اکیسویں صدی کا آغاز ہوتے ہی شہری ہوابازی کی دنیا میں
ایک ایسے پرندے نے آنکھ کھولی کہ اس کے سامنے بڑے بڑے شہباز بھی ممولے
دکھائی دینے لگے۔ 27 اپریل 2005ء کی صبح پیرس میں ائیرشو کے ایک پیویلین
میں لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ایک ایسے جہاز کو دیکھنے کے لیے امنڈ
آیا تھا، جسے ائیربس اے-380 کا نام دیا گیا تھا۔
اس جہاز کو فرانس کی ہی ایک طیارہ ساز کمپنی ائیربس نے متعارف کرایا تھا۔
اس سے قبل ائیربس کمپنی مختلف سائز اور ڈیزائن کے طیارے تیار کر چکی تھی جن
میں اے-300،اے-310، اے-320، اے-340 اور اے-350 شامل ہیں اور اب ائیربس
کمپنی کا آخری شاہکار عوام کی نظروں کے سامنے تھا۔ شہری ہوا بازی کی صنعت
لامحدود ترقی کی منازل طے کرنے کی طرف گامزن ہے۔
|
|
اسی صنعت کا آخری طیارہ ائیربس اے800 -380 ہے جو اپنے اندر 853مسافروں کو
بٹھا کر ہوا کے دوش پر جہاں چاہے اڑنے کے لیے پَر تول رہا ہے۔
1970ء سے لے کر 2005ء تک فضائی حکمرانی میں ابھی تک بوئنگ کمپنی کے 747
جمبوجیٹ کا طوطی بول رہا تھا۔ 2005ء میں ائیربس کمپنی نے ایک ایسا طیارہ
متعارف کرایا کہ سول ایوی ایشن میں ایک زبردست انقلاب آگیا۔ دنیا کی تمام
فضائی کمپنیوں اور مسافروں نے اِس طیارے کو دل و جان سے خوش آمدید کہا اور
اس پذیرائی کا نتیجہ حقائق اور ہندسوں کی شکل میں نہایت چونکا دینے والا ہے۔
اس لیے اس جہاز کو سپرجمبوجیٹ کا بھی نام دیا گیا ہے۔
یہ دو منزلہ جہاز ہے۔ جس میں نشستوں کی کل تعداد 853 ہے۔ پہلی منزل میں 538
اور دوسری منزل میں 315نشستیں ہیں جو کہ سب کی سب اکانومی کلاس کے لیے ہیں۔
اگر جہاز کی دونوں منزلوں میں تینوں مروجہ یعنی فرسٹ کلاس، بزنس کلاس اور
اکانومی کلاس کی نشستیں بھی لگائی جائیں تو مجموعی نشستوں کی تعداد 525 ہے
جو کہ بوئنگ جمبوجیٹ 747 سے 100 نشست زیادہ ہے۔
|
|
ائیربس اے800-380 کے پرواز بھرتے اور اترتے وقت جمبوجیٹ سے 50 فیصد کم شور
سنائی دیتا ہے۔ ائیربس اے-380 کا زیادہ سے زیادہ فضا میں دائرہ پرواز
15400کلومیٹر ہے یعنی یہ جہاز آرام سے نیویارک سے پرواز کرکے ہانگ کانگ تک
بغیر کہیں رکے اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ جبکہ نیویارک سے ہانگ کانگ کا
فضائی فاصلہ 12983کلومیٹر ہے۔
یہ جہاز اتنا عظیم الجثہ ہے کہ اس کے آس پاس کھڑے ہوئے جہاز بھی اپنا دامن،
منہ اور دم چھپانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ ائیربس سیریز کا فی الحال آخری
جہاز ہے۔ ابھی آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ گویا اب یہ ائیربس اے800-380
