الیکشن2013بارود کے ڈھیر پر

مملکت خداداد پاکستان کو معرض وجود میں آئے 66سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے اس دوران جمہوریت اور آمریت نے اقتدار میں آکر راج کیا ہے گو کہ آ مریت اور جمہوریت دونوں ادوار میں پاکستان عجیب نشیب و فراز سے گزرا ہے۔آمریت اور جمہوریت کی نورا کشتی میں مثل سونامی کی مانند اُتار چڑھاﺅ پیدا ہوتا رہا ہے۔اس سیاسی کشمکش میں آمریت نے جمہوریت کو لعن تعن کیا تو کبھی جمہوریت نے آمریت کو القابات سے نوازا۔ہمارے حکمرانوں کی طرح عوام نے بھی کوئی کثر نہیں چھوڑی،کہنے کو تو انہیں معصوم عوام کہا جاتا ہے مگر یہ معصوم عوام بھی اپنے لئے خوشی خوشی کنواں کھودنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہی۔یقیناً کچھ کو یہ جملہ عجیب سا لگے گا۔حقیقت یہ ہے کہ عوام نے بھی آج تک روابط کے علاوہ ،کردار ،قابلیت،انسان دوست،مخلص اور پڑھے لکھے کسی غریب پرور کا ساتھ دینے کی کوشش ہی نہیں۔کہیں پر ذات پات، کہیں پر برادری، قومیت اور مذہبی و مسلکی جذباتی لگاﺅ کے تحت اپنا ووٹ دیتی رہی ہے۔یہ سلسہ چلتے چلتے ضیاءدور تک پہنچ گیا۔جس نے مذہبی انتہا پسند لوگوں کو اپنا پسندیدہ قرار دیا۔ساتھ پراکسی وار کے متاثرین افغانیوں کو پاکستان میں اتنی چھوٹ ملی کہ کسی شہر،قصبہ میں اگر مائیں اپنے بچوں ڈرانا چاہتی تو یہ کہتی کہ بیٹا گلی میں اکیلے مت جانا افغانی بوری میں بند کر کے لےجائے گا۔ضیاءکے دور میں ہر آنے والے دن ان افراد کی مرضی کا دن ہوا کرتا تھا،ساتھ ملک کے عوام کی ایک بڑی تعداد نے ان کی کھل کر پزیرائی بھی کرنے لگی جو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تا حال جاری ہے۔چند سال قبل پاکستان سے لشکر کے لشکر امریکہ کے خلاف جنگ کرنے پاکستان سے نکلے،ان دنوں مذہبی رہنماﺅ ں سے پوچھا گیا کہ اگر پاکستان اور افغانستان کی جنگ ہوجائے تو آپ کس کا ساتھ دیں گے تو ان بڑے ذمہ داروں نے پاکستانی میڈیا میں بہ بانگ دہل کہا کہ ہم ایسے حالات میں افغانستان کا ساتھ دیں گے۔وہی حضرات کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ بھی بنے رہے ۔آج جس چوراہے پر یہ ملک کھڑا ہے اس کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہیں،اگر گنتی میں جائیں تو بات لمبی ہوگی۔سابق صدر پریوز مشرف کے دور میں تو میڈیا میں یہاں تک کہا جارہا تھا کہ فلاں کے مطابق اتنے دنوں میں طالبان اسلامآباد تک پہچنے والے ہیں۔مگر پاک فوج نے اپنی جانوں کا نزرانہ دے کر انہیں بہت دور تک دھکیلنے کامیاب ہوئی۔اب اولیاءکرام کے مزاروں، عبادت خانوں، ملک کے حساس تنصیبات،سڑکوں، چوراہوں، غرض ہر جگہ کوان لوگوں نے نشانہ بنا کر پاکستان کے معصوم عوام کی نسل کشی میں کوئی کثر نہیں چھوڑا۔لگتا ایسا ہے کہ انتہا پسند قسم کے وہ لوگ جو اسلحے کی نوک پر ااسلامآباد میں قابض ہونا چاہتے تھے مگر ناکام ہوئے ۔اب وہ بھی بڑے سیاسی کھلاڑی بن چکے ہیں۔ اب الیکشن کے زریعے یعنی وہ سیاسی رہنما جن پر انکا اعتماد ہے ان کے کندھے پر بندوق رکھ کر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں 24گھنٹوں میں9 سے زیادہ دھماکے ہوئے جس میںANPکو زیادہ ٹارگٹ بنایا جارہا ہے۔ایم کیو ایم، اور ملک کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو دھمکیاں اور ان دی جانے والی دھمکیوں پربرابری کے ساتھ عملدرآمد بھی ہوتا ہوا نظر آتا ہے( حالانکی میں ذاتی طور پر کسی بھی پارٹی کا حامی نہیں ہوں البتہ جو محسوس کیا جاسکتا ہے وہ قرطاس کی زینت بنانے کی کوشش کر رہا ہوں)۔