آہ!!!!............لیاقت اب ہم میں نہیں رہا

حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے "الموت لیس منہ الفوت" موت سے کوئی نہیں بھا گ سکتا.پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لخت جگر آپ علیہ السلام کی آغوش مبارک میں ہیں.اور ان کے آخری لمحات شروع ہیں.اللہ کے نبی علیہ السلام نظریں ٹکائے اپنے فرزند ارجمند کو دیکھے جار ہے ہیں.ادھر ابوجہل چوک میں مشرکین مکہ کو جمع کر کے خطاب کر رہا ہے کہ نعوذ باللہ اب یہ ابتر ہو گیا ہے اسکی کوئی نرینہ اولاد نہیں رہی اور اسکی نسل آگے نہیں چل پائے گی.اسکا سلسلہ یہی ختم ہو جائے گا ایک بار پھر دنیا پر ہمارا راج ہو گا.ہر طرف ہم ہی ہم ہوں گے.اس پر سورت الکوثر نازل ہوئی اور ان شانئک ھو الابتر کے الفاظ میں ابو جہل کے اس فعل کی شدید مذمت کی گئی . ادھر اللہ کے نبی کے لخت جگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں دم چکے تھے. رحمت والی آنکھوں سے گویا سیل رواں جاری تھا.اس پر صحابہ کرام علیہم رضوان نے استفسار کیا یا رسول اللہ آپ بھی روتے ہیں؟ اس پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جسکا مفہوم ہے کہ یہ تو شفقت پدری ہے جو ہر باپ کی اپنی اولاد کے لیے ہوتی ہے.سرور کائنات کا مدعا یہ تھا کہ آنکھوں سے آنسو جاری ہونا تو ایک فطری عمل ہے مگر بین کرنا,گریبان پھاڑنا,ایمان بالقدر خیر و شر کو جھٹلانا حرام اور ناجائز عمل ہے اور اسکی ممانعت مستقلا دوسری احادیث میں وارد ہوئی ہے.

جب کوئی جوان آدمی اللہ کو پیارا ہو جائے تو اسکے پسمندگان کو جو دکھ ہوتا ہے اس کا ادراک وہی کر سکتے ہیں.کیونکہ روزمرہ زندگی میں ایسا بہت کم ہوتا ہے عادتا لوگ ایک مخصوص عمر طے کرنے کے بعد ہی داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں. آپ کے ساتھ رہنے والا کوئی شخص اگر موت کی پرخارگھاٹی کی نظر ہو جائے تو اس پر جو دکھ اور تکلیف ہوتی ہے وہ ناقابل بیان ہے. ہو کا عالم چھا جاتا ہے.اچھے اچھےمرغن کھانے سے دل بھر جاتاہے.وجود بھاری ہو جاتا ہے.کلیجہ منہ کوآتاہے.دل خفا ہو جاتا ہے.بسا اوقات تو عقل و دانش بھی چھن جانے کا خطرہ ہو تا ہے.طبعیت میں چڑچڑاپن آجاتا ہے.یاد ماضی عذاب ہے یارب کی دعائیں لب پہ تمنا بن کر آنا شروع ہو جاتیں ہیں.دنیا کی رعنائیاں,چمک دمک,فصل گل تک بھی دھندلکوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں.پرندوں کی چہچاہٹ تک کی مترنم سریں بے سری اور بے ذائقہ بن کر رہ جاتی ہیں.دل حقیقت انسان کی طرف مائل ہونے لگتا ہے.اپنی تمام سرگرمیاں معطل کرنے کو جی چاہتا ہے.روح کی غذا کا سامان کرنے کو دل کرتا ہے.مستغرق فی اللہ ہونے کا احساس ہونے لگتاہے.گہرے رنگ پھیکے اور بے ذوق سے ہونے لگتے ہیں.

بھائی لیاقت کی جب یاد آتی ہے تو دل خون کے آنسو روتاہے اسکی سنگت کا ایک ایک پہلو ویڈیو کی طرح آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے.انمٹ نقوش ہیں جو بھلائے نہیں بھولتے. محبت,خلوص,راست گوئی,حق بات سر بازار کر دینا,گاوں کی عزت و بڑھوتری کے بابت اصلاح احوال کے مشورے دینا, بہادری, دلیری, خوداری,ایثار وقربانی,مہمان نوازی,مل جل کر کام کرنے کا جذبہ اوردوستوں کے ساتھ اچھائی کرنا وغیرہ جیسی خصوصیات اسی کے ساتھ خاص تھیں.چست وپھرتیلا یہ نوجوان اپنے اندر ایک احساس ضیاع رکھتا تھا.آج بھی وہ کنیاٹ کے چشمے پر غسل کے لیے تولیہ لیے جاتا دکھائی دیتا ہے. آجکل کے لڑکوں کی طرح وہ چھچھورے پن و شعبدہ بازی سے بالکل نالاں تھا.والدین کا حد درجہ مطیع و فرماں بردار تھا.اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنا اس کے نزدیک ایک زمیندار کی شان تھی. وہ کھیتوں کا رکھوالا,ثقافت کا امین,محنت شاقہ کا عادی اور سوھنی دھرتی کا ایک عظیم سپوت تھا-

