محنت ، ہمت اور جرات کا فقدان

وہ پیدائشی فنکار تھی۔ ہر وقت ڈرائنگ اور پینٹنگ اس کا مستقل مشغلہ تھا۔ پڑھائی میں اُسے بہت کم دلچسپی تھی۔ ماں اور باپ کی کوششوں کے باوجود وہ پڑھائی میں سنجیدہ نہ ہوئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ اُسے سکول سے نکال دیا گیا۔ سترہ (17)سال کی عمر میں والدین نے اُس کی شادی وارن نسمتھ (Warren Andrey Nesmith) سے کر دی۔ شادی کے چند دن بعد اس کا میاں محاذ جنگ پر چلا گیا اور وہ اکیلی رہ گئی۔ وارن نسمتھ کی غیر موجودگی میں 30دسمبر 1942ءکو اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ 1946ءمیں جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر اس کا میاں وارن جنگ سے واپس آیا مگر ناچاقی کے سبب دونوں میں طلاق ہو گئی۔ یہاں سے اُس کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا اُسے اپنے بیٹے کو ماں ہی نہیں باپ کے حصے کا پیار بھی دینا تھا۔ اُس نے بطور ٹائپسٹ ایک جگہ نوکری کر لی۔ اُس زمانے میں جبکہ عورتوں کے لیے ملازمتیں بہت محدود تھیں۔ ایک ٹائپسٹ کی نوکری اچھی شمار ہوتی تھی۔

اس کا باپ جو کسی کمپنی کا منیجر تھا 1950ءکے اوائل میں فوت ہو گیا۔ اس نے کچھ جائداد چھوڑی۔ یہ جائداد ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس (Dallas)میں تھی جہاں 23مارچ1924کو وہ پیدا ہوئی تھی۔ باپ کی وفات کے بعد وہ اپنی ماں مائیکل ، اپنی بہن یونی اور اپنے بیٹے میچل نسمتھ کے ساتھ ڈیلس (Dallas)منتقل ہو گئی۔ اپنے بیٹے کی بہتر پرورش کے لیے یہاں اُس نے ٹیکساس بنک میں ایگزیٹو سیکرٹری کے طو رپر ملازمت کر لی۔ وہ اس زمانے کے حساب سے عورت کے لیے بہت بڑا عہدہ تھا۔ اپنے فالتو وقت میں پینٹنگ کا مشغلہ اُس نے اسی طرح جاری رکھا۔

ٹائپنگ کے دوران اُسے ایک مشکل کا سامنا تھا کہ جب کبھی کچھ غلط ٹائپ ہو جاتا تو اسے مٹانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی مگر اُس محنت کے باوجود وہ لفظ پوری طرح مٹ نہ پاتا۔ اُن غلط ٹائپ کئے گئے الفاظ کو کیسے مٹایا جائے۔ ذہین نوجوان فنکارہ اور مصورہ بیٹی کلیر گراہم (Bette Claire Graham)کے ذہن میں خیال آیا کہ مصوری کے دوران کچھ غلط ہو جائے تو اُسے مٹانے کی بجائے اس پر رنگ کر دیا جاتا ہے۔ ٹائپ کی غلطیوں پر بھی کچھ ایسا ہی عمل کیوں نہ کیا جائے ۔ اس نے واٹر پینٹ لیا۔ اپنے دفتر کے کاغذوں جیسا رنگ لیا اور اپنے گھر کے باورچی خانے میں موجود بلینڈر کی مدد سے اُسے اچھی طرح ملایا اور اُس محلول کو غلطی والی جگہ پر استعمال کیا۔ اُس محلول کو بہتر اور کاغذ پر مستقل چپکانے کے لیے کسی کیمیکل کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے اُس نے اپنے بیٹے کے سکول جا کر اس کے کمیسٹری کے استاد سے بات کی اور اُس کے کہنے کے مطابق کچھ کیمیکلز اُس محلول میں استعمال کیے ۔ اس طرح بالآخر اس کا تجربہ کامیاب رہا۔ ٹائپ کی غلطی کو عام پنسل کے ربڑ سے مٹانا صرف بیٹی کا ہی مسئلہ نہیں تھا۔ یہ مشکل ہر ٹائپسٹ کو پیش آرہی تھی۔ چنانچہ اُس کے ساتھی ٹائپسٹوں نے بھی اس کا تیار کردہ محلول اس سے لینا شروع کر دیا۔ جلد ہی اس کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ بیٹی (Bette)نے پہلے اپنے بیٹے کو اور پھر ایک ایک کر کے بہت سے لوگوں کو ملازم رکھا ۔ بیٹی محلول تیار کرتی او روہ لوگ اُس محلول کو چھوٹی چھوٹی بوتلوں میں بند کرتے پھر اُن بوتلوں پر (Mistake Out)کا لیبل چسپاں ہونا شروع ہو گیا۔

