وہاں ایک کھلا سبزہ زار جس کے وسط میں ترتیب سے رکھی گئی
کرُسیوں کی تعداد لگ بھگ ایک صد چالیس تھی اُن پر چند باوقار افراد تشریف
فرما تھے ۔وہ سب سردیوں کی اس خُنک دوپہر میں خاصے ہشاش بشاش باہر سے آنے
والے اہلِ قلم کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ وقفے وقفے سے آنے والے افراد کو
وہ یوں مل رہے تھے جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں ۔ اور بات ہی کچھ
ایسی تھی وہ سب قلم و قرطاس میں ایک ہی منزل کے راہی تھے۔یہ ۱۱جنوری 09ءکا
خوبصورت دن تھا جب آسمان پر بادلوں کے بکھرے ہوئے ٹکڑے دھیرے دھیرے اکٹھے
ہونے کے لیے مسلسل آگے بڑھ رہے تھے اور نیچے زمین پر دھیرے دھیرے اس سبزہ
زار میں ان کرسیوں کا خالی پن ختم ہوتا جارہا تھا ۔وہ سب لوگ فرد سے معاشرہ
اور معاشرے سے قوم کے انُ خوابوں کی تعبیر کے لیے اکٹھے ہو رہے تھے جو کسی
عہد میں اُن کے آباﺅ اجدادنے دیکھے تھے ۔اور آج نئے پرانے سب لکھنے والے اس
تنظیم میں شمولیت کے لیے خاصے پر ُجوش تھے۔ ان کے اس استقبال میں صحافت
جیسے مقدس پیشے سے جوڑے ہوئے سینئردوست موجود تھے جس میں روزنامہ” خبریں
“کے مقبول الہٰی سب سے نمایاں تھے جو بڑی مستقل مزاجی سے اپنی صحافتی خدمات
پیش کرتے آرہے تھے ۔لیہّ کے عمومی مسائل پر اُن کے قلم سے نکلے ہوئے لفظ آج
بھی حکومتی ایوانوں کے صددروازوں پر کندہ ہیں جیسے آنے والے مورخ کبھی نظر
انداز نہیں کرپائے گا ۔وہاں انجم صحرائی بھی موجود تھے جن کی زندگی مسلسل
تگ ودو سے عبارت ہے او ر ہفت روزہ’ ’ صبح پاکستان“ اخبار کے ایڈیٹر انچیف
ہیں ۔ عنایت بلوچ جو صحافت میں اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ جو دوستوں
میں تحرک کی علامت سمجھے جاتے ہیں تمام معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے
تھے ۔لیہّ کے نوجوان کالم نویس مظہر اقبال کھوکھراہلِ قلم دوستوں کے درمیان
وجہ ِدوستی بنے ہوئے تھے۔ عبدالرحمن قرُیشی اور اشرف تبسم جیسے قلمکار ساتھ
ساتھ بیٹھے آسمان پر بادلوں کو اکٹھا ہوتے دیکھ رہے تھے۔ چوک اعظم سے آنے
والے دوستوں میں ناصر ملک جنہیں اُن کی ادبی خدمات اور ”لیہّ دی تاریخ “پر
مسعود کھدر پوش ایوارڈ سے نوازہ گیا مسکراتے لب و لہجے کے ساتھ موجود تھے ۔وہاں
عبدالرﺅف نفیسی بھی تھے جو ایک زمانے تک لگے بندھے راستوں پر سفر کرتے رہے
جب اُنہیں ادراک ہوا کہ اُن کے اندر ایک تخلیق کار موجود ہے تو وہ چونک
اُٹھے اور اُن کا چونکنا کارواں میں اضافے کا سبب بنتا چلا گیا جو اس وقت
صدر پریس کلب چوک اعظم کی ذمہ داریاں بھی ادا کررہے تھے۔ انُ کےساتھ صابر
عطا جیسا نو جوان سر گرم قلم کار بھی تھا جو آنے والے لمحوں میں پیش آنے
والے واقعات کو صحافیانہ انداز میں پیش کرنے کا فن بخوبی جانتا تھا ۔ میں
