کسی بھی ملک میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ
وہاں کے عوام کے حالات زندگی کو باقی دنیا تک پہنچانے میں وہاں کے مقامی
میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ اہم ہے پاکستانی میڈیا دور حاضر میں اتنا آزاد اور
خود مختار ہو چکا ہے کہ اس کا دائرہ اختیار ریاست کے ہاتھ سے نکل کر ان
میڈیا گروپس کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے جو یہاں کے مقامی میڈیا انڈسٹری پر
چھائے نظر آتے ہیں دوسرے الفاظ میں اگر کہا جائے کہ پاکستان کے میڈیا سے
یہاں کی حکومتیں بھی گھبرائی ہوئی نظر آتی ہیں تو بے جا نہ ہو گا ستر، اسی
کی دہائی میں جب یہاں صرف ایک چینل ہوا کرتا تھا اس وقت اخبارات ہی تھے جو
ملک کے عوام کے حالات و واقعات کو رپورٹ کرتے تھے اور لوگ سمجھتے تھے کہ
یہی وہ واحد سچا زریعہ ہیں جو کہ سچ کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں کیونکہ
واحد چلنے والا ٹی وی چینل تو حکومت کی سرپرستی کے بغیر چل ہی نہیں سکتا
تھا اس وقت میڈیا انڈسٹری اتنی فعال اور خود مختار نہیں تھی اور جو بھی
اخبارات حکومت وقت کے خلاف کچھ تھوڑی بہت لکھ دیتے تھے ان کو کڑی سزائیں
بھی دی جاتی تھیں کھبی ان کے اشتہارات کو بند کر دیا جاتا کھبی ان کے
ڈیکلیریشن کو مشکوق قرار دیا جاتا تھا غرضیکہ جیسا حکومت چاہتی ان میڈیا
مالکان کو تنگ کر کے اپنے حق میں کافی حد تک راضی کر لیتی تھے اس وقت کے
اخبارات ار جرائد کی بھی مجبوری ہوتی تھی کیونکہ اتنے قلیل سرمائے سے وہ
اپنا بزنس چلانے سے قاصر نظر آتے تھے مگر سابق دور میں میڈیا کو اتنی ترقی
ملی اور خصوصا الیکٹرانک میڈیا کو کہ آج کسی بھی واقع کی کوریج یکمشت سات
آٹھ چینل دکھا رہے ہوتے ہیں اس لحاظ سے آج کا میڈیا اس روائیتی میڈیا سے
بہت اگے ہے جو کہ ستر، اسی کی دہائی میں نظر آتا تھا اس کی وجہ سے وہ صحافی
کارکن جو ان میڈیا اداروں سے عرصہ دراز سے منسلک ہیں اور جن کے ٹی وی
چینلزان کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ ذاتی طور پر اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ
ان کی پاور اور ایک منسٹر کی پاور تقریبا برابر نظر آتی ہیں اور جن کے ایک
پروگرام سے کسی بھی حلقے کے عوام کا ذہن بدلا جا سکتا ہے اس خوبی کو دیکھتے
ہوئے بہت سے سیاسی لوگ اور حکومتی سطح پر ان صحافیوں کو اپنے حق میں کرنے
کے لئے وزارت اطلاعات ان کے لئے خصوصی مراعات کا انتظام کرتی ہے جس کی وجہ
سے یہ لوگ اپنے اپنے چینلز میں ان کے گن گاتے نظر آتے ہیں وزارت اطلاعات کی
طرف سے صحافیوں کو دیے جانے والے خفیہ فنڈز کا آج کل مقامی میڈیا میں بہت
چرچا ہو رہا ہے کیونکہ اس سے ملحق ایک کیس کے سلسلے میں عدلیہ میں سماعت ہو
رہی ہے اور قیاس ارائیاں کی جارہی ہیں کہ اگر یہ کیس پایہ تکمیل تک پہنچا
تو بہت سے ایسے لوگ سامنے آئیں گے جو اپنے پروگرام میں آکر خب الوطنی کا
درس دیتے نہیں تھکتے اور بعض ایسے ٹی وی چینلز کے نام بھی سامنے آنے کی
توقع ہے جو حکومت وقت کا ساتھ دینے کے لئے بھاری رقوم لیتے رہے ہیں اگر اس