پہاڑی علاقے میں رہتے ہوئے اس نے ہر وہ کام کیا جسے آجکل کے نوجوان لڑکے عموما اور لوگ خصوصا بھا گ کر شہر چلے آتے ہیں.وہ ایک غریب کا بیٹا ہونے کی وجہ سے حالات کا مخصوص اقتصادیات کا شکارتھا جسکی وجہ سے اچھی تعلیم حاصل نہ کر پایا گھر کے کاموں میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا اس کی گھٹی میں پڑا تھا.وہ گاوں کے ترقیاتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا اور امداد باہمی کا علمبردار تھا ہر آڑے وقت میں لوگوں کے کام آیا کرتا تھا.میں نے کبھی اس کو کسی بڑے سے الجھتے نہیں دیکھا.جب بھی دیکھا اسے مسکراتے دیکھا.جب بھی اس سے کسی بہبودی کام بابت مشورہ مانگا تو اس نے لبیک کہا."ہم آپ کے ساتھ ہیں.یہ ہمارا گاوں ہےہم ملکر اسکی بہبود کر سکتے ہیں لوگوں کے کام آ سکتے ہیں......." جیسے خوشنما الفاظ اسکی زبان پر ہوا کرتے تھے.

اس کی عمر بمشکل 24کے قریب ہو گی جب اس کے والد محترم نے دھوم دھام سے اسکی شادی کی اور کسی کو یہ محسوس تک نہ ہوا کہ وہ کسی کم آمدنی والے باپ کا بیٹا ہے.اس کے والد محترم انتہائی خودار,صلح جو,منصف مزاج اور عزت دار سفید پوش انسان ہیں اللہ ان کو لمبی عمر دے.ان سے جب بھی ملاقات کا موقع ملتا ہے دل باغ باغ ہو جاتا ہے.ایک فرحت سی محسوس ہوتی ہے.شاید اسی لیے کہ وہ ہمارے بزرگ ہیں اور باہمت انسان ہیں.برادرم لیاقت کو شادی کے دو سال بعد اچانک کینسر کی مہلک بیماری نے آ لیا.چنانچہ اسے پہلے پہل ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی لے جا یا گیا.بقول ڈاکٹر عمار نثار" اسوقت مریض 50فی صد کینسر میں مبتلا ہو چکا تھا".ڈاکٹروں نے آپریشن کا کہا بوجوہ آپریشن نہ ہو سکا.چنانچہ کمبائینڈ ملٹری ہسپتال راولپنڈی سے اسے کیمیوتھراپی کی گئی.مخصو ص مالی حالات کے باوجود بیش قیمت ادویات استعمال ہوئیں مگر بھائی لیاقت جانبر نہ ہو سکا. شدید درد میں مبتلا رہا. اس کا کھانا مکمل طور پر بند ہو گیا.جو کھاتا وہ قہ ہو جاتا.کم و بیش دو سے اڑھائی ماہ بستر علالت پر رہااس دوران اس نے بہت تکلیف جھیلی.راولپنڈی میں علالت کے دوران اس نے والد صاحب سے گھر لے جانے کا مطالبہ کیا.چنانچہ اسے گھر لے جا یا گیا.گھر میں کچھ دن رہنے کے بعد اسے واپس راولپنڈی لے جایا گیا.مگر 4 مئی 2013کو داعی اجل کو لبیک کہہ گیا.ان للہ و ان الیہ راجعون.اس نے پسمندگان میں ایک بیوی,دو بھائی اور والدین چھوڑے.سارمنڈل کی تاریخ میں ہماری زندگی میں بلکہ کئی لو گوں کی زندگی میں یہ پہلی دفعہ تھا کہ ایک طرف دو جنازے تھے اور دوسری طرف دو شادیاں تیار تھیں......اللہ بھائی لیاقت کو غریق رحمت کرے اسے جنت الفردوس میں اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے.....آمین...اس موت کو الفاظ میں بیان کرنا راقم کے بس میں نہیں....بس دل سے ایک آواز آتی ہے ....آہ !!!..........لیاقت اب ہم میں نہیں رہا ..........!!!!
عبدالباسط فاروقی
About the Author: عبدالباسط فاروقی Read More Articles by عبدالباسط فاروقی: 2 Articles with 2703 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.