پشاور کی شاہی باغ سبزی منڈی

پشاور کے شاہی باغ روڈ پر واقع سبزی منڈی نہ صرف ٹریفک پولیس کیلئے بلکہ اسی ایریا میں واقع میونسپل کارپوریشن کے اہلکاروں کیلئے اضافی کمائی کمانے کیلئے بہترین ذریعہ ہے- صبح تقریبا چار بجے سے پشاور کے مختلف مضافاتی علاقوں بشمول پھندو سردریاب پجگی رنگ روڈ سمیت پخہ غلام خزانہ اور چمکنی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے زمیندار گدھا گاڑیوں میں اپنی سبزی لیکر آتے ہیں اور یہاں پر فروخت کرتے ہیں جسے زیادہ تر شہرکے مختلف علاقوں میں کام کرنے والے دکاندار اور خصوصا حیات آباد اور پشاور صدر میں تجارت کرنے والے سبزی فروش ہی خریدتے ہیں-ڈپٹی کمشنر پشاور کے باہر سڑک پر ہونیوالے اس کاروبار سے نہ صرف تقریبا تین سو کے قریب غریب چھابڑی فروشوں کا روزگارچل رہا ہے اور وہ اپنے بچوں کیلئے حلال کمائی کررہے ہیں بلکہ اسی سبزی منڈی کے سبب ٹائون ون کے سپرنٹنڈنٹ سمیت ٹائون آفیسر ریگولیشن کے اہلکاروں کے گھروں میں سبزی اور بھتہ کے علاوہ اسی روڈ پر واقع ٹریفک ہیڈ کوارٹر کے اہلکاروں کیلئے بھی کمائی کا ذریعہ بن چکا ہے -اس سلسلے میں کی جانیوالی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ٹائون ون کے چار اہلکار جن میں ایک سپرنٹنڈنٹ بھی شامل ہیں روزانہ صبح پانچ بجے یہاں پر آکر ہر دکاندار سے سو روپے وصول کرتے ہیں اور تقریبا تین سو چھابڑی فروشوں کے علاوہ یہاں پر سبزی فروخت کیلئے گدھا گاڑی پر لانے والے افراد سے بھی یہی بھتہ وصولی کی جارہی ہیں-کھلے عام ہونیوالے اس کاروبار میںٹاون ون کے مختلف دفاتر کے ملازمین بھی اپنا حصہ وصول کررہے ہیںبلکہ اسی بازار سے ملنے والی مفت کی سبزی بھی ٹائون ون کے اہلکار دفاتر میں پکا کر کھاتے ہیں علی الصبح چار بجے سے نو بجے تک روڈ پر لگنے والی اس سبزی منڈی کے باعث لوگوں اور خصوصا طلباء و طالبات کو جو شہر سے پشاور کینٹ اور یونیورسٹی کی طرف جانا چاہتے ہیں انتہائی مشکلات درپیش ہوتی ہیں اور بعض اوقات اس بازار میں جھگڑے بھی اسی باعث ہو جاتے ہیں-

