اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان میں جمہوری حکومت پانچ سال
کی آئینی مدت مکمل کرچکی اب نگران حکومت اانتخابات کے بعد اقتدار نومنتخب
حکومت کے حوالے کرے گی۔ یہ امرانتہائی خوش آئند ہے کہ انتقال اقتدار ایک
پرامن اور جمہوری ماحول میں ہونے جا رہا ہے۔پاکستان میں جمہوریت ایک خواب
کی مانندہے کیوںکہ یہاں جمہوری رویوں کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔
طاقت نے مختلف روپ دھار کر ایوان اقتدار پہ قبضہ کیا کبھی افسر
شاہی(Bearucracy) ، کبھی فوجی جرنیلوں کبھی جاگیرداروں اور کبھی کٹھ پتلی
حکمرانوں کی صورت میں یہ لوگ عوامی امنگوں کا خون کرتے رہے ۔ اسکی وجہ
طاقتور اداروں کی بلا وجہ سیاست میں مداخلت بھی ہے اور خود سیاست دانوں کا
مسخ کردار بھی۔بہر حال ملک اب جمہوریت کی پٹری پہ رواں ہو چکا ہے اگر کچھ
عرصہ اسے چلنے دیا جائے تو سیاسی نظام مضبوط اور مستحکم ہو جائے گا ۔
انتقال اقتدار خوش آئند ہے اور لوگ پر امید ہیں کہ یہ انتخابات تبدیلی کی
لہر ثابت ہوں گے۔ موجودہ حکومت نے اپنی نا اہلی کے باعث جو مسائل پاکستان
کو عطا کیے ہیں وہ بھی ان انتخابات کے نتیجے میں آئندہ حکومت کو منتقل ہو
جائیں گے۔آئندہ حکومت کے لیے ان مسائل سے نبرد آزما ہونا جوئے شیر لانے کے
مترادف ہو گا۔ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ نو منتخب حکومت کو کن اندرونی اور
بیرونی مشکلات کا سامنا ہو گا تاکہ اس امر کا تعین کیا جا سکے کہ کون ان
مسائل کا پامردی سے مقابلہ کرنے کی استعداد کار رکھتا ہے۔
پاکستان میں موجودہ دور حکومت مین جس اندرونی مسئلے نے سب سے زیادہ پریشان
کیا ہے وہ امن و امان کی بگڑتی صورتحال ہے ۔ملکی عوام دہشت گردی کی شدید
یلغار کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے عوام کو تحفظ
فراہم کرنے میں ناکا م اور دہشت گردی کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔اسکی
خارجی وجوہات بھی ہیں جن کا تذکرہ آگے ہو گا مگر ناکامی کی اصل وجہ اس
معاملے میں سنجیدگی کا فقدان ہے۔موجودہ حکومت نے عوام کے جان و مال عزت و
آبرو کی حفاظت کو اپنا فرض اولین سمجھا ہی نہیں ۔ ملک کی پولیس اشرافیہ کی
حفاظت پہ مامور رہی ۔خفیہ ایجنسیاں دہشتگردوں کی گردنوں تک پہنچنے میں
ناکام رہیں ا س سلسلے میں انگریز استبداد کے بنائے پولیس کے نظام کو یکسر
بدلنے کی ضرورت ہے جو مظلوم عوام کی گردن پہ لات رکھ کر ظالم حکمران کے
اقتدار کو طول دینے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔کراچی میں آگ اور خون کی ہولی
کھیلی جا رہی ہے۔ اور حکومت میں شامل اتحادی ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار
قرار دے چکے ہیں اسی طرح دیگر شہروں میں بھی امن وامان کی صورتحال دگردگوں
رہی ۔اس صورتحال سے عوام بےزار ہو چکے ہیں،سرمایہ کاری اور تجارت کو شدید
نقصان ہوا ہے اور مایوسی کا اندھیرا مزید بڑھا ہے ۔آئندہ حکومت کے لیے یہ
ایک چیلنج ہوگا کہ اس عفریت کا قلع قمع کر کے عوام کا سکھ چھین ان کو لوٹا
ئے پولیس اور قانون نافذکرنے والے اداروں کو از سر نو منظم کرے اور عوامی
خدمت کے جذبے سے ان کی تربیت کرے اور ان کے تحفظ کی آئینی ذمہ داری پوری
کرے۔
پاکستان کا دوسرا داخلی مسئلہ توانائی کا بحران ہے جسکی وجہ سے قوم
اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے، فیکٹریاں کارخانے بند ہیں اورگھروں کے چراغ گل
