کون بنے گا وزیر اعظم ۔۔۔۔۔؟

انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔پرنٹ اور الیٹرونک میڈیا کی چاندی ہی نہیں سونے ہی سونا ہے۔جو ماٹھے چینلز سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے بستر مرگ کے قریب تھے ۔اب وہ بھی کسی کو دو بوتل خون دینے کے قابل ہیں۔ اشتہار اس قدر ہو گے ہیں کہ چینلزاور اخبارات کو بمشکل خبروں کے لئے وقت نکالنا پڑ رہا ہے۔اس وقت سب سے ’’سریلی‘‘ اشتہاری مہم مسلم لیگ نون کی ہے جنہوں نے بیک وقت راحت فتح علی خان اور میاں شہباز شریف کو بک کر رکھا ہے۔عمران خان کی اشتہاری مہم بھی کافی بہتر جارہی ہے۔جبکہ کپتان کے زخمی ہونے اور زخمی حالت میں میڈیا کوجذباتی انداز میں انٹرویو دینے سے ان کے ووٹ بینک میں سوشل میڈیا کے بقول مزید اضافہ ہو گیا ہے۔اس وقت بہت سی سیاسی پارٹیاں اپنی نہیں دوسرے کی اشتہاری مہم چلا رہی ہیں۔’’باباجی‘‘اگر اشتہار کے آخر تک نہ بیٹھے رہیں تو انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ اشتہار مسلم لیگ نون کا ہے یا پاکستان پیپلز پارٹی کا۔اگر اشتہار پیپلز پارٹی کا ہے تو شہباز شریف اس اشتہار میں ’’اداکاری‘‘ کیوں کر رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی اس اشتہار سے کیا ثابت کرنا چاہتی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کی اشتہاری مہم سے دعوؤں کی بجائے ’’مرثیوں ‘‘ کا اظہار ہوتا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان کا ووٹر موجودہ دور کے کسی بھٹو کی آواز پر لبیک نہیں کہے گا۔بہت سی جماعتوں کی جانب سے یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ انہیں جلسے نہیں کر دیئے جا رہے۔اے این پی کی جانب سے یہ بات تو وہاں کے زمینی حقائق کی وجہ سے سچی محسوس ہوتی ہے ۔مگر دوسری جماعتیں نہ جانے کس کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتی ہیں۔

الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی حد تک یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر پارٹی اپنی فتح کا جشن منا رہی ہے۔میاں صاحب کے ایک اشتہار کے آخر میں ’’پاکستان زندہ باد ‘‘ کی صدا سے لگتا ہے جیسے انہوں نے حلف اٹھانے کے بعد نعرہ لگایا ہو۔عمران خان کے بلے کو جس انداز میں فلمایا اور پھرایا جا رہا ہے ۔لگتا ہے فتح بلے کی ہو گی۔پیپلز پارٹی کے ’’ترلوں‘‘ سے لگتا ہے وہ ایک دفعہ پھر میدان مار لے گی۔مولانا فضل الرحمن اپنے دل کی بات زبان پر لے آئے ہیں۔وہ بھی پارلیمنٹ میں سب سے ’’بڑے وزیر ‘‘کے خواہش مند ہیں۔یہی حال دوسری پارٹیوں کا ہے ۔ان سب کی خواہش ہے کہ پارلیمنٹ میں چاہیں ان کی سیٹیں کم ہی ہوں حالات ایسے بن جائیں کہ وزیر اعظم کے لئے بڑی پارٹی بھی ان کی مر ہون منت ہو اور ایک دفعہ ان کی پارٹی کا وزیر اعظم مارکیٹ میں آ جائے ۔چاہے یہ عرصہ بہت ہی کم عرصے پر محیط ہو ۔چودہری شجاعت کے وزیر اعظم پاکستان کی لسٹ میں نام ہونے سے غلام محمد بلور جیسے سیاست دان بھی ایک دفعہ پاکستان کو اپنے طریقے سے چلانا چاہتے ہیں۔

میں ان سولات میں الجھ سا گیا تھا ’’با خبر ‘‘ ہونے کی بنا پر بہت سے یار دوست ایسے بے تکے سے سوال کرتے رہتے ہیں ۔جن کا پورا ’’تسلی بخش ‘‘جواب ملنے کے بعد وہ یہ پوچھنے لگتے ہیں۔میں نے سوال کونسا کیا تھا۔ووٹ ڈالنے ویسے بھی گاؤں جانا تھا ۔اس لئے سوچا اب تو ہر قسم کا میڈیا گاؤں میں بھی دستیاب ہے تو کیوں نہ چند دن گاؤں کے خوبصورت ماحول میں گزار لئے جائیں۔اور ’’باباجی‘‘ سے وہ سارے سوال پوچھ لئے جائیں جو لوگوں کے ذہن سے ہوتے ہوئے میرے ذہن میں پہنچے ہیں۔