نے ممتاز خان مچھرانی کو ایک نشست پر دیکھا جو خاصے پُرجوشی سے تمام دوستوں
کا استقبال کر رہے تھے۔ روز نامہ ”داور“ سے کاشف باجوہ اور ڈاکڑ نیاز بھی
موجود تھے۔ دوسری قطار کی پہلی نشست پر عبداللہ نظامی ماہنامہ” تعمیر ادب
“کے موضوع پرشاہداقبال کھرل سے اظہار ِخیال کرتے نظر آرہے تھے ۔محمد رمضان
بھٹی تھری پیس سوٹ میں ملبوس آنے والے تمام دوستوں کو خوش آمدید کہہ رہے
تھے اُن کے ساتھ محمد صدیق پر ہار بڑے ذوق و شوق سے تنظیم ِنو کی اس
کاروائی کو ابتداءسے انتہا تک بخیر و خوبی لے جانے کے لیے سرگرم تھے و ہاں
راقم الحروف انتہائی خوشی محسوس کررہا تھا کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے ایک
ایسے عہدکو پرورش پاتا دیکھ رہا تھا جو کسی بھی زوال کے معنی و مفہوم سے
یکسر بے نیاز تابناکیو ں کا استعارہ بنتا جارہا تھا ۔ تقریب میں کروڑ لعل
عیسن سے صدر پریس کلب حافظ خلیل احمد اورطارق محمود پہاڑ ‘فتح پور سے صدر
پریس کلب ملک محمداقبال جگ اور صابرعطا،چوبارہ سے صدر پریس کلب عابد حسین
کھرل ،کوٹ سلطا ن سے صدر پریس کلب عابد حسین فاروقی اورعبداللہ نظامی، جمن
شاہ سے جمیل احمد ڈونہ،لدھانہ،پیرجگی سے شیخ اعجاز احمد،دھوری اڈہ سے
عبدالرزاق کی قیادت میں صحافیوں نے شرکت کی ۔تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت ِکلام
پاک سے ہوا اور اس کے بعد تمام دوستوں نے اپنا اپنا مختصر تعارف کرایا اس
کے بعد الیکشن کی باضابطہ کاروائی کا آغاز ہو گیا۔ جس کی نگرانی عبدالحمید
سلیمی ، محسن عدیل اور اشرف تبسم نے کی ۔الیکشن تقریبا دو گھنٹوں میں مکمل
طور پر اختتام پذیر ہو ئے۔
ا س الیکشن میں ڈسٹرکٹ پریس کلب، انجمن صحافیان اور لیہ رائٹرز فورم کے
عہدداروںکا چناﺅ عمل میں لایا گیا ڈسٹرکٹ پریس کلب میں جن عہدہ داروں کا
چناﺅ ہوا اُن میں صدر مقبول الہی جنرل سیکریڑی عنایت بلوچ ، انجمن صحافیان
کے صدر طارق محمد پہاڑاور لیہ رائٹرز فورم کے عہدہ داران میں صدر اقبال جگ،
جنرل سکیریڑی صابرعطااور راقم الحروف کوبطورچیر مین مجلس عاملہ لیّہ
رائٹرزفورم منتخب کیا گیا۔تمام اہلِ قلم نے اس شاندارکامیابی پر ایک دوسرے
کو کامیابی پر مبارک باد پیش کی ۔اور یہ ابتداءتھی جس نے نسل ِنو کے اذھان
کی سمتوں کا تعین کردیا ۔ چند دنوںبعد لیّہ رائٹرز فورم نے اہلِ قلم
کانفرنس کے انعقاد کا اعلا ن کر دیا جو پندرہ فروری کوطے ہوئی۔15فروری
2009ءصبح دس بجے ضلع کونسل ہال لیہ میں ڈسٹرکٹ پریس کلب ، ڈسٹرکٹ یونین آف
جرنلسٹ اور لیہ رائٹرز فورم سے وابستہ سب لو گ موجود تھے اس خوبصورت تقریب
میں ضلعی و صوبائی آفیسران کو بطور مہمان مدعو کیا گیاتھے۔اس تقریب میں قلم
