھارت اور کئی ممالک میںامت مسلمہ کے فرزندانوں پر ہونے والا ظلم میڈیا دنیا کے سامنے کیوں نیں لایا جاتا۔چند رسمی خبروںپر ہی کیوں اکتفاءکرلیاجاتا ہے۔میڈیا کا نعرہ ہے کہ وہ آزاد ہے کیا صرف غیر مسلموںپر ہونے والے ظلم کے لیئے؟اگرچہ اس کی کوئی حقیقت بھی نہ ہو۔آخر مظلوم مسلمانوں کو اپنی خبروںکا اس طرح محور کیوں نہیں بناتا؟برما جل رہا ہے۔کشمیر کو خارزار بنا دیا گیاہے۔فلسطین لہو لہو ہے۔شام کی مظلوم عوام پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں۔مگر میڈیا سو رہا ہے۔رسمی کاروائی اداکرکے وہ سمجھتا ہے کہ فرض اداہوگیا۔آخرمیڈیا اس طرف انصاف کے دامن کیوں نہیں تھامتا؟پھر یہ سوال اٹھتا ہے کیامیڈیا آزادہے؟جب قرائن وحالات کا مشاہدہ کیا جائے اور میڈیا کی موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے ۔تو معلوم ہوتا ہے کہ ہاں !میڈیا آزاد ہے مگر صرف اس قدر جتنی آزادی کاپروانہ اس کے آقاﺅں نے اسے تھمایا ہے۔اگر وہ اس آزادی کی حدود سے آگے بڑھے تو آقاﺅں کی ناراضگی کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

خدارا کچھ تو قومی وقار کابھی خیال رکھیئے۔اس چکر میں کہ سب سے پہلے ہماری خبر نکلے حقائق کو تو مسخ مت کیجئے۔بلکہ تحقیق کے دامن کو تھام لیجئے۔جب ظلم ہی بیان کرنا ہے تو سب مظلوموں کو یکساں مقام دیجئے۔حقیقی ظالم کو ہی ظالم بنایئے۔مظلوم کو ظالم تو مت بنائیے۔حقائق کو سامنے لائیے تاکہ جرائم کا خاتمہ ہو سکے۔اورامن وامان بحال ہو سکے۔

حبیب الله
About the Author: حبیب الله Read More Articles by حبیب الله: 2 Articles with 1751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.