پاکستان میں 11مئی کو ہونے والے انتخابات کے موضوع پر کچھ
لکھنا آسان نہیں ہے ایک تو یہ کہ موضوع خاصہ پیچیدہ ہے دوسری اہم بات یہ کہ
پاکستان کے بارے میں ہمارے لکھنے والے پاکستان کے منفی پہلوؤں کو اجاگر
کرنے اور من گھڑت، بے جواز اور بے بنیاد خبروں اور اعتراضات پر ہی اپنی
ساری توجہ مرکوز کرتے ہیں ہمیں تو اکثر قلم کار ’’ماہرین خرابیات پاکستان‘‘
نظر آتے ہیں ایک طرف تمام ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ انتخابات
اگر ہو بھی جائیں تو خطرناک ہوں گے۔ ہندوستانی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر
جو پاکستانی صحافی نظر آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر صدر زرداری کی پیپلز پارٹی
سے تعلق رکھنے ہیں اور کیونکہ یہ بات عام طور پر تسلیم کی جارہی ہے کہ
انتخابی نتائج بھٹو خاندان کی پیپلز پارٹی کے لئے شائد ہی ساز گارہوں اور
اس لئے پی پی پی کے حمایتی پاکستانی صحافی اخبارات اور ٹی وی پر ایسی باتیں
کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے ہیں جو کوئی ہندوستانی صحافی ملک سے باہر
اپنے ملک کے بارے میں ایسی باتیں کہنے کی شائد سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ ان
حالات میں سب سے الگ اپنے خیالات کے مطابق حقائق کو نظر اندازکئے بغیر کچھ
مثبت اور خوش گوار نتائج اخذ کرنا خاصہ مشکل کام ہے۔
جنرل مشرف کو انتخابات میں حصہ لینے بے روک دینے اور ان کے خلاف عدالتی
کاروائیوں سے انتخابی صورت حال اچانک بدل گئی ہے۔ انتخابی منظر نامہ میں
جنرل مشرف کی عدم موجودگی ان کی پارٹی مسلم لیگ (ق) کے لئے خاصی نقصان دہ
ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف جنرل کی جماعت کو عوام کی ہمدردی حاصل ہونے کا امکان
ہے اور اگر ہمدردی کی وجہ سے جنرل کو قومی اسمبلی میں معقول تعداد میں
نشستیں حاصل ہوجائیں تو انتخابی نتائج کے غیر فیصلہ کن ہونے کی صورت میں
جنرل مشرف کو خاصہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ پاکستانی فوج
انتخابی معاملات سے خود کو الگ رکھنا چاہتی ہے لیکن اپنے سابق سربراہ کی
تحقیر و توہن بھی گوارہ نہیں کرسکتی ہے خطرہ یہی ہے کہ پاکستانی عدلیہ اگر
جنرل مشرف سے انتقام لینے کی مہم پسندی میں کچھ زیادہ ہی آگے بڑھ جائے تو
صورت حال نہ صرف بدل سکتی ہے بلکہ خطرناک بھی ہوسکتی ہے۔ امید تو نہیں کہ
عدلیہ جوش انتقام میں افواج پاکستان سے ٹکراسکتی ہے ۔ جنرل مشرف سے سیاسی
جماعتوں کی طرح عدلیہ انتقام لے رہی ہے جس طرح مقدمات میں ان کو ملوث کیا
جارہا ہے۔ ان کی ضمانت مسترد کی جارہی ہے وہ عدلیہ کے شایان شان ہرز نہیں
ہے۔ عدلیہ اور وکلاء مشرف کے ساتھ یہ سب کچھ نہ بھی کرتے تو شائد عوام خود
ہی مشرف کو مسترد کردیتے اس طرح تو مشرف کو عوامی ہمدردی مل سکتی ہے۔
جنرل مشرف سے ہمدردی یا ان کو مسترد کئے جانے کا فائدہ (جو بھی صورت ہو)
