آج اگر کسی کی ارینج میرج ہوجائے تولوگ اسے دقیانوسی خیال
کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ والدین بھی اس بات کو سمجھنے لگے ہیں کہ زندگی بچوں
نے گزارنی ہے اس لیے ان کی پسند کو اہمیت دینی چاہیے-
ثانیہ اور عاصم کے درمیان سرد جنگ کاآغاز کئی روز پہلے ہی ہوچکا تھا جب
عاصم نے دبے الفاظ میں ثانیہ کو جاب کرنے سے منع کردیا تھا لیکن اس خاموش
سرد جنگ نے جب لفظوں کاروپ اختیار کیا تو دونوں کی آوازیں گھر کے درودیوار
پھلانگ کر بیرونی گیٹ سے باہر جارہی تھیں۔
عاصم میں نے آپ کو صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ میں جاب نہیں چھوڑ سکتی۔
شادی سے پہلے تو آپ کو جاب کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اب بیٹھے بٹھائے
بلاوجہ ناراض کیوں ہورہے ہیں۔ ثانیہ غصے میں بولی۔ دیکھو پہلے بات اور تھی
لیکن اب میری فیملی والے تمہاری جاب کرنے کو پسند نہیں کرتے‘ عاصم نے کہا۔
شادی میں نے تم سے کی ہے‘ تمہاری فیملی سے نہیں جو ان کے اعتراضات کی فکر
کروں اور اپنی تعلیم ضائع کروں میں نے اتنی بڑی ڈگری گھر بیٹھنے کیلئے حاصل
نہیں کی تھی۔ ثانیہ کو اس کے بلاوجہ اعتراض پر شدید غصہ آرہا تھا۔ پہلے تو
اسے سمجھنے کے پہلے سے دعوے کرتا تھا۔ اب فیملی کے سامنے پتہ نہیں کیوں
بھیگی بلی کی طرح رہتا ہے۔
مجھے پتہ ہے تم شروع ہی سے اتنی ضدی اور ہٹ دھرم ہو‘ تمہارے سامنے شوہر اور
اس کی عزت سے زیادہ جاب کی اہمیت ہے۔ اب عاصم کو بھی غصہ آگیا تھا اور
دونوں کی بحث طول پکڑ رہی تھی جبکہ فیملی اور محلے والے تماش بینوں کی طرح
سے اس محبت کی شادی کو زوال پذیر ہوتے دیکھ رہے تھے۔ عاصم اور ثانیہ نے
بزرگوں کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی اور دونوں میں مصلحت آمیزی کی کوئی
گنجائش نہیں نکل رہی تھی کیونکہ اس قسم کے جھگڑے روز ہی کھڑے ہوتے تھے۔
ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ لڑکی اور لڑکے کی
پسند سے کی ہوئی شادی بھی کسی نہ کسی وجہ سے ناکام ہوجاتی ہے۔ ایک زمانہ
تھا کہ فریقین کی اپنی مرضی اختیار کرنے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا
تھا حالانکہ وقت گزرنے کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا کی بدولت حالات میں بڑی
تیزی سے تبدیلی آئی ہے جہاں بہت سی دوسری چیزوں کو نئی نسل نے پرانا قرار
دے دیا۔ وہاں شادی بیاہ کے معاملات میں بھی نوجوان نسل کی پسند کو اہمیت دی
جانے لگی۔انہی بدلتی ہوئی معاشرتی اقدار کے پیش نظر والدین کی سوچ میں بھی
کسی حد تک تبدیلی واقع ہوئی‘ پہلے بچوںکے رشتے ناطے طے کرنے کے سلسلے میں
والدین کی پسند وناپسند کومحترم سمجھا جاتا تھا اور ان کی زندگی کے اہم
فیصلوں کا اختیار والدین اور گھر کے بزرگوں کو ہی حاصل تھا اگر ایک دو
واقعات ایسے ہو بھی جاتے کہ بچے اپنی مرضی کرلیں تو انہیں معاشرے میں معیوب
نظروں سے دیکھا جاتا تھا اور عموماً اس طرح کے جملے سننے کو ملتے تھے کہ
”نئی نسل کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے ایک ہمارا زمانہ تھا ہم والدین کے سامنے
زبان تک نہیں کھولتے تھے جبکہ موجودہ نسل ہر معاملے میں اپنی مرضی کی مالک
ہوتی جارہی ہے۔“
80,70 کی دہائی میں کسی حد تک مڈل کلاس میں بھی پسند کی شادی کا رواج زور
پکڑ رہا تھا اور یہ وہ دور تھا جب پسند کی شادی کارواج عام ہوتا جارہا تھا
اور کسی حد تک والدین نے اسے قبول کرنا شروع کردیا تھا لیکن اکیسویں صدی
میں داخل ہونے کے بعد پسند کی شادی کا رواج اتنا بڑھ گیا ہے کہ آج اگر کسی
کی ارینج میرج ہوجائے تولوگ اسے دقیانوسی خیال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ والدین
بھی اس بات کو سمجھنے لگے ہیں کہ زندگی بچوں نے گزارنی ہے اس لیے ان کی
پسند کو اہمیت دینی چاہیے اور ویسے بھی ارینج میرج میں میاں بیوی کی ناچاقی
کی صورت میں یا خاندانی لڑائی جھگڑوں کی صورت میں والدین ہی مورد الزام
ٹھہرائے جاتے تھے جبکہ لو میرجز میں اگر دونوں فریقین کی آپس میں نہ بنے تو
والدین یہ کہہ کر بری الذمہ ہوتے ہیں کہ تم نے اپنی مرضی کی تھی اب جیسے