ہیں ۔اسکی وجہ یہ نہیں ہے کہ ملک میں توانائی پیدا کرنے کے وسائل موجود
نہیں بلکہ اسکی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے ان وسائل کو استعمال میں لانے کے لیے
کوئی حکمت عملی وضع ہی نہیں کی۔ نہ ڈیم بنائے نہ دیگر ذرائع کو بروئے کار
لایا ، رینٹل پاورجیسامہنگا پراجیکٹ عوام کے کاندھوں پہ ڈال دیا۔اسی طرح
قدرتی گیس کے ہوتے ہوئے عوام کے چولہے ٹھنڈے پڑگئے ۔ کارخانوں کی بندش کی
وجہ سے لوگ بے روزگار ہوئے اور پریشانی و اضطراب میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح
پاکستان کا ایک اور سلگتا مسئلہ مہنگائی کا ہے ۔ پاکستان کی اکثریت غریب
اور متوسط طبقے پہ مشتمل ہے مگر امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں نے
عوام کا معیار زندگی بلند کرنے پہ سرے سے کوئی توجہ نہیں دی ۔ ملک میں
افراط زرمیں اضافہ ہوا اور اسے مصنوعی طریقوںسے حل کرنے کی کوشش کی گئی
جسکے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان عظیم برپا ہوا۔روزمرہ استعمال کی اشیا ءکی
قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں اور ضروریات زندگی عام آدمی کی قوت
خرید سے باہر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ
سے عوام مہنگائی کے اس طوفان سے بے حال ہیں ۔اب یہ نئی حکومت کا درد سر ہو
گا کہ وہ پیداوار میں اضافے اور افراط زرمیں کمی کو کس طرح ممکن بناتی
ہے۔ان سلگتے مسائل کے علاوہ تعلیم ، بے روزگاری ، زراعت و دیگر مسائل بھی
ہیں جو دھائیوں سے چلے آرہے ہیں اور ابھی تک حل طلب ہیں ۔ نئی منتخب ہونے
والی حکومت کو ان مسائل سے عہدہ براءہونے کے لیے ایک مربوط اور طویل
المیعاد منصوبہ بندی کرنا ہو گی تاکہ ملک کو ترقی کی راہ پہ گامزن کیا جا
سکے۔
ان داخلی مسائل کے علاوہ پاکستان کو خطے میں بیرونی مسائل کا بھی سامنا ہے
ان میں سب سے اہم افغانستان کا مسئلہ ہے ۔ مغرب میں افغانستان کے ساتھ
ہماری طویل سرحد ہے۔ افغانستان میں ایک طرف داخلی انتشار ہے تو دوسری جانب
وہاں امریکی استعمار ہے ۔سرحد پہ واقع ہونے کی وجہ سے پاکستان کا ایک کلیدی
کردار ہے۔ پاکستان نیٹو کا سٹریٹیجک پارٹنر بھی ہے اور اسکی سپلائی کا
ذریعہ بھی۔ اسی و جہ سے پاکستان کو دہشتگردی کے عفریت کا سامنا ہے ۔پاکستان
میں امریکی ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری پہ سوالیہ نشان
ہیں۔امریکہ افغانستان سے انخلاءکی راہیں تلاش کر رہا لیکن مکمل انخلاءکے
بجائے اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے چند ائیر بیس یہاں رکھنا چاہتا ہے
تاکہ وہ چین ، روس اور خطے کے دوسرے اہم ممالک پہ نظر رکھ سکے ۔ 2014 ءمیں
افغانستان میں انتخابات متوقع ہیںوہاں بھی تبدیلی کا انتظار ہے ہمارے
مخالفین یہ نہیں چاہتے کہ پاک افغان تعلقات میں بہتری آئے لہذا وہ ابھی سے
پاک افغان تعلقات کو بگاڑنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں اور ریشہ دوانیوں کا
ایک جال بچھایا جا رہا ہے تاکہ دونون ممالک ایک دوسرے کے قریب نہ آسکیںاس
صورتحال میں پاکستان کو اپنے اور خطے کے مفاد میں خارجہ پالیسی ترتیب دینا
ہوگی۔ ہماری نئی منتخب حکومت کے لیے یہ ایک چیلنج ہے کہ وہ اس صورتحال میں
کیا لائحہ عمل ترتیب دیتی ہے جسکے نتیجے میں خطہ مستقل طور پہ امن کے ثمرات
سمیٹ سکے ۔
مشرق کی جانب بھارت ہے جو پاکستان کے لیے درد سر ہے ۔ پاکستان کے ساتھ
بھارت کے تعلقات کبھی بھی دوستانہ نہیں رہے ۔ کشمیر کا مسئلہ دونوں ملکوں
