نریندر مودی:اپنی گلی کا شیر

کرناٹک کا ایک اور ناٹک اختتام پذیر ہوا۔ اسی کے ساتھ جنوبی ہندوستان کی واحد زعفرانی حکومت کاپردہ گرگیا اور کانگریس کا ہاتھ جگناتھ بن کر پھر ایک بارنمودار ہوگیا۔پانچ سال قبل جب بھارتیہ جنتا پارٹی کو پہلی مرتبہ کرناٹک میں اقتدار حاصل ہوا تھا اس وقت سے وقفہ وقفہ کے ساتھ بی جے پی والےنت نئی مصیبتوں میں گرفتار ہوتے رہے۔ اب خدا خدا کرکے ان مصائب سے جان چھوٹی۔ اس لئے کہ جس اقتدار کو بچانے کیلئے سارے پاپڑ بیلے جاتے تھے وہی داغِ مفارقت دے گیالیکن جانے سے قبل وہ پارٹی کو سکرات کے عالم میں مبتلا کرگیا۔خیر اب چونکہ آخری رسومات ادا ہو چکی ہیں اس لئے چند دنوں میں یہ لوگ رو دھو کراسے بھول جائیں گے۔

کرناٹک کے نتائج کا سطحی مطالعہ بہت ساری غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے اس لئے ذرا گہرائی کے ساتھ اس کاجائزہ لیا جانا ضروری ہے ۔ سب سے بڑی خوش فہمی تو مسلمانوں کو ہو سکتی ہے اس لئے کہ اس بار وہاں موجود مسلم تنظیموں کے وفاق مسلم محاذ نے شرحِ صدر کے ساتھ ۲۰۰ نشستوں میں کانگریس کی حمایت کا اعلان کیا تھا اس لئےیہ لوگ ایسا سوچ سکتے ہیں کانگریس کی کامیابی کا سہرہ انہیں کے سر بندھتا ہے لیکن اگر ووٹوں کے تناسب پر نظر ڈالی جائے تو یہ غلط فہمی دور ہو جاتی ہے ۔ اس بار بی جے پی نے اپنے ۱۴ فیصدووٹ گنوائے اور ان کی تقسیم کے جی پی ، کانگریس اور جنتا دل میں بالترتیب ۱۱، ۲ اور ا فیصد ہوئی ہے ۔ کرناٹک میں اقتدار کی تبدیلی کا بنیادی سبب یہی تقسیم ہے اور یہ کون نہیں جانتا کہتقسیم شدہ۱۴ فیصد ووٹ مسلمانوں کے نہیں تھے ۔ اس لئے مسلمانوں کی جانب سےاس تبدیلی کا کریڈٹ لینا دل کو بہلانے کے ایک خیالِ خام ہے۔

کانگریس کو گزشتہ انتخاب میں بی جے پی سے ایک فیصد زیادہ یعنی ۳۵ فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس مرتبہ اس میں صرف دو فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ یہ اضافہ بھی مسلمانوں کے ووٹ نہیں ہیں جو جنتا دل (ایس) کے بٹوے سے نکل کر کانگریس جھولی میں جاگرے بلکہ جنتا دل (ایس) کے ووٹوں کا تناسب بھی ایک فیصد زیادہ ہوا ہے۔ سب سے بڑا فائدہ یدورپاّ کی کے جی پی کا ہوا جس نے ۱۱ فیصد ووٹ حاصل کئے۔ اس کے باوجود اسے صرف ۶ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی جبکہ کانگریس ۴۲ فیصد اضافے کے ساتھ ۱۲۱ اور جنتا دل (ایس) ۱۲ فیصد اضافے کے ساتھ ۴۰ ارکانِ اسمبلی کو کامیاب کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔ ایک حسنِ اتفاق یہ بھی ہے کہ فی الحال جنتادل (ایس) اور بی جے پی کے ووٹوں کا تناسب یکساں یعنی ۲۰ فیصد ہے اور دونوں کے ارکانِ اسمبلی کی تعداد ۴۰ ہے ۔ عام طور سے ایسا نہیں ہوتا لیکن اس بار یہ ہوا ہے۔ آزاد امیدواروں کے ووٹ تناسب میں کوئی اضافہ نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود ان کی نںستیا ۱۲ فیصد بڑھ گئیں گویا انہیں ووٹ کی تقسیم کا بلا واسطہ فائدہ ہوا۔

