کوٹ ادو کی عالمگیر شہرت رکھنے والی قومی نشتna 176 پر
تین قومی رہنماex گورنر پنجاب وزیراعلی ملک غلام مصطفی کھرex چیر مین
ڈسٹرکٹ کونسل مظفرگڑھx mna<1997> eمیاں غلام عباس قریشی کے امریکن برانڈ
ارشد قریشی اور ہنجرا گروپ کے ملک سلطان ہنجراex ضلع ناظم ایسی قد اور
شخصیات قسمت یاوری کررہے ہیں۔ سیاسی پنڈت ارشد عباس قریشی کو مقابلے کی دوڑ
میں ہی شامل نہیں کرتے۔pp کے زر پرست16 اپریل تک ن لیگ کے دربار پر نوحہ
خوانی اور مرثیہ سوزی کرتے رہے مگر5 مرتبہ پارٹیاں بدلنے لوٹا کریسی کو
پروان چڑھانے کا ایوارڈ یافتہ میاں غلام عباس کو نواز لیگ نے لال جھنڈی
دکھا کر لیگ سے فارغ کردیا۔عباس قریشی نے اقتدار کی پیاس بجھانے کی خاطر
نوجوان لیڈر شبیر قریشی کے کنفرم ٹکٹ پر شب خون مارا۔ شبیر علی کی ٹکٹ عباس
قریشی کی سازشوں نوٹوں منافقتوں اور ڈالروں کے عوض منسوخ ہوئی۔ جیالوں pp
کے عہدیداروں اور شبیر علی کے شیدائیوں نے میاں ارشد اور میاں امجد پر نفرت
کی سنگ زنی کی۔ میاں عباس گروپ ٹکٹوں کی تقسیم میں ہیرا پھیری کی وجہ سے
عوامی عتاب کا نشانہ بن گیا۔ یوں ppکے امیدوار ارشد عباس قریشیpp 251 پر
امجد عباس قریشی پولنگ سے پہلے ہی شکست کھا چکے ہیں۔ جبران نے 1500سال پہلے
درست کہا تھا اقتدار کے پجاری اور ضمیرفروشی کے خوگر وقت کے کوڑے دان میں
ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غرق ہوجاتے ہیں۔na 176 کوٹ ادو کی قومی نشت پر ن لیگ کے
سلطان ہنجرا اور فنگشنل لیگ کے مصطفی کھر کے مابین ون ٹو ون مقابلہ ہے۔ ایک
ضلع مظفرگڑھ کا ناظم رہا ہے تو دوسرا پنجاب کا کوتوال اور شہنشاہ بھی وزارت
اعلی گورنرشپ کے علاوہ کھر پانی و بجلی کا پر دھان منتری رہ چکا ہے۔ دو
ہیوی ویٹ امیدواروں میں کس کو ووٹ دیا جائے؟ ووٹ کا حق دار کون اور کیوں ہے؟
ٹیگور نے کہا تھا سچ کو سچ جان کر اس سے روگردانی کرنے والے ملک و قوم کی
ریاستی سلامتی خوشحالی ہریالی قومی یکجہتی کا جنازہ نکالتے ہیں۔ دونوں
سیاسی مہاراجوں کھر اور ہنجرا کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ایک طرف نہ
صرف اہل امیدوار وں کی تلاش ممکن ہوگی تو دوسری طرف نوجوان ووٹرز اپنی
چوائس کی جانچ پرکھ کر سکتے ہیں۔مصطفی کھر جاگیرداروں کی اس ایلیٹ کلاس کا
نمائندہ ہے جو اپنے اپ کو مختیار کل سمجھتے ہیں۔ ایسے وڈیرے عوام کو لالی
پوپ اور سبز باغ دکھانے کے شعبدہ باز جادوگر ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ
انگریزوں کی پروردہ جاگیردارانہ ایلیٹ کلاس کے یہ وڈیرے دراصل عوام کو اپنا
باجگزار سمجھتے ہیں۔ یہ عوام کو بھیڑ بکریوں کا ریوڑ سمجھتے ہیں جبکہ انکی
اپنی سوچ تو یہ ہے کہ وہ حکمرانی کرنے کی خاطر ہی پیدا ہوئے ہیں۔ کھر ایوبی
دور سے اقتدار کی راہدریوں میں داخل ہوا۔ بھٹو نے ستر کی دہائی میں پنجاب
کی حاکمیت کا سہرا کھر کے سر پر سجایا مگر دکھ تو یہ ہے کہ کھر قائد عوام