وقرطاس سے وابستہ صحافیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کیا
گیا اورمعاشرے میں ان کے مثبت اقدامات کو سراہا گیا۔یہ ایک پہلی بھر پور
اور منظم تقریب تھی جس نے لیہ میں بسنے والے تخلیق کاروں کی خدمات کو بڑے
بھر پور انداز میں پیش کیا اس تقریب کے انعقاد میں وہ سب لوگ شامل تھے جو
یہ طے کر چکے تھے کہ اب اپنی ذا ت کے دائروں میں سفربے معنی ہے۔
راقم الحروف کوچیر مین مجلس عاملہ لیہ رائٹرز فورم کی ذمہ داریاں تفویض کی
گیئں جو زبان و ادب میں اجتماعی کوششوں کی متقاضی تھیں لیہ کی تاریخ میں
اہلِ قلم کانفرنس کے انعقاد نے ایک روایت کو جنم دیا جس سے فنون لطیفہ سے
وابستہ نو جوان نسل کی راہیں متعین ہو رہی تھیں اس کانفرس کا بنیادی مقصد
اُس تاریکی کا خاتمہ تھا جو انسان سے اُس کا سایہ تک چھین لیتی ہے اور یہ
مقصد حاصل ہونے میں اتنے دوستوں کی ذہنی ہم آہنگی سے صدیاں لمحوں کا روپ
دھار نے لگیں ۔ یہ کانفرنس ابلاغ کی سرحدوں پر کھڑے ہو کر اذاں دینے کا ایک
ایسا عمل محسوس ہورہی تھی جس سے شعور وآگاہی کی مسافتوں پر سہمے اور تھکے
تھکے سانس لینے والے نوجوانوںمیں تازگی اور اُمید کا احساس جا گنے لگاہوا۔
یوں وہ لفظ لفظ جوڑ کر معاشرے میں پھیلی محرمیوں ’تلخیوں اور سلب کردہ
سانسوں کو ایک نیا جیون دان دینے لگے کانفرس میں مدعو حکومت وقت کے
نمائندگان سے یہ تقاضا کیا گیا کہ ہو ’اپانی اور روشنی پر سب کو برابر کا
حق دیا جائے اور انگنت مسائل سے دو چار اہل قلم کو اُنکے بنیادی حقوق بلا
تفریق دیئے جائیں ۔اس طرح یہ پر وقار تقریب وقت کے سانچے میں ڈھل کر دل و
دماغ پر ہمیشہ کےلئے نقش ہوتی چلی گئی اور آج تقریب میںو ہ نقش چند ساعتوں
میں دل و دماغ سے نکل کر قرطاس پر اپنی شبہیہ بنا رہے تھے ۔ اس تقریب میں
اخبارات ، جرائد سے جڑے تما م دوستوں نے اظہار خیا ل کیا اور ان دوستوں کو
زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا جو اپنے فرائض کو سر انجام دیتے ہوئے مختلف
حادثات کا لقمہ بن گئے۔ تقریب بلاشبہ شاندار تھی کم وقت میں اس قدر منظم
تقریب تشکیل پانے والی تنظیم پائیدارسوچوں کی آئینہ دار تھی اور جو نہایت
کم وقت میں مکمل ہوئی ۔یہ حقیقت ہے کہ بند مٹھی میں ریت کی مانندپھسلتے وقت
کب قید کیا جاسکتا ہے ؟ وقت ہی تو ہے جس نے چراغوں کو روشنی دی وہ چراغ جو
کسی عہد میں فیصلِ شہر پر جلائے جاتے تھے اب کسی طاق میں بجھے پڑے گئے
وقتوں کی یاد گار محسوس ہوتے ہیں۔ تقریب میں شرکاءکی اچھی خاصی تعداد موجود
تھی مقررین نے اپنے اپنے خطاب میں لیہ کا علمی و ادبی پسمنظر بیان کیا اور
تھل دھرتی سے جنم لینے والے سپوتوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا جو تنُدہی
سے ا پنی خدمات سرانجام دے رہے تھے ۔ملتان سے روز نامہ ”نوائے وقت“ سے سلیم