بی جے پی اس بار تین حصوں میں تقسیم ہوئی اور یدورپاّ نے اس کا بیڑہ غرق کیا یہ بات درست ہے لیکن یہ انکشاف بھی دلچسپ ہے کہ کے جے پی کےامیدواروں نےصرف دو مقامات پر بی جے پی رکنِ اسمبلی کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی ۔ ایک حلقۂ انتخاب میں انہوں جنتادل کے رکن اسمبلی کو بھی ہرایا لیکن تین مقامات پر کانگریس کے رکن اسمبلی کو شکست سے دے کر وہ اسمبلی میں پہنچے ۔ اس طرح یدورپاّ نے کانگریس کابلا واسطہ فائدہ تو کیا لیکن بلواسطہ نقصان بھی کیا ۔بی جے پی کے اور باغی گروہ بی ایس آر سی کو ۴ مقامات پر کامیابی حاصل ہوئی لیکن اس نے بھی جہاں دو مقامات پر بی جے پی کو ہرایا وہیں دو مقامات پر کانگریس سے اسمبلی کی رکنیت چھین لی۔ اس گئی گزری حالت میں بھی بی جے پی سات نئے مقامات پر کامیابی حاصل کی اور چار مقامات پر انہوں نے کانگریس کے تو تین مقامات کو جنتادل کے ارکانِ اسمبلی کو ہرایا ۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں صرف ۳۳ا برسرِ اقتدار ارکان اسمبلی دوبارہ اسمبلی میں جاسکے ہیں بقیہ ۸۰یاتو گھر پر ہیں یا بی جے پی کے خلاف کسی اور جماعت کا پرچم تھامے ہوئے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کرناٹک میں ریڈی برادران اور یدورپاّ کی بدولت بی جے پی کوسب سے زیادہ بدعنوان ریاستی سرکار کا اعزاز حاصل ہوا لیکن عین انتخاب کے دوران مرکزی حکومت کے دووزراء بدعنوانی کے دلدل میں دھنسےیچلے گئےاور مرکز کی کانگریسی حکومت نے بھی اپنے آپ کو ملک کی تاریخ میں بدعنوان ترین حکومت ثابت کرنے کی اپنی کوشش جاری رکھی اس کے باوجود عوام نے کانگریس کو اکثریت سے نواز کر یہ ثابت کردیا بدعنوانی سے ان کو کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ ایسا لگتا ہے کرپشن ایک عام ہندوستانی کے رگ وپے خون بن کر دوڑنے لگا ہے ۔ وگرنہ ریڈی برادران کی جماعت کو ۴ اور یدورپاّ کو ۶،جنتادل ایس اور بی جے پی کو ۴۰،۴۰ نیز کانگریس کو ۱۲۱ نشستیں حاصل نہیں ہوتیں اس لئے کہ بدعنوانی کے حمام میں سب کے سب یکساں طور پر عریاں ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران کانگریس نے بدعنوانی کے مسئلہ کو ضرور اچھالا لیکن نتائج پر ان کا تبصرہ دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے سیاسی رہنماؤں کو بھی اس بابت کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ۔ سونیا گاندھی نے نتائج پر خوشی کا اظہار کرنے کے بعد ایسا بڑا جھوٹ بولا جس پر ہندوستانی سیاست کی ابجد سے واقف طالب علم بھی یقین نہیں کرسکتا۔ انہوں نے فرمایا وزیر اعلیٰ کے نام کا فیصلہ منتخب ارکانِ اسمبلی کریں گے ۔ یہ دراصل ہاتھی کے وہ دانت ہیں جو صرف دکھانے کیلئے ہوتے ہیں ورنہ ہوتا تو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہائی کمانڈ کی جانب سے ہوتا ہے ارکان اسمبلی کا کام تو صرف اس پر صاد کہنا ہوتاہے اور جو ایسا کرنے سے گریز کرتا اول تو وہ وزارت سے محروم ہو جاتا ہے اور آخر میں یہ ہوتا ہے کہ آگے چل اس غدارِ جماعت کو انتخاب لڑنے کے لائق بھی نہیں سمجھا جاتا۔ اس لئے اس دور میں سیاسی جماعتیں خاندانی کاروبار بن چکی ہیں دینِ سیاست کے اندروفاداری بقدرِ استواری عین ایماں ہے ۔ اس کے سب سے بڑے گواہ منموہن سنگھ نے راہل گاندھی کی قیادت اور محنت کو خوب سراہا ۔ وزیراعلیٰ کی کرسی کے دعویدار سیدھا رمیاّ نے بھی راہل گاندھی کو دل کھول کر خراجِ عقیدت کو پیش کرکے ثابت کردیا کہ لیڈر کا انتخاب کون کرتا ہے؟

