کیاہند و پاک کے مابین خیر سگالی کی بھی موت ثابت ہو گی....؟
شاید بر صغیر ہند و پاک کو بانٹنے والے سورماﺅں کے خواب و خیال میں بھی یہ
بات نہیں ہوگی کہ جنگِ آزادی میں کامیابی کا مرحلہ سر کرلینے کے ساتھ یہ
لوگ برصغیرکی ناقابلِ تقسیم قوم کو بے اساس”دو قومی نظریہ“کے وہ زخم دینے
جارہے ہیں جن کی تقدیر میں اندمال نا م کی کوئی شے ہے ہی نہیں۔بلکہ یہ زخم
چند ہی دہوں کے گزر جانے کے بعد ناسور کی شکل اِختیار کرجائےں گے۔ ظاہر ہے،
”تقسیم ملک“ کے جن زخموں کی بنیادوں میں کروڑوں عصمت دریاں اورکروڑوں اموات
موجود ہوں ، کیا ایسے زخم کبھی مندمل ہو سکتے ہےں؟ہمارا خیال تو یہ ہے کہ
وقت کے گزرنے کے ساتھ اِسی ناسور کو دونوں پڑوسی ملک بار بار کھرچتے رہیں
گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ کئی اور زخم اُبھرےں گے، پھر رفتہ رفتہ یہ زخم اُسی
طرح ناسور بنےں گے جس طرح وہ آج بنے ہوئے ہیں اور یہ چکر نہ جانے کتنی بار
خود کو دہراتا رہے گا۔
سواءالسبیل کو نظر انداز کردینے والی مغضوب اقوام کی جب شامت آتی ہے تو
خالقِ ا قوم اِن کے لیے ایک عجیب و غریب قسم کی سزا تجویز فرما دیتا ہے ،
جو دہشت انگیز بھی ہے اور عبرت ناک بھی، یعنی اِن میں” بندروں اور
خنزیروں“Monkeys and Pigs کے اوصاف ودیعت فرما دیتا ہے۔مثلاً، بندر کی یہ
صفت ہوتی ہے کہ جب اُسے کوئی زخم پہنچتا ہے تو وہ اُسے مسلسل کھرچنے لگتا
ہے اور یہ سلسلہ دراز ہو جاتا ہے،پھر اُسے، اُس کے اپنے ہی ناخنوں کا
انفیکشن Infectionہوجاتا ہے ،پھر یہیInfection اُس کی موت کا سبب بن جاتا
ہے۔اورخنزیر کی صفت یہ ہوتی ہے کہ اعلیٰ درجے کی میٹھائی یا کوئی سی بھی
عمدہ غذااُسے اپنی جانب متوجہ کرنے میں ناکام رہ جاتی ہے، اِس کے برخلاف
اُس کے نتھنے متعفن فُضلہ کی بد بو کی تلاش میں ہر لمحہ بے تاب رہتے
ہیں،اور زندگی بھر وہ اِسی”ڈِش“ پر گزارا کرتا رہ جاتا ہے۔بنی اسرائیل کی
متواتر نا فرمانیوں کے سبب اللہ نے یہی صفات اِن میں ڈالدی تھیں، جس کا
تذکرہ اِس نے سورہ مائدہ(۵) کی اِس آیت میں نہایت ہی واضح الفاظ میں فرما
دیا ہے:”(اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم )آپ پوچھیں کہ: کیا تم کوخبر دوں کہ
اِس سے بد تر ٹھکانہ عند اللہ(کس کا ہے.... تو سن لو .... یہ وہی ہے)،جس پر
اللہ نے لعنت فرمائی اور اُس پر( اپنی) غضب ناکی(ظاہر)کی اور اِن ہی(لعنت
زدہ اِنسانوں) میں سے بند روں اورخنزیروں (کی خصلت رکھنے والے گروہ) وجود
میں لائے، جنہوں نے طاغوت کی غلامی کا شیوہ اپنایا....یہی (بندر و خنزیرکی
شکل و خصلت رکھنے والے لعنت زدہ لوگ) بدترین مکاں(کے مکیں بن کر دیگر اقوام
کے مقابلے میں) سواءالسبیل سے سب سے زیادہ بھٹکے ہوئے (ثابت) ہوئے۔“ “(
60)۔
اِس آیت کی روشنی میں ہم اپنے گریباں میں جھانک کر خو ب محسوس کر سکتے ہیں
کہ ہم بحیثیتِ قوم کہاں کھڑے ہیں،کیونکہ آج ہم صاف دیکھتے ہیں کہ ایک ہی