پوری دس بوگیوں والی ٹرین کی سواریاں اٹھا سکتی ہے۔
اگر ہم اسے ایک فضائی ٹرین بھی کہہ لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس جہاز کی
دونوں منزلوں میں 853مسافروں کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کی تعداد 20 ہے۔
جن میں 12نیچے والی منزل میں اور 8 اوپر والی منزل میں اپنی اپنی ڈیوٹیاں
سنبھالے کھڑے ہوتے ہیں۔ جبکہ کاک پِٹ میں ایک پائلٹ اور ایک اسسٹنٹ پائلٹ
بیٹھتا ہے۔
جب 2005ء میں ائیربس کمپنی نے اپنا یہ جہاز متعارف کرایا تو اس کی کارکردگی
دیکھ کر اکثر فضائی کمپنیوں نے اس میں دلچسپی لینا شروع کردی۔ ان فضائی
کمپنیوں میں سب سے پہلے جنوبی ایشیا کے چھوٹے سے جزیرے سنگاپور کی ائیرلائن
نے ائیربس کی پیشکش کو قبول کیا اور پھر سنگاپور ائیرلائن نے 2007ء میں
ائیر بس اے-380 کو اپنے فضائی بیڑے میں شامل کرلیا۔
|
|
اس طرح سنگاپور ائیرلائن سپرجمبوجیٹ اے-380 کو خریدنے والی پہلی کمپنی بن
گئی۔ اس کے بعد تو گویا ائیربس انڈسٹری کے پاس اے-380 کے آرڈرز کی لائن لگ
گئی۔ اگست 2012ء تک دنیا کی 257فضائی کمپنیوں نے اے-380 خریدنے کا آرڈر دے
دیا ہے اور ان کمپنیوں میں اے-380 کی سب سے بڑی خریدار امارات ائیرلائن ہے
جس نے 90 اے-380 جہاز خریدنے کا آرڈر دیا ہے۔
ائیربس اے-380 کی پیداوار شروع ہونے سے لے کر ستمبر 2012ء تک 81 جہاز دنیا
کی فضائی کمپنیوں نے خرید لیے ہیں اور بڑی کامیابی سے وہ جہازوں سے فائدہ
اٹھا رہی ہیں۔ ان میں سنگاپور ائیرلائن، ایمیریٹس (امارات)، کونیٹس ،
لفتھانسا، ائیرفرانس، کورین ائیرلائن، ملائیشین ائیرلائن اور چائنا ساﺅدرن
ائیرلائن بھی شامل ہے۔ 2007ء سے 2010ء تک پہلے تین سال ڈیڑھ کروڑ مسافر ان
جہازوں میں سفر کر چکے ہیں۔
سنگاپور ائیرلائن نے 25اکتوبر 2007ء کو اے-380 سے اپنی پہلی پرواز کا آغاز
سنگاپور سے سڈنی کے لیے کیا۔ ایمیریٹس دوسری فضائی کمپنی تھی جس نے دبئی سے
نیویارک کے لیے اپنی پہلی نان سٹاپ پرواز اگست 2008ء میں شروع کی۔ کونیٹس (آسٹریلین
فضائی کمپنی) نے 19ستمبر 2008ء کو اپنی پہلی پرواز ملبورن سے لاس اینجلز تک
چلائی اور ملائیشین ائیرلائن نے جولائی 2012ء کو کوالالمپور سے لندن تک نان
سٹاپ پہلی پرواز کا آغاز کیا۔
2008ء کے آخر تک ائیربس اے-380 کی پروازوں میں ۸لاکھ مسافر سفر کر چکے تھے
اور 2200پروازوں کے 21000گھنٹے فضا میں ہی گزرے۔ اے-380 میں بورڈنگ کے وقت
مسافروں کو ان کی نشستوں پر بٹھانے کے لیے صرف 34منٹ درکار ہوتے ہیں۔ جبکہ
جمبوجیٹ 747 جو کہ ائیربس اے-380 سے بہت چھوٹا جہاز ہے، اس میں مسافروں کو