بھارتیہ جنتا پارٹیاس موقع پر عجیب و غریب تذبذب کا شکار ہوگئی۔ ان کے ترجمان پرکاش جاوڈیکر نے کہا بی جے پی کو یدورپاّ نے نہیں بلکہ عوام نے کانگریس کو ووٹ دے کرہرایا جبکہ یہ سفید جھوٹ ہے بی جے پی کا رسوائی کا سبب کانگریس کے ملنے والے ووٹ سے زیادہ بی جے پی کے ووٹ میں کمی ہے اور اس کیلئے یدورپا ذمہ دار ہے ۔جاوڈیکر کے بیان کی تردید آرایس ایس کے سابق ترجمان ویدیا نے کردی۔ان کے مطابق یدورپاّ کا نکل جانا بی جے پی کے شکست کی سب سے اہم وجہ بنا۔ اس بابت سابق وزیر اعلیٰ جگدیش شطار نے نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ عوام سے معافی طلب کی اور کہا جن لوگوں کے سبب پارٹی بدنام ہوئی وہ اب باہر جا چکے ہیں اس لئے رائے دہندگان پھر ایک بار بی جے پی کو خدمت کا موقع دیں۔ بیچارے شطار بھول گئے کہ جانے والے نکالے نہیں گئے بلکہ انتخاب سے قبل ازخود گئے اس کے باوجود عوام نے باغیوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اس لئے یہ معافی تلافی بے معنی ہے۔

کرناٹک کے انتخاب پرسب سے دلچسپ تبصرہ روی شنکر پرشاد نے کیا۔ انہوں نے کہا ؁۱۹۸۹ کے بعد سے جو بھی کرناٹک میں ناکام ہوا ہے اسے مرکز میں کامیابی ملی ہے اس لئے آئندہ سال ہم پارلیمانی انتخاب جیتیں گے ۔اگر اس منطق کو تسلیم کرلیا جائے تو بی جے پی نریندر مودی کے بجائے یدورپاّ کو وزیراعظم کا امیدوار بنا دینا چاہئے اس لئے کہ روی شنکر کے مطابق کرناٹک میں بی جے پی کو ہراکرمرکز میں اس کی کامیابی یقینی بنانے کا کارنامہ یدورپاّ نے کیا ہے ۔راجیو پرتاپ روڈی نے حیرت و رنج کا اظہار کرنے کے بعد کہا مودی کے پاس کوئی جادوئی چھڑی تو ہے نہیں اور پھر اس کا تعلق کرناٹک سے بھی نہیں ہے ۔ویسےتو ہندوستان کےتمام رہنماؤں کا تعلق کسی نہ کسی ریاست سے ہے تو کیا وہ ملک گیر سطح پر رائے دہندگان کو متوجہ نہیں کرسکیں گے ۔ اس صورت میں بی جے پی کے پاس صرف اڈوانی جی کا متبادل رہ جاتا جن کا تعلق ہندوستان کی کسی ریاست سے نہیں بلکہ پاکستان سے ہے۔