گاؤں کی سڑک اب کی بار کافی بہتر محسوس ہوئی ۔سڑک کے دونوں جانب یوں محسوس ہورہا تھا جیسے سونا بو دیا گیا ہو۔کئی جگہوں پر گندم کی کٹائی جاری تھی۔مشینوں سے نکلتا ہوا توڑی کا غبار گاڑی کے ٹھنڈے ما حول کی وجہ سے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے سونے کی بارش ہو رہی ہو۔اسلام آباد کی نسبت گاؤں کے درجہ حرارت میں شدت تھی۔لیکن اس شدت کے باوجود ایک مانوس سی محبت کی مہک مجھے اپنے حصار میں لے چکی تھی۔انسان کو کبھی بھی اپنے اصل سے رابطہ نہیں توڑنا چاہیئے۔آپ جہاں بھی جائیں اپنے آپ کو اجنبی ہی پائیں گے لیکن آپ کے آباؤ اجداد کی آماجگاہ میں ایک روحانی سی انسیت اور محبت ملتی ہے۔

’’باباجی‘‘ کی تلاش مجھے ان کے ڈیرے پر لے گئی ۔بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں سگریٹ دبائے آنکھیں بند کئے وہ حقے کے سٹائل میں سگریٹ پی رہے تھے۔ ایک سائیڈ پر کوئلے دہک رہے تھے ۔ان کا معتقد حقہ سامنے بہتے ہوئے کھالے میں ٹھنڈا کر رہا تھا۔میری آہٹ پر انہوں نے آنکھیں کھولیں۔’’او آ پتر۔کب آیا؟‘‘
’’بس تھوڑی دیر پہلے ‘‘ میں نے ان کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا
’’کیا کھائے،پئے گا؟‘‘
بس گھر سے نہا دھو اور کھا پی کر آیا ہوں‘‘
’’گاؤں والے گھر سے یا اسلام آباد کی بات کر رہے ہو؟‘‘
’’آپ کا گیان کیا کہتا ہے‘‘
’’ چل ٹھنڈا پانی پی تیرے سوالوں کے جواب بھی دوں گا جو تو پوچھنے آیا ہے‘‘۔
ایک مرید میرے ہاتھوں میں سردائی کا گلاس پکڑا چکا تھا۔میں اس سے سرگوشی سے پوچھا ’’سردائی ہی ہے ناں‘‘۔
بے دھڑک پی ،بوٹی یہ میرے پاس پڑی ہے،یہ سردائی ہی ہے۔‘‘مرید کی بجائے انہوں نے میری سرگوشی کا جواب دیا۔
’’باباجی کون جیتے گا،آپ کا گیان کیا کہتا ہے‘‘۔
’’الیکشن کب ہے؟‘‘انہوں نے حقے کی انی کو منہ لگاتے ہوئے کہا
’’گیارہ مئی ،یعنی پرسوں‘‘۔

اچھا انہوں نے کچے فرش پر ’’بارہ ٹینی ‘‘ جیسی آڑھی ترچھی لیکریں کھنیچیں۔ان پر ہاتھ پھیرا۔اپنی سرخ سی آنکھیں اٹھائیں۔’’بیٹا جیتے گا وہی جو الیکشن جیت جائے گا‘‘۔
’’باباجی ! یہ تو مجھے بھی پتہ ہے ۔وزیر اعطم کون بنے گا؟‘‘
’’جس کی نشستیں ذیادہ ہونگی۔وہی حکومت بنائے گا۔ظاہر ہے اسی کا وزیر اعظم ہو گا‘‘۔
’’باباجی ! آپ مجھے الجھائے رہے ہیں؟‘‘

’’الجھنا نہیں چاہ رہے کیا۔ یہ لوگوں کے لئے نہیں ہے اس کا تذکرہ بھی کہیں نہیں کرنا ۔تو پھر سنو کان ادھر لاؤپاکستان کا وزیر اعظم ۔۔۔۔‘‘۔میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔’’اگر لکھنا چاہتے ہو تو بے شک لکھ دینا وزیر اعظم پاکستان ایک صاف ستھرے رنگ اور بے داغ کردار کے مالک ہونگے۔لوگ ان پر بہتان اور الزام تراشی تو بہت کریں گے ۔لیکن ان کو وہ ثابت نہیں کر سکیں گے۔ان کی عمر پچپن سے لیکر پینسٹھ سال کے درمیان ہو گی اس دفعہ پاکستان واقعی بدلنے جا رہا ہے‘‘۔باباجی حقے کی انی منہ میں لئے آنکھیں بند کئے دھوئیں کے مرغولے چھوڑ رہے تھے۔***
Khalid Mehmood
About the Author: Khalid Mehmood Read More Articles by Khalid Mehmood: 37 Articles with 35740 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.