ملک میں سیاسی گہماگہمی عروج پر ہے،حکومت الیکشن کی تیاریوں میں پوری
طرح مصروف نظر آرہی ہے،اسی حوالے سے اتوار کے روز نگران وزیر داخلہ ملک
حبیب خان کراچی آئے ،ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور گورنر سندھ ڈاکٹر
عشرت العباد سے ٹیلیفونک رابطہ کیا جس میں کراچی میں امن و امان کی صورتحال
سمیت دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر داخلہ نے الطاف حسین کو
یقین دہانی کرائی کہ وہ کراچی میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں تمام صورتحال کا
بغور جائزہ لیں گے اور کراچی میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے کوئی
کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی۔نگران وفاقی وزیر داخلہ ملک حبیب کا کہنا تھا
کہ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کسی کو بھی امن و امان کو
جواز بناکر الیکشن ملتوی نہیں کرنے دیں گے۔ملک حبیب نے کہا ہے کہ مخصوص
مائنڈ سیٹ کو بدلنے میں وقت لگے گا۔ انتخابات کے موقع پر ووٹر ٹرن آﺅٹ اچھا
ہوگا، کراچی میں ہونیوالے دھماکوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ امن و امان کی
صورتحال پر نظر رکھنے کیلئے آرمی اور ایف سی بھی تعینات کی گئی۔ کراچی سمیت
ملک بھر میں پرامن انتخابات کیلئے نگران حکومت ہرممکن اقدامات کر رہی ہے
کراچی میں قیام امن کیلئے پولیس اور رینجرز کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
دریں اثناءملک حبیب نے کراچی میں12 روز میں سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر9 بم
دھماکوں کے حوالے سے کراچی میں فول پروف سیکورٹی پلان کی منظوری دیدی۔ حساس
پولنگ سٹیشنوں پر فوج تعینات کرنے پر غور ہو گا۔ الیکشن ملتوی نہیں ہونے
دیں گے۔ ضرورت پڑنے پر فوج تعینات کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حملے صرف ایم کیو ایم پر ہی نہیں مسلم لیگ (ن) اور جماعت
اسلامی سمیت دوسری جماعتوں پر بھی ہورہے ہیں۔واضح رہے کہ اگرچند روز کے
اخبارات اٹھا کر دیکھ لیے جائیںتو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بم دھماکوں اور
حملوں سے تمام جماعتیں ہی متاثر ہیں۔کراچی میں کئی بار جماعت اسلامی کے
دفاتر پر حملے ہوچکے ہیں جن میں جماعت اسلامی کے کئی کارکن جاںبحق اور کئی
زخمی بھی ہوئے ہیں، صوبہ خیبر پختونخوا ، بلوچستان میں بھی جماعت اسلامی کے
کئی دفاتر پر حملے ہوچکے ہیں۔اسی طرح جمعیت علماءاسلام کے دفاتر ،
امیدواروں اور کارکنوں پر کئی حملے ہوچکے ہیں، جن میں کئی افراد جان سے
ہاتھ دھو بیٹھے اور کئی زخمی بھی ہوئے ہیں،پیر کے روز کرم ایجنسی میں ہونے
والا تازہ حملہ اس بات کی واضح دلیل ہے جس میں دس افراد جاں بحق اور چالیس
سے زائد زخمی ہوئے ہیں،جمعیت علماءاسلام نظریاتی بھی ان حملوں سے محفوظ
نہیں ہے، ان کے امیدواروں پر بھی کئی حملے ہوئے ہیں،تحریک انصاف اور مسلم
لیگ نون بھی ان حملوں سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔چند مخصوص جماعتوں کی جانب
سے دھماکوں اور حملوں کا شور درست نہیں ہے۔ ملک حبیب خان کا کہنا تھا کہ
یقین دلاتا ہوں کہ کراچی کے حالات میں بہتری آئے گی دھماکوں کی جتنی مذمت
کی جائے کم ہے۔ملک میںصاف و شفاف انتخابات کرانا ہماری ذمہ داری ہے۔ امن و
امان کی صورتحال خراب رہی تو خدشہ ہے ووٹرز الیکشن کے دن نہ نکلیں۔
انتخابات کے موقع پر ووٹ ڈال کر ہم پاکستان کو ایک خوشحال مستقبل دے سکتے
ہیں۔
نگراں وزیر داخلہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ1947ءمیں پاکستان آنے والوں کو اب
مہاجرکی بجائے پاکستانی بن جانا چاہےے، حالات کی بہتری کے لیے یہ لازم ہے۔
18 اور 20 برسوں کے دوران پیدا ہونے والی اس خرابی کو جلد ختم کرنا ہوگا،
توقع ہے کہ حالات میں جلد بہتری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ محمد علی جناح نے
پاکستان بناتے وقت جو بنیاد فراہم کی تھی لسانیت سے بچتے ہوئے اسی پرقائم
رہنا ملکی بقاءکے لیے لازم ہے، اگر ہم اس بنیاد سے ہٹ کر لسانیت کی بنیاد
پر خود کو تقسیم کریں گے تویہ پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرناک ہوگا۔واضح