کرناٹک کا انتخاب بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ یا بی جے پی کرناٹک کے نگرانِ کار وینکیا نائیڈو کے بجائے نریندر مودی کے کیلئے آزمائش بن کر آیا ۔ ہوا یہ کہ کانگریس والوں نے مودی کی دھنائی شروع کردی اور بی جے پی والے بلاوجہ مودی کی مدافعت میں لگ گئے ۔ دگوجئے نے کہہ دیا کہ کرناٹک میں یہ ثابت ہو گیا کہ گجرات کے باہر مودی کو کوئی نہیں جانتا حالانکہ انہیں کہنا چاہئے تھا کہ نریندر مودی کو گجرات کے باہر لوگ جانتے تو ہیں لیکن اس کی مانتے نہیں ہیں۔۔نریندر مودی کی اس پریشانی کیلئے وزارتِ عظمیٰ کا خواب ذمہ دار ہے ورنہ کرناٹک سے متصل گوا کے بی جے پی وزیراعلیٰ نے بھی اپنی کھڑکی سے پرے جھانکنے کی کوشش نہیں کی۔مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ وزارئے اعلیٰ بھی اپنے اپنے گھر میں بیٹھے رہے لیکن نریندر مودی نے کبھی اتراکھنڈ میں جاکر اپنی پارٹی کو ہرایا تو کبھی ہماچل پردیش میں جاکر اپنی لٹیا ڈبو آئے۔ اب اس کا اگلا نشانہ بہار ہے جہاں اس نےوزیراعلیٰ نتیش کمار اور بی جے پی کی مقامی شاخ کے درمیان قائم ۱۷ سال پرانی دوستی میں دراڑ ڈال دی ۔

بی جے پی کے اندر قحط الرّجال کا یہ عالم ہے کہ گجرات سے باہرناکامیوں کے خراب ریکارڈ کے باوجودکرناٹک شاخ نے نریندر مودی کو سات دن کیلئے ریاست میں آکر پندرہ عوامی جلسوں سے خطاب کرنے کی دعوت دی ۔اس لئے کہ ؁۲۰۰۸ کے اسمبلی انتخابات کے دوران مودی نے پانچ دنوں کا اور؁۲۰۰۹کے پارلیمانی انتخاب میں تین دنوں کا دورہ کیا تھا ۔اس بار پریشان حال بی جے پی کو مودی کی ضرورت سب سے زیادہ تھی لیکن مودی ڈر گیا اور اس نے کہا کہ وہ صرف ایک دن کیلئے بنگلورو میں آکر ایک میٹنگ سے خطاب کرے گا ۔بنگلورو دراصل بی جے پی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اس لئے مودی کا خیال تھا کہ یہاں کامیابی یقینی ہے اور اس کا کریڈٹ بٹور لیا جائے لیکن مقامی رہنماؤں نے اسے تین میٹنگ کیلئے راضی کرلیااور بنگلورو کے علاوہ منگلور اور بیلگام جانے کا فیصلہ کیا اس لئے کیا گیاکہ ان علاقوں میں بھی بی جے پی کافی مضبوط سمجھی جاتی تھی لیکن وائے افسوس کہ اس بار ان علاقوں کی ۳۷ حلقۂ انتخاب میں بی جے پی کو کراری شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔

