درگاہ خواجہ غریب نواز:چندتوجہ طلب اُمور

ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی
اسی برس فروری کی ۲۱ویں تاریخ تھی۔سنیچر کا دن تھا ۔اسی دن عرس اعلیٰ حضرت تھا ۔دنیا جانتی ہے ،یہ دن خواجہ تاشان سنیت ورضویت کے لئے عید کا سماں لے کرآتا ہے ۔بریلی میں علما،عوام کا سیلاب امڈ آتا ہے ۔لوگ تو خوشیوں میں غرق تھے مگر میں غموں سے نڈھال تھا ،رنج والم سے چور تھا ۔چوکنے کی ضرورت نہیں ۔اسی دن ماں جی کا وصال ہوگیا۔یہ صدمہ ایسا جان لیواتھا کہ جس سے میری نس نس مضمحل ہوکر رہ گئی ۔یوں تو ہرماں اپنی اولاد پر جان چھڑکتی ہے مگر میری ماں جی کا معاملہ کچھ اور تھا ۔عنداللہ ان کا درجہ کیا تھا ،یہ تو خداہی جانے ۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ان کی دعائیں سیدھے باب اجابت تک پہونچیں ،جو زندگی بھر وہ چاہتی ،مانگتی رہیں قبولیت نے بڑھ کر ان کو ،ان کی اولادکو کامرانی کی دہلیزتک پہونچادیا ۔یہ قصہ پھر کبھی۔

آج ۲۸مئی ہے ،درمیانہ قد،اونچے اخلاق،روشن چہرہ ،سیاہ داڑھی بالوں والے دھیمہ،میٹھا،شرمیلا لب ولہجہ والے مخلص فاضل نوجوان مولانا مظہر حسین علیمی کا ابھی ابھی فون آیا ،حکم فرمایا کہ حضور غریب نواز پر کو ئی مضمون لکھوں ۔یہ مولانا علیمی کا اخلاص تھا یا غریب نوازکا تصرف ،میراوجدان کہتا ہے کہ حضور غریب نواز کا تصرف ایک سازتھا اور مولانا علیمی کا حکم مضراب،خیر ذہن بن گیا ،مضمون حاضر ہے ۔ماں جی کے وصال کے بعد یہ میری پہلی تحریرہے جو سپردقرطاس ہوئی ہے ۔ وہ بھی اس نیت سے کہ حضور غریب نواز کے وسیلے اور قارئین کی دعائوں کے طفیل اللہ سبحانہ وتعالی ماں جی کی مغفرت فرمائے ،درجات بلند ہوں ، آمین بجاہ سیدالمرسلین صلوات اللہ علیہم اجمعین۔

وہ گھر سورہاتھا ،نصیب جاگ رہا تھا ،وہ سرکار جن کے ہاتھوں میں کن کی کنجیاں ہیں ،تشریف لائے ،روئے زیبا کی زیارت کرائی ،ہند جانے کی بشارت سنائی ،یہ تو ایک خواب تھا ،نفسیات کے ماہرین خوابوں کو بے حقیقت سمجھتے ہیں ۔اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو سمجھا کریں مگر خوابوں کی حقیقت حق ہے ،سپنوں کی اصلیت اٹل ہے ،اب جب کہ معین الملۃ والدین عطائے رسول کی شکل میں خواب کی حقیقی تعبیر بن کر ہندوستان تشریف لائے اور ایک نئے ہندوستان کی تعمیروتشکیل شروع کردی ،بعد میں یہی نیاہندوستان اسلامی ہندکہلایا ۔کیااب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ماہرین نفسیات اس کھلی حقیقت پر ایمان لے آئیں۔

