کیا ہم چور نہیں

مہینے کے آخری دن کس عذاب سے گزرتے ہیں یہ کوئی ان سے پوچھے جو صرف تنخواہ پر گزارہ کرتے ہیں اور اگر ہماری طرح تنخواہ بھی مہینے کے تیسرے ہفتے میں آتی ہو تو پھر اللہ ہی جانتا ہے کیا حال ہوتا ہے عجیب بات یہ ہے کہ تنخواہ کیلئے جب دن گننا شروع کرتے یں تو پھر مہینہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا لیکن جب مکان کا کرایہ دینے کی باری آتی ہے تو پھر لگتا ہے کہ دو ہفتے بعد ہی مہینہ ختم ہوگیا ہے ویسے بھی ایک صحافی دوست کی بات یہاں یا د آرہی ہے کہ جن کے بقول تن خواہ صرف ایک صرف تن کیلئے ہوتی ہیں اور ہم صحافی اس میں پورے کنبے کا خرچ چلاتے ہیں اسی لئے سمجھ نہیں آتا کہ کس طرح مہینہ پورا کریں خیر بات اپنے بچوں کیلئے فروٹ لینے کیلئے گذشتہ ماہ کے آخری دنوں میں ہشتنگری پھاٹک میں واقع روڈ کنارے کھڑے چھابڑی فروشوں کے پاس گیا سب سے کم قیمت کیلے ہی تھے جس کی خریداری کیلئے میں نے چھابڑی فروش سے اس کی قیمت پوچھی وہ مجھ سے بات کررہا تھا کہ اس دوران ایک داڑھی والا شخص اس کی چھابڑی پر آیا اور چھابڑی فروش نے اسے دس روپے دئیے اس کے جانے کے بعد چھابڑی فروش نے حکمرانوں کو وہ گالیاں دی جسے سن کر میرا پسینہ بھی چھوٹ گیا ان میں سیاسی پارٹیوں کو دی جانیوالی گالیاں بھی شامل تھی لیکن ساتھ وہ نئے پاکستان کی بات بھی کررہا تھا مجھے مزا آیا اور میں نے اس سے کہا کہ تم سے کچھ باتیں پوچھنی ہے اس لئے خریداری بعد میں ہوگی پہلے میرے کچھ سوالوں کے جواب دو اس کے مثبت جواب پر میں نے اس سے سوال کیا کہ تم نے دس روپے دینے کے بعد گالیاں دینا کیوں شروع کی تو پہلے وہ مشکوک سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگا جب میں نے اسے بتایا کہ میں صحافی ہوں اور اپنی معلومات کیلئے یہ سوال پوچھ رہا ہوں تو اس نے بتایا کہ دس روپے لینے والا میری ہی طرح کا چھابڑی فروش ہے جو روزانہ اس وقت آکر تقریبا ڈیڑھ سو کے قریب چھابڑی فروشوں سے دس روپے بھتہ وصول کرتا ہے بقول اس کے ہشتنگری پھاٹک پر کھڑے چھابڑی فروشوں سے چالیس روپے روزانہ ریلوے پھاٹک پر تعینات ریلوے کے ملازمین اور بیس روپے پولیس اہلکار بھتہ لیتے ہیں بھتہ خوری کے اس عمل میں ہمارے چھابڑی فروش بھی ان کمینوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں جو ہم غریبوں کا خون چوستے ہیں-بقول اس چھابڑی فروش کے ہم مجبورا مہنگی چیزیں بیچنے پر مجبور ہیں جب میں نے اس سے سوال کیا کہ تم حکمرانوں کو کیوں گالیاں دے رہے تھے تو اس چھابڑی فروش نے بتایا کہ یہ سارے حکمران کرپٹ ہیں اور ہم پر مسلط ہیں اسی وجہ سے ہم سڑکوں پر بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں جب میں نے اس سے یہ سوال کیا کہ تم خود چھابڑی سڑک کنارے لگا کر غیر قانونی کام کررہے ہو اور تم اپنے آپ کو بچانے کیلئے رشوت دیتے ہو تو کیا تم کرپٹ نہیں ہو تو اس کے بعد اس چھابڑی فروش کی بولتی بند ہوگئی-

