پاکستان میں گیارہ مئی کو عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔
جہاں تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاریوں میں مگن ہیں وہیں نگران حکومت
اور الیکشن کمیشن بھی انتخابات کے صاف، شفاف اور پرامن انعقاد کے لیے
تیاریوں میں جُتے ہوئے ہیں۔انتخابات میں فتح حاصل کرنا سیاسی جماعتوں کے
لیے بہت بڑا چیلنج ہے جبکہ انتخابات کے انعقاد کے لیے پرامن ماحول فراہم
کرنا انتظامیہ کے لیے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں۔کیونکہ اس بار ہونے والے
انتخابات گزشتہ سالوں میں ہونے والے انتخابات سے بہت مختلف ہیں۔آئے روز
سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر بم دھماکوں اور حملوں نے بے اطمنانی اور غیر
یقینی کی کیفیت پیدا کردی ہے، لیکن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پرامن انتخابات
کے تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔
وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے کہا ہے کہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ
آزادانہ صاف شفاف انتخابات کا انعقاد نگران حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے،
غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے حکومت تمام آئینی
و قانونی اقدامات اٹھا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی شراکت سے 11 مئی کے عام
انتخابات کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے۔
ملک بھر میں امن و امان قائم کرنے کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
صاف شفاف آزادانہ انتخابات کے لیے محفوظ ماحول، عوام، امیدواروں اور حساس
پولنگ اسٹیشنوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ ووٹرز کو سازگار ماحول
کی فراہمی کے لیے فوری رسپانس فورس کی تعیناتی سمیت دیگر موثر اقدامات کیے
جائیں گے۔خفیہ اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ممکنہ ناخوش گوار واقعات کے
بارے خفیہ معلومات کے حصول کے لیے چوکس رہیں۔ عوام سے بھی اپیل ہے کہ وہ
بھی اپنی آنکھیںکھلی رکھیں اور اپنے ارد گرد مشکوک افراد کی موجودگی کی
فوری طور پر پولیس کو اطلاع کریں ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم عوام کو یقین
دلاتے ہیں کہ سیکورٹی اقدامات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔
وزیر داخلہ ملک حبیب کا کہنا تھا کہ حساس اور حساس ترین پولنگ اسٹیشنز پر
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خدمات لیں گے۔ فوج کی خدمات مل گئی ہیں۔
کوئیک رسپانس کے طور پر انہیں استعمال کرینگے۔ کابینہ نے ملک کی مجموعی امن
و امان کی صورتحال پر غور و خوص کیا، کابینہ کو بتایا گیا کہ صوبائی
حکومتوں اور سیکورٹی اداروں کی مدد سے سیکورٹی کا ایسا نظام مرتب کیا گیا
ہے جس کی بدولت ملک بھر میں انتخابات پرامن ماحول میں منعقد کیے جا سکیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں تمام امیدواروں اور ووٹروں کے تحفظ کے لیے اہم
اقدامات کر رہی ہیں، بنیادی طور پر پولیس قومی رضا کار اور خصوصی پولیس
انتخابی عمل کے حوالے سے امن و امان کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں، سول
انتظامیہ کی مدد کے لیے ملک بھر میں 70 ہزار فوجی جوانوں کو تعینات کیا گیا
ہے، فوج الیکشن میٹریل کو مختلف اضلاع تک پہنچانے میں مدد دے گی۔
الیکشن کمیشن کے مطابق بھی 11 مئی کو عام انتخابات صاف، شفاف انعقاد کے لیے
تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ملک بھر میں پولنگ سکیم کوحتمی شکل دے دی
گئی ہے۔ انتہائی حساس پولنگ سٹیشن پر 9، حساس پولنگ سٹیشن پر7 اور عام
پولنگ سٹیشن پر 5 سیکورٹی اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کی
جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق 32 ہزار 360 پولنگ اسٹیشنوں کو