سوار کرانے کے لیے کم از کم 45منٹ کا وقت لازمی صرف ہوتا ہے۔
اس طرح کے عظیم الجثہ اور دیوہیکل جہاز بنانے کا خیال اس سے قبل بوئنگ
کمپنی کو بھی آیا تھا، لیکن نہ جانے کن خدشات کے پیشِ نظر بوئنگ کمپنی نے
یہ منصوبہ 1993ء میں ختم کردیا۔ لیکن یہ ائیربس کمپنی ہی تھی جس نے اتنا
بڑا مسافر طیارہ بنانے کے خواب کو تعبیر دی۔ اس اے-380 جہاز میں بیٹھے ہوئے
مسافروں کو ہر تین منٹ کے بعد بالکل تازہ بہ تازہ ہوا مل جاتی ہے۔ جس سے
مسافروں کو اپنی منزل پر اترتے وقت بہت کم تھکان کا احساس ہوتا ہے۔
|
|
اس جہاز کی دونوں منزلوں کے اطراف میں 252 قدرے بڑی کھڑکیاں لگی ہوئی ہیں
جن سے وافر مقدار میں قدرتی روشنی جہاز کے اندر پہنچتی ہے۔ جہاز کی پہلی
منزل پر آگے اور پیچھے دو سیڑھیاں ہیں جن کے ذریعہ اوپر والی منزل میں
پہنچا جا سکتا ہے۔ اے-380 کی دونوں منزلوں میں ڈیوٹی فری شاپس کے کاؤنٹر
بھی بنائے گئے ہیں۔ جہاں مسافر اپنی من پسند گھڑیاں، سگریٹ، فینسی طرز کے
بال پِن اور دوسرے سووینیئر خرید سکتے ہیں۔
طویل فلائٹ کے پیشِ نظر مسافروں کو ناشتہ، لنچ، ڈنر اور ڈرنکس مختلف وقفوں
سے پیش کیے جاتے ہیں۔ غرضیکہ اے-380 ائیربس کی لمبی پروازوں میں عملہ کی
کوشش ہوتی ہے کہ مسافر کم سے کم بوریت محسوس کریں۔ مسافروں کی نشست پر ٹی
وی، سی ڈیز کی سہولت کے علاوہ لیپ ٹاپ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ائیر بس اے-380 … ایک نظر میں
لمبائی …… 239فٹ
اونچائی …… 79فٹ
پروں کا پھیلاؤ …… 262فٹ
دائرہ پرواز …… 15400کلومیٹر 8200ناٹیکل میل
استعمال ہونے والی تاروں کی مجموعی لمبائی …… 530کلومیٹر
تاروں کا وزن…… 580ٹن
نشستوں کی تعداد (سب اکانومی کلاس) …… 853
نشستوں کی تعداد (فرسٹ+بزنس+ اکانومی کلاس)…… 525
رفتار فی گھنٹہ …… ۹۰۰کلومیٹر 560 میل
انجن (رولس رائس)…… 4
تیل کی گنجائش…… 320000لیٹرز
قیمت …… 390ملین ڈالر
300ملین یورو
36ارب روپے
جس طرح کہا جاتا ہے کہ اگر بڑے بڑے راجوں مہاراجوں سے یاری لگانی ہو تو
اپنے گھروں کے دروازے نہ صرف بڑے بلکہ اونچے رکھنے پڑتے ہیں۔ بالکل اسی طرح
جن ملکوں کی فضائی کمپنیاں ائیربس اے-380 استعمال کر رہی ہیں، انھوں نے
اپنے ائیرپورٹس، رن وے اور پسنجر لاﺅنجز بھی وسیع اور کشادہ کر لیے ہیں
تاکہ اس جہاز کو لینڈنگ اور ٹیک آف کے وقت کوئی دِقت پیش نہ آئے۔
مستقبل قریب میں اس منفرد جہاز اے 800-380 کے بعد اسی طیارے کا ایک اور
ماڈل اے 900-380 متعارف کرائے جانے کا امکان ہے- اس طیارے میں 656 مسافروں
کی گنجائش ہوگی اور اکانومی کلاس کو میں شامل کرنے بعد یہی تعداد 960
مسافروں تک پہنچ جاتی ہے- |