کے درمیان تنازعہ بنا ہوا ہے ۔ اس پہ مستزاد یہ کہ بھارت نے آبی جارحیت بھی
شروع کر رکھی ہے اور پاکستان کے دریاﺅں کا پانی ہتھیا رہا ہے، بلوچستان میں
علیحدگی پسندوں کو شہ دے رہا ہے اور افغانستان و امریکہ پاکستان سے
تعلقاتمیں سرد مہری پیدا کر رہا ہے ۔ اس صورتحال میں پاکستان کی معیشت کی
ریڑھ کی ہڈی یعنی زراعت کہ شدید خطرات لاحق ہیںاوربلوچستان میں امن عامہ کی
صورتحال مخدوش ہے ۔ بھارت اسوقت ایک عالمی اقصادی قوت کے طور پہ ابھر رہا
ہے ۔ پاکستان کو خطے میں امن کے لیے بھارت سے برابری کی سطح پہ دوستانہ
تعلقات بھی رکھنا ہیں مگر اپنے دیرینہ مسائل کا حل بھی نکالنا ہے ۔
موجودہ جمہوری حکومت نے دو جرات مند اقدامات کیے ہین جنہیں عوامی حلقوں میں
سراہا گیا ہے ان میں ایک پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ اور دوسرا
گواردر پورٹ کا انتظام چین کے سپرد کرنا۔ ان اقدامات سے امریکہ ناخوش ہے
اسکا نتیجہ یہ ہو گا کہ آئندہ پاک امریکہ تعلقات میں تلخی آئے گی اور
دوریاں پیدا ہوں گی۔ امریکہ کی طرف سے مالی امداد بند ہو جائیگی جو پاکستان
کی معیشت کے لیے لازمی سمجھی جاتی ہے ۔ پاکستان کی نئی حکومت کو ایک طرف
امریکہ سے اپنے تعلقات بہتر بنانا ہوں گے دوسری جانب اپنے لیے نئے معاونین
بھی تلاش کرنا ہوں گے جن کی امداد سے پاکستان اپنے پاﺅں پہ کھڑا ہو
سکے۔معاشی خود انحصاری کا رویہ اپنانا ہو گا اور کچکول سع قوم کو نجات
دلانا ہو گی۔ دوسری جانب ان معاہدوں سے ہمارے بعض اسلامی ممالک بھی ناخوش
ہیں ایک جانب وہ ایران کے ساتھ تجارت اور سفارتی تعلقات کی بہتری نہیں
چاہتے کیونکہ ا نکی تیل کی تجارت کو خطرہ ہے تو دوسری جانب گواردر کی
کامیابی کو وہ اپنے لیے معاشی خطرہ سمجھتے ہیں ۔ ان دونوں منصوبوں کو ناکام
کرنے کے لیے وہ بلوچستان میں شیعہ سنی کے مابین تصادم کرانا چاہتے ہیں اور
بلوچستان میں خانہ جنگی کی ابتدا ہو چکی ہے ۔ نئی حکومت کے لیے ےہ چیلنج ہے
کہ وہ حالات کو خراب ہونے سے بچائے اور خطے میں محبت اتحاد اور ےگانگت کی
فضا ءقائم کرے۔اسلامی ممالک کے درمیان موجود اختلافات کی خلیج کو ختم کرنے
میں اہم کردار ادا کرے تاکہ مشرق وسطی میں قیام امن یقینی بن سکے۔
سیاسی جماعتوں کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ پاکستان اس وقت بحرانوں میں
گھرا ہے اور عوام نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں ۔جو بھی جماعت اقتدار میں آئے
گی اسے ان مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ اب ےہ عذر قابل قبول نہیں ہو گا کہ ےہ
مسائل تو گزشتہ حکومتوں سے تحفے میں ملے ہیں اسلئے ہم تحائف کو سنبھال کر
ہوبہ ہواسی حالت میں نئی حکومت کے حوالے کر دیں گے۔ پاکستان کے عوام کوبھی
چاہیے کہ ان مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے انتخابی عمل می شریک ہوں ۔ پارٹیوں
کے انتخابی منشور کو ان مسائل کے تناظر میں دیکھیں ، پرکھیں اور فیصلہ کریں
کہ کس جماعت کے منشور میں ان مسائل کا حل موجود ہے ۔ کون سی جماعتیں ان
مسائل کے حل کے لیے واقعتا سنجیدہ ہیں پھر وہ اس کا جائزہ بھی لیں کہ کون
سی جماعت میں ان مسائل کے حل کی اہلیت موجود ہے ۔اگر عوام نے اپنے لیے صحیح
جماعت کا انتخاب کیا اورنئی معرض وجود میں آنے والی حکومت نے ان مسائل کا
سنجیدہ حل نکالا تو آئندہ پانچ برس مین پاکستان ایک اقتصادی قوت بن کرابھرے
گا۔اور دنیا میں پاکستانی قوم کو عزت اوروقار حاصل ہو گا۔ |