کیس میں ان صحافیوں کے نام آ گئے جو کہ اپنے آپ کو محب وطن کہلوانے کے
شوقین ہیں تو لازمی طور پر ان کی شہرت کو دھچکا لگے گا جیسا کے اس سے پہلے
ملک ریاض کی طرف سے کروایا جانے والا پلانٹڈ انٹرویو کی آف دے ریکارڈ ویڈیو
منظر عام پر آگئی تھی اور جس کی وجہ سے بعض نامور صحافیوں کی سرعام رسوائی
ہوئی تھی اس کے بعد ڈاکٹر عامر لیاقت کا آف دی ریکارڈ،ریکارڈ کیا ہوا
پروگرام انٹر نیٹ کی زینت بنا اور خوب ہلا گلا ہوا تھا مگر دونوں واقعات کو
بعد ازاں سرد خانے کی نظر کر دیا گیا اور ان میں بدنام ہونے والے لوگ آج
کسی دوسرے چینل پر پہلے سے زیادہ معتبر نظر آتے ہیں بات ہو رہی تھی ان خفیہ
فنڈز کی جو چینلز یا میڈیا کے نمائندوں میں بانٹے گے اس سلسلے میں اعلیٰ
عدلیہ نے وزارت اطلاعات کو حکم دیا تھا کہ وہ ان جاری ہونے والے خفیہ فنڈ
کی فائل سپریم کورٹ میں پیش کرئے جس کے بعد اس کا جائزہ لیا گیاجس پر وزارت
اطلاعات کی خفیہ فنڈز کی دستاویزات پیش کردی گئیں اور معزز جج صاحبان کا
کہنا تھا فائل دیکھ کربظاہرلگتا ہے کہ میڈیا بکاؤ مال ہے اور ٹی وی پرڈرامہ
اور دکھاوا ہوتاہے عدالت میں وزارت اطلاعات کی جانب سے چار فائلیں پیش کی
گئیں جن کے متعلق کہاگیا کہ ان میں سیکرٹ فنڈز کے استعمال کی تفصیلات ہیں
اور ان کو عام نہ کیا جائے وزارت اطلاعات کے وکیل کا کہنا تھاکہ وزارت کا
ایک باقاعدہ بجٹ ہوتا ہے جس کا آڈٹ بھی ہوتاہے تاہم سیکرٹ فنڈز کی مد میں
ملنے والی رقم آڈٹ سے مستثنی ہے وزارت کے وکیل کا کہنا تھا کہ سیکرٹ فنڈز
میں سے ایک مد خصوصی پبلسٹی فنڈ کی ہوتی ہے جبکہ ایک ریجنل اسٹڈیز انسٹی
ٹیوٹ کیلئے ہوتی ہے معزز عدالت نے کہاکہ ان تمام چیزوں کو خفیہ رکھنے کا
قانونی جواز پیش نہیں کیا جاسکتاصرف چند باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق یہ کہا
جاسکتا ہے کہ یہ قومی نوعیت کی ہیں اور خفیہ رہنی چاہئیں عدالت سے ایک
درخواست گزار نے استدعاکی کہ وزارت اطلاعات کا سارا بجٹ اور اخراجات عام
کئے جائیں ان کا کہنا تھاکہ خصوصی پبلسٹی فنڈز کے تحت اربوں روپے جاری کیے
جاتے ہیں ان کی تفصیلات بھی سامنے لائی جائیں معزز عدالت کا کہنا تھا کہ
وزارت نے 200میں سے صرف 18اخراجات کو خفیہ رکھنے کی بات کی ہے عدالت کا
مزید کہنا تھا کہ جن امور کو خفیہ رکھنا اور جن کو عام کرنا ہے اس کا فیصلہ
دونوں اطراف کے وکلاء کو سن کر کیا جائے گااب جبکہ پورے پاکستان میں ہر
ادارے کا اختساب شروع ہو چکا ہے اورپاکستان میں تمام محکموں میں اختساب
رائج کرنے کی مخلصانہ کوششیں کی جارہی ہیں ایسے میں بعض ادارے جو اپنے آپ
کو اس اختساب کے ماورا سمجھتے ہیں ان میں سب سے اہم میڈیا ہے اس حوالے سے
ان اداروں کے ورکر اگر تو ایسی رقوم لینے میں ملوث ہوئے تو یہ کسی بھی طور
پر میڈیا کے لئے اچھا نہیں ہے کیونکہ اس سے ریاست کے ایک بنیادی ستون کے
بدنام ہونے کا خدشہ ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا مالکان ان
طاقتور صحافیوں کو ایسے کام کرنے سے روکنے میں کردار ادا کریں جو کہ
غیرقانونی طور پر تحفے تحائف یا نذرانے لیکر کسی ایک پارٹی کی طرف داری
کرتے نظر آتے ہیں ۔ |