عمران خان کو ہی پہنچے گا کیونکہ مشرف کے ووٹرس اگر اپنا انتخاب بدلیں تو
پھر وہ مسلم لیگ (ن) یا پی پی پی یا ایم کیو ایم کی جگہ عمران خاں کا ہی
انتخاب کریں گے۔ اسی طرح مشرف کی جماعت کو ہمدردی میں ووٹ دینے والے ہی ہوں
گے جو جنرل مشرف اور عمران خاں کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کے حق میں ووٹ
دینے والے تھے۔ عمران خاں کو ووٹ دینے والے شائد ہی جنرل مشرف کے بارے میں
سونچیں کیونکہ عمران خاں کا ووٹر پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) سے بیزار ہوکر
ہی عمران کی طرف مائل ہوئے ہوں گے۔
ایسے بھی حلقے خاصے وسیع ہیں جو اب بھی یہ امید رکھتے ہیں کہ بھٹو خاندان
کی پی پی پی اور نواز شریف میں سے کوئی برسر اقتدار آسکتا ہے یا گزشتہ بار
کی طرح دونوں ہی کی مخلوط حکومت بنے گی۔ گزشتہ بار بے نظیر کی موت کی وجہ
سے پی پی پی کو ہمدردی کی لہر کا فائدہ ملا اور پی پی پی سے دلچسپی نہ
رکھنے والے ووٹر نے نواز شریف کا رخ کیا۔ کیونکہ دلچسپی نہ رکھنے والے ووٹر
نے نواز شریف کا رخ کیا کیونکہ جنرل مشرف کی امریکہ نوازی، لال مسجد ،
ایمرجنسی کا اعلان ، وکیلوں اور ججوں سے بدسلوکی اور جس کسی کو امریکہ نے
مانگا اس کو امریکہ کے حوالے کرنا (خاص طور پر عافیہ صدیقی) ایسی باتیں جن
کی وجہ سے مشرف کے اچھے کام بھی نظر انداز کردئیے گئے نیز بے نظیر کی موت
پر ہمدردی نے بھی کام دکھایا۔ لیکن اس بار نواز شریف اور زرداری کو فائدہ
پہنچانے والی ہمدردی کا عنصر نہیں ہے۔ اس کے برعکس پی پی پی اور نواز شریف
کی حکومتوں سے بیزار عوام، کرپشن، پانی بجلی کی کمی اور مہنگائی سے پریشان
حال عوام تبدیلی کے خواہاں ہیں امریکہ سے بھی ناراض و نالاں ہیں۔ انہوں نے
امریکہ کے تابعدار مشرف، زرداری اور نواز شریف کی جگہ عمران خان کو لانا
ہے۔
پاکستان کے دستور کی دفعات 62و63کے تحت انتخابات میں حصہ لینے والے
امیدواروں کے لئے چند شرائط کی تکمیل ضروری ہے ان پر قبل ازیں کبھی عمل
نہیں ہوا تھا۔ لیکن ان دفعات کا اطلاق اس بار پرچہ نامزدگی داخل کرنے والے
امیدواروں پر سختی سے کیا گیا اور کئی نامور اصحاب (بہ شمول جنرل مشرف سابق
وزرأ اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز مشرف کو بھی نااہل قرار دیا گیا۔
اب اس عمل میں شفافیت کس حدتک برتی گئی ہے یہ سوال خاصہ تیڑھا ہے اسی مسئلہ
پر پی پی پی کے حامی ایک سنیئر صحافی نے حیدرآباد دکن کے ایک اخبار میں
حاصہ واویلا مچایا ہے۔
پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شبہات و تشکیک کی اصل وجہ
طالبان سے لاحق مفروضہ خطرات ہیں۔ اس سلسلے میں خطرات کا زیادہ اظہار پی پی
پی کی جانب سے ہورہا ہے۔ طالبان نے بے انتہاپارسا ہیں اور نہ ہی دودھ کے
دھلے ہیں۔ ان میں کئی شرپسند بھی شامل ہیں لیکن مذہب بیزار، اسلام کو موڈرن
اور اپنی مرضی کے مطابق بنانے والے دنیا بھر میں نہ صرف طالبان بلکہ حزب
اﷲ، حماس، مجاہدین چیچنیا سب ہی کو دہشت گرد کہتے ہیں۔ اسلام پسندوں کو
