یہ ہے مستقبل ہے پاکستان

ملکی انتخابات میں سیاست دانوں کی جانب سے ایک دوسرے کی ذاتی زندگیوں پر الزامات اور بیا نات سے پاکستانی عوام میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ گو کہ جمہوری عمل اپنے وقت پر مکمل ہوا ، لیکن ابھی تک سیاست دانوں میں شعور اور سیاسی بلوغت کی کمی کے ساتھ عدم برداشت کا مادہ بہ اتم پایا جاتا ہے۔انتخابات کے حوالے سے عوام کو خوش فہمی ہے کہ ایسی قیادت پاکستانی انصرام و انتظام کی بھاگ دوڑ سنبھالے گی جو ملک کو سیاسی اور معاشی ناہمواریوں سے نکالنے کےلئے سنجیدہ ہوگی ، لیکن ملک کی تین بڑی جماعتوں کی جانب سے اربوں روپوں کی اشتہاری مہم اور کھربوں روپوں کے جلسوں میں صرف عوام کے جذبات سے کھیل کر نا مناسب بیان بازیاں کیں جارہی ہیں جو آنے والے وقت میں اپوزیشن کے ذہنی معیار و برداشت کا نقشہ بھی پیش کر رہی ہے کہ جو جماعت بھی اقتدار کے بجائے اپوزیشن میں آئی اس کا لب و لہجہ کس قدر جمہوری ہوگا۔حالیہ تمام سیاسی جلسوں اور اشتہاری مہم سے اس بات کو تقویت مل رہی ہے کہ سیاست دان آئندہ باہمی مشاورت و اتفاق رائے کے بجائے کسی مخصوص طرز عمل کو ہی ترجیح دیں گے۔کسی بھی جماعت کی جانب سے عوام کو درپیش پیچیدہ صورتحال سے باہر نکالنے کےلئے ٹھوس منصوبہ بندی کا لائحہ عمل دینے کے بجائے اوچھے پن کے مظاہرے سے عوام کو شدید مایوسی ہوئی ہے۔سیاست دانوں کو ملکی حالات اور معاملات کی نزاکت کا ادرک کرتے ہوئے ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف ہم آواز ہوکر پاکستانی عوام میں حوصلہ اور امید کی کرن پیدا کرنی چاہیے تھی لیکن سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایسے اشارے دئےے جا رہے ہیں کہ اگر انتخابی نتائج ان کے تصور کے مطابق نہیں ہوئے تو یقینی طور پر مملکت میں ایک نیا بحران جنم لے گا۔ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کے جس قسم کے تاثرات منظر عام پر آئے ہیں ایسے قطعی طور پر پاکستان کو درپیش معاشی اور دیگر چیلنجوں کا حل قرار نہیں دیا جاسکتا۔نہ جانے سیاست دان اپنے بیانات میں جمہوری اقدار کی خاص ضرورت محسوس کیوں نہیں کرتے۔عوام کے خیال میں جس طرح سابقہ حکمران حکومت کی کارکردگی مایوس کن رہی اسی طرح موجودہ الیکشن مہم میں سیاسی جماعتوں کا کردار متشدد اور غیر جمہوری رہا ہے ۔الیکشن کے اس مرحلے پر جس طرح ملک کی دو سیاسی جماعتوں کو ٹارگٹ کیا گیا اس پر دیگر جماعتوں کی جانب سے خاموشی اس احساس کو جنم دے رہی ہیں کہ انھیں اس بات پر اطمینان ہے کہ اگر یہ صورتحال مزید جاری رہے تو خوف زدہ عوام سے اپنی مرضی کے افراد منتخب کرانے میں چنداں مشکلات نہیں ہوگی۔یہ فضا اگر اسی طرح قائم رہی تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آئندہ بھی یہی عناصر کامیاب ہونے والوں سے اپنے مطالبے منوانے کے لئے اس سے بھی سخت رویہ اختیار کرسکتے ہیں۔ایسے چند جماعتوں کی آرا نہیں بلکہ من الحیثت القوم کا فیصلہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر اس مرحلے پر مہم چلاتی سیاسی جماعتوں کا طرز عمل تبدیل نہیں ہوا تو پھر آنے والی حکومت کو اپنے تاریک مستقبل کی تصویر کو ابھی سے دیکھ لینا چاہیے۔