بھٹو بنظیر بھٹو اورpp کا دشمن اور احسان فراموش نکلا۔ قائد عوام بھٹو جیل
میں روز بروز پھانسی گھاٹ کی جانب رواں دواں تھا تو کھر نے ضیاالحق کو
جھانسا دیا اور لندن مفرور ہوگئے۔عباس قریشی بھی احسان فراموشی کا باواادم
ہے۔ عباس قریشی اور کھر بھٹو کے قریبی عشاق تھے مگر جب بھٹو کو تحریک کی
خاطر کھر و قریشی کی ضرورت تھی تو اس وقت ایک لندن کی الائشوں سے لطف اندوز
ہونے کا دھندہ کر رہا تھا جبکہ دوسرے میاں عباس قریشی نے ضیا سے معافی
مانگی اور بھٹو کے ساتھ عقیدت کے تمام رشتے منقطع کرڈالے۔کھر کو بی بی کے
دوسرے دور میں بجلی و پانی کی منسٹری کا تخت ملا مگر جونہی فاروق لغاری نے
بی بی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تو کھر نے پینترا بدلا کہ بی بی سرکارکرپٹ
تھی۔ کیا اپنے سیاسی استاد سے احسان فراموشی کرنے والہ عوامی ووٹ کا حق دار
بن سکتا ہے؟ کھر اسی نشت سے ایم این اے کی پانچ باریاں کھیل چکا ہے۔ کھر
گورنر سے وزارت اعلی اور پھر وزارت سے لیکر سفارت تک شہنشہانہ اختیارات کا
سپریم کمانڈر تھا۔ کیایہ کھر کی غریب کشی اور کوٹ ادو کی پسماندگی و سیاہ
بختی اور ووٹرز کا استحصال نہیں کہ کھر کی60 سالہ سیاسی زندگی میں کسی
پراجیکٹ سکول کالج ہسپتال اور علاقائی فلاح و بہبود کے کسی ایسے منصوبے کی
تختی اثار قدیمہ والوں کو نظر نہیں اتی جس پر کھر کا نام کندن ہو۔یوں یہ
کہنا غلط نہ ہوگا کہ کھر کا سیاسی اکاوئنٹ عوامی بھلائی کے ایک پراجیکٹ سے
خالی ہے۔ عوام اور مصطفی کھر دو متضاد نام ہیں۔ کھر کا گنز ریکارڈ ہے کہ
پولنگ ڈے کے بعد اس نے ایک دن بھی حلقہ انتخاب میں نہیں گزارا۔ کھر نے
جتوئی سے مل کر پی پی کو کرش کرنے کی خاطر نیشنل پیپلز پارٹی کا مردہ کھڑا
کیا جو مردہ ہی ثابت ہوا؟ کھر صاحب نے بہاولنگر شیخوپورہ میں بھارتی باڈر
پر اربوں کے زرعی فارمز خرید رکھے ہیں۔ ہر فارم پر جنگلی جانوروں اور نسلی
کتوں کے درجنوں لشکر دندناتے پھرتے ہیں۔کھر صاحب کے کتے کوٹ ادو کے ووٹر ز
سے زیادہ شان رکھتے ہیں کیونکہ کتے ہر گھنٹے کے بعد ملک شیک پیتے ہیں جبکہ
na 176 کے دو لاکھ ووٹرز کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔کھر کے امپورٹڈ ڈاگز
بکری کا تازہ گوشت کھاتے ہیں جبکہ ہزاروں لاکھوں ووٹرز کو عید الاضحع کے
علاوہ سال کے364 دن گوشت کی ہڈی تک میسر نہیں ہوتی۔کھر صاحب کے مشغلے قابل
داد ہیں۔ انکے کتے جہازوں میں سفر کرتے ہیں مگر کوٹ ادو میں لاکھوں کے پاس
سائیکل کی سہولت دستیاب نہیں۔کیا ضمیر فروشی کتوں اور جنگلی جانوروں کو
انسانیت پر فوقیت دینے والا لینڈ لارڈاپنی mother party کو کرش کرنے والا
خود ساختہ شیر پنجاب عوامی نمائندگی کا دعویدار بن سکتا ہے؟ کیا غریبوں
یتیموں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے والے سیاست دان کو شرعی طور پر ووٹ دینا درست