رہے کہ کراچی میں ایک لمبے عرصے سے لسانی بنیادوں پر لڑائی جاری ہے،ہر سال
ہزاروں لوگ لسانیت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ دو ہزار بارہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہلاکتوں کے
حوالے سے بدترین سال رہا ہے اور دو ہزار کے لگ بھگ افراد کو شہر میں سیاسی
اور لسانی بنیادوں پر قتل کیا گیا ہے۔سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے
مطابق گزشتہ تمام برسوں کے مقابلے میں سال دو ہزار بارہ میں قتل کیے جانے
والے افراد کی تعداد زیادہ رہی۔ مقتولین میں پچاس فیصد سے زیادہ ہدف بنا کر
قتل کیے گئے۔کراچی میں قتل ہونے والے افراد کے اعداد و شمار سرکاری سطح پر
پولیس اور نجی سطح پر بعض غیر سرکاری تنظیمیں جمع کرتی ہیں جن میں انسانی
حقوق کمیشن آف پاکستان بھی شامل ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف
کے مطابق شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے سیاسی اور لسانی عوامل کارفرما ہیں
اور اس لسانی و سیاسی لڑائی کے دوران ایسے لوگ بھی مارے جاتے ہیں جن کا کسی
گروہ سے تعلق نہیں ہوتا۔صوبائی وزارتِ داخلہ کے معاونِ خصوصی شرف الدین
میمن کا بھی کہنا تھا کہ ایسے شواہد واضح ہیںجن میں لسانی بنیادوں پر لوگوں
کو قتل کیا گیا ہے۔ان کے علاوہ بھی متعدد سیاسی رہنماءیہ بات کہہ چکے ہیں
کہ کراچی میں لسانی اور سیاسی لڑائی جاری ہے، جسے ختم ہونا چاہے۔
یاد رہے کہ کراچی کی آبادی 15 ملین کے قریب ہے جبکہ سالانہ شرح پیدائش 4.8
فی صد ہے اگر اس کا قومی شرحِ پیدائش سے موازنہ کیا جائے تو ملکی شرح 3.0
فی صد ہے ،کراچی میں آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح کی بنیادی وجہ وہ ہجرت ہے جو
ملک کے چاروں صوبوں سے اس شہر کی جانب جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 35,000
خاندان یا 200,000 افراد ہرسال اس عروس البلاد میں باہر سے آ کر آباد ہوتے
ہیں ، ایک حالیہ اعداد و شمار کے مطابق مہاجرین کی آبادی 55 فی صد، پنجابی
14 فی صد، پشتون 9 فی صد، سندھی 7 فی صد، بلوچ 4 فی صد اور دیگر قومیتیں 12
فی صد کی شرح سے موجود ہیں۔کراچی کا رقبہ 3,336 مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا
ہے جو کہ 18 قصبات، 6عدد کنٹونمنٹ اور دیگر ایجنسیوں میں منقسم ہے۔ شہری
علاقہ 1800 مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے اس شہر کی وسیع ساحلی پٹی مغرب میں
Cape Monze سے شروع ہو کر مشرق میں گھارو تک آتی ہے۔اقتصادی اور مالی
سرگرمیوں کا مرکز کراچی، پاکستان کی معیشت میں 60 فی صد کا حصہ دار ہے۔
یہاں مرکزی اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP)، اسٹاک ایکسچینج اور قومی اور بین
الاقوامی کمپنیوں کے ہیڈ آفس موجود ہیں اس کے علاوہ بینک، مالیاتی ادارے
اور جائیداد کی خرید و فروخت کی کمپنیوں کا جال بھی پھیلا ہوا ہے۔ مزید
براں بڑے نشریاتی اداروں کے ہیڈ کوارٹر بھی کراچی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
وفاقی حکومت اعداد و شمار کے مطابق کراچی قومی GDP کا 15 فی صد حصہ مہیا
کرتا ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 42 فی صد اور وفاقی حکومت کا کل 25 فی صد
محصول ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے صنعتی منصوبے بھی رات دن کام کر
رہے ہیں جن میں سندھ انڈسٹریل اینڈ ٹریڈنگ اسٹیٹ (SITE) قابلِ ذکر ہیں۔ ان
کی مصنوعات میں ٹیکسٹائل، کیمیکل، اسٹیل اور مشینری سے لے کر بے شمار دوسری
پیدوار شامل ہیں۔
کراچی ملک کا سب سے اہم شہر ہونے کے باوجود صرف لسانی اور سیاسی لڑائی کی
وجہ سے امن کا قیام نہیں کرپاتا،آئے روز لسانی لڑائی سے ہڑتالیں اور سوگ سے
ملک کی معاشی حالت دن بدن گرتی جارہی ہے،انہی ہڑتالوں اور روز روز کے
ہنگاموں کی وجہ سے رواں مالی سال کوئی بھی اہم معاشی ہدف حاصل نہیں کیا
جاسکا۔ معاشی ترقی کے ہدف پر دوسری مرتبہ نظرثانی کرتے ہوئے اس کی شرح 4.3
فیصد سے کم کرکے3.59 فیصد مقررکردی گئی۔اگر کراچی کو امن کا گہوارہ بنانا
ہے تو وزیر داخلہ کی بات پر عمل کرتے ہوئے لسانیت کو دفن کر کے سب کو
مسلمان اور پاکستانی بننا ہوگا۔ |