اس چھابڑی فروش سے گپ شپ کے بعد جب میں بھتہ وصول کرنے کیلئے شخص سے ملا اور اس سے سوال کیا کہ تم کیوں اپنے لوگوں سے بھتہ وصول کرتے ہو تو اس نے بتایا کہ اگر میں ایسا نہ کرو تو پھر مجھے یہاں روڈ پر مزدوری کرنے کون دیگا جب میں نے اس سے سے کہا کہ تم بھی کرپشن میں آگے ہو حالانکہ تم تو باشرع آدمی ہو تو اس آدمی نے جواب دیا کہ تمھیں دس روپے جو میں چھابڑی فروشوں سے کسی کے حکم پر جمع کررہا ہوں وہ نظر آتے ہیں لیکن کروڑوں روپے نظر نہیں آتے جو حکمران کھاتے ہیں اس کے اس جواب نے مجھے کچھ دیر کیلئے خاموش کردیا لیکن میں نے اس سے سوال کیا کہ اس کا مطلب ہے کہ تم دوسروں کی دیکھا دیکھی کرپشن کرو گے تو اس نے جواب نہیں دیا- یہ ایک معمولی سی چھابڑی فروشوں کی بات ہے جو اپنی سطح پر کرپشن کررہے ہیں اپنے ارد گرد جب بھی میں دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کی دیکھا دیکھی بہت کچھ کرتے ہیں اور اگر کہیں پر پھنس جائے تو انگلیاں دوسروں پر اٹھاتے ہیں حالانکہ اگر ہمیں دیکھ لیں تو ایک انگلی اگر مخالف کی طرف ہوتی ہے تو چار انگلیاں ہماری اپنی طرف ہوتی ہے لیکن ہم سب صرف اپنی ہی انگی کو دیکھتے ہیں باقی چار انگلیوں کو دیکھنے اور سوچنے کی ہمت نہیں کرتے-

انتخابات کے اس گہما گہمی میں ہر کوئی بہت کچھ کرنے اور کرانے کے دعوے کررہا ہے لیکن میرا سوال اپنے آپ سے اور سب لوگوں سے ہے کہ کیا ہم بحیثیت شہری اپنی حیثیت کے مطابق کرپشن نہیں کررہے حکمرانوں کی بات تو بہت دور کی بات ہے کیا مزدور اپنی مزدوری حلال کررہا ہے بہت کم مزدور میں نے دیکھے ہیں جو وقت کی پابندی کرتے ہیں ورنہ کسی مزدور کواگر کسی کے گھر پر کام مل جائے اگر کام ٹھیکے کا ہے تو پھر تو جلدی ختم ہوگا ورنہ اگر روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کررہا ہے تو پھر ایک ہفتے کا کام مہینوں تک پھیل جاتا ہے یہی حال ہمارے دفتروں میں بیٹھے بابوئوں کا ہے جو بغیر شوڑہ لئے بغیر فائل آگے بھیجنا حرام سمجھتے ہیں پولیس اہلکار بغیر مٹی گرم کئے گاڑی آنے جانے ہی نہیں دیتے سرکاری دفاتر میں بغیر کمیشن کے کام چلانا مشکل ہے اور تو اور کیاان حالات میں میڈیا اپنی ذمہ داری پوری کررہا ہے یقینا نہیں کیونکہ جو اخبار میں اشتہار اور الیکٹرانک میڈیا پر کمپیئن چل رہی ہے کیا یہ پیسے کا کمال نہیںایسے میں نیا پاکستان کہاں سے آئیگا کیونکہ یہاں پر میں بھی چور ہوں آپ بھی چور ہو ہاں چوری کا فرق اتنا ہے کہ کوئی بڑا چور ہے اور کوئی چھوٹا چور کوئی دل کا چور اور کوئی وقت کا چور کوئی حسن کا چور اور کوئی پیسے کا چور ایسے میں اگر حکمران بھی چور ہوں تو اس میں کونسی برائی ہے ہاں ان میں ایک بات اچھی ہے کہ یہ سب کو نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات کی وجہ سے ہمیں ان کے بارے میں پتہ چلتا ہے لیکن ہم چوری کرکے چھپاتے ہیں ایسے میں تبدیلی نیا پاکستان مشکل تو کیا ناممکن ہے کیونکہ چوروں پر چوری ہی مسلط ہوتے ہیں کرپٹ لوگوں کیلئے کرپٹ ہی آتے ہیں اور یہ اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے -

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 425141 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More