بلوچستان میں کوئٹہ کا سانحہ تاریخی اور سندھ میں کراچی عباس ٹاﺅن کا سانحہ پاکستانی عوام اس تاریخی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔اب ان کی ہمت اور طاقت اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایک دھماکے سے کام نہیں چلتا ہے تو وہ پے درپے دھماکے تسلسل کے ساتھ کر رہے ہیں۔انتہا پسندوں نے تو کراچی کے ایک خاص ایریا میں اپنی راج نگرہی بنا رکھا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو پورے ملک میں ان کا راج ہے ا۔ور ملکی و غیر ملکی میڈیا میں بھی اس تشویش کا اظہار کیا جاچکے ہے۔اب جوں جوں ملک میں الیکشن نزدیک آرہے ہیں بارود بھی اتنی تیزی سے ان کے اڈوں تک پہنچ جاتا ہے اور دھماکوں کی گونج نے پاکستان کے مظلوم عوام کی رگ و پے میں سرائت کر چکا ہے۔اب جو امیدوار الیکشن لڑنے جارہے ہیں ان کے اوپر بھی خوف کے بادل منڈھلا رہے ہیں۔اگر الیکشن ہو بھی جارے ہیں تو کیا عوام اتنی تعداد میں ووٹ ڈالنے باہر نکلیں گے؟ یہ واقعی ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے ۔لوگ خوف کے مارے ابھی سے سوچ میں پڑے ہوئے ہیں کہ آیا الیکشن کے دوران ووٹ ڈالنے جائیں گے یا نہیں اگر جائیں تو کس طرح۔اب ایک نئی خبرنے بھی لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے وہ یہ کہ عمران خان صاحب نے طالبان بھائیوں سے الیکشن تک دھماکے بند کرنے کی اپیل کی ہے۔یہ صدا اب صدائے بازگشت کی طرح واپس عوام کے ذہنوں سے جا ٹکرانے لگیں اور چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کہ آیا وہ کیا عوامل کرفرما ہیں جن کی وجہ سے عمران خان نے اتنی بڑی جرائت کی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی مسلم ن کے سربراہ نواز شریف کو صاحب جو بے دھڑک جلسے کر رہے ہیں کم از کم اس باببت انہیں کوئی فکرلاحق نہیں۔ حالانکہ ملک کا بچہ بچہ یہ کہ رہا ہے کہ اب یہ الیکشن تو بارود کے ڈھیر پر لڑے جائیں گے۔رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان، اورصوبہ سندھ جس کا کیپٹل کراچی جو دنیا کے بڑے شہروم میںشمار کیا جاتا ہے بارود کے ڈھیر پر،صوبہ سرحد جہاں لوگ سیاحت کرنے اپنے موڈ کو خوشگوار بنانے جایا کرتے تھے اب یہ بھی بارود کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔اب جب بھی کوئی خبر سننے کے لئے ٹیلی ویثن کھولیں تو پہلی نظر بارود کے ڈھیر، مسخ شدہ لاشوں پر یا کہیں پکڑے جانے والے اسلحے پر ہی پڑتی ہے۔ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ اگر فلسطین میں کوئی دھماکہ ہوا اور لوگ لاشوں کو تابوت میں لےکر ہزاروں کی تعداد میں چل رہے ہیں تو پاکستانی عوام بہت ہمدردی اور افسوس کا اظہار کرتے تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے کاش وہاں پر ہمارے ملک کی طرح امن وآمان ہوتا وہ لوگ بھی ہماری طرح چین کی نیند سوجاتے۔ مگر اب پاکستان نے کے حالات نے تیزی سے پلٹا کھایا کہ اب فلسطین والے عراق والے وہ لوگ ہمارے ملک میں ہونے والے دھماکوں، دہشت گردی، قتل و غارگری یہ سب دیکھ کر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔اب دنیا بھی یہی کہتی ہے کہ پاکستان تاریخ کے نازک ترین موڑ سے گزر رہا ہے۔ اور بالخصوص الیکشن2013تو عین بارود کے ڈھیر پر لڑے جائیں گے۔ان حالات میں ہر پارٹی دوسری پارٹی سی اتنی نفرت کرتی ہے کہ بس یہی ان کے دشمن ہیں۔ ہمارے سیاستدان اپنے جلسوں میں مخالف سیاستدان پر غلاظت پھیکنے سے بھی نہیں کتراتے ہیں۔ سیاستدان کا سیاستدان سے نفرت، عوام کا عوام سے نفرت۔مسلکوں کا دوسرے مسلک سے نفرت۔ کہیں پر جنت کا ٹکٹ تو کہیں پر قتل کا فتویٰ۔ تو کہیں جمہوریت کو بھی کافر قرار دیا جارہا ہے۔اگر جمہوریت کافر ہے تو جمہوری انداز سے جس جس کا جو، جو بھی سربراہ بنا ہے ان سب کے بارے میں کیا خیال ہے۔حالات جیسے بھی ہوں بچاتے ہیں وہی ہیں جو مثبت راہ پر اپنی جانوں کا نزرانہ دیتے ہیں اور وہ نزرانہ ہمارے افواج پاکستان ہی دے سکتے ہیں،اب اگر اس بارود کے ڈھیر کو نہ سمیٹا گیا تو خدا نہ کرے کہیں پاکستان کا نام ”خاکستان“ نہ بن جائے۔اس سے قبل وطن کے رکھوالوں کو اب ملک بچانا ضروری ہوگیا ہے۔بخدا یہ جمہوریت دشمنی نہیں بلکہ حب الوطنی ہے۔اگر یہ ملک بچے گا تو سیاست چلے گیی آئین کی بالادستی ہوگی،قانون کی حکمرانی ہوگی۔آج ان حالات واقعی طاہر القادری کے وہ سہنرے الفاظ یاد آرہے ہیں اب واقعی ریاست بچانی ہے اور ریاست بچانی ہے اور یہی اُس وقت ممکن ہے جب ملک میں امن ہوگا اور بارود کے ڈھیر کو سمیٹا جائےگا۔جہاں تک اس بارود کے دھیر کو سمیٹنے کا مسلہ ہے یہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں،آخر سمیٹا تو جائے گا۔ مگر طالبان کی جانب سےایک اور چونکا دینے والی خبر نے نہ صرف امن پسند عوام کو چونکا دیا،بلکہ پوری دنیا کی نظریں اب پاکستان کی جانب مرکوز ہوگئیں،اُن کا یہ کہنا کہ ہم ن لیگ، پی ٹی آئی، اور جماعت اسلامی پر حملہ نہیں کریں گے اطالبان کے اس بیان کے بعد اب مذید تبصرے کی شاید ضرورت نہ پڑے۔ یہاں ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ طالبان نے تو جمہوریت کو کفر قرار دیا مگر ان کی تینوں پسندیدہ جماعتیں تو جمہوریت کے نعرے چیخ چیخ کر لگا رہی ہے، کیا یہ کہا جائے کہ بظاہر وہ جمہوریت کی بات کرتے ہیں اندر سے طالبان کے فارمولے پر عمل پیرا ہوں؟ خدا رحم کرے۔ خیر کرے اور خدا جانے کہ الیکشن ہونے تک مذیدکتنے امیدواروں پر حملہ ہوگا، کتنے عوام دھماکوں کاکی نزر ہوجائیں گے۔اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ PPP,PTI,ANPکس طرح دھماکوں سے خود کا بچاسکتے ہیں اور الیکشن لڑنے میں اُنہیں جو دشواریاں در پیش ہیں ان کا وہ کیسے تدارک کر سکتے ہیں جبکہ اب کراچی میں ایک دن کے اندر 15 معصوم انسانوں کو موت کی نیند سلادیا۔یہاں ایک بات حوصلہ افزا، سامنے آئی ہے کہ آرمی چیف کے خطاب سے واقعی عوام کو ایک حو صلہ ملا ہے،کہ الیکشن 11مئی کو ہی ہونگئے، دوسری بات طالبان کے ساتھ جنگ فقط فوج کی نہیں بلکہ پورےملک کی بقا کی جنگ ہے، آرمی چیف کی تقریر میں ایک اور اشارہ ملا ہے ، انہوں نے خطاب میں کہا کہ ۔ جمہوری پارٹیاں آپس میں محاذ آرائیوں سے بعض رہیئ تو آمریت کی گنجائیش نہیں۔ ملک میں حالات جیسے بھی ہوں جا جا کر عوام کی نظریں فوج پر ہی جمی ہوئی ہیں ۔عوام یہ چاہتے ہیں کہ خواہ جمہوریت پر نظر رکھیں یا خود نظر رکھیں مگر ہمیں امن چاہئے۔ جا جا کر اس پیچیدہ صورت حال کا حل ملک کے رکھوالے ہی نکال سکتے ہیں۔بشرطیکہ عوام بھی خود کو دہشت گردی سے چھٹکارہ پانے کی اپنی سی کوشش جاری رکھیں۔پروردگار علم ہم سب کو اپنے حفظ و آمان میں رکھے (آمین)

YOUSUF ALI NASHAD
About the Author: YOUSUF ALI NASHAD Read More Articles by YOUSUF ALI NASHAD: 28 Articles with 25987 views i am belong to gilgit working a local news paper as a asstand editor and some local newspapers for writting editorial pag... View More