یہ بات عام ہے کہ ادب اور بالخصوص نثری ادب کا تعلق سماج
کے اس طبقے سے ہوتا ہے جس میں زندگی اپنے اصلی مفہوم میں فعال نظر آتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعری کے ذریعہ انسان اپنے خفتہ جذبات و احساسات
کوبروئے کار لاتاہے اور سماج پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن یہ
بات بھی تجربہ میں آتی ہے کہ "ـنثر"اپنی زود حسی کی وجہ سے براہِ راست سماج
کو متاثر کرنے والی صنف ہے۔ اور صنفِ نثر میں افسانہ تیر بہ ہدف کا مقام
حاصل کر چکا ہے۔بقول پروفیسر قمر رئیس کہ افسانہ پہلے عشق کا تیر ہے جو
سینے کے پار ہوجاتاہے اور یہی وجہ ہے کہ اس صنف نے ایک طویل عرصے تک اردو
نثر پر حکومت کی ہے۔ اور اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ابھی اس کی
حکمرانی کا ہی دور ہے اور اردو فکشن آج بھی "افسانہ"کے بل پر ہی دیگر
زبانوں کے مقابل کھڑی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس قدرکم سِن صنف کو وہ کون سی جڑی پلادی
گئی یا کس فقیر نے اسے بقائے دوام کی دعا دے دی، جو اس کی خیرگی ختم ہونے
میں نہیں آتی بلکہ روزبروزترقی کے منازل طے کرتی جارہی ہے۔ اس سوال کو حل
کرنے کے لئے زیادہ نہیں بس چند لمحے غور کرنے کی ضرورت ہے۔اور وہ یہ کہ جس
طرح اردو شاعری کو اگر اوائل عمری میں ہی ولی ؔجیسا شاعر نصیب ہوگیاتھا اور
بعد میں متواتر میرؔ و غالبؔ ملتے رہے تو یقینااردو افسانے کو بھی ولیؔکی
طرح پریم چند ملے۔ اور اس کے بعد کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ
بیدی اور عصمت چغتائی مل گئیں ۔ اب میں تمہید کو یہیں ختم کرکے اپنے مطلب
پر آتا ہوں کہ ان بڑے افسانہ نگاروں میں سب سے نمایاں نام سعادت حسن منٹو
کا ہے۔ جن کی شخصیت اور فن پر کام کرنے والوں کی ایک طویل قطار ہے۔ لیکن
پھر بھی ان کا فن آج بھی دعوتِ قلم زنی دیتا رہتا ہے۔ منٹو ایک نابغہ تھا ،
منٹو نبّاضِ انسانیت تھا، منٹو دیوانگی کی حد تک انسانیت پرست تھا ، منٹو
قدروں کا پرستار تھا ، منٹو درندگی سے بیزار تھا، منٹو کیا تھا؟منٹو کیسا
تھا؟ اس پر بہت ساری کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔لیکن اگر ان کتابوں کی افادیت
کے لحاظ سے اگرکوئی فہرست بنائی جائے تو ایک نمایاں نام جو اُبھر کر آئے گا
وہ نام ہوگا"فسانے منٹو کے اور پھر بیاں اپنا"اور یہ کاوش ہے شعبۂ اردو،
کروڑی مل کالج کے سینئر استاد ڈاکٹر خالد اشرف کی، جنھوں نے منٹو نامے کی
فہرست میں بڑی خاموشی سے اپنا نام رقم کروالیا ۔ لیکن ادب نواز جانتے ہیں
کہ ان کا یہ کام منٹو پر کام کرنے والوں کے لئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس سے پہلے کہ اس ہفتِ اقلیم کی سیر کی جائے مشہور ناقد اور ڈرامہ نویس
پروفیسر محمد حسن کی رائے ملاحظہ کرلیں ۔ جو انھوں نے اس کتاب کے سلسلے میں
پیش لفظ میں رقم کی ہیں:
’’بڑی مسرت ہے کہ خالد اشرف نے اس طرف توجہ کی ہے اور کسی قدر معروضیت کے
ساتھ اس میدان میں قدم یا قلم رکھا ہے۔ گو اب بھی مجھے ان سے بہت سی اور
توقعات ہیں ۔ میں ان کی کاوش کا خیر مقدم کرتا ہوں اس توقع کے ساتھـ
ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلّی
;اﷲ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طئے
مجھے یقین ہے کہ ان کی یہ کاوش اردو فکشن کی تنقید کو نئی روش کی طرف
رہنمائی کرے گی اور نئی آگاہیوں سے مالامال کرے گی۔ منٹو ایسے مقبول اور
قدر ِ متنازعہ فیہ فنکار کے تعینِ قدر کے سلسلے میں ہی نہیں دورِ حاضر میں
ادبی تنقید کے منصب ومنہاج کے سلسلے میں بھی ان کی تصنیف فکر و تامل کے نئے
باب کا اختتامیہ ثابت ہوگی۔ خالد اشرف نے منٹو شناسی کے ایک نئے دور کا
آغاز کیا ہے اور اس امتیاز کے لئے وہ دلی مبارکباد کے مستحق ہیں ‘‘۔
مندرجہ بالا اقتباس میں نے محض ستائش کے لئے پیش نہیں کئے ہیں بلکہ اس
اقتبا س میں جس طرح پروفیسر محمد حسن نے ان امور کی وضاحت کی ہے وہ قانل
ِغور ہے:
(الف) یہ کاوش اردو فکشن کی تنقید کو نئی روش کی طرف رہنمائی کرے گی اور
نئی آگاہیوں سے مالا مال کرے گی۔
(ب) منٹو ایسے مقبول اور قدرے متنازعہ فیہ فنکار کے تعین قدر کے سلسلے میں
رہنمائی کرے گی۔
(ج) دورِ حاضر میں ادبی تنقید کے منصب و منہا ج کے سلسلے میں بھی اہم رول
ادا کرے گی ۔
(د) ان کی تصنیف فکر و تامل کے نئے باب کا اختتامیہ ثابت ہوگی۔
اور پھر اس اقتباس کے آخری حصے پر غور کریں۔
(ر) ڈاکٹرخالد اشرف نے منٹو شناسی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔
اب غور کریں تو اس ایک پیراگراف میں پانچ ایسے بڑے دعوے اس کتاب کے سلسلے
میں پروفیسر محمد حسن نے یوں ہی نہیں کیے ہیں کیونکہ ہر ادب نواز پروفیسر
محمد حسن کے مزاج اور ان کے کارناموں سے واقف ہیں۔ تو کیا سچ مچ ایسا ہے؟
آئیے ان دعوں کی دلیل ڈھونڈیں ۔ اردو اکادمی دہلی سے انعام یافتہ یہ کتاب
ڈمائی سائز میں 520صفحات پر محیط ہے اور صفحہ نمبر 13سے 131تک کے مضمون کا
عنوان ہے ’’زندگی: ایک ٹیڑھی لکیر‘‘ دوسرا مضمون ’’تصانیف کا اجمالی
جائزہ‘‘ ہے جو صفحہ نمبر132سے صفحہ نمبر 154تک پھیلا ہوا ہے۔ تیسرا مضمون
ہے ’’فن کے مختلف پہلو اور نظریہ‘‘ جو صفحہ نمبر155سے صفحہ نمبر210پر محیط
ہے اور پھرصفحہ نمبر 212سے 510تک ڈاکٹر خالد اشرف نے منٹو کے تیس مقبول
افسانوں کا تجزیہ کیا ہے۔ اور آخر میں اشاریہ ہے۔
کتاب کا یہ اسٹرکچر جو بظاہر ایک علمی و تحقیقی مصنف کے تجربات کا غمّاض ہے
لیکن سب سے بڑی بات جو اس کتاب میں نظر آتی ہے وہ ہے اس کا پسِ نوشت یا فٹ
نوٹ جس پر موصوف نے جتنی عرق ریزی کی ہے وہ حاصل کتاب ہے۔ خاص طور پر
’’زندگی: ایک ٹیڑھی لکیر‘‘ کے فٹ نوٹس کو پڑھ کر یقیناً ایسا لگتا ہے کہ
نوجوان ناقد نے تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر میں صفحہ
نمبر15پر رقم صرف ایک فٹ نوٹ کا حوالہ دینا چاہتا ہوں ،جو انھوں نے اس بات
کی وضاحت کے لیے درج کیے ہیں کہ آیا منٹو کا مسلکِ دینی کیا تھا۔
’’سعادت حسن دہلی میں نکلسن روڈ کشمیری گیٹ پر واقع حسن بلڈنگ کے فلیٹ میں
رہتے تھے۔ والد اور بھائیوں کے نام میں بھی حسن مشترک تھا۔ منٹو کی بیوی
صفیہ کے چچا ملک حسن ممبئی میں جعفر ہاؤس میں قیام پذیر تھے۔ افسانہ ’’آخری
سیلوٹ‘‘ کا صوبہ دار رب نواز لائسنس کا یکّہ بان ’’ابو‘‘ اور ’’ننگی
آوازیں‘‘ ’’کالوبھولو‘‘ پنجتن پاک کی قسم کھاتے ہیں لیکن پروفیسر زماں
آزردہ کے مطابق ’’منٹو ‘‘ سنّی ہوتے ہیں اور سری نگر میں بھی موجود ہیں۔