بھی حالات ہیں ان کے ذمہ دار بھی تم خود ہو۔
مذہب اور پسندیدگی
تعلیم نے نوجوانوں کو یہ شعور دیا کہ وہ اپنی زندگی کے معاملے میں خود
مختار ہیں اور ہمارے مذہب اسلام نے بھی ہر شخص کی ذاتی زندگی کے حوالے سے
اس کی پسند کو ترجیح دی ہے۔ اپنے حقوق کی آگہی سے نوجوان نسل کو والدین کے
سامنے اپنے حقوق کی آزادی اور پسندیدگی کا احساس دلایا اور آج کے دور میں
بہت حد تک والدین اس بات کو سمجھ گئے ہیں کہ شادی بے شک دو خاندانوں کا
ملاپ ہے لیکن اس میں مرکزی کرداروں لڑکا اور لڑکی کی پسند کو ضرور اہمیت
دینی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں
کہ خاندان والوں کی ناچاقی کے باوجود لڑکا اور لڑکی کی پسند کے باعث شادی
ہوجاتی ہے لیکن ایسی شادی بعض صورتوں میں تو کامیاب ہوجاتی ہیں لیکن بعض
صورتوں میں خاندان والوں کی باہمی چپقلش اور دیگر منفی عناصر کی بدولت
نتائج مثبت نہیں نکلتے۔
لومیرجز ناکام کیوں؟
والدین کی رضامندی‘ رشتہ داروں کی ناچاقی اور اس طرح کے درپیش دیگر رکاوٹوں
کو عبور کرنے کے بعد ہونے والی شادی بھی ناکام کیوں ہوجاتی ہے۔ اہم مسئلہ
یہ ہے کہ جب دونوں فریقین ایک دوسرے کو پسند کرنے کے بعد سوچ سمجھ کر شادی
کا فیصلہ کرتے ہیں تو آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ پسند اور مرضی سے کی
جانیوالی شادی بھی ناکام ہوجاتی ہے۔ محبت کے تحت کی جانے والی شادیوں میں
سے 50 فیصد سے زائد شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں اور ان میں سے اکثر کی مدت ایک
سال یا چند ماہ سے بھی کم ہوتی ہے۔ ہمارے سامنے بہت سی معروف شخصیات ایسی
ہیں جن کی شادی کچھ عرصے بعد ہی ناکام ہوجاتی ہے اور پھر وہی فریقین جو ایک
دوسرے کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی پر اتر
آتے ہیں اور ایک دوسرے کی دل کھول کر برائیاں کی جاتی ہیں۔ ایک دوسرے کیلئے
دلوں میں موجود محبت نفرت کا روپ اختیار کرلیتی ہے اور بعض اوقات میں تو
دونوں فریقین کسی نہ کسی طرح زندگی کی گاڑی کو دھکیلتے رہتے ہیں لیکن بعض
اوقات حالات بالکل برداشت سے باہر ہوجاتے ہیں اور اتنے ارمانوں اور خواہشات
سے کی جانے والی شادی کا نتیجہ علیحدگی کی صورت میں نکلتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ ہوتا یہ ہے کہ جب دونوں فریقین ایک دوسرے
کو پسند کرنے کے بعد شادی کے مضبوط بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو مرد حضرات
ساری ذمہ داری عورت پر ڈال دیتے ہیں کہ تمہیں اپنی فرمانبرداری اور سلیقہ
شعاری سے نہ صرف میرے والدین کا دل جیتنا ہے بلکہ ان کے ہر ظلم وستم کو خوش
اخلاقی سے برداشت کرنا ہے اور دوسری طرف والدین اور دیگر اہل خانہ اس میں
اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں کہ ان کے لڑکے نے والدین کی اور بہنوں کی پسند کو
کوئی اہمیت نہیں دی اور شادی کے معاملے میں اپنی مرضی کی بلکہ وہ اکثر لڑکے
کی بجائے آنیوالی بہو کو اس قسم کے طعنوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان حالات میں
اگر بیچار ی لڑکی شوہر سے شکوہ کرتی ہے تو الٹا اسے سمجھوتہ کرنے اور حالات
کا مقابلہ کرنے کا لیکچر دیا جاتا ہے جبکہ اس قسم کا سمجھوتہ دل سے نہیں
حالات سے کیا جاتا ہے اور حالات کے تحت کیا ہوا سمجھوتہ زیادہ سے زیادہ ایک
دوہفتے ہی چلتا ہے اور لڑائی کا کوئی نیا پہلو نکل آتا ہے اور بیچاری
سمجھوتہ کرنے والی لڑکی کا ضبط بھی جواب دے جاتا ہے اور روز کی گھریلو
ناچاقی سے نہ صرف پورے گھر کاماحول ٹینشن کا شکار رہتا ہے بلکہ اکثر حالات
میں بات بڑھتے بڑھتے علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے۔اگر لڑکی مجبوراً ایسا کرتی
ہے تو اکثر والدین اسے یہی سمجھاتے ہیں کہ وہ اپنا گھر خراب نہ کرے اور جس
طرح ممکن ہو گزارا کرے جبکہ ایسی صورتحال میں مرد بھی کسی حد تک قصوروار
ہوتا ہے کیونکہ اسے سمجھ نہیں آتی کہ بیوی اور ماں میں سے کون صحیح ہے اور
کون غلط جب ماں کی سنتا ہے تو اسے بیوی غلط لگتی ہے اور بیوی کی باتیں سنتا
ہے تو اسے ماں غلط لگتی ہے اور قوت فیصلہ کی کمی ہوجاتی ہے۔
عبقری سے اقتباس |