جمہوریت کی ترقی کہیں نظریہ کا زوال تو نہیں

عالم دنیا اس وقت ترقی کے اعتبارسے دو حصوں میں تقسیم ہے جس میں سے ایک حصہ ترقی یافتہ کہلاتا ہے اور دوسراحصہ ترقی پذیر کہلاتا ہے ۔بدقسمتی سے ملک پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے البتہ ایک بات ضرورہے کہ ملک پاکستان ترقی کی ایسی راہ پر گامزن نظر آتا ہے جن پر چل کر آج مغرب ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونے کے قابل ہواہے حالانکہ بعض راستے تو ایسے ہیں جن پر چلنے کا حق صرف اقوام مغرب کو حاصل ہے لیکن پھر بھی پاکستانی معاشرہ اس کی نقل کرنے میں لگا ہوا ہے جس میں جمہوریت اور مخلوط تعلیمی نظام سر فہرست ہے ۔اگرچہ ظاہری شکل کے اعتبار سے یہ دونو پہلو پاکستانی معاشرے میں کئی ایک مثبت تبدیلیوں کا سبب بن رہے ہیں لیکن ایسا کچھ بھی ضرور ہو رہا ہے جو پاکستانی معاشرے کیلئے مہلک اور نقصان دہ ہے ۔

ابھی کل کی بات ہے جب پاکستان خودمختار ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا۔اس دن سے لیکر آج تک ایک بحث نے طول پکڑ ہواہے کہ پاکستان ایک نظریہ کی بنیادپر قائم ہو اہے یا یہ ایک سیکولر سٹیٹ ہے جس میں نظریات کی کوئی اہمیت نہیں ۔اگر دلائل کی بنیادپر فیصلہ کیا جائے تو یقیناً یہی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہی نہیں بلکہ خالصتاً اسلامی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے جس کی سب سے بڑی علامت یہ مشہور نعرہ ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا''لا الہ الا اللہ''۔پھر مسلم لیگ کی وہ تمام تر کوششیں جو انہوںنے یہ ثابت کرنے میں لگا دیں کہ مسلمانوں کے حقوق کی نمائندہ کوئی جماعت ہو سکتی ہے تو وہ صرف مسلم لیگ ہے۔

اسی کا اثر ہے کہ ہم پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ دو نظریات کا پرچار سنتے آئے ہیں جن میں سے ایک کو نظریہ اسلام کا نام دیا جاتا ہے اور ایک کو نظریہ پاکستان ۔جب بھی کسی جماعت نے پاکستانی معاشرے میں اثر رسوخ قائم کرنے کی کوشش کی ہے انہوں نے انہی دو نظریات کو ہمیشہ اہمیت دی ہے۔ایسا کرنا اس لیے تھا کہ معاشرے میں رہنے والے لوگ نظریات کا دفاع اہم سمجھتے تھے لیکن آج کے حالات ماضی سے یکسر مختلف نظر آتے ہیں ۔آج کوئی سیاسی جماعت ان نظریات کو وہ اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں جو ماضی قریب میں دی جاتی تھی۔صورتحال یہ ہے کہ اب ہم سیاسی پارٹیوں کے منشور میں ترجیحات کچھ اور ہی پاتے ہیں جن میں سیکولرزم یا مادیت پرستی کی بو آتی ہے ۔کوئی انڈیا اور اسرائیل تعلقات پر الیکشن مہم نہیں چلا رہا حتٰی کہ کشمیر کا نام تک سیاستدانوں نے لینا چھوڑ دیا ہے ۔اسلامی اقدار کی حفاظت کرنے کی بجائے ان سے پہلو تہی کرتے نظر آتے ہیں تاکہ مغرب میں یہ تاثر نہ جائے کہ اس پارٹی میں شامل افراد کا تعلق انتہاء پسند مسلمانوں سے ہے ۔احساس کمتری کا یہ عالم ہے کہ اسلامی تعلیمات کا نام لیتے ہوئے اس سے گھبراتے ہیں کہ کہیں ہمیں بنیاد پرست نہ کہا جائے۔

بہرحال ایک چیز واضح ہے کہ پاکستانی معاشرے میں فروغ پاتی ہوئی یہ جمہوریت فوائد کے ساتھ جو نقصانات دینے جارہی ہے ،اس کا تدارک وقت کی اہم ضرورت ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ ہمارا بھی مغرب کی طرح بے حس اور نظریات سے خالی اقوام میں شمار ہونے لگے۔آج وقت ہے ان قوتوں کے اتحاد کا جن کے نزدیک پاکستان خالصتاً ایک نظریاتی ریاست ہے جس کی بنیاد نظریہ اسلام ہے لہذا یہاں قانون سازی میں بھی اسلام کی چھاپ نظر آنی چاہیے ۔اگر پانی اسی رخ بہتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب نظریات کے امین لوگوں کا ذکر کتابوں کی حد تک باقی رہ جائے گا ۔اسلامیات لاز می جو کہ بطور برکت شامل مضامین ہے ۔اس میں اسلام کی روح کو نکال کر من مانی تعلیمات کو داخل کیا جائے گا جسے پڑھنے والے کے نزدیک اہمیت اچھے نمبر حاصل کرنا ہو گی نہ کہ اصل نظریہ کی سمجھ بوجھ ۔بالکل ایسا ہی حال مطالعہ پاکستان کے ساتھ ہوگا جس میں آج تک اصل اہمیت دو قومی نظریہ کو حاصل رہی ہے جو آج کمزور ہوتا نظر آرہا ہے بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دوقومی نظریہ کو ترقی کی راہ میںرکاوٹ سمجھا جا نے لگا ہے اور ہر آئے روز ایسے پروگرامز پیش کیے جارہے ہیں جن کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ آج کے دانشور ماضی کے ان رہنمائوں سے زیادہ سمجھ بوجھ والے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو ایک الگ قوم کا نام دیا جس کی بنیاد رنگ ،نسل اور زبان نہیں بلکہ نظریہ اسلام ہے۔

آج اشد ضرورت ہے کہ وہ تمام لوگ جو نظریہ کو اہم سمجھتے ہیں متحد ہو کر اپنی موجودگی کا احساس دلائیں اور مجبور کر دیں ان سیاسی جماعتوں کو جو منشور میں نظریہ اسلام اور پاکستان کو صحیح معانی میں اہمیت نہیں دیتے تاکہ وہ اس کی طرف لوٹیں کیونکہ ہم نے تو یہی سنا ہے کہ ''قومیں نظریات کی بنیاد پر ہمیشہ زندہ رہتی ہیں ''بالخصوص ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی دی ہوئی طاقت آپ کے ہی خلاف استعمال ہو اور مورخ اس قوم کے فیصلے پر یہ تجزیہ کرے
''لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی''۔

یہ بات درست ہے کہ جمہوریت پاکستانی معاشرے میں اپنا اثر رسوخ بڑھا رہی ہے جس کے نتیجے میں کئی ایک مثبت تبدیلیاں بھی دیکھنے کو ملی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس نظام سے کوئی نقصان نہیں ہو رہا ۔نقصان یقیناً ہو رہا ہے ،اس لیے ضرورت ہے کہ مروجہ جمہوری نظام میں اصلاحات کیلئے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جس سے ہم ان نقصانات کی تلافی کرسکیں ۔آئندہ کالم میں مغرب میں جمہوری کلچر اور پاکستان میں جمہوری کلچر کے درمیان فرق پر تبصرہ کیا جائے گا۔

Abdul Aziz Anjum
About the Author: Abdul Aziz Anjum Read More Articles by Abdul Aziz Anjum: 14 Articles with 18170 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.