نواب کاشمیری کے خاکے میں منٹو نے جو تحریر کیا ہے وہ نہایت خوبصورت ہے
’’نواب بڑا طہارت پسند تھا، شیعہ تھا۔ کوئی کام بغیر استخارے کے نہیں کرتا
تھا۔ سنّی اور شیعہ ہونے میں کیا فرق ہے؟ لیکن جب ان دو فرقوں میں لڑائی
جھگڑے ہوتے ہیں تو اتنا سمجھ میں آتا ہے کہ ان کے دماغوں میں مذہبی فتور
ہے۔‘‘
جی ہاں یہ اقتباس اس فٹ نوٹ کا ہے جو انھوں نے ایک صفحے پر درج کیے ہیں۔
ایسے اور اس سے بڑے بڑے 128فٹ نوٹس صرف ’’زندگی: ایک ٹیڑھی لکیر‘‘ کے مضمون
سے منسلک ہیں۔ جو یقیناً پروفیسر محمد حسن کے دعوے کی دلیل ہیں۔
جہاں تک سوال ہے متنازعہ فیہ کا، تو یہ بات اب اظہر من الشمس ہے کہ سعادت
حسن منٹو پر فحاشی کا الزام ناروا اور سراسر عصبیت پر مبنی تھا لیکن اس کے
لیے ڈاکٹر خالد اشرف نے جس تحقیقی انداز سے بحث کی ہے اور مواد فراہم کیے
ہیں۔ وہ اس لائق ہیں کہ اب اس الزام کی کوئی حقیقت نہیں۔
ڈاکٹر خالد اشرف ایک نہایت کھلے ذہن کے اسکالر ہیں، اپنے کام کو وہ جس طرح
ایک مشن سمجھ کر کرتے ہیں اسے دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ اردو کا مستقبل
نہایت روشن ہے۔ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ اس دنیا میں صداقت، خیر اور حسن
کی باز آفرینی سے ہی اعلیٰ اقدار کی حصولیابی ممکن ہے اور غالباً انھوں نے
منٹو کو اس پیمانے پر پوری طرح پرکھا ہے۔ کیونکہ ان کے افسانوں کاتجزیہ
کرتے ہوئے بھی ڈاکٹر خالد اشرف نے اس بنیادی کلیے کو فراموش نہیں کیا ہے۔
منٹو کے ایک افسانے ’’سوراج کے لیے‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کا اشہبِ قلم
یوں رواں ہوتا ہے:
’’کیا غلام علی اور نگار کے جسمانی لذت حاصل نہ کرنے اور اولاد پیدا نہ
کرنے کے فیصلے سے سامراجی قوتوں کو واقعی کوئی نقصان پہنچ سکتا تھا؟ اس
سوال کا جواب نفی میں بھی ہو سکتا ہے اور اثبات میں بھی۔ یہ تو اظہر من
الشمس ہے کہ غلام علی کے ایک غلام بچّہ پیدا کرنے یا نہ کرنے سے انگریزی
سامراج فوری طور پر متاثر نہیں ہو سکتا تھا۔ تا ہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑی
بڑی جابر قوتیں عوامی آدرشوں اور ارادوں کے سامنے ایک نہ ایک دن لڑکھڑا کر
منہدم ہو ہی جاتی ہیں۔ ان ارادوں اور آدرشوں پر عمل کرنے کے لیے ایک
انقلابی آگ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ آگ سب سے پہلے ان لوگوں کے سینے میں
پیدا ہوتی ہے ،جن کی شخصیت میں ہیروازم کے عناصر پہلے سے موجود ہوتے ہیں—
یہی ہیرو ہوتے ہیں جو بڑی سماجی تحریکات کی رہنمائی کرتے ہیں اور معاشرتی
تبدیلیوں کے لیے زمین تیار کرتے ہیں۔‘‘
آپ نے دیکھا کہ ڈاکٹر خالد اشرف نے تجزیہ نگاری کے فن کا حق کیسے ادا
کیا۔یہاں سیاست بھی ہے اور معاشرے کے موجود مسائل کا حل بھی، تشکیک بھی ہے
،لیکن تشکیک محض تشکیک نہیں ۔اس کے جواب کے لیے ان کے پاس معقول جواز ہے
اور اس طرح وہ منٹو کے اس قدر کی وضاحت بھی کر دیتے ہیں، جس
قدر کی چھوٹ ان کے تمام افسانوں پر برنگِ دیگر پڑ رہی ہے۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ:
’’زبان تحریری اور غیر تحریری علامات کا ایک ایسا روایتی نظام ہے جس کے