وہ محی الدین تھا ۔جس نے بغدادمیں چٹائی بچھائی ۔عیسائیت کا مناظرہ قبول کیااور شجر اسلام کو مرجھانے سے بچالیا۔یہ معین الدین تھا جس نے اجمیر کے جنگل اور پہاڑ وں کے دامن میں اپنی کٹیا بنائی ۔پھر چشم فلک نے دیکھاکہ اس نے جنگل کو منگل بنادیااور اس نے شجرِاسلام کی سایہ دارشاخوںکوپورے برصغیر میں پھیلادیا ۔اچھاذراغورکریں کہ جب وہ آیا ہوگا ہم راہ کیا لایا ہوگا ؟دولت واقتدارتو ہرگزنہیں کہ وہ کب کے اسے پائے حقارت سے ٹھکرادیا تھا ۔لائولشکر بھی نہیں ،جرنیل وسالار بھی نہیں ،تیروتلوار بھی نہیں ،جنگ جُوہاتھی گھوڑے بھی نہیں ،خدم وحشم بھی نہیں ،حفاظتی دستہ بھی نہیں تھا ،ایساکچھ بھی تونہیں تھا جس سے شان وشوکت یا کروفر نمایا ں ہو ۔وہ تنہا تھا ،اکیلی جان تھی ،غریب الوطن تھا ،بے سروسامان تھا ،زبان ،تہذیب ،مذہب،معاشرت سب کچھ الگ تھا ۔کوئی تو اپنا نہ تھا ۔نہ کوئی مونس ،نہ غمخوار،نہ حال آشنا ،نہ خیریت پوچھنے والا،ہاں اگر کچھ تھا تودوچار فقرا،دوچارلباس،کشکول فقیری، دوچارگدڑیاں، لوٹا ،مصلیٰ ، تسبیح،مصحف کے اوراق،اورداواذکار کی کتابیںاور عصائیں،شاید یہی کل اثاثہ رہاہوگااوربس۔

حضور غریب نوازکی آمد کا یہ ایک رُخ تھا ۔پھر اب ایک دوسرے رُخ سے دیکھیں ۔جو شخص اتنا قلیل اثاثہ لے کر یہاں آیا ہوگا ،تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ یہیں بنایا ہوگا ،حویلی ،زروجواہر ،دولت وحکومت،اقتدار،قدیم ہند،جدیدہند،اسلامی ہند،برطانوی ہند،آزاد ہند کی تاریخ نئی ہو یا پرانی ،کیاکوئی یہ ریکارڈ دکھا سکتا ہے کہ غریب نوازنے یہاں سے ایک پائی بھی لی ہو ۔ہرگزنہیں،بلکہ تاریخ کے صفحات شاہد ہیں ،وہ لینے نہیں ،دینے آیا تھا۔جو اب تک دے ہی رہاہے ،ارے لینے تو انگریزآیا تھا،جو خوب ٹھاٹ سے لے گیا ۔یہ غریب نوازہیں جو لیتا نہیں ،دیتا ہے ۔ یہاں نہ ذات کی نہ زبان کی ،نہ جغرافیہ کی قیدہے نہ شرط۔جوآتا ہے ،ہاتھ پھیلاتا ہوا،دامن پسارتا ہواآتاہے ،من بھر کر لیتا ہے ،جی کھول کر لیتا ہے ۔ہندومسلم ،سکھ عیسائی ، مکمل ہو یا غیر مکمل،جوبھی آیا منہ مانگی پایا۔کہیے !کیسا داتا،دیالو،لجپال ہے وہ ،جودیتے نہیں تھکتا۔ذراسوچئے!مقامی،آفاقی افراد کی آمدورفت سے حکومت ہندکے شعبہ سیاحت کو کتنی انکم ہوتی ہے ؟

