گاہے گاہے جامعہ فاروقیہ کراچی میں خطابت وامامت کے فرائض
راقم کو اداکر نے ہوتے تھے، کرکٹ سے فراغت اور اس میں ملک وملت کے ہیرو
بننے کے بعدعمران خان رفاہِ عامہ اور سیاست کے میدان میں اترے تھے ، بارہ
تیرہ سال قبل وہ ایک جمعے میں ہمارے یہاں صفِ اول میں شریک ہوکر بعد میں
ہمارے آفس تشریف لائے ، خاطر تواضع کے دوران باہمی دلچسپی کے امور پر
گفتگوکا سلسلہ بھی جاری رہا، موقع کو غنیمت جان کر الفاروق عربی (جس کایہ
ناکارہ تقریبا ۲۰ برس مدیر رہا) کے لئے غیر رسمی انٹرویوکا مواد بھی مل
رہاتھا۔
خان صاحب ملک کی مخدوش صورت حال ،کرکٹ میں ورلڈکپ ، شایان ِشان کینسر
ہسپتال، نمل یونی ور سٹی ، برق رفتار عالمی تغیر پذیر حالات ، قوموں کے
عروج وزوال ، جمائمہ سے رشتۂ ازدواج وغیرہ پر سیر حاصل گفت وشنید جاری رکھے
ہوئے تھے ۔نئے عزم ،ولولے اور جوش وجذبے کے ساتھ سیاست میں اپنی آمد کا
تذکرہ بھی کررہے تھے ، سیرت ِنبویﷺ ، سیرت خلفائے راشدین ،اور اسلامی تاریخ
کے جھروکوں سے جھانک جھانک موتیاں بھی چنتے رہے۔ ان دنوں ہمارے ایک کالم
’’جمائمہ خان ،مرا بخیرِتو امید نیست ،شرمرساں‘‘پر انہوں نے کہا ، خیر ہوگی
ان شاء اﷲ ،فکر نہ کریں۔بہرکیف ،اس وقت سب سے زیادہ ان کی جس بات نے ہمیں
متأثر کیا تھا، وہ سیرت خلفائے راشدین خصوصاً حضراتِ شیخین صدیق وفاروق رضی
اﷲ تعالی عنہما کے مشکل ترین ادوار میں انتہائی باریک بینی کے ساتھ امت کی
رہنمائی اور قیادت پر نگاہ تھی ۔میں نے جب ان سے یہ سوال کیاکہ دنیامیں
ادیان ومذاہب کے مقابلے میں الحاد ، لامذھبیت ، لادینیت اور زندقہ وارتداد
بامِ ِعروج پر ہے ، آپ ان حالات کا مقابلہ ایک مسلمان لیڈر کے طور پر کیسے
کرینگے ، ان کا جواب بڑے دلیرانہ ، بے باکا نہ اوردو ٹوک الفاظ میں یہ تھا،
کہ ابوبکر صدیق ؓ نے منکرین ختم نبوت اور منکرین زکاۃ کے ارتداد کا جس حکمت
وبالغ نظری سے مقابلہ کیا تھا، اورجس طرح حضرت عمر فاروق نے ان کے شانہ
بشانہ دست وبازو بن کر ان کا ساتھ دیا تھا ، کیا اس میں ہمارے لئے مشکل
حالات میں سنگِ گراں بن کر مقابلے کے اداراک کا ساماں نہیں ہے ؟جواب سن کر
ہمارے دفتر کا ہال سبحان اﷲ کے نعروں سے گونج اٹھاتھا۔
سیر ت صدیق ؓ کا ایک باب رفاقت نبوی ﷺ میں وفاداری بشرط استواری کا ہے ،
دوسرا باب ارتداد ی فتنوں کے کمال مہارت ، استقامت اورپامردی کے ساتھ
مقاومت کاہے، ان دونوں ابواب میں ان کا کیا مقام ہے ، یہ حضرت عمر جیسے
جلیل القدر اور عبقری خلیفہ سے پوچھتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر اگر
غار ِثور میں تاج دار ختم نبوت ﷺکے ساتھ اپنی گذاری ہوئی وہ ایک شب مجھے
دیدیں، تو میں اپنی ساری زندگی کی عبادتوں ریاضتوں ، جہاد ، قیادت اور
خلافت کا ثواب انہیں دیدوں گا ۔نبی کریم ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد نبوت سے
خلافت کی طرف انتقالِ قیادت کے اس حساس مرحلے میں امت کوجوڑ کررکھنا او
رپیغام نبوت کی حرف بحرف پاسداری کر نا ان ہی کا طرۂ امتیاز ہے ، یہ وہ
شخصیت وکردار ہے کہ ان کے بعد جب ارتدادی فتنے اٹھے اور امت کا شیرازہ
بکھرنے لگا، تو ہر خاص وعام کی زبانوں پے یہ جملہ تھا’’ ردۃ ولا أبابکر لھا‘‘
بھلاابوبکر کے بعد اب کون ہے جواس ارتداد کے طوفان کا رخ موڑدے ۔آج یومِ
صدیق ِ اکبر کے موقع پرسیرت صدیق ؓ کو سمجھنے کے لئے دی میسج کے فارمولاساز
،عظیم مصری ادیب ونقادمصطفی عقاد کی شاہ کار اور لازوال تصنیف ’’ عبقریۃ
الصدیق ‘‘ کا مطالعہ مسلم وغیر مسلم نوجوان ، عالم ، ادیب ، دانشور ، تجزیہ
نگار ، مؤرخ ، اور سیاستداں کے لئے ایک سوغات ہے ، ہمارا ملک آج جن مشکلات
میں گھراہے، ان میں ہمیں بقول ڈاکٹر مبارک علی ماضی کی تاریخ کے ہم مثل
واقعات وحوادث میں قوموں کو جادۂ حق دکھانے والے رہنماؤں کے کردار وں سے
استفادہ کرناہوگا،نیزاﷲ تعالی سے اپنے حبیبﷺ کے صدقے دعائیں مانگنے کا
اہتمام بھی ضروری ہے۔
اے خاصۂ خاصان ِرسل وقت دعاء ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑاہے
مجھے امید ہے کیونکہ میں عمران کو جانتاہوں وہ حضرت صدیق ؓ کاسچا غلام ہے
،ختمِ نبوت اور توہینِ رسالت کے معاملات وہ بخوبی جانتے ہیں، انہوں نے اہل
ارتدادکی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا ہوگا، لیکن اگر ایسی کوئی بات انکے ماتحتوں
میں بھی ہے ، توانہیں چاہئے کہ وہ ہوشیارہوکر احتیاط کے پہلو کو مد نظر
رکھتے ہوئے ان کی خدمت میں شاعر کا یہ کلام ضرورپیش کریں :
جب کچھ نہ بن پڑا تو ڈبو دینگے سفینہ
ساحل کی قسم ’’ منتِ طوفاں‘‘ نہ کرینگے |