کیا ڈیانا مسلمان تھی؟

ماہِ دسمبر میں جمعہ کا دن اور پھر موسلا دار بارش نے بارات کو منزل تک پہنچنے میں کافی رکاوٹیں ڈالیں۔ جی ٹی روڈ پر پھسلن کی وجہ سے گاڑیوں کی رفتار آہستہ تھی مگر باراتی منچلوں نے خوب لطف اٹھایا۔ آخر قدرتِ خداوندی اور سلطنتِ الٰہیہ میں خوشی بھی کسی احساس کا نام ہے۔ بارات وقتِ مقررہ سے لیٹ ہو چکی تھی۔ "وقت کی پابندی عظیم لوگوں کا شیوہ ہے" یہ شادی کے دعوت نامے پر لکھا ہوتا ہے مگر ہم اس عظمت کو برقرار نا رکھ سکے تھے۔ سسرال نگر سے مستقبل کے رشتہ داروں کے فون بار بار وقت کی اہمیت کا احساس دلا رہے تھے۔ پھر ایک فون پر مجھے بتایا گیا کہ آپ مزید تاخیر نا کریں کہ ایک اہم مہمان بھی بارات کے استقبال کے لئیے بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ استفسار پر معلوم ہو ا کہ اس اہم مہمان کا نام ڈاکٹر حسنات خان ہے ۔ اس نام نے مجھے چونکا دیا اور ایک مجھے ایک عجیب کیفیت کا احساس ہونے لگا۔ جہلم شہر میں شادی ہال میں بارات پہنچی تو مجھے یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ میرے سسرالی خاندان کا ایک متوسط طبقے سے تعلق ہونے کے باوجود شہر کی سماجی، کاروباری اور سیاسی شخصیات بارات کے استقبال کے لئیے موجود تھیں۔ پھر ایک طول القامت، خوبرو چہرہ اور شرافت و لطافت سے بھر پور شخصیت سے میرا تعارف کروایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ ڈاکٹر حسنات خان ہیں۔

جہلم شہر سے نام پیدا کرنے والے ڈاکٹر حسنات برطانیہ سے تشریف لائے تھے اور اس شادی کے فوری بعد وہ واپس چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب برطانیہ اور ملائشیا میں امراضِ قلب کے ہسپتال چلا رہے ہیں اور دنیا بھر میں اپنے فن اور مہارت کی وجہ سے مانے جاتے ہیں۔ یہ وہی ڈاکٹر حسنات ہیں جن کی خاطر برطانوی شہزادی ڈیانا بھی دلِ نامراد ہار بیٹھی تھی۔ برطانوی ماحول و معاشرہ میں تربیت پانے والے ڈاکٹر کے چہرے پر عاجزی و انکساری واضح تھی۔ تمدن اور تہذیب میں بالکل ایک روایتی پاکستانی ، زبان و بیان میں جہلم کا عکس اور اپنے حلقہ احباب میں انتہائی شفیق و مہربان۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر اسی انسان کو یہ ساری شہرتیں اور رتبے پاکستانی معاشرے میں رہ کر ملتے تو ان کی شخصیت اس سے مختلف ہوتی۔ کیونکہ ہمارا معاشرہ کسی بھی انسان کی خفیہ صلاحیتوں کو قتل کرنے اور برباد کرنے میں بھر پور مہارت رکھتا ہے تاہم بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ہماری کوئی خوبی حوصلہ افزائی اور ستائش کے چند الفاظ حاصل کر سکے۔

