اٹھا رویں صدی کے با دشاہ او ر دیگر حکمراں صحا فت کی بڑ
ھتی ہو ئی مقبو لیت سے نا خوش تھے وہ آزا دانہ را ئے کا اظہا ر کرنے والے
اخبارات کی بے با کی سے نا لاں تھے انھیں یہ احساس تھا کہ ایسے وا قعات کی
تفصیلا ت اخبارات میں شا ئع ہو نے لگی تھیں جو عام حالات میں محلوں اور
ایوا نوں کی چار دیوا ری میں ہی محدود و پو شیدہ رہنی چا ہئے تھی اخبا رات
کے مد یران کو اعلا نیہ رشوت دی جا نے لگی جو اخبار نو یس ر شوت لینے سے
انکار کر تے انھیں طرح طرح ستا یا جا تا قید خا نوں میں ڈال کر سڑایا جا تا
کئی ممالک میں بغیر لا ئنسس آخبار شا ئع کرنا جرم تھا آمرانہ خیا لا ت
رکھنے والے ان حکمران طبقہ کا خیال تھا سرکا ری معا ملا ت چند تعلیم یا فتہ
افراد اور دانشور دلچسپی لیں عوام کا ہر معا ملہ میں وا قف ہو نا ضروری
نہیں، مگراب وہ زما نہ نہیں رہا آزاد صحا فت کے و سلیے سے عام انسان کو بد
لتے ہو ئے حالات اور نو عیت کی پو ری وا قفیت دی جا تی ہے ا ن سب کا موں کے
لئے اخلا قی جرائت و بے خوفی ضروری ہے یہ ایسا پیشہ ہے جو کئی قر با نیوں
کا طلب گار ہے۔ آج جب پو ری دنیا میں آزادی صحا فت کا دن منا یا جا تا ہے
پاکستان جیسے ترقی پذیر ،دہشت گردی کے نر غے میں پھنسے ملک میں اس دن کی
اہمیت بہت بڑھ جا تی ہے ہما رے ملک میں ایک صحافی کی زندگی کس قدر مشکل ہے
اس کا ثبوت ورلڈ سروے رپوٹ میں کیا گیا ہے جس کے مطا بق پا کستان پو ری
دنیا میں صحافیوں کے لئے سب سے خطرنا ک ملکوں میں سے ایک ہے ہر سال ہمارے
ملک کے کئی صحا فی اپنی جا نوں کا نذار نہ اس پیشے کی نذر کر تے ہیں لیکن
اپنے قلم کا سودا نہیں کر تے ۔ صھا فت ایک وسیلہ خدمت ہے یہ خدمت اسوقت صیح
و مکمل سمجھتی جا تی ہے جب یہ پو ری آزادی سے سچ اور جھوٹ کو عوام کے سا
منے لا سکے ۔
ایک مشرقی محا ورہ ہے کہ ”چھو ٹے حکمرا ن شہنشاہ اکبر کی تلوار سے زیا دہ
ابو الفضل فیضی کے قلم سے خو ف کھاتے تھے “چھو ٹے حکمر اں ابو الفضل کے قلم
سے کیو ں خو ف زدہ تھے اس کا جوا ب بڑا سادہ ہے۔ ابو فضل فیضی،شہنشاہ اکبر
کا خا س دربا ری اور ہما رے جد ید دور کی ا صلا ح میں ایک بڑ اقلم کا ر تھا
جو با دشاہ وقت کو پورے ملک کی تما م خبر یں پہنچا تا تھا اور اراکین سلطنت
کے کا موں کا جا ئزہ لیتا تھا ۔ اسکی تفصیل شہنشا ہ اکبر تک پہنچا تا تھا ۔گو
اب شہشا ہیت دور حکو مت نہیں بلکہ جمہو ری دور ہے ۔ جمہو ر ی د ور میں صدر
بھی عوام کے سامنے جو اب دہ ہے۔ مگراس محا ور ے کی صدا قت آج کے دور میں
بھی لا گو ہیں اسی لئے تو ہما ری عدا لتون نے صحا فیون کی کر پشن اور نا جا
ئز مرا عات سے فا ئدہ اٹھا نے وا لے صحا فیوں کی فہر ست جا ری کی مگر اس کا
ایک افسوس ناک پہلو بھی ہے کہ گہیوں کے ساتھ وہ گھن بھی پس رہے ہیں جو اپنے