دہشت گرد زیادہ تر امریکہ کے غلام کہتے ہیں۔ اس لئے طالبان کو انتخابات کے
لئے خطرہ بتایا جارہا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ طالبان کو بدنام کرنے کے لئے اس
قسم کے خدشات لائق توجہ نہیں ہیں۔
پاکستان میں انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے والا ایک اہم عنصر پنجاب اور
سندھ ہیں ۔ وڈیروں اور بلوجستان و صوبہ سرحد میں قبائل کا سرداری نظام ہے۔
وڈیرے (بڑے زمیندار جو ایک یا کئی کئی دیہاتوں کے مالک بلکہ بے تاج کے
بادشاہ ہوتے ہیں ان کے مزارعے (کسان) ان کی مرضی بلکہ حکم کے مطابق ووٹ
ڈالتے ہیں۔ یہی حال قبائلی سرداروں کا ہوتا ہے یہ وڈیرے اور سردار خود بھی
انتخابات لڑتے ہیں اپنے دوستوں کو لڑواتے ہیں۔ پارٹیاں بدلتے ہیں وفاداریاں
بدلتے ہیں کسی علاقے میں انتخابی رجحان بدلنے میں ان کا رول بے حد اہم
ہوسکتا ہے۔ ان کی تائید غیر یقینی ہوتی ہے۔ بعض غیر متوقع اور چند ووٹس کے
فرق کے نتائج میں وڈیروں اور سرداری نظام کا عنصر پہناں ہوسکتا ہے۔
ایشیائی ممالک میں امریکی مفادات بھی نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں کئی
ممالک کی طرح پاکستان (بلکہ پاکستان میں کچھ زیادہ ہی) امریکی مفادات کے
لئے کام کرنے والے زندگی کے ہر شعبہ میں ہیں سرکاری و فوجی اعلیٰ عہدیدار،
سیاسی قائدین، سرمایہ دار، صنعت کار، ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد میں
امریکہ کے زر خرید ہی موافق امریکہ امیدواروں کی کامیابی کے لئے کام کرتے
ہیں۔
امریکہ از کار رفتہ افراد سے ناطہ توڑ لیتا ہے یا کھوٹے سکوں کو پھینک دیتا
ہے۔ چنانچہ باور کیا جاتا ہے کہ پی پی پی اور نواز شریف اپنے کرپشن، نااہلی
اور غیر مقبولیت کی وجہ سے امریکہ کے لئے پسندیدہ نہیں ہیں۔شائد ایسا ہی
کچھ جنرل مشرف کے ساتھ ہونے کا شبہ کیا جاسکتا ہے۔ (لیکن وثوق کے ساتھ
نہیں)
امریکہ کا انتخاب عمران خان ہوسکتے ہیں۔ عمران خاں بنیادپرست (راسخ
العقیدہ) نہیں ہیں۔ جدید نظریات رکھتے ہیں۔ روشن خیال ہیں سب سے بڑھ کر
مخالف طالبان ہیں۔ عمران بھلے ہی بظاہر مخالف امریکہ ہیں لیکن مخالفوں سے
امریکہ کو کام لینا آتا ہے۔ عمران خان کی تائیدمذہبی جماعتیں ’’کم تر برائی
‘‘سمجھ کر کررہی ہیں۔ مذہبی جماعتیں خود نہیں جیت سکتی ہیں۔ لیکن دوسروں کو
کامیاب کرواسکتی ہیں۔ جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں سے عمران خاں کو مدد
مل سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ انتخابی نتائج معلق پارلیمان وجود میں لائیں۔ عمران
خان کو قطعئی اکثریت شائد ہی ملے لیکن مخلوط حکومت میں وزیر اعظم بننے کے
لئے ان کو درکار حمایت ضرورملے گی۔ عمران خاں بہت سوں پر ترجیح مل سکتی ہے
اور ملے گی۔ یوسف رضا گیلانی جنرل مشرف انتخابات لڑتے تو بھی وزیر اعظم
نہیں بن پاتے اب سارا انحصار اس پر ہے کہ عمران خاں پارلیمان میں کتنی
نشستیں حاصل کرتے ہیں؟ |