پشاور کے مختلف شہروں میں یہ واحدروڈ ہے جس پر ٹریفک پولیس کے چھ اہلکار ہر وقت موجود ہوتے ہیں حالانکہ صوبائی اسمبلی کے سامنے مصروف ترین روڈ پر بھی صرف دو ٹریفک اہلکار ڈیوٹی کیلئے کھڑے ہوتے ہیں شاہی باغ روڈپر اتنے زیادہ اہلکاروں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی کمائی اسی علاقے سے ہیں-اسی تحقیقاتی رپورٹ کے حوالے سے جب سڑک کنارے دکانداروں سے بات کی گئی تو زیادہ تر دکاندار ڈر کے مارے کچھ کہہ نہیں سکتے کیونکہ غربت نے انہیں اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتی پر بھی کھل کر بات نہیں کرسکتے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اگر انہوں نے اس حوالے سے بات کی تو پھر انہیں یہاں روزگار کے موقع نہیں ملے گا-یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان میں زیادہ تر چھابڑی فروش جو کہ زمین پر بھی سبزیاں فروخت کرتے ہیں کی عمریں چالیس سال سے زائد ہیں اور ان کی اسی روڈ پر سبزیاں فروخت کرتے ہوئے زندگی گزر گئی ہیں ا ن میں بعض چھابڑی فروشوں کے مطابق کئی مرتبہ ٹریفک اہلکار انہیں پکڑ کر لے جاتے ہیں اور انہیں اس بات سے ڈراتے ہیں کہ عدالت میں جرمانہ بھی ہوگا اور قید بھی گزارنی پڑے گی اسی باعث وہ ہیڈ کوارٹر کے باہر ہی ایک ہزار سے پندرہ سو روپے تک لیتے ہیں اور اسکی رسید بھی نہیں دیتے-کئی ایک ایسے بچے بھی یہاں پر کام کررہے ہیں جو کہ دوسرے اضلاع سے صبح سویرے آتے ہیں اور یہاں پر شام تک مزدوری کرتے ہیں بقول ان کم عمر افراد کہ ان کے والدین نے یہاں پر زندگی گزاردی اور بیمار ہوگئے اور اب مجبوری کے عالم میں یہاں پر مزدوری کیلئے آتے ہیں- شاہی باغ روڈ پر واقع سبزی منڈ ی میں تقریبا پندرہ سے بیس ایسے بچے اور بچیاں بھی روزانہ دیکھنے کو ملتی ہیں جن کی عمریں تعلیم حاصل کرنے کی ہیں لیکن غربت کی وجہ سے وہ شاپنگ بیگ لئے پھرتے ہیں کہ اگر کوئی اس بازار سے سبزی لے تو وہ انہیں شاپنگ بیگ فراہم کرتے ہیں ان بچوں کے بقول ان کی مزدوری سارا دن میں ستر اور سو روپے کے درمیان ہوتی ہیں-

شاہی باغ سبزی منڈی پر تحقیقات کے سلسلے میں جب وہاں دکانداروں سے بات ہورہی تھی تو اس وقت ایک آدمی سفید کپڑوں میں وہاں پر آیا جب اس نے راقم کو وہاں پر دیکھا تو وہاں سے فورا چلا گیا کچھ لمحوں بعد ایک چھابڑی فروش اسی جگہ پر آیا اور دکاندار کے ساتھ پڑے سبزی کے ایک بڑی بوری اٹھا کر لے گیا سفید کپڑوں میں آنیوالا اہلکار ایک پولیس آفیسر تھا جس کی لمبی داڑھی بھی تھی اور راقم نے اس کو شہر کے مختلف علاقوں میں ڈیوٹی کرتے ہوئے دیکھا تھا -بوری لے کر جانیوالے چھابڑی فروش سے جب معلومات کی گئی تو بقول اس سفید کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکار نے اسے ہدایت کی کی کہ وہاں پڑی سبزی کے بوری کو لیکر آئے کیونکہ اس کی چھٹی ہوئی ہے اور اب وہ گھر جا نا چاہتا ہے اور سبزی لیکر جارہا تھا یہی وہ سبزی کی بوری تھی جو اس نے اسی روڈ پر مختلف دکانداروں اور چھابڑی فروشوں سے اپنی وردی کے بل بوتے پر حاصل کی تھی -ایک حیرت انگیز اور دلچسپ بات کہ اسی روڈ پر بننے والا فلائی اوور بھی ٹریفک اہلکاروں کیلئے کمائی کا ذریعہ بن گیا ہے کیونکہ روڈ کنارے انہوں نے ون وے ٹریفک کا سائن بورڈ لگایا ہے تاہم جو لوگ /ڈرائیوربیس روپے دیتے ہیں توتبھی انہیں اسی روڈ پر ون وے کی خلاف ورزی کی بھی اجازت ہے- جب راقم نے سائن بورڈ اور روڈ پر چلنے والے غیر قانونی ٹریفک کی تصاویر لی تو وہاں پر موجود ٹریفک اہلکار آیا اور اس نے راقم کو چائے پانی کی آفر کردی جس پر راقم نے شکریہ کیساتھ معذرت کرلی-