سیاست دانوں پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے جلسے جلوسوں اور انتخابی مہم کے دوران ہر بات ناپ تول کر کہیں کیونکہ ان کی آرا کو جواز بنا کر عوام میں اشتعال انگیزی کا سبب پیدا ہونا خارج از امکان نہیں ہے اس ضمن میں یہ بات اہم ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ان جماعتوںکو بھی انتخابی دھارے میں لانے کی کوشش کرتیں ، جو اُن کی طرح اپنے اپنے صوبوں میں سیاسی انتقام کا نشانہ بن رہے ہیں۔اگر انھوں نے اپنی روش نہیں بد لی تو انتخابات کا انعقاد کا جہاں تک تعلق ہے تو ایسے انتخابات کے نتیجے میں مسائل مزید گھمبیر ہوجائیں گے اور پھر دیگر چھوٹی جماعتوں سے رابطوں کی مشق رائیگاں جائے گی ، کسی بھی قسم کا اصلاحاتی ایجنڈا کامیابی کا ضامن نہیں ہوگا ۔اور شطرنج کی بساط پر چلی جانے والی کسی بھی چال سے کامیابی کے امکانات معدوم ہونگے ۔ حقائق اتنے تلخ ، مسائل اتنے سنگین اور عوام کی پریشانیاں اتنی زیادہ ہیں کہ لوگ ان مصنوعی بہلاوے میں آنے کے لئے تیار نہیں ہیں دانشمندی کا تقاضا اور راستہ یہی ہے کہ تمام سیاسی حلقے ملک و قوم کے مفاد کےلئے ٹھوس اور اخلاقی طرز عمل کو اپنائیں۔ملکی یک جہتی ، قومی وقار اور عوامی مسائل کے حوالے سے عوام کو اپنے فلاحی و ٹھوس منصوبہ بندی سے آگاہ کرکے روشن پاکستان کی جھلک دیکھائیں،کیونکہ ان اقدامات کے حوالے سے عوام ان کا نقطہ نظر اور پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے ان کی حکمت عملی سے آگاہ ہونا چاہتی ہے ، انھیں سیاست دانوں کے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور دو یا تین جما عتوں کو انتخابی منظر نامے سے دور رکھنے کی پذیرائی سے کوئی سروکار نہیں ہے ، عوام معاشی مسائل اور حکمران بننے کے دعوے داروں کے دانشمندانہ فیصلوں پر نظر رکھے ہوئے ہے ان سیاست دانوں کو عوام کی صبر و ضبط کا امتحان لینے کے بجائے ایسے فیصلے کرنے چاہیں جو قوم کے مفادات کے عین مطابق ہوں ،نگراں حکومت سمیت تمام سیاست دان دانش و بصیرت کی آزمائش کے اس مرحلے میں جو فیصلے بھی کریں گے ، ان کے ملک ، سیاسی نظام اور خود سیاست دانوں کے مستقبل پر دور رس اثرات مرتب ہونگے۔اگران کا طرز عمل صرف اقتدار کے حصول تک ہر دیوار پھلانگنا ہے تو پھر یہ دیوار یں پہلے ہی اس قدر کمزور ہوچکی ہیں کہ انھیں معمولی سا دھکا بھی دے دیا جائے تو بغیر کسی لیل وحجت کے یہ ڈھیرہونے میں وقت نہیں لگائیں گی۔عوام کو اوچھے سیاسی نعروں کے بجائے منطقی اور حقیقت پسندانہ طرز عمل کی تو قع ہے ۔گو کہ امید تو یہی ہے کہ سیاست دان، جنگ و محبت میں ہر بات کو جائز سمجھنے کے اصو ل کو اپنا چکے ہیں ۔ ملک کے مستقبل کے حوالے سے اگر میری اپنی ذاتی رائے لی جائے تو غیر سنجیدہ سیاستدانوں کی موجودہ روش ملکی استحکام کےلئے نہاےت بھیانک اور تباہ کن ثابت ہوگی ۔آیندہ ملکی انتظام کا نقشہ حوصلہ افزا قرار نہیں دیا جا سکتا صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے۔کسی معجزے کےلئے !!

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 296157 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.