ڈاکٹر حسنات کی وجہ شہرت ان کا فن تو ہے ہی مگر ان کی زندگی میں ایک بہت بڑا کردار لیڈی ڈیانا کا تھا۔ لندن کے رائل برمپٹن ہسپتال سے شروع ہونے والی یہ داستان زیادہ عرصہ تک نا چل سکی اور ڈیانا پیرس کی سڑکوں پر زندگی کی بازی ہار گئی۔ دنیا کے نزدیک بالعموم اور پاکستانی معاشرہ میں بالخصوص ڈیانا کا تعارف اس کی محبت تک ہی محدود ہے۔ مگر معاشرتی و تاریخی علوم کا ایک طالبعلم ہونے کے ناطے میں نے اس خاتون کی زندگی کے کچھ پہلوؤں پر غور کیا تو یہ جان کر خوشگوار احساس ہوا کہ ڈیانا نے اپنی زندگی کے چھتیس سالوں میں زیادہ تر وقت فلاحی و معاشرتی کاموں میں گزارا۔ برصغیر کے ناکارہ عاشقوں کے برعکس اس خاتون نے ڈاکٹر حسنات اور دودی الفائد کے ساتھ محبتیں نبھانے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اپنی فلاحی پراجیکٹ بھی جاری رکھے۔ پاکستانی اسلامی شریعت کے مطابق یہ ایک "کافرہ" عورت تھی مگر اس عورت کے ساتھ پاکستان کے سینکڑوں گھروں کی یادیں وابستہ ہیں۔ کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس عورت کے دل میں کہیں اسلام رہتا تھا۔ مگر بامرِ مجبوری مجھے یہ تسلیم کرنا پڑھتا ہے کہ وہ مسلمہ نہیں تھی کہ اس کے قبولِ اسلام کا کوئی واضح ثبوت موجود نہیں ہے۔ اس بحث میں پڑھے بغیر کہ وہ مسلمہ تھی یا کافرہ، ضرورت اس بات کی ہے کہ دیکھا جائے کہ اس عورت نے اسلامی ممالک میں خیرات کے کتنے عظیم کام سر انجام دئیے۔ میں جب اس کی زندگی پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے اس کی زندگی کی کتاب بتاتی ہے کہ ویلز کی شہزادی ہونے کا اعزاز پا کر وہ زیادہ خوش نہیں تھی۔ اس بات کا اظہار اس نے 1983 میں سب کے سامنے کر دیا کہ میں خود کو فلاحی کاموں کے لئیے وقف کرنا چاہتی ہوں۔ ہسپتالوں، یتیم خانوں، بوڑھوں کے مراکز اور غریب خواتین کے لئیے قائم مراکز میں جا کر ان کے ساتھ وقت گزارنا لیڈی کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ اس کی ذاتی زندگی میں کیا اور کتنا برا تھا اس سے قطع نظر ہو کر یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس ایک خاتون کی وجہ سے کتنے پریشان حال لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں آئیں۔

1989 میں بچوں کے لیئے "گریٹ آرمونڈ ہسپتال فار چلڈرن" کے نام سے ادارہ قائم کیا اور اس ہسپتال میں خیرات کی رقم سے مستحق بچوں کا علاج شروع کیا۔ اس ہسپتال کے قیام کے بعد ڈیانا نے دنیا بھر کے دورے کیئے۔ غریب اور لاوارث بچوں پر اس نے خصوصی توجہ مرکوز کی اور اپنی ذاتی خیرات سے اس فلاحی کام میں حصہ ڈالا۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افریقہ، صومالیہ، مشرقِ وسطیٰ، سوڈان اور دیگر کئی ممالک میں رنگ و نسل، مذہب و ملت کا فرق کئیے بغیر اس نے مدد کی۔ ڈیانا نے اپنے ساتھ دنیا کے کئی خیراتی اداروں اور مخیر حضرات کو شامل کیا۔ پاکستان میں عمران خان کے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی چندہ مہم میں بھی ڈیانا نے بھر پور کردار ادا کیا۔ پاکستان سمیت مشرقِ وسطٰی اور افریقہ کے متعدد مسلمان ممالک نے ڈیانا سے فائدہ اٹھایا، ڈیانا نے "کافرہ" ہونے کے باوجود اپنی فلاحی سرگرمیوں کا بیشتر حصہ مسلمانوں کو دیا۔ وہ جہاں جاتی مسلم خواتین اور بچوں کو گلے لگاتی، مسلمانوں کے غریب، کالے اور بظاہر گندے لباس والے بچوں کو اٹھاتی، انہیں اپنی گود میں جگہ دیتی اور مسلمانوں کے بچوں کو ایسے چومتی جیسے وہ اپنے ولیم اور ہیری کو چومتی تھی۔ تاریخ کے البم میں ایک ایسی تصویر بھی موجود ہے جب ایک پاکستانی بچے کو کالے ماتھے کو چومتے ہوئے ڈیانا کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