چنانچہ (Mistake out) کے نام سے ایک کمپنی کی ابتدا ہو گئی اور 1956ءمیں یہ محلول باقاعدہ مارکیٹ میں آگیا۔ بعد میں اس کا نام بدل کر (Liquid Paper)رکھ دیا گیا۔1957ءتک اس کی 100سے زیادہ بوتلیں ماہانہ بکتیں تھیں۔ اسی سال ایک میگزین نے اُسے ایک شاہکار دریافت قرار دیا تو یکایک اس کی فروخت میں تیزی آگئی۔ اس دوران اُسے نوکری سے نکال دیا گیا مگر وہ خوش تھی کہ اب وہ اپنے کام کو پورا وقت دے سکتی تھی۔ اُسی سال جنرل الیکٹرک نے اُسے بہت بڑا آرڈر دیا۔ 1962ءمیں اس نے رابرٹ گراہم سے شادی کر لی جو اس کے کام میں اس کا ہاتھ بٹانے لگا۔ 1967ءمیں (Liquid Paper)ایک بڑی کمپنی تھی جس میں 20سے زیادہ ملازم کام کر رہے تھے اور کمپنی نے اُسی سال دس لاکھ سے زےادہ بوتلیں فروخت کیں۔

1975ءمیں (Bette) اور رابرٹ گراہم میں علیحدگی ہو گئی ۔ جس کے فوراً بعد بیٹی نے (Dallas) میں پنتیس ہزار (35,000)مربع فٹ پر کمپنی کے نئے ہیڈ کوارٹر کی بنیاد رکھی۔ اگلے سال کمپنی کا منافع 15لاکھ ڈالر سے زیادہ تھا اور اس کی پروڈکٹ دنیا کے 31ممالک میں فروخت ہو رہی تھی۔ 1976ءمیں اُس نے دنیا بھر کی عورتوں کی مدد کے لیے اےک چیرٹی کی بنیاد رکھی۔ 1979ءمیں جیلٹ کارپوریشن نے اس کا ادارہ 47.5ملین ڈالر میں خرید لیا۔ لیکن اُس کے رفاہی کاموں کو اسی کے بیٹے میچل نے جو ایک موسیقار اور مشہور فنکار ہے نے جاری رکھا۔ 12مئی 1980کو بیٹی (Bette)اس دنیا سے رخصت ہو گی۔ لیکن ایک عظیم انسانیت نواز خاتون کے طو رپر وہ آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔

بیٹی (Bette)کی داستان ہمت ، محنت ، اور جرات کی داستان ہے۔ پچھلی نسل میں بہت سے ایسے لوگ نظر آئیں گے مگر افسوس نئی نسل میں ہمت ، محنت اور جرات کا فقدان نظر آتا ہے۔ آج کے نوجوان طمع ، حرص اور لالچ کا شکار ہیں۔ اک نیا کلچر جنم لے رہا ہے اور شاید اس میں نوجوانوں کا بھی زیادہ قصور نہیں۔ نئے تعلیمی رجحانات کی بنیاد اخلاقی قدروں کی بجائے مالی قدروں پر استوار ہو رہی ہے۔ محنت کی بجائے تن انسانی، ہمت کی بجائے حالات سے سمجھوتہ اور کچھ کرنے کے لیے جرات کی بجائے سٹیٹس کو بہتر جانا چاتا ہے۔ حالات کی اس تبدیلی میں تعلیمی پالیسیوں ، میڈیا اور سیاسی فیصلوں کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ، لیپ ٹاپ کی مفت فراہمی اور بہت سے ایسے خوبصورت سیاسی فیصلے اگر اسی طرح ہوتے رہے تو یہ کلچر مزید پروان چڑھے گا اور آئندہ آنے والی نسلیں محنت ، ہمت اور جرات سے کچھ حاصل کرنے کی بجائے ہر وقت مراعات ہی کی طلب گار ہو کر رہ جائیں گی۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 452621 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More