صحابہ کرام،تابعین عظام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اور تعظیم ِمصطفی(جانِ دو عالم)

عروہ بن مسعود کہتے ہیں کہ جب قریش نے انھیں صلح حدیبیہ کے سال ، نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں بھیجا، انھوں نے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بے پنا ہ تعظیم دیکھی، انھوں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم جب بھی وضو فرماتے تو صحابہ کرا م علیہم الرضوان وضو کا پانی حاصل کرنے کے لئے بے حد کوشش کرتے حتی کہ قریب تھا کہ وضو کا پانی نہ ملنے کے سبب لڑ پڑیں۔ انہوں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم دہن مبارک یا بینی مبارک کا پا نی ڈالتے توصحابہ کرام علیہم الرضوان اسے ہاتھوں میں لیتے، اپنے چہر ے اور جسم پرملتے اور آبروپاتے ، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا کوئی بال جسد اطہر سے جدا نہیں ہوتا تھا مگر اس کے حصول کے لئے جلدی کرتے، جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم انھیں کوئی حکم دیتے تو فوراََ تعمیل کرتے اور جب نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم گفتگو فرماتے تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے خاموش رہتے اور ازراہ تعظیم آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمکی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے۔ (الشفاء ،الباب الثالث،ج۲،ص۶۹)

جب عروہ بن مسعود قریش کے پاس واپس گئے تو انھیں کہا اے قوم قریش!میں کسریٰ ،قیصر اور نجاشی یعنی شا ہ فارس، شاہ روم اور شاہ حبشہ کے پاس ان کی حکومت میں گیا ہوں، بخدا میں نے ہر گز کوئی بادشاہ اپنی قوم میں اتنامحترم نہیں دیکھاجس قدر محمد( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم )اپنے اصحاب میں معزز ہیں ۔ایک روایت میں ہے ’’میں نے کبھی ایسا بادشاہ نہیں دیکھاکہ اس کے رفیق اس کی اس قدر تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اصحاب علیہم الرضوان آپ کی تعظیم کرتے ہیں۔ تحقیق کہ میں نے ایسی قوم دیکھی ہے جو کبھی بھی نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نہیں چھوڑے گی اور ہمیشہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم کرتی رہے گی۔‘‘

حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں چاہتا تھا کہ کسی امر کے بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے سوال کروں لیکن آپصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہیبت کے سبب دو سال تک مؤخر کرتارہا۔‘‘ (الشفاء ،الباب الثالث،ج۲،ص۷۱)

حضرت عمر وبن العاص رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ نہ توکوئی محبوب تھا اور نہ میری نگاہ میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ کوئی محترم تھا اس کے باوجود آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے احترام کے سبب میں آنکھ بھر کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے جمال کی زیارت نہ کرسکتا تھا۔ اگر مجھ سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی صفت پوچھی جائے تو میں بیان نہیں کرسکوں گا کیونکہ میں آنکھ بھر کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے جمال سے بہرہ نہیں ہوسکتا تھا۔‘‘
(الشفاء ،الباب الثالث،ج۲،ص۶۸)

حضرت اسامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بارگاہ رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم میں اس حال میں حاضر ہو ا کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے گرد اس طرح بیٹھے ہوئے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں ۔
(الشفاء،الباب الثالث،ج۲،ص۶۹)
(یعنی وہ اپنے سروں کو حرکت نہیں دے رہے تھے کیونکہ پرندہ ا س جگہ بیٹھتا ہے جو ساکن ہو۔)

حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اطلاع ملی کہ کابس بن ربیعہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے (صورۃً)مشابہ ہیں جب حضر ت کابس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ، حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر کے دروازے سے داخل ہوئے تو حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے تخت سے اٹھ کھڑے ہوئے ان کا استقبال کیا، ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور انھیں مِرغَب( ایک مقام) عنایت فرمایا( یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ) ان کی صورت نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ملتی جلتی تھی۔
(الشفاء،الباب الثالث،ج۲،ص۸۸)

اگر اجلہ صحا بہ کرام علیھم الرضوان کی تعظیم اور اس بابرکت بارگاہ کے احترام میں مبالغہ کرنے اور ہر باب میں آداب کی رعایت کرنے کی روایات کا احاطہ کیاجائے تو کلام طویل ہوجائیگا ۔تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان اس ذات کریم کو بہترین القاب ، کمالِ تواضع او رمرتبہ و مقام کی انتہائی رعایت سے خطاب کرتے تھے اور ابتدا ء ِکلام میں صلوٰۃ کے بعد ’’ فَدَیْتُکَ بِاَبِیْ وَ اُمِّیْ‘‘ میرے والدین بھی آپ پر فدا ہوں،یا ’’ بِنَفْسِیْ اَنْتَ یَارَسُوْل! ‘‘ میری جان آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمپر نثار ہے، جیسے کلمات استعمال کرتے تھے اور فیض صحبت کی فراوانی کے باوجود ،محبت کی شدت کے تقاضے کی بنا پر، تعظیم و توقیر میں کوتا ہی اور تقصیر کے مرتکب نہیں ہوتے تھے بلکہ ہمیشہ حضور سید الانام صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم و اجلال میں اضافہ کرتے تھے ۔

تابعین رضی اﷲ تعالیٰ عنہم اور تعظیم ِمصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم

اسی طرح تابعین اور تبع تابعین بھی صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تعظیم آثار کے معاملہ میں انھیں کے نقش قدم پر تھے۔ حضرت مصعب بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب امام مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سامنے نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ان کی پشت جھک جاتی یہاں تک کہ یہ امران کے ہمنشینوں پر گراں گزرتا۔

ایک دن حاضرین نے امام مالک رضی اﷲ عنہ سے ان کی اس کیفیت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا:جوکچھ میں نے دیکھاہے، تم دیکھتے تو مجھ پر اعتراض نہ کرتے ۔ میں نے قاریوں کے سردار حضرت محمد بن منکدر کو دیکھا کہ میں نے جب بھی ان سے کوئی حدیث پوچھی تو وہ رودیتے یہاں تک کہ مجھے انکے حال پر رحم آتا تھا۔
(الشفاء،الباب الثالث،ج۲،ص۷۳) ( ماخوذ از:کتاب،صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشق رسول)
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
Abu Hanzalah M.Arshad Madani
About the Author: Abu Hanzalah M.Arshad Madani Read More Articles by Abu Hanzalah M.Arshad Madani: 178 Articles with 371361 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.