ناز بطورِ خا ص مدعو تھے جو اپنی مصروفیات کی وجہ سے نہ آسکے تقریب کے
اختتام میں تما م اہل ِقلم میں اسناد تقسیم کی گئیں جس سے تقریب میں جوش و
خروش دیدنی تھا ۔اہل قلم کانفر س کے اختتام پر راقم الحروف نے آتے ہوئے
تمام افراد کا شکریہ ادا کیا اور تمام شرکاءکی تواضع کی گئی۔
اخبارات ، جرائد اور نیوز چینلزسے وابستہ تمام صحافیوںاور اہلِ قلم کی اس
خوبصورت روایت نے عید ملن پارٹی کا انعقاد کیا جو تحصیل کونسل ہال لیہّ
میں23ستمبر09ءکو منعقد ہوئی اس عید ملن پارٹی میں پہلے سے کہیں زیادہ لوگ
شامل تھے ۔ملتان سے روز نامہ” خبریں “کے میگزین ایڈیٹر سجاد جہانیہ،” وقت
“ٹی وی کے علی شیر، ایم پی اے افتخار بابر کھتران ، ضلع ناظم غلام حیدر
تھند ، ایم این اے سید ثقلین شاہ بخاری ، ای ڈی او ہیلتھ ڈاکٹر سید مختار
شاہ موجود تھے ۔ پور ے ضلع کے صحافی اور سب لوگ جن کا قلم و قرطاس سے تعلق
تھا ’اس تقریب میں آن موجود ہوئے شرکاءاور مقررین نے اس قدر منظم تقریب کا
خیر مقدم کرتے ہوئے مستقبل میں ایسی تقاریب کے انعقاد کی خواہش ظاہر کی
ضلعی و صوبائی آفیسران کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا نے بھی تقریب کوانتہائی
خوش آئند قرار دیا۔ عید ملن کی اس تقریب میں انجم صحرائی نے تین تجاویز
منظور ی کے لیے پیش کیں پہلی تجویز سال بھر اچھی کار کردگی کامظاہرہ کرنے
والے ضلع لیہ کے صحافی کوایوارڈ اور نقد انعام‘دوسری تجویز ضلع لیہ کے کالم
نگا روں اور مضمون نویسوںکے لیے ہر سال پانچ ایوارڈ اور نقد رقوم اور آخری
تجویز ‘جو اہل قلم بزرگ ہیں یا وفات پا گئے ہیں ان کے لیے لائف ٹائم ایوارڈ
بمعہ کم از کم ایک لاکھ روپے نقد دیئے جائیں ۔جسے سب نے متفقہ طور پر منظور
کرلیا ۔ مقامی رکن صوبائی اسمبلی افتخار بابر کھتران نے لیہ کی پسماندگی
ذکر کیا اُن کا یہ ذکر وسائل کی ناہموار تقسیم کے تناظر میں تھا جبکہ وہ
لیہ کے علمی و فکری رجحانات کے حامل اہلِ قلم کی بھر پور حوصلہ افزائی کرنے
آئے ہیں ۔عید ملن تقریب میں ملتان سے روزنامہ” خبریں “سے وابستہ سجادجہانیہ
بطور خاص مدعو تھے جنہوں نے اپنے انداز میں تقریب کا احوال روز نامہ” خبریں
“میں قلمبند کیا اور قارئین کو انسانی فطرت میں موجود ریشہ دوانیوں کی
تصویر کے دونوں رُخ دکھا دیئے جو اس بات کا برملا اعتراف بھی ہے کہ کون لوگ
کس سطح پر کس قسم کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ وہ سفر جو ۱۱جنوری 2009ءسے
شروع کیا گیا 23ستمبر 2009ءتک اپنے نمایا ں خدو خال کی بدولت اپنی منفرد
شناخت بنا چُکا تھا جو زوال کے معنی و مفہوم سے صدیوں کنارہ کش رہے گا
انشاءاللہ تعالیٰ
نام کا کیا ہے بھلے نام کو موت آجائے
ڈرو اُس وقت سے جب کا م کو موت آجائے |