نسل سے تعلق رکھنے والی قومیت کی زمین کے یہ تین حصے.... پاکستان ،ہندوستان
اور بنگلہ دیش.... مخاصمت و تعصب، بغض و حسداورچپقلش و عداوت کی حدیں پار
کر چکے ہیں۔اپنے گھروں کے اندر بھی اور اپنے مابین بھی۔سربجیت کا تازہ
واقعہ اِس کا بہترین منظر پیش کر تا ہے کہ خیرسگالی کی سمت پیش قدمی کے
اِرادے کی کوئی لہر کسی گوشے سے بھی اُٹھتی نظر نہیں آتی۔ ایک.... ”غیر
ملکی قید“ میں ایک” بے یار و مددگار قیدی“.... عین حکام کی ناک کے نیچے موت
کی سزا کے اِنتظار میں 23 سال گزارتا ہے اور جیل ہی میں جب مارا جاتا ہے تو
اِ س کی مطلق پروا نہیں کی جاتی ہے کہ ڈپلومسی کی کیا درگت بننے والی ہے
یادو طرفہ تعلقات کے نام نہاد پروسس کی کس طرح پامالی ہونے والی ہے۔غرض کہ
دونوں ممالک کے درمیان یہ انسانیت سوز واقعہ ایک اور گہری خلیج پیداکر گیا
ہے، جس کو پاٹنے کی ہر سبیل مزید مشکلات کا سبب بنے گی ، مگر پاٹی نہ جاسکے
گی۔سربجیت سنگھ کے اِس واقعہ پر ہم عبرت کے کئی پہلو دیکھتے ہیں اور اِن ہی
پہلوﺅں کو ہم نے آج اپنے مضمون کا موضوع بنا یا ہے۔ لیکن آئیے پہلے سربجیت
کے اِس المیہ کے پس منظر سے با خبر ہوتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ درد ناک
کہانی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔
49سالہ سربجیت سنگھ (جومہنگا سنگھ کے بیٹے منجیت سنگھ بھی کہلاتے ہیں) کی
کہانی 28 اگست 1900ءسے شروع ہوتی ہے، جب اُس سے پنجاب کے ایک قصبہ خیرہ کے
قریب ہندو پاک سرحد کو عبور کرنے کا جرم سرزد ہوتا ہے۔ سربجیت کے اہلِ
خاندان کا یہ کہنا ہے کہ وہ نشے کی حالت میں بھٹک کر سرحد پھلانگ گیا تھا
اور وہ شناخت کی غلطی Mistaken Identityکا شکار ہوا تھا۔30اگست ،1990ءکو
دہشت گرد مخالف فورس یا پاکستان فیڈرل مجاہدفورس اِسے لاہور میں گرفتار کر
لیتی ہے ۔( عجیب بات یہ ہے کہ اب خود یہی فورس بقول پاکستانی میڈیا از اول
تا آخر اِس واقعہ کے جانچ کا مطالبہ کر رہی ہے)۔ اتفاقاً اُسی دن یعنی30
اگست ،1990ءکو لاہور اور فیصل آباد جڑواں بم دھماکوں سے 10، اموات اور۶۶
زخمیوں کے ساتھ دہل جاتا ہے۔لاہور کی خصوصی عدالت سربجیت سنگھ کومئی،
۱۹۹۱ءمیں مجرم قرار دے کر سزائے موت سناتی ہے اور اِسے پابہ زنجیر کرتے
ہوئے حوالہ زنداں کیا جاتا ہے اور قید ِ تنہائی میں ڈال دیا جاتا ہے۔جون
۱۹۹۱ءکوسربجیت کی بہن” دلبیر کور“ اُس وقت کے وزیرِ اعظم نرسمہا راﺅ سے
رجوع ہوتی ہے اور مدد کے یقّین کے ساتھ لوٹتی ہے۔دسمبر 2001ءکو لاہور ہائی
کورٹ سربجیت کی درخواستِ رحم کو مسترد کر دیتی ہے۔ٍ2003ءکے اواخر میں کینڈا
میںبنیاد رکھنے والے اِنسانی حقوق کے دوسکھ رضاکار سیتل داس کلیر اور امرت
رائی کی مداخلت پر سربجیت کی زنجیرِ دست و پا کو بارہ سال بعد پہلی بار
کھول دیا جاتا ہے۔اگست 2005ءمیں پاکستان سپریم کورٹ سربجیت سنگھ کی اپیل کو