نریندرمودی کی پارلیمانی بورڈ میں شمولیت کو ذرائع ابلاغ نے خوب اچھالا تھا لیکن کرناٹک انتخاب کے بعد میڈیا سے روپوش مودی نے انتخابی نتائج کا جائزہ لینے والی میٹنگ سے بھی راہِ فرار اختیار کیا ۔ اس سے قبل جب کرناٹک کے امیدواروں کا تعین کرنے کیلئے پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ ہوئی تھی اس وقت بھی مودی نے شرکت نہیں کی تھی اور اس کی عدم شرکت کا جواز اس طرح پیش کیا گیا کہ کرناٹک کی سیاست سے چونکہ مودی کا کوئی تعلق نہیں اس لئے وہ کیوں جائے؟ اگر یہ بات ہے کہ مودی صرف گجرات کے مسائل میں دلچسپی ہے تو اس کو وزیراعظم بنانے کا خواب دیکھنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اپنی گلی میں تو کتا بھی شیر ہوتا ہے جبکہ لیکن ہندوستان کا جنگل راج چلانے کیلئےشیر کی ضرورت ہوتی ہے اب چاہے وہ کتنا ہی خونخوار کیوں نہ ہو۔

نریندر مودی کو اس دوران یکے بعد دیگرے کئی جھٹکے لگے ۔گجرات کی عزت و فخر کے اس جعلی دعویدار کو سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ وہ گیر جنگل کے شیروں کو مدھیہ پردیش بھیج دے ۔ سوراشٹر کے لوگوں نے اسے اپنی بے عزتی قرار دیا اور کچھ منچلوں نے اس کے خلاف خودسوزی کااعلان تک کردیا۔اس کے بعد بہار کے شیر نتیش کمار نے دہلی میں آکر دھمکی دی کہ اگر مودی کو وزیر اعظم کا امیدوار بنایا جاتا ہے تو وہ متحدہ قومی محاذ سے الگ ہو جائیں گے ۔اور آخر میں ریاستی خفیہ ایجنسی کی رپورٹ اور پولس کنٹرول روم کے گجرات فساد کے دوران کئے جانے والے پیغامات کے شواہد ذرائع ابلاغ میں آگئے ۔اس بنیاد پر احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری نے مودی کو بے قصور ٹھہرائے جانے والے عدالتِ عالیہ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست داخل کردی ۔ نریندر مودی نے اس بدنامی کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر مایا کندنانی اور بابو بجرنگی کی عمر قید کو سزائے موت میں بدلنے کی ایس آئی ٹی کی سفارش پر صاد کہہ دیا ۔ جس نے سنگھ پریوار کے چیتوں کو مودی کے پیچھے لگا دیا ۔مودی کا یہ اقدام اڈوانی کے ذریعہ قائد اعظم جناح کی تعریف کرنے جیسا ہے کہ جس تھالی میں کھاؤ اسی میں سوراخ کرو۔

کرناٹک انتخاب کا سب سے گھناؤنا پہلو مہم کے دوران ہونے والا بم دھماکہ تھا ۔ سب سے پہلے ذرائع ابلاغ میں یہ خبر آئی چونکہ انتخاب کے باعث بی جے پی دفتر میں چہل پہل تھی اس لئے یہ دھماکہ کیا گیا یہ نہایت گمراہ کن اندیشہ تھا ۔جس دن یہ دھماکہ ہوا کاغذات ِنامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کو ٹکٹ ملنا تھا مل چکا اب اسے پارٹی دفتر کے بجائے حلقۂ انتخاب میں کام کرنا ہے اور جسے نہیں ملا ہے اسے کسی اور دفتر کے دروازے پر دستک دینی ہے ۔ اس لئے اس کا نشانہ بی جے پی کےدفتر میں آنے والے امیدوار تھے یہ سراسربے بنیاد قیاس آرائی تھی لیکن اس میں شک نہیں کے یہ سیاسی دھماکہ تھا ۔ اس پر سب سے پہلا ردعمل ڈاکٹر شکیل کی جانب سے سامنے آیا کہ دھماکے کا فائدہ کا فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ کانگریس کے مرکزی ترجمان نے اس سے اپنے آپ کو الگ کیا اور کہا جانچ ہوگی ۔