ڈیانا کے بارے لکھے گئے میرے ان الفاظ کا مقصد کسی برطانوی یا عیسائی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنا بالکل نہیں مگر حقائق کو تسلیم کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ہمارے مسلم معاشرے میں عدم برداشت اور ذہنی پستی نے ہمیں اخلاقی لحاظ سے اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ ہم کسی دوسرے کو خود سے بہتر تسلیم کرنے کے لئیے تیار نہیں اور پھر مزید ظلم یہ کہ ہم کلمہ پڑھنے کے باوجود اپنے اندر موجود کافر کو مومن نہیں کر پاتے۔ اب اگر غور کیا جائے تو ڈیانا کو یہ فلاحی و اخلاقی تعلیمات کہاں سے میسر آئیں۔ اسے انسانیت سے محبت اور غریبوں کا سہارا بننے کا سبق کس نے پڑھایا تویقیناً اس کے پیچھے محسنِ انسانیت ﷺ کی تعلیمات ہیں۔ یہ ہماری علمی و عملی کمزوری ، دین کو سمجھنے میں غلط تشریحات، ہمارے معاشرے کے مولویوں کی ذاتی پسند و نا پسند اور تحقیق کی کمی کی وجہ سے ہے۔ جن لوگوں نے ہمیں دین سمجھانا تھا وہ خود نا سمجھ ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک خطیب یا امام کی تعلیمی و تحقیقی سطح انتہائی گری ہوئی اور کمزور ہے۔ داڑھی رکھ کر جس نے نورانی قاعدہ پڑھ لیا، راگ الاپنا آ جائے اور نعرہ بازی کا گر سیکھ جائے تو وہ امام اور خطیب بننے کا اہل ہو جاتا ہے۔ الا ماشاء اللہ۔

غیر مسلموں اور ڈیانا جیسے کافروں نے رسول رحمتﷺ کی سیرت کا مطالعہ کیا تھا، انسانیت کی عظمت کس میں ہے، کسی کو اپنا گرویدہ کیسے بنایا جائے، کسی کا دل کس طرح جیتا جائے، اپنی عظمت کا لوہا کیسے منوایا جائے۔۔۔ یہ سارے وہ سوال ہیں جن کا جواب دنیا کی ہر قوم نے سرکارِ مدینہ ﷺ کی بارگاہ سے حاصل کیا۔ ڈیانا نے غیر عیسائی معاشرہ یعنی مسلم معاشرہ میں گھس کر ان کی خدمت کیوں کی؟ اس لئیے کہ اس نے مدینہ کی ریاست کے حاکم ﷺ کی شخصیت کا مطالعہ کیا تھا۔ وہ جانتی تھی کی محمد الرسول اللہ ﷺ وہ عظیم ہستی ہیں جن کے پاس یہودی آیا، رات کو قیام کے وقت سرکارِ مدینہ ﷺ نے اس یہودی کو اپنا بستر پیش کیا، سوتے میں یہودی سرور کونین ﷺ کے بستر پر پیشاب کر دیتا ہے، صبح اٹھ کر شرم کا مارا بھاگ جاتا ہے۔ پھر یاد کرتا ہے کہ میری تلوار تو محمد ﷺ کے گھر پر ہی رہ گئی۔ شرم کا مارا واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔۔۔ دل نے کہا وہ رحمت والا نبی ہے۔۔۔ ہمت اکٹھی کی اور بارگاہِ مصطفیﷺ میں پہنچا۔ مدینہ کے والی ﷺ نے خود آگے بڑھ کر فرمایا یہ تیری تلوار ہے اور تو مت گھبرا۔۔۔ تو نے جس بستر پر پیشاب کر دیا تھا محمد ﷺ نے وہ بستر اپنے ہاتھوں سے دھویا ہے۔