ہوگا؟ قومی کے تیسرے امیدوار سلطان ہنجرا ہیں۔ سلطان ہنجرا ضلعی نظامت
مظفرگڑھ کا اعزاز رکھتے ہیں۔ ملک احمد یار ملک سلطان ہنجراکے بھتیجے ہیں جو
دو مرتبہmpa الیکٹ ہوئے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہنجرا ہاوس عوام کے لئے ہر وقت
کھلا رہتا ہے۔ مصطفی کھر اپنے ابائی گاوں دڑہ کھر غربی میں نہ تو ڈیرہ
چلاتے ہیں اور نہ ہی انکے جانشین بیٹے بھتیجے عوامی رابطے میں دلچسپی رکھتے
ہیں۔ ہنجرا فیملی ایک لشکر رکھتی ہے جس میں ملک قاسم ہنجرا نصیر ہنجرا ملک
افضل ہنجرا احمد یار ہنجرا شامل ہیں اس لشکر کے ارمی چیفna 176 سے ن لیگ کے
امیدوارملک سلطان ہنجرا ہیں جو بزرگ گھاک اور تجربہ کار پارلیمینٹرین
ہیں۔وہ خود4 مرتبہ pp 251 سے mpa منتخب ہوئے ۔ہنجرا گروپ کے کمانڈر احمد
یار ہنجرا ہیں۔ہنجرا ہاوس پر لشکر کا کوئی کمانڈر یا جنرل صوبیدار یا لانس
نائیک ہر وقت عوامی مسائل کی انجام دہی کے لئے ڈیرے پر میں موجود رہتا ہے۔
ہنجراوں کے پاس کمپین چلانے والی ٹیم میں تجربہ کار سیاسی ٹیم ہے ۔ex ناظم
شاہد بریارندیم بریار ملک اختر بریار چوہدری اختر مخدوم زولفقار عامر شاہ
ملک بلال ہنجرا سکندر بریاروغیرہ شامل ہیں۔ یہ حقیقت تاریخ کے روشن ابواب
میں درج ہوچکی ہے کہ na 176 اورpp251 میںریکارڈ ساز ترقیاتی منصوبہ جات
کروانے کا کریڈٹ علیل ex mnaمحسن قریشی اور سلطان ہنجرا کو جاتا ہے۔ ڈاکٹر
شبیر علی قریشی کی دستبرداری اور محسن قریشی کی علالت کے کارن اب تحصیل کوٹ
ادو میں2 سیاسی ڈیرے ملک شاہد بریار کوٹ ادو سٹی اور ہنجرا ہاوس دائرہ دین
پناہ اباد و شاد ہیں۔ امریکی صدر کینڈی نے کہا تھا کہ غلطی کو غلطی جان کر
اصلاح نہ کرنے والے ایک اور گھمبیر غلطی کررہے ہوتے ہیں جسکی تلافی ناممکن
بن جاتی ہے۔ مصطفی کھر کو ووٹ دینے والے ٹیگور اور صدر کینڈی کے اقوال کی
روشنی میں اپنا ووٹ استعمال کریں ورنہ ماضی کی طرح کف افسوس کے ساتھ ساتھ
ماتم بھی کرنا پڑے گا۔یہ فیصلہ کرنا اپکا کام ہے کہ کیا کتوں کو انسانوں پر
فوقیت دیکر ان پر ماہانہ لاکھوں خرچ کرنے والے غیر عوامی گودے ووٹ کے حقدار
ہیں یا ملک سلطان محمود ہنجرا؟ کیا عوام کو ہر پانچ سال بعد الیکشن میں نیو
روپ کا درشن کروانے والے جنگلی شیر کو لیڈری کا ووٹ ڈالا جائے یا عوامی
خدمت کی خاطر رطب السان ہنجراوں کے عوامی لشکر کے سربراہ سلطان محمود ہنجرا۔
دیانتدارانہ تجزئیے کے بعد یہ ایک کڑوی سچائی تو یہ سامنے اتی ہے کہ عوام
لوٹوں غداروں گودوں کھروں بے ضمیروں کو مسترد کرکے ہنجرا عوامی لشکر کے
ارمی چیف ملک سلطان ہنجرا کو na 176 اور ملک احمد یار ہنجرا کوpp 251
میںبلا حیل و حجت ووٹ ڈالے۔ ماضی کی غلطیوں کو غلطی جان کر گھمبیر غلطی سے
بچنا چاہیے ۔ ووٹ کاسٹ کرنے سے قبل اہل علاقہ کو غور فکر کرنا چاہیے کہ اگر
مسترد کئے جانیوالے گودے دوبارہ جیت گئے تو اس دفعہ انسانوں پر کھر صاحب کے
لال برنگے وحشی کتے حکومت کریں گے۔ |