بنگلورو میں بیٹھے کانگریسی رہنما سیدھا رمیاّ اس کا سیدھا الزام سنگھ پریوار پر لگایا کہ سیاسی مقاصد کیلئے دھماکہ ہے ۔ میسور کے کانگریسی رکنِ پارلیمان وشوناتھ نے کہا کہ اس طرح کے دھماکے کرنا آریس ایس کی تاریخ ہے اور اس سے پہلے وہ لوگ مالیگاؤں میں دھماکے کر چکے ہیں ۔ جنتا دل ایس کے رہنما کمارسوامی اور سی پی ایم نے دھماکے کا مقصد بی جے پی کے ذریعہ ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش قراردیا۔ بی جے پی کے مرکزی رہنما اور دانشور بلبیر پونج نے کہا کاش یہ ایک حادثہ ہو ۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ یہ دہشت گردی نہ ہواس میں کوئی سیاسی کارکن ملوث نہ ہو۔ بلبیر پونج کو کن سیاسی کارکنان سے ہمدردی ہے جن کیلئے وہ دعا کرتے ہیں یہ سب جانتے ہیں ۔ اس بیان سے بھی شک کی سوئی گھوم کے زعفرانی دہشت گردوں کی جانب مڑ جاتی ہے۔

سیاسی رہنماؤں کے اس اتفاق رائے کے باوجود وزارتِ داخلہ نے کہہ دیا کہ ان دھماکوں پر انڈین مجاہدین کی مہر ثبت ہے حالانکہ ہندو دہشت گردوں نے سائیکل اور اسکوٹر کا استعمال مالیگاؤں سے لے کر موڈاسا تک کئی شہروں میں بارہا کیاگوا میں ان کے کارکن اپنے ہی اسکوٹر کے دھماکے کا شکار بھی ہوئے ۔ اس سے قبل ؁۲۰۱۱ میں گوہاٹی کے اندر بی جے پی دفتر کے باہر جو دھماکہ ہوا تھا اس میں مسلمانوں کو نہیں بلکہ اُلفاکے پریش بروا گروہ کو ملوث پایا گیا تھا۔اس کے باوجود خفیہ اداروں کو ان دھماکوں کے پیچھے صرف اور صرف مسلمان نظر آئے۔اسکوٹر کی تلاش میں جو لوگ تمل ناڈو پہنچے تو پتہ چلا اس کا بیچنے والا ،خریدنے والا اور دلال سب کے سب ہندو ہیں اس کے باوجود ایک مدد گار مسلمان تلاش کر لیا گیا۔ ایک شخص جسے کوئمبتور دھماکے میں عدالت نے بے گناہ پاکررہا کردیا ہے اسے گرفتار کرلیا گیا۔ ایک اور گروہ کیرالا پہنچ گیا اس کو وہاں بھی صرف مسلمانوں پر شک ہوا اور ان کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ این آئی اے والے دہلی سے دربھنگہ اور سمستی پورجاپہنچے اور وہاں سے مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کرلیا ۔ ان خفیہ اداروں کے درمیان تمامتر اختلاف کے باوجودمسلمانوں کوہدف بنانے پر مکمل اتفاق تھا ۔ آخر کوئی ان سے پوچھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ایک دھماکے ملزم مختلف ریاستوں میں موجود ہوں اوران کا ٓپس میں کوئی تعلق نہ ہو ؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے اسی لئے مختلف تفتیشی ادارے اوٹ پٹانگ کارروائی کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کی زندگی سے کھلواڑ کرکے اپنی اپنا قد بڑھا رہے ہیں ۔ انسانی نقطۂ نظر سے مودی اور کانگریس کے آنے جانے سے زیادہ اہم یہ مسئلہ ہے ۔ انتخابی تماشہ اس ظلم و زیادتی کوفروغ تو دیتا ہے لیکن اس پر قدغن لگانے میں بری طرح ناکام ہے اس لئے کہ بقول شاعر ؎
سفینۂ عہد نو پہ چھایا ہوا ہے بہروپیوں کا لشکر
یہاں سبھی ناخدا نما ہیں مگر کوئی ناخدا نہیں ہے
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1452802 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.