صرف اِس لیے مسترد کردیتی ہے کہ اپیل عدالتِ عالیہ میں تاخیر سے داخل کی
گئی۔مارچ2008ءکو صدرِ پاکستان پرویز مشرف ، سربجیت سنگھ کی رحم کی اپیل کو
مسترد کر دیتے ہیں،اور یکم اپریل 2008ءکو سربجیت سنگھ کی پھانسی کا دن مقرر
کیا جاتا ہے۔مارچ، 2008ءکو ہندوستانی وزیر اعظم، پرویز مشرف سے فون پر بات
کرتے ہیں اور پھانسی پر روک لگا دی جاتی ہے۔ سربجیت کے وکیل رانا عبدالحمید
کی کورٹ میں عدم حاضری کے سبب،،جون ،2009ءکو سپریم کورٹ اپیل پر نظر ثانی
کی سربجیت کی درخواست کو ایکس پارٹی آرڈر کے ذریعہ دوبارہ مسترد کردیتی
ہے۔جولائی،2009ءکو اویس شیخ ، سربجیت کے نئے وکیل مقر ر کیے جاتے ہیں۔شیخ
صاحب، صدرِ پاکستان کی بارگاہ میں متواتر رحم کی درخواستیں داخل کرتے رہتے
ہیں ۔با لآخر جسم میں پھیلنے والے وائرس کے معائنے کے لیے ویرو لوجسٹ خلیل
چشتی کے پاکستان جانے کا جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آتا ہے تو دسویں رحم کی
درخواست دربارِ صدر میں” شرفِ باریابی“ حاصل کرتی ہے۔دریں اثناءجون
،2012ءکو ہندوستانی اور پاکستانی ٹی وی نیٹ ورک یہ خبر نشر کرتے ہیں کہ
سربجیت کی جگہ قریب ہی موجود کسی دوسرے سرجیت سنگھ نامی قیدی کو رِہا کر
دیا گیا ہے ۔دسمبر 2012ءکو پاکستان کے وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک، ”دلبیر کور“
کو یقین دلاتے ہیں کہ اُن کے بھائی کو جلد رہا کیا جائے گا۔اپریل 2013ء،کو
سربجیت سنگھ کی کوٹ لکھپت جیل میں دیگر دوساتھی قیدیوں کی جانب سے اینٹوں
اور تھالیوں سے مبینہ طور پر پٹائی کر دی جاتی ہے ،سر میں گہری چوٹ کے سبب
سربجیت گہرے’ کوما‘ میں چلے جاتے ہیں اور اِنتہائی تشویش کی حالت میں
اُنہیں جناح ہسپتال میں سرجیکل وارڈ کے انتہائی نگہداشت کی یونٹ میں رکھا
جاتا ہے۔آخرش، ۲مئی ،2013ءکو خبر آ تی ہے کہ لاہور کے جناح ہاسپٹل میں دل
کا مبینہ دورہ پڑنے سے سربجیت سنگھ کی موت واقع ہو گئی۔
جیسا کہ عرض کیا گیایہ واقعہ اِنسانی نقطہ نگاہ سے نہ صرف ایک نہایت ہی
گھناؤنا اور تکلیف دہ واقعہ ہے ، بلکہ دو پڑوسی ممالک کے باہمی تعلقات کے
سدھار کی طویل جدو جہد کو شدید نقصان پہنچانے والابھی ہے۔اِس وقت ہم اِسلام
کی نام لیوہ مملکت کی طرف دیکھتے ہیں تو ہماری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کہ یہ
اُسی آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین” اِسلام“کی بات کرتے
ہیں، جنہوں نے قیدیوں سے نیک سلوک کے فقید المثال نمونے پیش فرمائے تھے۔
اور اِن ہی قیدیوں کو اساتذہ کا مقام تک عنایت فرمایا تھا اور جو کم پڑھے
لکھے صحابہؓ کو پڑھنا لکھنا سکھانے پر مامور تھے۔جس سر زمین سے نظامِ
مصطفےٰ کے قیام کے غلغلے بلند ہوتے ہیں اور ناموسِ مصطفےٰ کے لیے سر دھڑ کی
بازی لگا دینے کے جہاں سے دعوے بلند ہوتے ہیں، وہاں سے اگر اِس نوع کے
واقعات کی چیخیں ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہیں توایک مسلمان کا تڑپ اُٹھنا