غریب نوازہندوستان کیا تشریف لائے ،اسلام آیا ،ایمان کی بادبہاری۔چلی،محبت واخوت، صداقت ودیانت،عدل وانصاف،مساوات وروادای کا نظام برپاہوا۔نہ تیراٹھا نہ تلواراٹھی، نہ تو بت پرستی کی مذمت کی ، نہ تو بتوں اور بت خانوں کو چھوانہ چھیڑا۔یہ تومحض ان کی نگاہ کیمیاگر کی کشش تھی ۔تشول برداروں کا جتھا کا جتھا آیا ،جب نظر اٹھی ، سب اس نظر پرتاثیر کا اسیر ہوکر رہ گئے ۔ وہ ہندوستان جہاںبت پرستی عام تھی وہاں توحید پرستی عام سے عام ترہوگئی ۔پھر ایک دن وہ آیا ، غریب نوازہندوستان کا طغرائے افتخارقرارپائے ۔اب حکمراں کوئی بھی ہو ،ان کی چوکھٹ پر جبیں سائی کرتا دکھائی دیا۔یہ نہ صرف ہندوستان تک محدودتھا ،دنیاکے تاجوروں کا تانتابندھ گیا جو اس تاجدارہندکی دیوڑھی جان ودل کا نذرانہ لئے حاضرآیا ۔حکومت ہند اس سے ناواقف تونہیں،ہندوستان میں مذہبی مقامات اور مذہبی تہواروں کی کمی تو نہیں ،مگر مختلف قوموں کا اجتماع امرا،رئوسا،وزراوحکمراں کی جو بھیڑ یہاں اکٹھی ہوتی ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتی ، کیا حکومت ہند اس سے غافل ہے ؟نہیں ، روحانیت کی بات ابھی رہنے دیں،مادی آمدنی کا یہ سیال سرچشمہ مدتوں سے بہتا چلاآرہاہے ۔سیراب یا تو خدام ہورہے ہیں یاپھر حکومت کا شعبۂ سیاحت ،مگر غریب نواز کے ماننے والوں کے حصے میں کیا؟وہی غربت،وہی جہالت،معاش اور روزگارکی تنگی،زمین ومکان کی تنگ دامانی،قوم مسلم کی بدحالی ۔زبوں حالی سے یہ قوم بھی آگاہ ہے حکومت کو بھی خوب خبر ہے۔اس حالت زارکا علاج نہ یہ قوم سوچتی ہے نہ حکومت ہی کوئی اقدام کرتی ہے۔

سولہویں سترہویں صدی عیسوی جو یوروپ وامریکہ کی ترقی ، عروج کی صدی ہے ،صنعتی انقلاب کی صدی ہے ۔اس وقت یہاں مغلوں کی حکومت تھی ۔مغرب کے حکمراں جب چاندوسورچ پر کمندیں ڈال رہے تھے تو ہندکے مسلم حکمراںبڑے بڑے قلعے اور خوشنمامحل بنوارہے تھے۔تعلیم ،معیشت، روزگار،قومی استحکام،ملی استقلال، مستقبل کی پیش بینی سے انہیں خاص دلچسپی نہیں تھی۔برطانوی لہرنے رہی سہی کسر پوری کردی۔خانقاہی ،درگاہی ،درس گاہی نظام کو تہہ وبالا کیا ۔ مسلم سیاست دانوںاور زمین داروں کی اینٹ سے اینٹ بجاکر چھوڑ دی ، مسلمانوں کی حکومت تو ہاتھ سے گئی ہی مسلم قوم کی قوم کی بساط ہی الٹ کررکھ دی ۔وہ قوت رہی نہ شوکت،وہ عزت رہی نہ غیرت،اسلامیان ہند کا پورانظام حیات تبدیل ہوکر رہ گیا ۔
مسلم ہند،برطانوی ہندکے بعد اب آزاد ہند کا دور آیا ،یہ آزاد ہند بھی نہ سود مندثابت ہوا۔نہ آئندہ خوش آئند ہونے کی امید۔اس ساٹھ سالہ آزاد ہند کا جائزہ لیجئے تو نتیجہ وہی مایوسی،کسمپرسی،عدم تحفظ کا احساس،اداس زندگی،تاریک مستقبل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔حکومتیں بدلتی رہیں،حکمراں بدلتے رہے مگر غریب نوازجو اقلیم ولایت کے حکمراں ہیں ان کی حکومت بدستور باقی ہے ۔ان آتی جاتی حکومتوں کے حکمرانوں کے نام ادارے ہیں،اسپتال ہیں ،یونیورسٹیاں ہیں،میموریل اکیڈمیاں ہیں۔مگرغریب نوازکے نام ایک یادگارادارہ نہیں ،جب کہ یہ حکمراں ہمیشہ قومی خزانوں سے دادعیش دیتے رہے ۔ غریب نوازکی درگاہ ہندوستان کو مدام مالامال کرتی رہی ۔درگاہ غریب نواز کی جو سالانہ انکم ہے حکومت کے اہل کار وہاں کے خدام اگر صرف ایک سال کی آمدنی دیانت داری سے مختص کردیںتو کئی ادارے کئی یونیورسٹیاں بن کر کھڑی ہوجائیں۔

دراصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے نہ کبھی خودکفیل بننے کی کوشش کی نہ خود حفاظتی کی تدبیرکی ،نہ وقت اور حالات کے مدّوزجر کو سمجھا۔مغلوں کے دور میں یاتوتن آسانی رہی یا عیش پرستی رہی۔ انگریزوں کے دور میں جو بے دخلی ہوئی ،بڑی باریک بینی سے زندگی کے تمام طاقت ورشعبوں سے ان کو نکال کر حاشیہ پر ڈال دیا گیا ۔اس قوم نے زندگی کے ریس Race میں حصہ لینے کی جرات نہ کی مگر نہ کامل حکمت عملی تھی نہ واضح نصب العین تھا ،نہ ماضی سے کوئی تیاری تھی ۔ نتیجہ میں ناکام رہے ۔آزادی کے بعد سے اب تک یہ قوم اپنی ساکھ بحال نہ کرسکی ۔آپس میں تنظیم واجتماع کا نہ ہونا ،قرآنی ایثار کا فقدان،اسلامی اصولوں سے انحراف،سیاست ،معیشت،تعلیم ،تجارت سے عدم توجہی ،اسلام اور شعائر اسلام سے محض جذباتی حدتک لگائو، قرآن واسلام ،دین وشریعت کی بالادستی کے لئے منظم کوشش نہ کرنا،اپنی قوم ،قوم کے بچوں ،جوانوں کے فیوچرFuture سے بے پروارہنا،وجوہات جو بھی ہوں،نہ حال اطمینان بخش ہے نہ مستقبل محفوظ ہونے کی تدبیر نظر آرہی ہے۔

سفیدپوش ،سیاست داں ہوں یا مذہب کے ٹھیکیدار،نہ خلوص ہے نہ احساسِ جواب دہی ،نہ خوف خداہے نہ پاسِ شرع،اگر ہوتا تو یہ قوم اتنی زبوں حال کیوں ہوتی؟مسلمانوں کے پاس آج بھی ذرائع ہیںاگر ان کا نظام استعمال درست ہوجائے تو قوم کے بہت سے مسائل یوں ہی حل ہوجائیں۔اول: زکوۃ فنڈ کا سختی سے نفاذپھر تنظیم وتقسیم کا واضح لائحہ عمل ۔دوم: اوقاف کی جائداد کی کڑی نگرانی اور اس کا درست استعمال،سوم:درگاہوں کی آمدنی کا استحصال نہ ہومگرقومی مفادات میں صرف کرنا،زکوۃ جو مالدار مسلمانوں پر فرض ہے اگر اس کی حکمت پر ذراسی توجہ دیجئے تو بجزغربت کے خاتمہ کے اور کیا ہے ؟مگر اول مالدار مسلم زکوۃ ادانہیں کرتے ،اگر کچھ لوگ کرتے ہیں تو نہ وہاں کوئی نظم ہے نہ سسٹم ،عجب افراتفری ہے ۔چنانچہ حقدار محروم اور ناحقداروں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔اوقاف کی جائداد جو دوسراسب سے بڑا Treasur (خزانہ)ہے تو یہاں وہی خرد برد عروج پر ہے ،کچھ تو حکومت کے اہل کار ہڑپ رہے ہیں اور کچھ اوقاف کے حریص عہدیدار ہضم کررہے ہیں۔نتیجہ میں مسلمانوں کے مسائل دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔اب ذرادرگاہوں کا جائزہ لیجئے ،دیتا ہر کوئی ہے ،پوچھتا ایک بھی نہیں ،احتساب سے آزاد خدام ،مجاورین ،زیب سجادہ،صاحب سجادہ مزے کررہے ہیں ۔ان تینوں شعبوں کو منظم ،متحرک،مخلص ، مفید، موثراور کارآمدبنانے کی ضرورت ہے۔