حساس قرار دیا ہے جبکہ ملک بھر میں کل 69 ہزار 875 پولنگ سٹیشن قائم کیے
جائیں گے۔ 12ہزار 716 پولنگ اسٹیشنز حساس ترین جبکہ 19 ہزار 644 حساس ہیں۔
پنجاب میں کل 40 ہزار 78 میں سے چار ہزار 463 پولنگ اسٹیشنز حساس
ترین،8ہزار 439 حساس، سندھ میں 15 ہزار پولنگ اسٹیشنوں میں سے چار ہزار 176
حساس ترین 5 ہزار 436 حساس، خیبر پختونخوا میں 9300 پولنگ اسٹیشنوں میں
2142 حساس ترین اور تین ہزار 353 حساس قرار دیے گیے ہیں۔ بلوچستان میں قائم
تین ہزار 678 میں سے ایک ہزار 783 حساس ترین اور ایک ہزار 235 حساس جبکہ
فاٹا میں قائم ایک ہزار 269 پولنگ اسٹیشنوں میں سے 134 حساس ترین قرار دیے
گئے ہیں۔
وزیر اطلاعات و نشریات عارف نظامی نے کہا ہے کہ 11 مئی کو پاکستان کی دوسرے
ممالک سے ملنے والی تمام سرحدیں مکمل طور پر سیل کردی جائیں گی تاکہ کوئی
دراندازی نہ ہو۔ انتخابات کی مانیٹرنگ کے لیے 158 سے زائد غیرملکی مبصرین
کو ویزے جاری کیے جاچکے ہیں، مزید بھی آرہے ہیں۔ الیکشن پر 72 گھنٹے کے لیے
لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، ہمارا کام روزانہ کی بنیاد پر حکومتی امور چلانا
ہے۔کابینہ نے ملک میں حساس علاقوں میں فوج کی تعیناتی کے لیے وزارت دفاع کی
طرف سے مطلوبہ تعداد میں فوجی اہلکاروں کی فراہمی پر اطمینان کا اظہارکیا،
فوج سمیت، کوئی بھی قانون نافذکرنے والا ادارہ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر
تعینات نہیں ہو گا، سندھ، پنجاب، خیبر پی کے، بلوچستان میں فوج کی تعیناتی
کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ ہماری ذمہ داری منصفانہ، عیر جانبدارانہ اور شفاف
انتخابات کا انعقاد ہے جسے ہم پورا کر رہے ہیں۔ ووٹرز کو گھروں سے باہر
لانا بڑے چیلنجز ہیں۔یہ بات قابل اطمینان ہے کہ کہ فوج کی جتنی تعداد مانگی
گئی تھی وہ دے دی گئی ہے۔ صوبوں کو بروقت معلومات دینے اور اداروں میں
تعاون کو بہتر بنانے پر زور دیا گیا۔ عام انتخابات کے انعقاد کے موقع پر
مسلح فورسز کے کم سے کم 70ہزار اہلکاروں کو چاروں صوبوں میں تعینات کیا ہے۔
پولنگ کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے آرمی کے علاوہ رینجرز، ایف سی
اور پولیس اہلکار تعینات ہوں گے اور آرمی ایوی ایشن ملک بھر میں 50 ہیلی
کاپٹروں کے ذریعے پولنگ کے عمل کی نگرانی کرے گی۔ان کے علاوہ مزید ہزاروں
دستے ہمہ وقت چوکس رہیں گے اور کسی بھی جگہ گڑ بڑ کی صورت میں ان کو طلب
کیا جاسکے گا۔
واضح رہے کہ اس بار انتخابات کافی خوف کے سائے میں منعقد ہورہے ہیں،جہاں
سیاسی پارٹیاں اور الیکشن میں حصہ لینے والے خوف کا شکار ہیں وہیں عوام بھی
پریشانی میں مبتلا ہے۔چند روز میں تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کے دفاتر پر
حملے ہوچکے ہیں جن متعدد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔صرف کراچی میں
الیکشن سے قبل انتخابی سرگرمیوں کے 11دنوں کے دوران اب تک 9 بم دھماکے ہو
چکے ہیں ، ان بم دھماکوں کے نتیجے میں 31 افراد جاں بحق اور161 زخمی ہوئے
جبکہ املاک کو بھی نقصان پہنچا ۔ان حملوں میں الیکشن میں حصہ لینے والے
امیدوار مارے بھی گئے ہیں اور کئی امیدوار زخمی بھی ہوئے۔ ان کے علاوہ پورے
ملک میں حملوں اور بم دھماکوں کی یہی کیفیت ہے،آئے روز خیبر پختونخوا،
بلوچستان اور سندھ میں امیدواروں پر اور تمام سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر
حملے ہورہے ہیں،جس سے عوام شدید پریشان ہیں،عوام کا کہنا ہے ان حالات میں
ووٹ ڈالنے کے لینے پولنگ سٹیشن جانا کسی خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔ اس لیے اس
بار الیکشن کمیشن کو سیکورٹی کے حوالے سے کچھ زیادہ انتظامات کرنا پڑ رہے
ہیں۔دیکھتے ہیں کہ انتخابات کے پر امن انعقاد کے لیے انتظامیہ کہاں تک
کامیاب ہوتی ہے؟ |