سڑک کنارے سبزی فروخت کرنے والے چھابڑی فروشوں نے اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں پر سی سی پی او پشاور کو باقاعدہ دستخطوں سے درخواس بھی لکھ کر دیدی ہے جس میں مختلف اہلکاروں کے بارے میں شکایت کی گئی ہیں کہ ان سے بھتہ خوری میں یہی ٹریفک اہلکار ملوث ہیں پشاور پولیس کے سی سی پی او نے اس درخواست کو ایس ایس پی انوسٹی گیشن کو مارک کردی کہ اس کی تحقیقات کی جائے لیکن ابھی تک تحقیقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور ٹریفک اہلکار درخواست دینے والے چھابڑی فروشوں کو روزانہ تنگ کرتے ہیںکہ ان کے خلاف درخواست کیوں لکھ کر دیدی گئی ہیں سبزی منڈی میں مختلف سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے پر دکانداروں کا موقف ہے کہ پھندو روڈ سے لیکر اس سبزی منڈی تک آنیوالے ڈاٹسن گھوڑا گاڑی اور گدھا گاڑی سے مختلف روڈوں پر سو روپے بھتہ وصول کیا جاتا ہے اسی باعث قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ مہنگی سبزیاں بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں- راقم اس رپورٹ کے سلسلے میں جب سبزی منڈی میں گاڑی میں جارہا تھا اس وقت بذات خود ٹریفک اہلکار کو ٹیکسی ڈرائیور سے سو روپے لیتے ہوئے دیکھا جب راقم نے کوشش کی کہ متعلقہ ٹریفک اہلکار کی تصویر کھینچ لوں تو رخ تبدیل کرکے وہاں سے غائب ہوگیا اور راقم کے ڈیڑھ گھنٹے تک موجودگی کے باعث اپنی ڈیوٹی کیلئے روڈ پر نہیں آیا- راقم رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں روڈ پر موجود تھا کہ ایک ٹریفک اہلکار وہاں پر آیا بقول اس کے صحافیوں کے مزے ہیں- راقم نے بتایا کہ مزے کیسے ہیں چودہ سال صحافت میں گزارنے کے باوجود سائیکل تک نہیں کرائے کے مکان میں زندگی گزار رہے ہیں یہ کیسے مزے ہیں جس پر متعلقہ ٹریفک اہلکار نے جواب دیا کہ ہم ہر خدمت کیلئے تیار ہیں راقم کی طرف سے شکریہ کے جواب میں ٹریفک اہلکار نے جواب دیا کہ کسی بھی قسم کی خدمت کیلئے ہم تیار ہیں بس ہمارا خیال رکھیں چاہے کسی بھی مروانا ہی کیوں نہ ہو ہم اپنے بندے بھیج کر کام نکلوالیں گے اور پھر بعد میں طالبان کے کھاتے ہیں ڈال لیں گے اور آپ کا دشمن بھی ختم ہو جائیگا یہ وہ الفاظ تھے جو ٹریفک انسپکٹر نے راقم کے سامنے اداکئے اور راقم اس کا شکریہ ادا کرکے وہاں سے روانہ ہوگیا-