ذریعہ انسان ایک سماجی گروہ کے رکن اور اس کے تہذیبی عمل میں شریک ہونے
والے فرد کی حیثیت سے اپنا اظہار کرتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر خالد اشرف کا تعلق جس ادبی نسل سے ہے اس نے خود تو نہیں لیکن اپنے
پیش روؤں کو ادبی دھول دھپّا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ جدیدیت اور ترقی پسندادب
کی کشا کش کو تو خود خالد اشرف نے بھی دیکھا ہے لیکن اس کے بعد اور خاص طور
پر سوویت روس کے منتشر ہونے کے بعد جو ایک خاموشی تحریکات پر طاری ہے اس
سکون کے دور میں ڈاکٹر خالد اشرف کا ذہن پر سکون یا تعطل کا شکار نہیں ہوا
اور وہ اس بات سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ زبان کی بقا کے لیے جس جدو جہد کی ضرورت
ہے وہ ان کی نسل کو کرنی ہے لیکن افراد اور خاص طور پر ذہین افراد کے اس
قحط الرجال میں انھوں نے اپنے حصّے کے کام کا انتخاب کر لیا۔ اور بڑی بالغ
نظری سے انھوں نے نثر کو اپنا موضوع بنا لیا۔ کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ اب
شاعری کا وہ دور لوٹ کر آنے والا نہیں بلکہ یہ صدی بھی یقیناً نثر کی صدی
ہی رہے گی اور اس نسل کو اگر نثری اسرار و رموز سے آگاہی نہ ہوئی تو یہ ایک
بڑا خسارہ ثابت ہوگا۔ انھوں نے اپنے پیش روؤں کو محض چند جملے بازوں کے
حوالے کر دیا تو پھر نیا افسانہ لکھنے کے لیے بنیاد کمزور ہو جائے گی۔ اس
کے پیشِ نظر انھوں نے اس کے پہلے’’ عزمی دہلوی کی شخصیت اور ناول نگاری‘‘
’’بر صغیر میں اردو ناول‘‘ پر ایک جامع کتاب لکھی اور اب منٹو پر ان کا یہ
شاہکار یقیناً دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے ایک بات اور واضح ہو جاتی ہے کہ بھلے ہی بٹوارے کے
خونچکاں واقعات کو قلمبند کرنے میں منٹو نے کمال کر دیا ہو لیکن جب وہ خود
پاکستان جاتے ہیں تو وہاں وہ کوئی خاص کمال نہیں کر پاتے اور بری طرح ٹوٹ
جاتے ہیں اور اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ انا پرست انسان یعنی منٹو پیٹ
کی آگ بجھانے کی مشین کا ایک معمولی پرزہ بن جاتا ہے۔بے تحاشہ لکھتا ہے
لیکن وہ میر مدن والی بات نہیں۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر خالد اشرف
نے تحقیقی انداز میں منٹو کی کہانی کو اختتام تک پہنچایا ہے۔ ’’فسانے منٹو
کے اور پھر بیاں اپنا‘‘ یقیناً ایک ایسی تحقیقی کتاب ہے، جس پر ڈھیر سارے
علمی تحقیقی تنقیدی سوالات قائم کیے جا سکتے ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے
کہ اب یہ سوالات قائم کون کرے کہ ’’پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے‘‘
بر طرف سیاست کی گرم بازاری ہے اور یہ سیاست ادب میں مدغم ہو کر انصاف پسند
مصنفین کا قلع قمع کر رہی ہے۔ کاش یہ کتاب اس زمانے میں شائع ہوتی جب قدر
شناسی عنقا نہیں تھی۔ لیکن ’’نہ ہونومید‘‘ کے مصداق اس بات پر بھروسہ قائم
رہنا چاہیے کہ جب بھی کوئی ناقد یا محقق اب منٹو شناسی کی راہ میں قدم
بڑھائے گا تو اس کتاب کے بغیر اس کا کام ادھورا رہے گا۔ خدا ڈاکٹر خالداشرف
کو نظرِ بد سے بچائے یقیناً مستقبل میں ابھی ان کے قلم اور دماغ میں بہت
جان باقی ہے عین ممکن ہے کہ وہ دوسرے کسی ایسے ہی پروجیکٹ کالائحہ عمل مرتب
کر چکے ہوں۔ |