مدینہ کے قرب و جوار میں موجود غیر مسلموں کے بچوں پر حسنین کریمین کے نانا نے اتنا ہی کرم کیا جتنا مسلمانوں کے بچوں پر کیا۔ غیر مسلم خواتین کو بھی وہی عزت دی جو اپنی خواتین کو دی۔ وہ صلہ رحمی، انسانیت کی خدمت کا جذبہ، ہر کسی کے ساتھ مسکرا کر بات کرنا، سلام و آداب میں پہل کرنا، بیماروں کی خدمت بلا تفریق رنگ و مذہب کرنا یہ سب کچھ تو قرآن و صاحبِ قرآن کا مذہب تھا مگر قرآن پڑھنے والے اس بھول گئے، ڈیانا اور اس کے ہم مذہبوں نے مسلمانوں کے محمد ﷺ کو اپنا لیا۔۔۔ وہ بظاہر کلمہ اسلام نہیں پڑھتے مگر ان کی ترقی کے پیچھے قرآن و صاحب قرآن کی تعلیمات ہی ہیں۔ ان کی اپنی بائبل تو گستاخیوں اور ترمیمات سے بھرپور ہے مگر اللہ کی واحد محفوظ کتاب قرآن ان غیر مسلموں کے دلوں میں بھی محفوظ ہو گئی۔ مسلمان ایک دوسرے کے خون کا پیاسا، مسلمان ممالک کی حدود پر آہنی دیواریں اور باڑیں، یورپ کے سرحدی حدود ایک دوسرے کے لئیے کھلی، وہاں مذہب کے نام پر نفرت نہیں بلکہ انسانیت کے نام پر خدمت، ہمارے یہاں مذہب سے بھی نیچے جا کر مسلک کے نام پر فیصلے ہوتے ہیں۔

کیا ہمارے پاکستان میں کوئی ایک ایسی خاتون ہے جس نے اپنا مذہب بھی نہ چھوڑا ہو اور اپنا علمی و عملی لوہا بھی منوایا ہو؟ ہمارے یہاں جو بھی نام پیدا کرتا ہے وہ یورپ سے بھیک مانگ کر۔۔۔کہ جیسے اس کا کوئی رہبر و رہنما ہی نہیں۔۔۔ اس ساری گفتگو کے بعد کیا میں یہ سوال پوچھ سکتا ہوں کہ "کیا ڈیانا مسلمان تھی"؟ اس کے فلاحی کاموں کا مرکز مسلم ممالک، جس طرح اس نے انسانیت کی خدمت کی وہ اسلامی تعلیمات اور قرآنی فرمان کےمطابق۔ اگر وہ کافرہ ہو کر بلا تفریق رنگ و مذہب یہ کام کر گئی تو قرآن کے ماننے والوں کے دل کیوں مردہ و پتھر ہیں۔۔۔۔۔"کیا ڈیانا مسلمان تھی؟؟؟

https://www.facebook.com/iftikharulhassan.rizvi

Iftikhar Ul Hassan Rizvi
About the Author: Iftikhar Ul Hassan Rizvi Read More Articles by Iftikhar Ul Hassan Rizvi: 62 Articles with 246354 views Writer and Spiritual Guide Iftikhar Ul Hassan Rizvi (افتخار الحسن الرضوی), He is an entrepreneurship consultant and Teacher by profession. Shaykh Ift.. View More