فطری امرہے ، چاہے ہو کسی مقام کا رہنے والا کیوں نہ ہو۔
لیکن ، یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ پاکستان کا اجتماعی ضمیر شاید ابھی مرا
نہیں۔ ایکSilver Liningاب بھی باقی ہے ۔ اِس لیے کہ ہم پاک میڈیا پر نظر
ڈالتے ہیں تو اطمینان کا احساس ہوتا ہے کہ حق گوئی کی خو سے یہ ابھی خالی
نہیں ہوا ہے۔آئیے ،یہ معلوم کرتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا کا کیا رد عمل ہے۔
من جملہ پاکستانی میڈیا سے یہ بیان پوری قوت کے ساتھ اُبھرآیا ہے کہ سربجیت
کا قتل دونوں پڑوسی ممالک کے دوطرفہ تعلقات پرگہرے اثرات ڈالنے کا زبردست
محرک ثابت ہو سکتا ہے،اِس لیے دونوں جانب کے اہلِ اِقتدار کو ایسے قابلِ
مذمت واقعہ کی تہہ میں جا کرحقیقت معلوم کرنی چاہیے اور اِس قتل کے مرتکبیں
کو کڑی سے کڑی سزا دی جانی چاہیے۔ بہر کیف ہر پاکستانی اخبار میں اِس واقعے
کی شدید مذمت کی گونج صاف سنائی دیتی تھی۔مثلاً،
”ایکسپریس ٹرائے بیون“ نے اِن درد ناک الفاظ میں اِس تکلیف دہ واقعہ کی
مذمت کی ہے:”۲۲ سال ۸ماہ اور۳ دن تک پاکستانی جیل میں قیدمیں گزارنے کے
بعدسربجیت سنگھ آج اپنے وطن لوٹ گیا ، لیکن اپنے خویش و اقارب سے دوبارہ
ملنے کے لیے نہیں بلکہ اِن کے ہاتھوں دفن ہونے کے لیے۔“،اِسی اخبار نے اپنے
اداریہ میں مزید لکھا ہے کہ :” سربجیت کی حفاظت اور سلامتی کی ذمہ داری
پاکستانی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔بات صرف اتنی سی نہیں کہ جیل میں اُن ساتھی
قیدیوں کے جر م کے پیچھے بھاگ دوڑ کی جائے، جنہوں نے سربجیت پر جان لیوا
حملہ کیاہے، بلکہ جیل کے حکام کے خلاف بھی ایک دستِ آہن کے اِستعمال کی
ضرورت ہے۔ “اخبار نے متنبہ کیا کہ اِس واقعہ سے دونوں ممالک کے دوطرفہ
تعلقات شدید طور پر متاثر ہو سکتے ہیں۔اِس سے بچنے کے لیے دونوں ممالک کے
درمیان ڈپلومیٹک مسائل کے حل کا ایک ہی راستہ ہے کہ موثر چھان بین کی
جائے۔گو کہ یہ بات صاف نہیں کہ یہ منصوبہ بند حملہ تھایا نہیں،تاہم یہ
واقعہ اِنتہائی گہری تشویش کا حامل ضرور ہے، کہ جس ہندوستانی قیدی کو لاحق
جان کے خطرے کے بارے میں،اُس کے وکیل نے متعدّد بار خبردار کیا تھا ، اُسے
بڑی بے رحمی سے مارا پیٹا گیا اور یہی حملہ اُس کی موت کا پیش خیمہ ثابت
ہوا۔
اِسی طرح ”دی نیوز“نے اپنے ادارئیے میں لکھا ہے:”سربجیت سنگھ کی ایک طویل
المدت قانونی لڑائی پر مشتمل کہانی کا نتیجہ ایک درد ناک المیے کی شکل میں
سامنے آیا۔اُس کی رہائی کے لیے کی جانے والی مہم جوئی کا طفیل ہے کہ اُس کی
سزائے موت متعدد بار ملتوی ہوتی رہی۔تاہم اِس امر کی تحقیق ضروری اور اہم
ہے کہ سربجیت کو بہتر سیکوریٹی کیوں فراہم نہیں کی گئی، جبکہ کسی ہندوستانی
قیدی کا یہ کوئی پہلا کیس نہیں تھا، جسے جیل میں زد و کوب کیا گیا ہو۔“دی
نیوز آگے لکھتا ہے:”بلکہ ڈپلومسی اور سیاست سے اوپر اُٹھ کر دیکھا جائے تو