وہابیت کی اولیادشمنی اپنی جگہ،ہرچندکہ وہابیت اور اس کی ہم نواجماعتیں مزاروں کو برداشت نہیں کرتیں ۔تاہم ہندوستانی مسلمانوں کی غالب اکثریت مزار بیزار نہیں ،مزار پسند ہے ۔درگاہ شکن نہیں درگاہ نواز ہے ۔درگاہیں تو بافیض ہیں ہی خوش عقیدہ مسلمان نہ صرف نذرانے،تحائف،ہدایا،چڑھاوے چڑھاتے ہیں ،اپنے دیدہ ودل نچھاور کرتے ہیںمگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان چڑھائوں کا جائزاستعمال وہاں کتناہوتا ہے ؟اس کا ناجائزفائدہ اٹھاکر خدام ومجاورین اس عظیم ملی امانتی سرمایہ کو اپنے ہاتھوں کا کھلونا سمجھتے ہیں ۔ درگاہوں کے ان بے تاج بادشاہوں کو نہ ملت کی فکر ہے نہ ملی مسائل سے آگہی ۔لے دے کے ان کی نظرقوم کی تجوری پر ہوتی ہے ۔اس تجوری سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ اسے باپ کی بپوتی سمجھتے ہیں۔(الا ماشاء اللہ )اس امر میں وہ کتنے حق بجانب ہیں؟ارباب علم ودانش غورکریں۔

خلافت راشدہ میں عُمال دینی کارندے دینی کاموں میں مصروف ہواکرتے تھے ۔خود خلیفۃ المسلمین خلافت اسلامیہ کے کازمیں شب وروزمنہمک رہاکرتے تھے ۔بیت المال سے خلیفہ اتنا لیتا تھا جتنے کی ان کو ضرورت ہوتی تھی ۔عُمّال کو بھی اتنا ہی دیا جاتا تھا جس سے ان کے گھر کنبے کی کفالت ہوسکے ۔شواہد دیکھنے ہوں تو خلفائے راشدین کی سیرت پڑھئے ۔بیت المال کو ذاتی خزانہ کسی نے نہ سمجھا،نہ خلیفہ نے ،نہ عمال نے ،نہ عام مسلمانوں نے ،خلیفۃ المسلمین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا جبہ ذرالمباہوگیا تو بھرے مجمع میں ضعیفہ نے ٹوک دیا ۔وہاں احساس مسئولیت بھی تھا ،جذبہ احتساب بھی اور جذبہٗ خود احتسابی بھی ۔آج یہ الفاظ ،یہ واقعات اورروایات تاریخ ولغت کی زینت بن گئے ہیں ۔ضرورت ہے کہ تاریخ ولغت کے اوراق سے اتارکر ان الفاظ،واقعات،اور روایات کو اپنی عملی زندگی میں جاری و ساری کریں کیوں کہ یہ اوراق صرف سننے سنانے کے لئے نہیں عمل کرنے کے لئے ہیں۔

بعدمیں ایک دور وہ آیا جب قدیم صوفیا،مشائخ اپنی روحانی قوت ،دولتِ اس تغنا،ثروتِ توکل ،سرمایہ خوداعتمادی وخدا اعتمادی کی بنیاد پر دینی نظام کو برپاکئے رکھا ،نہ ان کی سرپرستی بیت المال کیا کرتا تھانہ امرائے مسلمین،وہ صوفیامشائخ تنہا ہواکرتے تھے،ان کی پشت پناہ رحمت ایزدی ہواکرتی تھی ۔جانوروں کی کھال ان کا بچھونا ،درختوں کی چھال ،پتے ان کا کھانا ،رواں پانی ان کا پینا ہوتا تھا۔اگر یہ بھی میسر نہ ہوتا تو مدتوں فاقہ کرتے،مگر عزم واستقلال اور فروغ اسلام میں ذرہ بھر فرق پڑنے نہیں دیتے تھے۔صالحین ،سالکین،کاملین کا یہ طبقہ جو مستغنی عن الدنیا،متوکل علی اللہ تھا ۔آبادی ، ویرانے،خرابات ،کھنڈرات، جنگلات ، پہاڑ، وادی، گھاٹی، جہاں کہیں ہوتا تھا خدااپنی حکمت بالغہ سے اس کو کھلاتا پلاتا تھا۔وہ طبقہ جن کو اس طبقہ کی جانشینی کی دعویداری ہے ، انہیں چاہئے کہ وہ اپنے اسلاف کے اُسوہ پر عمل کریں۔