سبزی منڈی پشاور پر ہونیوالے تحقیقات کے دوران یہ پتہ چلا کہ اس سبزی منڈی کی اپنی ایسوسی ایشن ہیںجس کا صدر اور جنرل سیکرٹری بھی موجود ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ٹریفک پولیس سے لیکر میونسپل کارپوریشن کے اہلکاروں کے درمیان بھتہ وصولی کیلئے پل کا کردار ادا کرتے ہیں-ایک اہم عہدیدار کے بقول وہ ہر مہینے 20ہزار روپے میونسپل کارپوریشن پشاور کے ٹائون ون میں تعینات ایک بڑے افسر کے دفتر تک پہنچاتا ہے اور یہ سلسلہ کئی سال سے جاری ہیں اس سے قبل دوسرا اہلکار مہینے میں اپنا حصہ وصولی کیلئے آتا تھا-دلچسپ بات یہ ہے کہ سبزی منڈی کی چھابڑی فروشوں کیلئے کام کرنے والی ایسوسی ایشن کے انتخابات گذشتہ پانچ سالوں سے نہیں ہوئے اور پانچ سال سے ایک ہی کابینہ کام کررہی ہیں ایک اہلکار جوخود بھی سرکاری ملازم ہے اس ایسوسی ایشن کا عہدیدار ہے بقول اس کے وہ اپنے خرچے کیلئے دو سو روپے روزانہ ان غریب چھابڑی فروشوں کیلئے نکالتا ہے ورنہ ان کا مہینے کا کھاتا چل رہا ہے وہ ان چھابڑی فروشوں سے پیسے وصول کرکے ٹریفک پولیس اور ٹائون کے اہلکاروں کے پاس بھتہ پہنچاتا ہے اس کے باوجود بھی ان غریب چھابڑی فروشوں کو روزانہ تنگ کیا جاتا ہے -

اس تحقیقاتی رپورٹ کے دوران یہ بھی پتہ چلا کہ سڑک کنارے سبزیاں بیچنے والے یہ غریب چھابڑی فروش روزانہ تین سو سے پانچ سو روپے کے درمیان مزدوری کرلیتے ہیں-ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے اور کچھ ناخواندہ بھی ہے جن سے بعض محکموں خصوصا بے نظیر انکم سپورٹ کے امداد میں نام شامل کرنے کیلئے مختلف لوگوں نے ہزاروں روپے وصول کئے ہیں اور نہ تو ان کا نام بے نظیر انکم سپورٹ میں شامل ہوا اور اب یہی چھابڑ ی فروش اپنے پیسوں کیلئے بھی مزدوری کیساتھ ساتھ مختلف دفاتر کے چکر لگانے پر مجبور ہیں-اور کوئی ان کی آواز اور فریاد سننے کیلئے تیار نہیں- سب سے عجیب بات جو کہ اس سڑک پر تعینات صفائی کرنے والوں کی ہے کہ وہ صفائی اس وقت تک نہیں کرتے جب تک ان کا جیب گرم نہ کیا جائے یا پھر ان پر چائے قہوہ نہ پلایا جائے-سڑک کنارے چلنے والے پشاور شہر کے اس غیر قانونی سبزی منڈی کی انتظامیہ کے کاغذات میں کوئی حقیقت نہیں لیکن آدھ کلومیٹر پرمشتمل اس سبزی منڈی سے تقریبا تین سو روپے غریب چھابڑی فروشوں کا روزگار وابستہ ہیں اور وہ حلال کی کمائی اپنے بچوں کیلئے کررہے ہیں جبکہ ٹریفک پولیس اور میونسپل کارپوریشن میں تعینات اہلکاروں کیلئے اوپر کی آمدنی کا ذریعہ بھی ہے-بقول ان چھابڑی فروشوں کے اگر انہیں قانونی حیثیت میں کام کرنے دیا جائے اور جو بھتہ لوگ ذاتی حیثیت میں وصول کرتے ہیں اگر ان سے سرکار مد میں لیا جائے تو وہ بخوشی دینے کو تیار ہونگے کیونکہ اس سے جہاں انہیں باعزت روزگار ملے گا وہیں پر حکومت خیبر پختونخواہ کو اضافی آمدنی بھی حاصل ہوگی-

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 426271 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More