یہ درد ناک حقیقت سامنے آ تی ہے کہ ایک اِنسان کو ایک تکلیف دہ انجام سے
دوچار کر دیاگیا۔“۔”اگرچہ متوفی سربجیت کو ”چھان بین “سے اب کوئی فائدہ
پہنچنے والا نہیں ہے،لیکن کم از کم اِنصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تو
اِس معاملے کی چھان بین ضرور کی جانی چاہئے۔“
”دی ڈان“ اخبار نے بھی اپنے اداریے میں یہی سوال اُ ٹھایا ہے کہ” جان کی
دھمکیوں کے درمیان ہندوستانی شہری کو بہتر تحفظ کیوں فراہم نہیں کیا گیا؟یہ
ایک خطرناک بیماری ہے جس میں پاکستان بار بار مبتلا ہوتا رہاہے اور وہ یہ
کہ جس وقت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، اُس وقت وہ غفلت برتتا ہے اور جب
معاملات خراب ہو جاتے ہیں تو وہ پیوندکاری کی بے سود سرگرمیوں میں مصروف ہو
جاتا ہے۔ ”ڈان“ نے پاکستان کی گنجان جیلوں کے ریفارم کی آواز اُٹھاتے ہوئے
لکھا ہے کہ سربجیت کا کیس سیاسی اور ڈپلومسی کی نزاکتوں کے اعتبار سے ایک
بالکل جدا گانہ نوعیت کا حامل معاملہ تھا۔”سوال یہ ہے اور جس کا جواب جیل
کے حکام کو دینا ہے، وہ یہ ہے کہ سربجیت سنگھ کوPrisoner at Riskکا مقام
کیوں نہیںدیا گیا۔ اگر جیل کے حکام چاق و چوبند ہوتے توشاید آسانی سے اِس
حملے کو ٹالا جا سکتا تھا۔بہر کیف پاکستانی میڈیا کی طرح کیا پاکستانی عوام
اور حکمران بھی اِن جذبات کو اپنے سینوں میں موجزن پاتے ہیں؟یا اِن کی
آنکھوں پر ہندوستان دشمنی کی سیاہ پٹی اب بھی اور آئندہ بھی انہیںاپنے
داعیانہ فریضے کی ادائیگی سے غافل رکھے گی۔؟
ایک پڑوسی ملک کے ساتھ دورانِ تقسیم ِ ملک بھی اور ما بعد تقسیم کے سارے
عرصے میں بھی حالت جنگ کی کیفیت میں رہنا،کیا ان دونوں ممالک کے لیے،
اِنسانی یا مذہبی دونوں اعتبارات سے، کیا فائدے کا سودا ہے؟خصوصاً پاکستانی
مسلمانوںکو کیا کتاب اللہ میں موجود یہ الفاظ :”والصلح خیر“(صلح ہی میں
ہمیشہ باعثِ خیر ہوا کرتی ہے).... کبھی نظر نہیں آتے؟ کیا قرآن شریف کی
سورہ انفال(۸) کی یہ آیتیں کیاپاکستان کے ہمارے مسلم بھائیوں کی نظروں سے
کبھی نہیں گزرتیں، جن میں کتنے واضح الفاظ میں کامیاب Bilateral
Diplomacyکا ایک شاندار نسخہ پیش کیا گیا تھا؟آیت کی ترجمانی ملاحظہ
ہو:”اوراگر( تم سے بر سرِ پیکار اقوام)صلح و سلامتی کے مقصد سے(تمہاری طرف)
جھک جائیں تو (تم بھی) صلح و سلامتی کی طرف جھک جاﺅ، اور (کسی اندیشہ ہائے
دور دراز میں گرفتارہوئے بغیر)توکل علیٰ اللہ کی روش اِختیار کرو،بلاشبہ
وہ(تم دونوں اقوام کا رب ہے جو) سمیع بھی ہے اور علیم بھی۔پھراگر وہ دھوکہ
دینے پر تُل جائیں تو بے شک اللہ تمہارے لیے کافی ہے، وہی، جس نے اپنی نصرت
کے ذریعہ اور مومنین(کی جمعیت کے ذریعہ)تمہیں زور بخشا ہے۔“(62،61)۔
پھرکیا وہ حدیثیں بھی بھلائی جا چکی ہیں جن میں قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک
کا حکم موجود ہے؟ |