پھر ایک دور ایسا آیا کہ بادشاہوں کی طرف سے جاگیریں وقف ہوتی تھیں۔علما،صوفیا،یکسوہوکر اپنی خانقاہوں ، تربیت گاہوںمیں تعلیم وتزکیہ کا فریضہ انجام دیتے تھے ۔بعض علماوصوفیاتو کبھی کبھی اپنے دائروں ،زاویوں ،تکیوں سے باہر نکلاکرتے تھے مگر بعض حضرات بالکل گوشہ نشینی ،عزلت گزینی کی زندگی بسرکیاکرتے تھے ۔ اب زمانہ وہ آگیا ہے کہ علمادرسگاہوں سے ،صوفیاتربیت گاہوں سے ، مشائخ خانقاہوں سے نکل کھڑے ہوئے ۔اب قوم ان کے پاس نہیں پہونچتی یہ خود قوم کے پاس تشریف لے جاتے ہیں ۔گھرگھر،دوکان دوکان طواف کیا کرتے ہیں کیوں کہ اب نہ ریاستیں رہیں نہ امارتیں ،نہ جاگیریں رہیں نہ زمین داری،لوگ دنیا دار مادہ پرست ہوگئے ، علماوصوفیا کو ان کی تربیت کے لئے اپنے حجروں سے نکلنا پڑا۔کچھ علماوصوفیا تو دنیاداروں سے بھی دنیاداری میں سبقت لے گئے ،جنہیں دیکھ کر ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا ؎
ع اٹھامیں مسجدومدرسہ وخانقاہ سے نمناک

یہ فرارہے ،جس زمانہ میں اکابرین واسلاف نے کام کیا،رہنے کے لئے جگی ،جھوپڑی،کٹیاتھی،بیٹھنے کے لئے بوریاچٹائی تھی ، کھانے کے لئے ستو ،چنے،سوکھاروکھاپھیکاکھانا تھا ۔پہننے اوڑھنے کے لئے موٹاکپڑاہواکرتا تھا ۔مگر ایسا نہیں کہ ان کے پاس آشائش زندگی ، وسائل حیات نہیں تھے ۔تھے ،مگر یہ ان کی کسر نفسی تھی ،انکساری ومنکسرالمزاجی تھی ،ظاہر سے زیادہ باطن کی آرائش ،قالب سے زیادہ قلب کی زیبائش پر ان کی توجہ مرکوزہواکرتی تھی ،مگر اب زمانہ بدل گیا ہے ۔زندگی کی قدریں بدل گئی ہیں ۔جھوپڑے کی بنگلہ وبلڈنگ ،چٹائی کی صوفہ،روٹی ستوکی مرغن غذائیں،موٹاجھوٹالباس کی جگہ چکن کڑھائی بھڑک دار چمکیلی پوشاکوں نے لے لی ہے ۔مالک ومزدور،خادم ومخدوم ، درویش ودولت مندکی پوشاک وخوراک اورطرزحیات میں اب وہ فرق نہیں رہا۔جو کبھی ہواکرتا تھا ۔خواجہ غریب نواز،خواجہ بندہ نواز،خواجہ قطب الدین ،خواجہ نظام الدین ،مخدوم صابر پاک ،مخدوم سمنا ،مخدوم پنڈوی ،مخدوم مہائمی اور دیگرخانقاہوں، بارگاہوں، درباروں آستانوں پر نظر اٹھائیے ،ہر جگہ خدام ومجاورین ،گدی نشین ،سجادہ نشین کی بمبئی کی زبان میں نکل پڑی ہے ۔جوقوم مقدس مقامات کو آنکھوں ، پلکوں میں بساتی ہے وہی قوم پستی ،ذلت ،جہالت، غربت ، کی مارسے نیم جاں ہے ۔اسلاف کی گدیوں پر جن اخلاف کی اجارہ داری ہے ۔ ان اخلاف کی کوئی مذہبی ذمے داری بھی ہے کہ نہیں ؟

Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731769 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More