حامد کرزئی کی پھر ہرزہ سرائی

پاکستان نمک میں بھی خودکفیل ہے۔ کھیوڑہ میں دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان ہے جس کا معیار اور تاثیر کا جواب نہیں ہے۔ پاکستان کا نمک بیرون ملک بھی کھایا جاتا ہے لیکن اندرون پاکستان ”پاکستان کا نمک کھانے والوں میں افغان صدر حامد کرزئی بھی شامل ہیں جنہوں نے آج تک پاکستان کا نمک حلال نہیں کیا بلکہ بھارت کے ساتھ سٹرٹیجک معاہدہ کرکے آج تک افغان سرزمین پاکستان کےخلاف استعمال کرنے کے لئے بھارت کو کھل کھیلنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ افغانستان سے ہی بھارتی ”را“ پاکستان میں تخریب کاری کررہی ہے اور امریکی بھارتی سرپرستی میں افغانستان کو بیس کیمپ کے طور پر پاکستانی طالبان پاکستان میں پاکستانی عوام، مساجد، مدارس اور بسوں پر حملے کررہے ہیں۔ حتیٰ کہ افغان فورسز کے پاکستانی چوکیوں پر حملے بھی پاکستان کے صبر و تحمل کا امتحان بنتے جا رہے ہیں حالانکہ افغانستان ایک بڑی ابتلا سے ابھی نکلا نہیں ہے۔ ملک پر بدیسی افواج کا قبضہ ہے، ہرطرف دھماکے ہورہے ہیں، لاشیں گر رہی ہیں، قتل و غارت کا بازار گرم ہے اورکوئی نہیں جانتا کہ اگلے سال امریکی فوجوں کی واپسی وہاں امن کی نوید لائے گی یا اس سے بھی زیادہ تباہی و بربادی کے مناظر دیکھنے کو ملیں گے،ایسے میں افغان صدر حامد کرزئی نے ڈیورنڈ لائن کے طے شدہ معاملے کو ایک بارپھر چھیڑ کر پاکستان سے کشیدگی بڑھانے اور اپنی زخم خوردہ قوم کو نئے مسائل میں الجھانے کی افسوس ناک کوشش کی ہے۔ پاک افغان سرحد پر پاکستانی علاقے میں ایک فوجی چوکی پر افغان فورسز کے حملے اور پاک فوج کی منہ توڑ جوابی کارروائی پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا ہے کہ ڈیورنڈلائن افغانستان پر مسلط کی گئی تھی۔ اسے کسی افغان حکومت نے کبھی تسلیم کیا ہے نہ کرے گی۔ اس سے پہلے وہ افغان طالبان کو یہ اشتعال انگیز مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں غیرملکی فوجوں سے لڑنے کی بجائے پاکستان پر حملے کریں، حالانکہ یہ وہی کرزئی صاحب ہیں جنہوں نے زیادہ عرصہ نہیں گزرا، پاکستان سے طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کو کہا تھا اور پاکستان اس کے لئے تیار بھی ہوگیا تھا۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ خطے میں قیام امن کے حوالے سے کابل کی حکومت کے عزائم کیا ہیں اور پاکستان کا کردار کیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے افغان صدر کے معقولیت سے عاری بیان کا فوری جواب دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈلائن ماضی کا ایک حل شدہ معاملہ ہے۔ اسے زیربحث لانا پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوسرے اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہے۔ پاکستان اپنے قیام کے پہلے روز سے ہی افغانستان کے ساتھ امن دوستی اور تعاون پر مبنی بامقصد تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے لئے سٹرٹیجک اہمیت کے حامل ہیں اور دونوں کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ تاریخ، مذہب اور ثقافت کے گہرے رشتوں میں منسلک ہیں۔ سوویت یونین ہو یاکوئی اور بیرونی طاقت، افغانستان پر جب بھی کہیں سے یلغار ہوئی افغان مسلمان پاکستان کو اپنا گھر سمجھ کر پناہ کے لئے یہاں آئے۔ خود صدر حامد کرزئی نے غریب الوطنی کا لمبا عرصہ کوئٹہ میں گزارا اور اہل پاکستان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوئے۔ اس وقت بھی پاکستان اپنی معیشت پر چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا بوجھ خندہ پیشانی سے برداشت کررہا ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کی جنگ کے دوران پاکستان نے کابل حکومت سے مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے نتیجے میں دہشت گردوں نے پاکستان کا رخ کرلیااور جو جنگ ہماری نہیں تھی وہ ہماری بن گئی۔ پاکستان کے 40ہزار سے زائد بے گناہ شہری اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار اس جنگ کا ایندھن بن گئے۔ تقریباً 80ارب ڈالر کا مالی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ ان قربانیوںکا تقاضا یہ تھا کہ افغان حکومت پاکستان کی ممنون احسان ہوتی اور اس کے ساتھ مل کر غیرملکی فوجوں کی واپسی کے بعد افغان میں امن و استحکام کےلئے منصوبہ بندی کرتی لیکن حیرت ہے کہ افغان صدر ڈیورنڈلائن کا گڑا مردہ اکھاڑ رہے ہیں۔ غیرملکی فوجیں حالات کو تقریباً جوں کا توں چھوڑ کر واپس جانے کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔ ان حالات میں پاکستان جیسے ہمسایہ ملک سے تعلقات بنانے کی بجائے بگاڑنے کی کوشش سے بہت سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کابل حکومت پاکستان کے ساتھ نیاتنازعہ چھیڑکر امریکہ اور نیٹو کی فوجوں کی واپسی رکوانا چاہتی ہے؟ کیا اسے معلوم نہیں کہ اس سے افغانستان ایک نئی کشمکش میں گرفتار ہوجائے گا جس سے افغان قوم کی غلامی کا عرصہ تو دراز ہوگا ہی، اس پورے خطے کا امن بھی متاثر ہوگا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان غیرمتعلقہ معاملات پر توجہ دینے کی بجائے افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ کابل حکومت کو بھی اس کا مثبت جواب دینا چاہئے۔

Javed Ali Bhatti
About the Author: Javed Ali Bhatti Read More Articles by Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 94901 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.