پیشے اسے ا یما ندار و مخلص تھے ان کا شکوہ ہے کہ کچھ نا معلوم دشمن اپنے
گنا ہو ں اور جعل سا زیو ں کو چھپا نے کے لیے ابو الفضل کے ان جا نشینوں پر
عتا ب نا زل کر نے کی کو ششیںجا ری کئے ہو ئے ہیں ۔
انسا نی فطر ت ہے کہ جب وہ کو ئی غلطی کر تا ہے تو اسے چھپا نے کی کو شش
کرتا ہے جتنا بڑا آدمی ہو اس کا لا لچ اور غلطی بھی اتنی بڑ ی ہو گی اس کی
خو اہش ہو گی کہ اس کی غلطیا ں اس کا منافقا نہ رویہ عوا م النا س تک نہ
پہنچ سکے اس کے لیے وہ کبھی لا لچ دینے کبھی عہدے با ٹنے اور کبھی ڈرانے د
ھمکا نے کی سعی کر تاہے تاکہ اسکی غلط کا ریو ں سے ملک وقوم کو ن ±قصان اور
اپنی ذا ت کوفا ئد ہ پہنچا تا رہے ۔ جس طر ح بڑ ے ٓدمی کی غلطی بڑ ی ہو تی
ہے اسی طر ح اس کا غصہ بھی بڑا ہوتا ہے اور جس کے دسترس میں اپنے غصہ کے ا
ظہار کا موقع ہو وہ کیوں مو قع ہا تھ سے جا نے دے گا ، یہ صحافی ہی ہیں
جنھو ں نے ما رشل لا د ور میں جمہو ریت کی آزادی کے لیے کو ڑے کھا ئے،
جیلیں کا ٹی ، بے روز گا ری کے کھٹن مر حلے طے کیے، ان کے خا ندانوں نے بھو
ک اور تنگ دستی ، فاقوں کے عذا ب سہے اور بے گھر ہو ئے ۔
اس کے بر عکس ایسے مو قع پر سیا سی لیڈرزتو ملک سے با ہر فرارہوجا تے ہیں
سیا سی پنا ہ کی آڑ میں عیش و آرام کی زندگی بسر کر تے ہیں جب ملک میں
مارشل لا کے خاتمہ اور جمہور ی بہا ر کی آمد ہو تی ہے تو یہ بر ساتی مینڈکو
ں کی طرح بہا روں کا مز ہ لو ٹنے کے لیے میدان میں کو د پڑ تے ہیں، دونو ں
ہا توں سے ملک کی دولت لو ٹنے میں مصروف ہو جا تے ہیں ،یہ سیا سی پا رٹیا ں
جب اقتدار سے با ہر ہو تی ہیں تویہی صحا فی ان کے دوست اور غم گسار اور حق
گوکہلا تی ہیں مگر جو ں ہی ان پا رٹیو ں کو اقتدار کی کر سی ملتی ہے تو
جمہوری حکو مت کو شہنشا ہیت میں تبدیل کر نے کی کو ششوں میں لگ جا تے ہیں
ان کی غلطیوں پر جب انھیں ا ٓئینہ دکھانےکی کو شش کر تا ہے تو وہی نھیں کر
پٹ ، الزام تر اش اور سا زشی نظر آنے لگتا ہے ۔ تنقید ی نظر رکھنا عوام کی
بھلا ئی کے لیے کر پشن کو بے نقا ب کر نا مختلف ادارو ںکی غلطیو ں کے جا نب
تو جہ مبذ ول کرانا یہ سب صحا فیوں کے فر ئض کا حصہ ہیں اس سے کسی صحا فی
کا حکو مت وقت سے کوئی ذا تی دشمنی یا مخالفت نہیں، وا ضح رہے کہ ا ختلا ف
اور مخالفت میں فر ق ہے۔ اختلا ف ایک مثبت عمل ہے اس کہ بر عکس مخالفت ایک
سر تا پا منفی عمل ہے پا ر لیمٹ اور پریس دونوں معا شرے کے مضبوط ستون
ہیںاخبارات نہ ہوں تو قا نون سا ز ادارے خفیہ انجمن مبا حثہ بن جا ئیں عوام
کو کیسے پتہ چلے کہ حقا ئق کیا ہیں گار جین کے مد یر سی پی اسکا ٹ کا مقولہ
کا فی وقعت کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے کہ Fact are sacreds,Comment is
free,, یعنی ”حقا ئق مقدس ہیں ،تنقید کی پوری آزادی ،، |